صحیفہ صادقہ: حدیث کی پہلی کتاب
از قلم ساجد محمود انصاری
رسول اکرم ﷺ نے ابتدائے نزول قرآن میں ان کی جانب سےقرآن کے سوادیگر کلام (حدیث) کو لکھنے سے منع فرمادیا تھا کہ مبادا قرآن اور نبی ﷺ کے فرامین کو خلط ملط نہ کردیا جائے ،جیسا کہ سابقہ امتوں نے آسمانی کتابوں اور انبیا کے کلام کو خلط ملط کردیا تھا، یوں کتاب الٰہی اور قول رسول میں تمیز کرنا مشکل بنا دیا گیا تھا۔ رسول اکرم ﷺ چاہتے تھے کہ امت مسلمہ کلام اللہ (قرآن حکیم ) کو رسول اکرم ﷺ کے اپنے الفاظ سے ممتاز و مقدم رکھے تاکہ قرآن حکیم کو کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے جوامتیازی و اعجازی مقام حاصل ہے ، وہ کبھی متاثر نہ ہو اور مخلوق کے کلام کو کلام اللہ کا درجہ نہ دے دیا جائے۔ یہ درست ہے کہ حدیث رسول ﷺ بھی درحقیقت کلام اللہ (وحی) کی ایک دوسری قسم سے ہی ماخوذ ہے ، مگر بہر کیف حدیث رسول کا درجہ قرآن حکیم کے مساوی ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ قرآن حکیم کا نظم و اسلوب اپنے اندر جو معجزانہ کمال رکھتا ہے ، کوئی دوسرا کلام اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔قرآن حکیم مخلوق کے کلام سے ہر اعتبار سے اعلیٰ و افضل ہے ۔تاہم حدیث رسول ﷺ کے صرف لکھنے کی ممانعت تھی اسے آگے بیان کرنے کا حکم خود نبی ﷺ نے ممانعت کتابت کے ساتھ ہی دے دیا تھا۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لا تَكْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلا حَرَجَ
صحیح مسلم : رقم 5326
میرے فرامین مت لکھا کرو، اگر کسی نے قرآن کے سوا میرے فرامین بھی لکھ رکھے ہیں تو انہیں مٹادے، ہاں میرے فرامین زبانی بیان کرتے رہو، اس میں کوئی حرج نہیں۔
مکہ مکرمہ میں کتابتِ حدیث سے ممانعت پر عمل جاری رہا۔جب رسول اکرم ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے تو بعض صغار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مذکورہ ممانعت سے ناواقفیت کی وجہ سے رسول اکرم ﷺ کے فرامین کو ذاتی یادادشت کے لیے قلمبند کرنے لگے جن میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سر فہرست ہیں۔ بعض مہاجرین صحابہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو کتابت حدیث سے منع کیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے یہ سارا قصہ نبی ﷺ کے گوش گزار کیا تو نبی ﷺ نے اپنے فرامین لکھنے کی اجازت مراحمت فرمادی، کیونکہ اس وقت تک قرآن کا متعدد بہ حصہ نہ صرف نازل ہوچکا تھا بلکہ صحائف کی شکل میں ضبطِ تحریر میں لایا جاچکا تھا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالاَ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الأَخْنَسِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُغِيثٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَىْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أُرِيدُ حِفْظَهُ فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا أَتَكْتُبُ كُلَّ شَىْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ فَقَالَ “ اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلاَّ حَقٌّ ” .
سنن ابو داؤد: رقم 3646
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ سے جو کچھ بھی سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے حفظ کرسکوں۔مجھے قریشی (مہاجرین) صحابہ نے اس سے یہ کہہ کر روک دیا کہ رسول اکرم ﷺ بشر ہیں، کبھی غصے میں بات کرتے ہیں کبھی خوشی میں۔تب میں حدیث رسول ﷺ لکھنے سے رک گیا۔ یہ سارا قصہ میں نے نبی ﷺ کے سامنے بیان کیا تو انہوں نے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ارے لکھ لیا کرو،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اس (منہ )سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے جمع کردہ ذخیرہ احادیث کو کتب تاریخ میں صحیفہ صادقہ یا صرف الصادقہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔(سیر اعلام النبلا: ترجمہ عمرو بن شعیب)پس صحیفہ صادقہ کو حدیث رسول ﷺ کی پہلی کتاب ہونے کا شرف حاصل ہے۔تاہم یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ صرف ان احدیث کا مجموعہ ہے جو سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے خود اپنے کانوں سے نبی ﷺ سےسنی تھیں۔ لہٰذا کسی کو یہ مغالطہ نہیں ہوتا چاہیے کہ اس میں رسول اکرم ﷺ کی تمام احادیث موجود ہونگی۔ اس کے باوجود صحیفہ صادقہ کو حدیث کی پہلی کتاب ہونے کی وجہ سے ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔
یہ صحیفہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی اولاد میں وراثتاً ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا رہا۔آپ کے پوتے امام عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ نے عن ابیہ عن جدہ کے واسطہ سے جو احادیث بیان کی ہیں وہ اسی صحیفہ سے نقل کیا کرتے تھے۔(السیر اعلام النبلا: ترجمہ عمرو بن شعیب)
بہت سے صحابہ و تابعین نے صحیفہ صادقہ کے وجود کی گواہی دی ہے۔مثلاً
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرٌو، قَالَ أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلاَّ مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُبُ
مسند احمد: رقم 7383، صحیح البخاری: رقم 113
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی صحابی نے مجھ سے زیادہ حدیثیں بیان نہیں کیں،سوائے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے جس کا سبب یہ ہے کہ وہ حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
محدثین کو امام عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ کی عدالت و ثقاہت میں کوئی شبہہ نہیں۔البتہ اکثر محدثین عموماً امام عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ کی عن ابیہ عن جدہ والی روایت کو محض اس لیے معلول سمجھتے ہیں کہ چونکہ ان کی روایت وجادہ کی طرز پر صحیفہ صادقہ میں سے ہے اور سماع کی طرز پر حاصل نہیں کی گئی۔(السیر اعلام النبلا: ترجمہ عمرو بن شعیب) محدثین کی اس رائے کا سبب یہ ہے کہ نبی ﷺ نے خود اپنے حافظے سے احادیث آگے بیان کرنے کا حکم دیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بالعموم اسی طریقہ کو ترجیح دی۔ اس لیےمحدثین نے حدیث صحیح کے لیے راوی کا حافظہ پختہ ہونے کی شرط لگائی ہے، نیزصحیح حدیث میں راوی کا اس راوی سے براہ راست سماع ضروری ہےجس سے وہ روایت نقل کرتا ہے۔اب چونکہ امام عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ علیہ کی روایات کے بارے میں قوی احتمال یہی ہے کہ انہوں نے جو روایات صحیفہ صادقہ سے دیکھ کر عن ابیہ عن جدہ کے طریق پر روایت کی ہیں ، وہ ان کے پاس بطریق حفظ و سماع نہیں پہنچیں، اس لیے اکثرمحدثین کے نزدیک وہ معلول ہیں۔ تاہم بہت سے محدثین نے ان کی روایت کو قبول کیا ہے اور اس سے حجت پکڑی ہے، جس میں رئیس المحدثین امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا نام سر فہرست ہے۔
رایت احمد بن حنبل و علی بن المدینی، و اسحٰق بن راھویہ و ابا عبیدہ و عامۃ اصحابنا یحتجون بحدیث عمرو بن شعیب۔
بحرالدم لیوسف بن المبرد، رقم 767
میں نے امام احمد بن حنبل، امام علی بن عبداللہ المدینی، امام اسحٰق بن راھویہ، امام ابو عبیدہ القاسم رحمہم اللہ تعالیٰ اور اکثر محدثین کوامام عمرو بن شعیبؒ کی حدیث سے حجت پکڑتے دیکھا ہے۔
سیر اعلام النبلا (امام ذہبی ؒ) ،اُسَد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن الاثیر ؒ) اور الطبقات الکبریٰ (ابن سعدؒ)میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے تذکرہ میں صحیفہ صادقہ کا ذکر واضح طور پر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اسد لغابہ کی روایت ملاحظہ فرمائیے:
امام مجاہد ؒ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک روز سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک صحیفہ جو ان کے بستر پر رکھا تھا وہ اٹھاکر دیکھنے لگا تو انہوں نے مجھے روک دیا۔ میں نے عرض کی کہ آپ نے پہلے تو مجھے کبھی اپنی کوئی چیز لینے سے منع نہیں فرمایا، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ الصادقہ ہے جس میں وہ احادیث لکھی ہوئی ہیں جو میں نے براہ راست رسول اکرم ﷺ سے سن رکھی ہیں۔
(اُسَدُ الغابہ فی معرفۃ الصحابہ: ترجمہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ، رقم345)
لہٰذا منکرین حدیث کا یہ پروپیگنڈا کہ کتب حدیث نبی ﷺ کے تین سو سال بعد لکھی گئی تھیں، محض جھوٹ، دجل اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔