2025-07-06
عِصمتِ انبیا علیہم السلام

عِصمتِ انبیا علیہم السلام

از قلم ساجد محمود انصاری

اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ انبیا علیہم السلام معصوم عن الخطا ہیں، ہمارے اس عقیدہ کی بنیاد قرآن حکیم کی تصریحات ہیں۔ قرآن حکیم کے مطابق انبیا ئے کرام علیہم السلام اپنے وقت کے سب سے زیادہ باکردار، باوقار، خوش اخلاق، دیانت دار اور راست باز انسان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان نفوس قدسیہ کی ارواح مقدسہ کواتنا باکمال بنایا ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف وحی الہٰی کا تحمل کرتی ہیں بلکہ اپنی امت کی قیادت کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کے اخلاق و کردار میں کوئی عیب نہیں ہوتا  کہ جس کی بنیاد پر کسی کو  ان کی نبوت پر انگلی اٹھانے کا موقعہ پیدا ہو۔غرض عقیدہ عصمتِ انبیا عقیدہ رسالت کا جزو لازم ہے، اس پر ایمان لائے  بغیر کسی کا عقیدۂ رسالت بھی معتبر نہیں۔عصمتِ انبیا کا انکار درحقیقت اللہ تعالیٰ کے انتخاب پر انگلی اٹھانا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ

(آل عمران: آیت 33)

ترجمہ: بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور ابراہیم کی اولاد اور عمران کی اولاد کو سارے جہان والوں پر چن لیا ۔

اصطفٰی کا مطلب کسی شئے میں سے اس کے سب سے زیادہ خالص اور عمدہ حصے کا انتخاب کرنا ہے۔یہاں آل عمران سے مراد سیدنا موسیٰ و سیدنا ہارون اور سیدنا عیسیٰ علیہم السلام مراد ہیں۔(تفسیرالبغوی) غرض اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا ہے کہ وہ کسی راہ چلتے کو نبی نہیں بناتا بلکہ اس کے انبیا تو تمام انسانوں سے چنے ہوئی سب سے زیادہ پاکیزہ نفس ہستیاں ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اپنے انبیا کی گناہوں سے حفاظت فرماتے ہیں، شیطان کے خلاف ان کے گرد ایک حصار قائم فرمادیتے ہیں جو ان پر حملہ تو کرتا ہے مگر اس کا حملہ ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔

سورۃ یوسف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ جب زلیخا نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو اپنے جال میں بچھانے کے لیے پھندہ پھینکا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس کے شیطانی حملے سے محفوظ رکھا:

 وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۖ وَهَـمَّ بِـهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ۚ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوٓءَ وَالْفَحْشَآءَ ۚ اِنَّهٝ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِيْنَ 

(سورۃ یوسف: آیت 24)

ترجمہ: اور البتہ اس عورت نے تو اس پر ارادہ کر لیا تھا، اور اگر وہ اپنے رب کی برھان نہ دیکھ چکاہوتا تو وہ بھی  اس کا ارادہ کر لیتا، اسی طرح ہوا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ٹال دیں، بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔

یہ آیت مبارکہ انبیا علیہم الصلوات والسلام کے معصوم عن الخطا ہونے پر نص قطعی ہے، مگر افسوس کہ لوگ اس آیت کے پہلے ہی حصے پر اٹک جاتے ہیں اور پوری آیت کی طرف توجہ نہیں کرتے۔

اللہ تعالیٰ ہر نبی کو منصبِ نبوت پر فائز کرتے وقت اپنی برھان دکھاتے ہیں جس سے انہیں اپنے نبی ہونے کا علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔ یہی برھان  ہر نبی کو وحی الٰہی کا تحمل کرنے کی طاقت دیتا ہے۔اسی برھان کے سبب انبیا علیہم السلام گناہوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

ایسے ہی تو انبیا اللہ تعالیٰ کے مُخلَص (چنے ہوئے )بندے قرار نہیں پاتے۔ مُخلَص کا مطلب بھی ہر شئے کا خالص ترین حصہ ہوتا ہے۔

انبیا علیہم السلام کبیرہ و صغیرہ ہر قسم کے گناہ سے پاک ہوتے ہیں، تاہم انبیا کا مقام مرتبہ چونکہ چنیدہ ہونے کے سبب بہت زیادہ بلند ہے اس لیے بعض مباحات جو عام انسانوں کے حق میں مباحات (جائز کاموں)کے درجے میں ہوتے ہیں وہ انبیا علیہم السلام کے حق میں خلاف اولیٰ یا مکروہ قرار پاتے ہیں۔مثال کے طور پر جنت کے پھل انعام کے طورملنے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو جنت کا ایک پھل محض امتحان اور تربیت کی غرض سے  کھانے سے منع فرمادیا۔ یہ پھل کوئی حرام پھل نہیں تھا اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ممانعت  جنت کا پھل حرام کرنے کے مقصد کے تحت تھی۔

ہمارا ماننا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو  شجرِممنوعہ کا پھل کھانے سے محض اس لیے منع فرمایا تاکہ ان پر عملی طور واضح ہوجائے کہ شیطان ان کا دشمن ہے۔لہٰذا یہ پھل ان پر حرام کے درجہ میں ممنوع نہیں تھا بلکہ خلاف اولیٰ کے درجہ میں منع تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کے اس فعل کی خود وکالت فرمائی ہے۔ارشادِباری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ عَهِدْنَـآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَـنَسِىَ وَلَمْ نَجِدْ لَـهٝ عَزْمًا

(طہٰ:115)

ترجمہ: اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے بھی عہد لیا تھا پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں نافرمانی کا ارادہ نہ پایاتھا۔

سیدنا آدم علیہ السلام نے اپنے رب کے امر استحبابی کے خلاف تو  کیامگر اللہ تعالیٰ خود ان کی صفائی پیش فرمارہے ہیں  کہ انہوں نے ایسا بھول کرکیا، اگر انہیں یاد ہوتا تو وہ ہرگز ممنوعہ پھل نہ کھاتے، اس لیے انہوں نے یہ نافرمانی کے ارادے سے نہیں کیا۔یہ کہنا  بھی غلط ہے کہ انہیں  سزا کے طور پر جنت سے نکالا گیا تھا۔انہیں صرف یہ بتایا گیا تھا  کہ جب تک آپ اس درخت کا پھل نہیں کھائیں گے جنت سے نہیں نکالے جائیں گے۔جب آپ اس درخت کا پھل کھالیں گے تو جنت سے نکال دئیے جائیں گے۔اسی لیے ہمارا ماننا یہ ہے کہ شجر منوعہ کے قریب نہ جانے کا حکم امر استحباب کے طور پر تھا نہ کہ امر وجوب کے طور پر۔ جب سیدنا آدم علیہ السلام یہ معاہدہ بھول گئے تو شیطان نے انہیں ورغلانے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں انہوں  نےبھول کر وہ پھل کھا لیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کا جنت میں قیام کسی استحقاق کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا خاص کرم تھا اور اللہ تعالیٰ کے عظیم منصوبے کا حصہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بھی پہلے بتاچکے تھے کہ وہ انہیں زمین پر خلیفہ بنانے والے ہیں۔غرض سیدنا آدم علیہ السلام کوخلافتِ ارضی کے لیے ہی تو پیدا کیا گیا، پھر جنت سے زمین پر آنا کسی سزا کے طور پر نہیں تھا بلکہ یہ خدائی منصوبے کا لازمہ تھا۔

رہا یہ سوال کہ اگر سیدنا آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے:

وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٝ فَغَوٰى

    (سورہ طہٰ:آیت 121)

ترجمہ: اور آدم نے اپنے رب کے حکم کی خلاف ورزی کی اور راہ بھول گیا۔

ہم کہتے ہیں کہ اس آیت مطلب اسی سورت کی آیت 115 کی روشنی میں اخذ کیا جائے گا اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو ہ لازماً گمراہ ہوجائے گا۔کیونکہ قرآن جب کسی ایک مقام پرکسی امر کی وضاحت کردے اور وہ بات کسی دوسرے مقام پر مجمل بیان ہوئی ہو تو اس مجمل و محتمل مقام کی تشریح قرآنی  وضاحت کے تابع رہ کر کی جائے گی۔  جیسے لا تقربو الصلوٰۃ و انتم سکاریٰ (نماز کے قریب مت جاؤ جب تم نشے کی حالت میں ہو) سے یہ اخذ کرنا غلط ہے کہ کہ شراب حلال ہے، اسی طرح عصیٰ ربہ سے معصیت (گناہ) اخذ کرنا بھی غلط ہے جبکہ خود قرآن نے وضاحت فرمادی ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے بھول کر اس درخت کا پھل کھایا ان کا ارادہ نافرمانی کرنے کا نہیں تھا۔

۔ ممنوعات کے تین درجے ہیں:

1۔ حرام

2۔ مکروہ

3۔ خلاف اولیٰ

ہمارے نزدیک یہاں معصیت سے مراد خلاف اولیٰ فعل سرانجام دینا ہے، نافرمانی کرنا مراد ہرگز  نہیں ہے۔نسیان کی وجہ سے خطا کو گناہ نہیں کہتے۔ یہ بھی  یار لوگوں کاکمال ہے کہ  سیدنا آدم علیہ السلام کی کل ایک ہزار سالہ زندگی میں ایک خلاف اولیٰ امر سرزد ہونے کو وہ  عصمتِ انبیا کے خلاف دلیل بنائے بیٹھے ہیں۔ بتایا جائے کہ کیا سیدنا آدم علیہ السلام سے اس کے علاوہ بھی کوئی خطا سرزد ہوئی تھی؟ اب عقیدہ استثنا کی بنیاد پر بنایا جائے گا یا اصولی قاعدے کی بنیاد پر؟قاعدہ تو یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے اور کوئی خطا بھول کر بھی نہیں کی۔ٖحقیقت یہ ہے کہ عقیدہ عصمتِ انبیا کا انکار کرنے والے عقیدہ رسالت کے منکر قرار پاتے ہیں۔

عصمتِ انبیا کے منکرین سیدنا یونس علیہ السلام کے واقعہ سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوْتِۘ-اِذْ نَادٰى وَ هُوَ مَكْظُوْمٌﭤ لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ

(سورۃ القلم: آیت 48-50)

ترجمہ:تو آپ اپنے رب کا  حکم  آنے تک صبرکر یں اور مچھلی والے کی طرح نہ ہونا جب اس نے اس حال میں پکارا کہ وہ بہت غمگین تھا۔ اگر اس کے رب کی نعمت اسے نہ پالیتی تو وہ ضرور چٹیل میدان میں پھینک دیا جاتااور وہ ملامت کیا ہوا ہوتا۔تو اسے اس کے رب نے چن لیا اور اپنے قربِ خاص کے حقداروں میں کرلیا۔

اس آیتِ مبارکہ میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یونس علیہ السلام کو ہجرت سے منع فرمایا تھا اور وہ اس ممانعت کے باوجود ہجرت کرگئے۔حقیقت یہ ہے کہ جب سیدنا یونس علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو وہ ان سے ناراض ہوکر چل دئیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِذْ اَبَقَ اِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَ هُوَ مُلِیْمٌ فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ سَقِیْمٌ وَ اَنْۢبَتْنَا عَلَیْهِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ وَ اَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ

(سورۃ الصافات: آیت 140-149)

ترجمہ:اور بےشک یونس پیغمبروں سے ہےجب کہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا تو کشتی والوں نےقرعہ ڈالا تو انہیں کشتی سے نکال دیا، اسے مچھلی نے نگل لیا اور وہ اس کے لیے اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا،تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا ضرور اس کے پیٹ میں رہتا،اس دن تک  کہ جب لوگ زندہ کرکےاٹھائے جائیں گے، پھر ہم نے اسے میدان پر ڈال دیا اور وہ نحیف ہورہا تھا،اور ہم نے اس پر سایہ کے لیےکدو کا پیڑ اگادیا اور ہم نے اسے لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ،تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک دنیا کی آسائشیں برتنے دیں۔

 عصمتِ انبیا کے منکرین وَ هُوَ مُلِیْمٌ کا غلط مفہوم نکال کر اس آیت سے عصمت انبیا کے خلاف استدللال کرتے ہیں حال آن کہ اس میں ان کے لیے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔

منکرین عصمت ملیم کا مطلب قابلِ ملامت بتاتے ہیں جبکہ یہاں ملیم کا مطلب ہے کہ سیدنا یونس علیہ السلام انبیا علیہم السلام کا طریقہ اپناتے ہوئے اس آزمائش کو اپنی کسی غلطی کا نتیجہ سمجھتے ہیں جس پر وہ ان الفاظ میں استغفار کرتے ہیں:

وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادٰى فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ

(سورۃ الانبیا: آیت 87)

ترجمہ: اور ذوالنون (مچھلی والے یونسؑ) کو (یاد کرو) جب وہ غضبناک ہوکر چل پڑے توانہوں نے گمان کیا کہ ہم ان پر تنگی نہ کریں گے تو انہوں نے اندھیروں میں پکاراکہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہرعیب سے پاک ہے ، بیشک مجھ سے اپنی جان پر ظلم سرزد ہوا ہے۔

سیدنا یونس علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی کوئی نافرمانی نہیں کی تھی، تاہم وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آیا۔  ہم واضح کرچکے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہجرت سے منع نہیں فرمایا تھا مگر اللہ تعالیٰ اپنے انبیا کو عزیمت کے جس مرتبہ پر دیکھنا چاہتے ہیں سیدنا یونس علیہ السلام اس مرتبۂ عزیمت سے ایک درجہ نیچے اتر آئے تھے مگر اللہ تعالیٰ کو یہ بھی پسند نہیں تھا کہ اس کا نبی عزیمت کے بلند ترین مرتبہ سے نیچے اترے۔سیدنا یونس علیہ السلام ہجرت کا حکم آنے سے پہلے ہجرت کرگئے تھے،اللہ تعالیٰ نے انہیں صرف ان کی جلدبازی پر متنبہ فرمایا تھا۔حقیقت میں ان کا یہ  گمان غلط نہیں تھا  کہ اب ان کی قوم ایمان لانے والی نہیں، کیوں کہ  سورہ یونس میں وضاحت ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں جس کی توبہ عذاب دیکھنے کے بعد قبول کی گئی ہو، سوائے قوم یونس کے۔

فَلَوْ لَا كَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَاۤ اِیْمَانُهَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَؕ-لَمَّاۤ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰهُمْ اِلٰى حِیْنٍ

(یونس: 98)

ترجمہ: کوئی قوم  ایسی نہیں جس کا (عذاب دیکھ کر )  ایمان لانا اسے نفع دیتا سوائے یونس کی قوم کے، جب ایمان لائی توہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ہٹادیا اور ایک وقت تک انہیں فائدہ اٹھانے دیا۔

 لہٰذا اس واقعہ میں منکرین عصمتِ انبیا کے لیے کوئی دلیل نہیں۔ اللہ تعالیٰ تو سیدنا یونس علیہ السلام کی ان الفاظ میں تعریف فرمارہے ہیں:

فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ

 تو اسے اس کے رب نے چن لیا اور اپنے قربِ خاص کے حقداروں میں کرلیا۔

عصمتِ انبیا کے منکرین رسول اکرم ﷺ کے بارے میں بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں معاذاللہ انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف فیصلے دئیے جن پر اللہ نے انہیں وعید سنائی۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں  کہ غزوۂ بدر میں قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑنے کے فیصلے پر اللہ تعالیٰ نےسرزنش فرمائی ہے:

عَظِیْمٌ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِؕ-تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا  وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ

لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ

 (سورۃ الانفال: آیت67-68)

ترجمہ: کسی نبی کے لائق نہیں کہ کافروں کوزندہ قید کرلے جب تک زمین میں ان کا خون  نہ بہالے۔ تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہواوراللہ تمہیں آخرت  میں نوازناچاہتا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ۔اگر اللہ کی طرف سے پہلے سے ایک حکم لکھا ہو انہ ہوتا، تو اے مسلمانو! تم نے (قیدیوں سے) جوفدیہ لیا ہے اس کے بدلے تمہیں بڑا عذاب پکڑلیتا۔

غزوۂ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کے معاملے کو بہت سے لوگ ٹھیک طور پر سمجھ نہیں سکے۔ غزوۂ بدر اسلام کی پہلی باقاعدہ جنگ تھی جس میں مسلمانوں اور کفار کے لشکر آمنے سامنے آئے۔ اس  زمانے میں عربوں کے ہاں جنگی قیدیوں کے بارے میں چار صورتیں رائج تھیں:

1۔ جنگی قیدیوں کو قتل کردیا جائے

2۔ جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے

3۔ قیدیوں کے بدلے قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے

3۔ جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا جائے۔

جنگی قیدیوں میں بنو ہاشم کے بھی بعض لوگ شامل تھے، جن میں سے ایک نام نبی ﷺ کے چچا سیدناعباس رضی اللہ عنہ کا تھا۔ نبی ﷺ نہیں چاہتے تھے کہ بنو ہاشم کو قتل کیا جائے یا غلام بنایا جائے۔ غالباً آپ کو کشف ہوچکا تھا کہ بنو ہاشم کے سبھی قیدی آپ پر ایمان لے آئیں گے۔اسی  لیےنبیﷺ نے سب قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنے کی تجویز سے اتفاق فرمایا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنا گناہ  ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑنا گناہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جب کہ  اللہ تعالیٰ نے خود اس کی باقاعدہ اجازت دے دی ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا

(سورۃ محمد: آیت 4)

ترجمہ: پس جب میدان جنگ میں تمہارا  سامنا کفار کے ساتھ ہو تو خوب گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم ان کو خوب مغلوب کرلو تو ان کی مشکیں کس لو، پھر یا تو اس کے بعد احسان کرو یا  فدیہ لے لو یہاں تک کہ جنگ ختم ہوجائے۔  

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فدیہ لینا گناہ بھی نہیں بلکہ قرآن کی رو سے ہی جائز ہے تو اللہ تعالیٰ نے فدیہ لینے پر سرزنش کیوں کی؟ ہماری رائے میں اس سرزنش کا سبب مطلقاً فدیہ لینا نہیں ہے بلکہ بنو ہاشم سمیت سبھی قیدیوں سے فدیہ لینا ہے۔اصل میں اللہ تعالیٰ سرزنش اس بات پر کررہے ہیں کہ بنو ہاشم سے فدیہ کیوں لیا؟ انہیں بغیر فدیے کے رہا کیوں نہیں کیا؟جب احسان کا ایک رستہ کھلا تھا تو انہیں فدیے کے بغیر کیوں نہیں چھوڑ دیا؟

ہماری دلیل تفسیر ابن کثیر میں منقول مستدرک للحاکم کی  درج ذیل حدیث ہے:

امام مجاہد ؒ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت کرتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو پکڑا گیا تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ  (رسول اللہ ﷺ کے چچا) بھی قیدیوں میں شامل تھے، اور انہیں ایک انصاری صحابی نے قید کیا تھا۔ انصار نے قسم کھائی تھی کہ وہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ  کو قتل کر دیں گے۔ یہ خبر نبی کریم ﷺ تک پہنچی، تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے آج رات نیند نہیں آئی کیونکہ میرا چچا عباس قیدی ہے، اور انصار کا ارادہ ہے کہ وہ اسے قتل کر دیں گے۔

یہ سن کر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

 “کیا میں انصار کے پاس جاؤں؟”
آپ ﷺ نے فرمایا: “ہاں، جاؤ۔”

چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انصار کے پاس گئے اور کہا:

 “عباس کو چھوڑ دو۔”
انہوں نے جواب دیا:

“نہیں، اللہ کی قسم! ہم اسے نہیں چھوڑیں گے۔”

“اگر یہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی میں ہو تب بھی؟” سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا
انصار نے کہا’’اگر رسول اللہ ﷺ اس پر راضی ہیں تو لے جاؤ۔‘‘

چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عباس کو لے لیا، اور جب وہ ان کے ہاتھ میں آئے تو عمر نے کہا ’’اے عباس! اسلام قبول کر لو، اللہ کی قسم! آپ کااسلام قبول کرنا مجھے میرے اپنے والد خطاب کے اسلام قبول کرنے سے زیادہ محبوب ہے، اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوآپ کے اسلام سے خوش ہوتے دیکھا ہے۔‘‘

اس حدیث سے واضح ہے کہ رسول اکرم ﷺ بنو ہاشم بالخصوص اپنے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے لیے کتنے بے قرار تھے۔رسول اکرم ﷺ کی خواہش تھی کہ لوگ بنو ہاشم کو بغیر فدیے کے چھوڑ دیں، مگر لوگ فدیہ لینے پر بضد تھے اور انہوں نے فدیہ لیا بھی سہی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں سرزنش فرمائی۔یہ سرزنش نبی ﷺ کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے تھی جو فدیہ لینے پر بضد تھے۔ہائے افسوس! نبی ﷺ نے بنو ہاشم کا فدیہ اپنی جیب سے ادا کیا۔ تصور کیجیے کیسی گزری ہوگی نبی ﷺ کے قلب اطہر پر؟  ایسے میں وعید نازل نہ ہوتی کیا ہوتا؟ قریب تھا کہ اللہ کا عذاب نازل ہوجاتا مگر اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ  جب تک نبی ﷺ ان میں موجود ہیں ان پر عذاب نازل نہیں ہوگا۔

سورۃ الانفال (آیت 33) میں اللہ تعالیٰ فرماچکے تھے کہ مؤمنین تو مؤمنین کفار پر بھی اللہ تعالیٰ عذاب نہیں کریں گے جبکہ نبی ﷺ ان میں موجود ہوں:
وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ

ترجمہ: اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نہیں بھیجے گا کیوں کہ آپ ان کے درمیان موجود ہیں۔

غرض فدیہ لے کر چھوڑنے کے واقعے میں بھی عصمتِ انبیا کے منکرین کے لیے کوئی دلیل نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading