علم، ارادہ اور تقدیر
از قلم ساجد محمود انصاری
اللہ تعالیٰ کی ذات مبارکہ الحیی القیوم ہے جو ہمیشہ سےہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرح اس کی صفاتِ کمال بھی ازلی و ابدی ہیں۔لہٰذا اس کی حیات، علم ،ارادہ ، قدرت، کلام وغیرہ بھی ازلی ہیں۔اسلامی عقائد کی درست تفہیم کے لیے اللہ تعالیٰ کے علم و ارادہ کو سمجھنا از بس ضروری ہے اس کے سمجھے بغیر بہت سی الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں اور لوگ اسلامی عقائد کو تضاد ات کا ایک مجموعہ سمجھ لیتے ہیں۔
جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا علم زمان و مکاں کی حدود قیود سے آزاد ہے۔ماضی حال اور مستقبل وقت یا زمانے کی تین حالتیں ہیں جو کہ خالصتاًٍ اضافی (ریلیٹو) ہیں۔ہم سے پہلے گزرے لوگ ہمارا ماضی تھے، جب کہ ہم ان کا مستقبل ہیں اور جو ہمارے بعد آئیں گے وہ ہمارا مستقبل ہیں اور ہم ان کا ماضی۔مثال کے طور پر آج جمعہ ہے۔ گزشتہ کل (بروز جمعرات) جمعہ ہمارا مستقبل تھا، آج یہ ہمارا حال ہے اور آئندہ کل (بروز ہفتہ ) جمعہ ہمارا ماضی بن چکا ہوگا۔گویا ایک ہی دن پر زمانے کی تینوں حالتیں گزرتی ہیں۔اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ وقت یا زمانہ ایک اضافی (ریلیٹو) شے ہے اور اس کا تعلق مخلوق سے ہے، اللہ تعالیٰ کے لیے ہر زمانہ یکساں ہے اور وہ ہر زمانے کو یکساں طور پر جانتا ہے۔ لہٰذ ا اللہ کا علم حادث نہیں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کسی بھی واقعہ کو اس کے وقوع سے پہلے جانتا ہے کیونکہ ہرحادثہ و واقعہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کا محتاج ہے۔جو کچھ اللہ نے ارادہ فرمایا وہی ہوتا ہے اور جس کا اس نے ارادہ نہیں فرمایا وہ نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کے ازلی علم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ نے کائنات تخلیق کرنے کا ارادہ فرمایا اور کائنات اس کی قدرتِ مطلقہ سےاس کے ارادے کے عین مطابق وجود میں آگئی اور اس کے ارادہ کے موافق ارتقائی مراحل طے کررہی ہے۔اللہ تعالیٰ کے ازلی ارادے کا دوسرا نام تقدیر ہے۔جس طرح کائنات کا کوئی مظہر اللہ تعالیٰ کے ارادے کےبغیر ظاہر نہیں ہوتا اسی طرح انسان اوراس کی زندگی سے جڑے تمام امور اللہ تعالیٰ کے ارادے سے وجود میں آتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں انسان اور اس کی زندگی سے جڑے تمام امور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے محتاج ہیں۔
قرآن حکیم پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک آزاد ارادے کے ساتھ تخلیق فرمایا ہے، گویا انسان ایک صاحبِ ارادہ مخلوق ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قدرت کے بل بوتے پر اپنے آزاد ارادے سے اچھے یا برےاعمال سر انجام دیتا ہے۔ کیونکہ انسان یہ سب اپنے آزادانہ ارادے سے کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے۔ انسان نہ تو مجبورِ محض ہے اور نہ قادرِ مطلق۔ انسان خیر اور شر اختیار کرنے میں آزاد ہے مگر وہ وہی کچھ کرسکتا ہے جس کی قدرت اسے اللہ تعالیٰ کے آفاقی قانون کے تحت حاصل ہوتی ہے۔مثلاً انسان ایک بھاری پتھر تو اٹھا سکتا ہے مگر ہمالیہ پہاڑ کو نہیں اٹھا سکتا۔یہی تقدیر کی حقیقت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مادی کائنات سے متعلق اپنے علم اور ارادے کی تفاصیل نورانی لوح محفوظ میں لکھ دی ہیں۔اسی کو تقدیر کے لکھے جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ہم مجمل طور پر یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہی ہوتا ہے جو اس تقدیر میں لکھا گیا ہے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کو مجبور محض بنا کر پیدا کیا گیاہے۔ جو لوگ تقدیر کو ٹھیک طرح سمجھ نہیں پاتے وہ یا تو سرے سے تقدیر کا ہی انکار کردیتے ہیں یا انسان کو مجبور محض سمجھ لیتے ہیں۔جان لیجیے کہ یہ دونوں رویے ازرُوئے قرآن غلط ہیں۔ ہم سابقہ سطور میں بیان کر آئے ہیں کہ انسان آزادانہ ارادے کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہے، اسی بنیاد پر ثواب اور گناہ کا تصور جنم لیتا ہے۔ اگر انسان اپنے ارادے میں آزاد نہ ہوتا توثواب و گناہ کا تصور عبث ہوجاتا۔
سب جانتے ہیں کہ انسانی زندگی میں سب کچھ انسان کی چاہت اور اردے کے موافق نہیں ہوتا۔کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے مگر قدرت اسے اس نقصان سے بچا لیتی ہے۔گویا انسان کی سب کوششیں بارآور نہیں ہوتیں، جہاں اسے بہت سی کامیابیاں ملتی ہیں وہیں اسے بہت سی ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس طرح کامیابیاں اس کے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں اسی طرح ناکامیاں بھی اس کے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں۔انسان کودرست کوشش کے باوجود ناکامی عموماً اسی وقت ہوتی ہے جب اس کی چاہت اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ٹکراتی ہے۔مگر اس صورت میں ہمیں اس ناکامی میں اللہ تعالیٰ کی حکمت فوراًسمجھ نہیں آتی۔البتہ اکثر کچھ مدت بعد اس ناکامی کی سمجھ آجاتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سعی و جہد کی ضرورت نہیں بلکہ کامیابی اور ناکامی تو نتیجہ ہی سعی و جہد کا ہے۔ اگر سعی و جہد نہ ہو تو کامیابی اور ناکامی کا تصور ہی مٹ جائے۔جبکہ اس تصور کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔انسان چونکہ مستقبل میں نہیں جھانک سکتا اس لیے اسے کوشش کرنے سے پہلے معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کامیاب ہوگا یا ناکام ۔اس لیے کوشش کرنا اس پر لازم ہے۔البتہ اخروی انجام سعی و جہد کے ساتھ ساتھ انسانی نیت(اردے) پر مبنی ہوگا۔اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کہ اس نے انسان کو نرے سعی و خطا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیا کہ وہ ہر عمل کا انجام لازماً تجربے سے ہی سیکھے۔ اس کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہر زمانہ میں ہدایت کا سامان باہم پہنچانے کے لیے انبیا کرام کو مبعوث فرمایا جس کا سلسلہ نبی آخرالزمان سیدنا محمد ﷺ پر آکر تکمیل پذیر ہوا۔اخروی فلاح کے سارے بنیادی اصول اس نے اپنی کتاب قرآن مجید میں بیان فرمادیے ہیں اور رسول اکرم ﷺ نے اپنے قول وفعل کے ذریعے اس کی خوب وضاحت بھی فرمادی ہے۔ اب ہمارے لیے ان امور کی ایک فہرست موجود ہے جنہیں اپنا کر ہم کامیاب ہوسکتے ہیں اور ان امور کی فہرست بھی موجود ہے جنہیں اپنا کر ہم ناکام ہوسکتے ہیں۔تاہم اخلاصِ نیت اور سعی و جہد دونوں اخروی فلاح کی لازمی شرطیں ہیں۔
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ وَ اَنَّ سَعْیَهٗ سَوْفَ یُرٰى۪ ثُمَّ یُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰىۙ
النجم: 39-41
اور انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے کوشش کی۔بے شک عنقریب اس کی کوشش کی جانچ کی جائے گی۔پھر اسےاس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔