کیا احادیث محدثین عظامؒ نے گھڑی ہیں؟
از قلم ساجد محمود انصاری
علم وتحقیق سے جان چھڑانے کا یہ بڑا آسان نسخہ ہے کہ آپ کسی علمی ذخیرہ کو یہ کہہ کر بالکلیہ رد کردیں کہ یہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ کوئی بھی علمی ذخیرہ محض اتنا کہنے سے غلط ثابت نہیں ہوجاتا۔ مثلاً کوئی شخص کسی سائنسی نظریہ کو محض یہ کہہ کر رد نہیں کرسکتا کہ یہ جھوٹ ہے، بلکہ اسے عقلی و سائنسی دلائل سے اسے غلط ثابت کرنا ہوگا۔ یہ تو ہوسکتا ہے ایسا کہنے والے کے معتقدین اس کے اس دعویٰ کو سچ مان لیں مگر غیر جانبداری سے سوچنے سمجھنے والے لوگ اس کے اس دعویٰ کو قبول نہیں کریں گے۔ ایک اور مثال لیجیے کہ ہم مسلمان مانتے ہیں کہ تورات اور انجیل اپنی اصل شکل میں باقی نہیں رہیں بلکہ ان میں بہت سی تحریفات ہوچکی ہیں۔ان تحریفات کو بنیاد بنا کر ہم مروجہ تورات و انجیل (عہد نامہ قدیم و عہد نامہ جدید) کو باکلیہ جھوٹا قرار نہیں دیتے۔ بلکہ تحقیق کرتے ہیں کہ کونسی بات قرآن وسنت کے مطابق ہے اور کونسی ان کے منافی ہے۔ علم و تحقیق کا یہ انداز ہی نہیں کہ آپ کسی بھی علمی ورثے کو بیک جنبش قلم علی الاطلاق رد کردیں۔
جو لوگ حجیتِ حدیث کے منکر ہیں ان کا نداز دنیا وجہان سے نرالا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ احادیث عجمی سازش ہیں اور یہ عجمی محدثین نے اسلام کی اصل شکل بگاڑنے کے لیے گھڑی ہیں۔ ہم اپنی دوسری پوسٹ میں بیان کرچکے ہیں کہ احادیث کی ابتدائی کتابیں عرب محدثین نے تالیف کی تھیں، جن میں صحیفہ ہمام بن منبہ، جامع معمر بن راشد، مصنف عبدالرزاق، مؤطا امام مالک، مسند عبداللہ بن مبارک، مسند ابو حنیفہ، مسند احمد بن حنبل وغیرہ نمایاں ہیں۔جو احادیث صحاح ستہ میں شامل ہیں وہ بالعموم اپنے سے پہلے تالیف کی جانے والی کتب میں موجود ہیں۔
ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں بہت سے لوگوں نے بے شمار حدیثیں گھڑی ہیں۔ہمیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ کونسی حدیث گھڑی ہوئی ہے اور کس حدیث کی نسبت نبی ﷺ کی طرف درست ہے؟
جان لیجیے کہ حدیث کے دو حصے ہوتے ہیں یعنی سند اور متن۔محدثین کرام نے علم حدیث کو قابل عمل بنانے کے لیے بہت سے اصول وضع کیے ہیں جنہیں اصول حدیث کہا جاتا ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں حدیث کی سند اور متن دونوں کو پرکھا جاتا ہے۔
حدیث کی سند سے مراد راویوں کا وہ سلسلہ ہے جنہوں نے نسل در نسل حدیث روایت کی ہے۔تقریباً پانچ لاکھ راویوں کے حالات اسما الرجال کی کتب میں جمع کر دئیے گئے ہیں۔اسما الرجال کی کتب میں راویوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کس زمانے میں پیدا ہوئے؟ ان کا اصل وطن کونسا تھا؟انہوں نےخود کس کس استاذسے حدیث سنی اور ان کے وہ شاگرد کونسے ہیں جن کی احادیث نقل کی جاتی ہیں؟ ان کا حافظہ اور مجموعی کردار کیسا تھا؟ انہیں ان کے معاشرے میں فاسق سمجھا جاتا تھا یا نیکوکار؟ ان کا عمومی طرز عمل حق گوئی تھا یا دروغ گوئی؟ دوسرے لفظوں میں وہ راست باز تھے یا دغا باز؟
انہوں نے کب وفات پائی؟
اسما الرجال کی کتب میں صحا ح ستہ ہی نہیں بلکہ مذکورہ بالا کتب حدیث میں جن راویوں سے کوئی حدیث نقل ہوئی ہے ان کے حالات با آسانی تلاش کیے جاسکتے ہیں اور ہر حدیث کے راویوں کے بارے میں یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ وہ ثقہ ( قابل اعتماد) ہے یا نہیں؟ محدثین نےسند میں قوت کے اعتبار سے احادیث کےچاربنیادی درجے قرار دئیے ہیں:
۱۔ صحیح
۲۔ حسن
۳۔ ضعیف
۴۔ موضوع (من گھڑت)
سہولت کے لیے ہم فی الوقت انہی چار درجوں پر اکتفا کرتے ہیں تاہم محدثین نے احادیث کی اور بھی قسمیں بیان کی ہیں جن کی تفصیل اصول حدیث کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے (مثلا ً مقدمہ ابن الصلاح، شرح نخبۃ الفکر، الکفایہ فی علم الروایہ، تدریب الراوی وغیرہ)۔ سرِ دست ہمارا موضوع بحث من گھڑت احادیث ہیں۔
یاد رہے کہ محدثین نے عموماً قابل اعتماد راویوں سے احادیث روایت کی ہیں۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کی معروف کتابوں میں صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ ضعیف اور موضوع احادیث بھی نقل ہوئی ہیں۔مثال کے طور پر احادیث کی سب سے ضخیم کتاب مسند امام احمد ہے۔مسند امام احمد میں بالعموم مقبول اور صحیح احادیث منقول ہیں، تاہم ان میں بعض احادیث ضعیف بھی ہیں۔امام ابن جوزی ؒنے مسند امام احمد میں شامل عبداللہ بن احمدؒ اور ان کے شاگرد ابوبکر جعفر القطیعی ؒکی بعض روایات کو موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے۔ امام ابن حجر العسقلانی ؒ نےثابت کیا ہے کہ امام احمد ؒ کی اپنی مرویات میں ایک بھی موضوع حدیث شامل نہیں ہے۔عبداللہ بن احمدؒ اور ان کے شاگرد ابوبکر جعفر القطیعی ؒ کی معرفتِ حدیث چونکہ امام احمدؒ کے پائے کی نہ تھی اس لیے ان سے چوک ہوگئی اور اور انہوں نے غلطی سے بعض موضوع احادیث بھی مسند احمد میں شامل کردیں۔20000 سے زائد احادیث میں اگر غلطی سے دس بارہ موضوع احادیث بھی شامل ہوگئی ہیں تو اس میں اچھنبے کی بات کیا ہے؟ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ ان دس بارہ احادیث کو بنیاد بنا کر ساری مسند احمد کو جھوٹ قرار دے دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ من گھڑت احادیث محدثین نے خود گھڑی ہیں؟ اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہے۔ محدثین نے پوری دیانتداری اور خلوص کے ساتھ احادیث کی چھان بین کی اورصرف قابل اعتماد احادیث اپنی کتب میں جمع کرنے کی کامیاب سعی کی۔تاہم بعض اوقات محدثین ضعیف حدیث بھی صحیح حدیث کی تائیدو تقویت کے لیے بطور استشہاد و اعتبار نقل کردیتے ہیں۔اس کے باوجود اگر کوئی موضوع (من گھڑت ) حدیث ان کی کتاب میں شامل ہوئی ہے تو اس کے صرف دو ہی سبب ہوسکتے ہیں۔
۱۔ محدث کے نزدیک حدیث صرف ضعیف تھی جو اس نے استشہاد و اعتبارکے طور پر نقل کردی۔
۲۔ محدث کے نزدیک بھی حدیث موضوع (من گھڑت) ہی تھی مگر اس نےعلما کو اس سے خبردار کرنے کے لیے حدیث نقل کردی۔
یاد رہے کہ علم حدیث ایک مستقل فن ہے اور دوسرے فنون کی طرح اس فن کو بھی اہل فن ہی صحیح طرح سمجھ سکتے ہیں۔جس طرح میڈیکل سائنس کے مبتدی طالب علم کی رائے کو اس فن کے ماہرین پر ترجیح نہیں دی جاسکتی ،اسی طرح علم حدیث سے ناواقف لوگوں کی اس فن کے بارے میں رائے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اس فن کے ماہرین یعنی محدثین کی رائے ہی اس بارے میں حجت ہے۔لہٰذا ماہرین کی رائے کو یکسر انداز کرکے بیک جنبش قلم سارے مجموعہ حدیث کو جھوٹ قرار دینا ایسا دعویٰ کرنے والے کی جہالت کا ثبوت ہے۔
وہ احادیث جن کے بارے میں منکرین حدیث یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے خلاف ہیں یا ان میں انبیا خصوصا ً امام الابنیا محمد رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا پہلو نکلتا ہے ان کے بارے میں تحقیق کی جائے گی کہ آیا وہ محدثین کے اصولوں کے مطابق صحیح حدیث ہے یا ضعیف یا موضوع۔ اگر تو وہ حدیث ضعیف یا موضوع ہے تو اسے ہم بھی قابل التفات نہیں سمجھتے اور اگر وہ حدیث محدثین کے اصولوں کے مطابق صحیح ہے مگر قرآن یا سنت متواترہ کے خلاف ہے تو بھی اسے رد کردیا جائے گا۔البتہ اگر وہ حدیث نکارت اورشذوذ سے پاک ہے تو اس کی تاویل کی جائے گی۔ اسے بیک جنبش قلم رد نہیں کیا جائے گا۔ احادیث کے بارے میں یہی طرز عمل محفوظ و مامون ہے۔چودہ سو سال کے تعامل و تواتر کو منکرین حدیث کے مغالطوں کی وجہ سے رد نہیں کیا جاسکتا۔