2025-07-06
علمِ حدیث

از قلم ساجد محمود انصاری

انکارِ حدیث کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا بہانہ یہ ہے کہ بہت سی حدیثیں انسانی عقل کے خلاف ہیں اور  قرآن نے حکم دیا ہے کہ جو شے خلافِ عقل ہو اسے تسلیم نہ کیا جائے۔ منکرینِ حدیث کا دعویٰ ہے کہ جو حدیثیں خلافِ عقل ہیں وہ انہیں تسلیم نہیں کرتے۔

جب ہم ’انسانی عقل‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ وہ اصل میں کیا دعویٰ کررہے ہیں۔  انسانی عقل سے مراد کسی فردِ واحد  زید یا بکر کی عقل نہیں ہے کہ جسے ساری انسانیت کے لیے معیارِ حق قرار دے دیا جائے بل کہ انسانی عقل سے مراد  وہ عقلی مسلمات ہیں جسےدنیا جہان کے عُقلا (انٹیلیکچوئلز) تسلیم کرتے ہیں۔

لہٰذا کسی حدیث کا کسی فردِ واحد کو خلافِ عقل لگنا ایک بات ہے اور اس حدیث کا فی الواقع انسانی عقل کے خلاف ہونا ایک بالکل مختلف شئےہے۔ ہر فرد کی عقل کا انحصار اس کی اپنی ذاتی معلومات پر ہوتا ہے، جتنی اس کی معلومات کم ہوں گی اس کی عقل اتنی ہی کمزور ہوگی اور جتنی اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا جائے گا اس کی عقل ترقی کرتی جائے گی۔ اسی لیے دنیا کے سب سے بڑے عقلا میں وہی لوگ شمار ہوتے ہیں جو اپنے شعبے میں سب سے زیادہ معلومات کے حامل ہوتے ہیں۔

اس کا سبب یہ ہے کہ انسانی عقل معلومات کا تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرتی ہے۔ لہٰذا کسی فرد یا گروہ کی معلومات کسی خاص موضوع پر جتنی کم ہوں گی اس کی عقل ان سے ناقص نتائج اخذکرے گی اور اس فرد یا گروہ کو جتنی زیادہ معلومات حاصل ہوں گی اس کے غلطی کرنے کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے جائیں گے۔ مثال کے طور پر ایک عام  ڈاکٹر کسی مریض کے مرض کی تشخیص میں ناکام ہوسکتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ اس شعبے کے ماہر ترین  ڈاکٹر  بھی تشخیص کرنے میں ناکام رہیں۔

اسی اصول کو قرآنی علوم پر بھی لاگو کیجیے۔ کسی شخص کا علم قرآن کے ترجمے تک محدود ہوتا ہے، کسی کا علم عربی زبان کے جملہ قواعد اوع علمِ بلاغت پر بھی ہوتا ہے، جبکہ کسی تیسرے شخص کا علم قرآن کی تفاسیر کا ابھی احاطہ کرتا ہے،  جبکہ چوتھے شخص کا علم تفاسیر کے ساتھ ذخیرۂ حدیث کو بھی محیط ہے۔ جبکہ ایک پانچویں شخص کا علم، عربی لغت، تفاسیر، احادیث کے ساتھ ساتھ اسماالرجال ، سیرت ، تاریخ وغیرہ پر بھی حاوی ہے۔اب کوئی احمق ہی ان پانچوں اشخاص کے علم و عقل کو مساوی قرار دے سکتا ہے۔

جب کسی عام ڈاکٹر کو کسی طبی مسئلہ میں مشکل درپیش ہوتی ہے اور کسی طرح مسئلہ حل نہ ہورہا ہو تو وہ اپنے سے سینئر ڈاکٹرز سے رابطہ کرتا ہے اور اس رابطے کو اپنی عزتِ نفس کا مسئلہ نہیں بناتا۔عرب محاورہ ہے کہ فوق کل ذی علم علیم یعنی ہر صاحبِ علم کے اوپر اس سے بھی زیادہ صاحبِ علم موجود ہوتا ہے، اسی کو فارسی  ضرب المثل  میں یوں کہا جاتا ہے کہ جائے استاد خالی است۔

اب ہوتا یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں ناظرہ بھی صحیح پڑھنا نہیں آتا یا آتا بھی ہے تو قرآن کے ترجمے تک اس کا علم محدود ہوتا ہے مگر وہ احادیث کے بارے میں یہ فیصلہ کررہا ہوتا ہے کہ یہ خلافِ عقل اور خلافِ قرآن ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔اب اگر احادیث کو اس طرح اپنی ذاتی عقل پر پرکھنا درست ہے تو پھر مان لیجیے کہ وہ لوگ درست ہیں جن کی عقل یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، یا رابرٹ اسپنسر جیسے دانشور تو یہاں تک دعویٰ کررہے ہیں کہ  معاذاللہ حضرت محمد ﷺ کی شخصیت محض ایک افسانہ ہے دنیا میں محمد  ﷺنام کی کوئی بڑی شخصیت نہیں گزری۔ کیا ان کی عقل کا یہ فیصلہ درست مان لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی ناقص معلومات سے ناقص نتائج اخذ کیے ہیں۔  اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم عقل کو کوسنا شروع کردیں بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ان لوگوں تک درست معلومات پہنچائیں جن سے وہ درست نتائج اخذ کرسکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم علمِ حدیث کے بغیر قرآنی احکام پر پوری طرح عمل نہیں کرسکتے، مثلاً قرآن ہمیں بار بار صلوٰۃ قائم کرنے کا حکم دیتا ہے، مگر قرآن یہ وضاحت نہیں کرتا کہ مہینے یا ہفتے یا ایک دن میں کتنی بار صلوٰۃ قائم کرنی ہے؟ قرآن ہمیں زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم تو دیتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ سال میں کتنی بار زکوٰۃ دینی ہے؟ کتنی مالیت پر دینی ہے اور کتنی مقدار میں دینی ہے؟ قرآن چور کی سزا مقرر کرتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ کتنی مالیت کی چوری پر یہ سزا دی جائے گی؟ اگر کوئی انڈا چوری کرلے تو کیا اس کی بھی یہی سزا ہوگی؟ اگر علمِ حدیث کو ایک جانب رکھ دیں تو صرف قرآن سے تو آپ یہ بھی ثابت نہیں کرسکتے کہ قرآن حکیم حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا گیا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لیے صرف قرآن نازل نہیں کیا بلکہ قرآن کو سمجھانے کے لیے اپنا رسول ﷺ بھی بھیجا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے قرآن کی جو تفسیر اپنے قول و عمل سے فرمائی ہے اس پر عمل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود قرآن پر عمل کرنا ۔ ہمیں تو قرآن اور حدیث دونوں رسول اکرم ﷺ نے عطا فرمائے ہیں اور ان پر عمل کرنا ہم پر فرض ہے۔ قرآن نے صرف قرآن کا حکم ماننے کا نہیں کہا بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ماننے کا کہا ہے۔ اللہ کا حکم ہمارے پاس قرآن کی شکل میں محفوظ ہے اور رسول اکرم ﷺ کا حکم ہمارے پاس حدیث کی شکل میں محفٖوظ ہے۔

اگر آپ کو کوئی حدیث اپنی عقل کے خلاف لگے تو ان علما سے رہنمائی لیجیے جنہوں قرآن اور حدیث کا گہرا علم حاصل کیا ہے اور اس میں مہارت پیدا کی ہے۔ اب منکرینِ حدیث نہ تو خود قرآن و حدیث کا علم حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی اہلِ علم سے رجوع کرتے ہیں اور واویلا یہ کرتے ہیں کہ احادیث  عقل کے خلاف ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کی جو تفسیر نبی ﷺ نے احادیث کی شکل میں عطا فرمائی ہے اس سے قرآن میں من مانے معانی نکالنا ممکن نہیں رہتا۔  چنانچہ قرآن کے من مانے معانی نکالنے کے لیے وہ اس راستے کی رکاوٹ یعنی علمِ حدیث کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش  کرتے رہتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایتِ کاملہ عطا فرمائے اور رسول اکرم ﷺ کی سچی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading