
قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا لازوال کلام ہے جس کی بناوٹ میں کسی مخلوق کا کوئی کردار نہیں۔ اللہ کا کلام اپنے وجود مسعود کے لیےکسی بھی مخلوق کے کسی بھی عمل کا محتاج نہیں۔عرب بنیادی طور پر ایک اُمی یعنی ان پڑھ قوم تھی اور اپنی فصاحت و بلاغت اور بے مثال حافظے کی وجہ سے کلام کو تحریر کرنے کو اپنی توہین جانتی تھی۔ تاہم قرآن حکیم چونکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے، اس لیے رسول اکرم ﷺ نے اللہ کے حکم سے اسے لکھوانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ چنانچہ آپ کے 40 کے قریب کاتب تھے جو مختلف اوقات میں قرآن حکیم کو ضبطِ تحریر میں لانے کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ اگرچہ رسول اکرم ﷺ نے کبھی کسی استاد سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا تھا، تاہم اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن حکیم کا علم خود براہ راست عطا فرمایا تھ، جس میں قرآن پڑھنا بھی شامل تھا۔ نیز صحیح البخاری کی حدیث نمبر 4251 میں وضاحت ہے کہ اگرچہ رسول اکرم ﷺ کسی حد تک لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے مگر خوشنویسی آپ کا معمول نہ تھا۔ قرآن کو لکھنے کے لیے جو کاتب مقرر کیے گئے تھے وہ اپنے زمانے کے اعتبار سے ممتاز خوشنویس تھے۔ لہیذا کاتب جو لکھتے تھے اسے آپ ﷺ خود پڑھ کے اس کی توثیق فرماتے تھے اور اگر کہیں کاتب سے غلطی ہوجاتی تو اس کی اصلاح بھی فرمادیتے تھے جیسا کہ آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے معاہدے کی اصلاح اپنے دستِ مبارک سے فرمائی۔
رسول اکرم ﷺ نے اپنی دنیاوی حیات مبارکہ میں ہی مکمل قرآن اپنی نگرانی میں لکھوا دیا تھا، تاہم اس وقت قرآن ایک سے زیادہ صحیفوں کی شکل میں تھا جو ایک مجلد کتاب کی شکل میں نہیں تھا جیسا کہ آج ہمارے پاس مجلدموجود ہے۔اس کا ایک سبب یہ تھا کہ نبی ﷺ کی وفات تک نزول وحی کا سلسلہ جاری رہا، اگر نبی ﷺ اپنی زندگی میں ہی قرآن کو ایک جلدیا مصحف کی شکل دے دیتے تو ممکنہ طور پر مزید نازل ہونے والی وحی کہاں لکھی جاتی؟ اس لیے نبی ﷺ کی زندگی میں قرآن مکمل طور پر محفوظ کرنے کے باوجود ایک کتابی شکل میں یکجا نہیں کیا گیا تھا۔ نبی ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشاورت کے ساتھ باہمی اتفاق کرتے ہوئے قرآن کو ایک مجلد مصحف کی شکل دی۔ اس مصحف میں لکھا جانے والا ایک ایک لفظ اہل بیت وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے کلی اتفاق سے لکھاگیا۔ لہٰذا کتابت قرآن میں کسی غلطی کے رہ جانے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔لہٰذا یہ کہنا سرے سے غلط ہے کہ قرآن میں کتابت کی غلطیاں باقی رہ جانا ممکن تھا۔اس سے بھی بڑھ کر یہ دعویٰ کرنا بہت بڑی جسارت ہے کہ قرآن میں کتابت کی ایسی غلطیاں ہیں جن کا نبی ﷺ اور صحابہ کو بھی پتہ ہی نہیں چلا۔
ہر زبان کا اصول یہ ہے کہ اسے بولتے وقت مخصوص قواعد کا اتنا خیال نہیں رکھا جاتا جتنا اسے تحریر کرتے وقت رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اکثر عرب چونکہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے انہوں نےنزول قرآن سے پہلے کبھی لگی بندھی گرامر (قواعد صرف و نحو) بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ تاہم اسلامی فتوحات کے نتیجے میں عجمی ممالک (رو م و فارس) میں اسلام کے پھیلنے کے بعد نو مسلم عجمیوں کو بغیر گرامر کے عربی زبان سیکھنے میں دقت پیش آتی تھی۔امام ذہبی ؒ کی سیر اعلام النبلا(جز4، صفحہ 82) میں مذکور ہے کہ باب العلم امام لمشارق والمغارب امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے لوگوں کی اس ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے عربی گرامر کےقواعد مرتب کرنے کی طرف توجہ فرمائی۔امام علی علیہ السلام نے اپنے شاگرد امام النحوابوالاسود الدولی ؒکو قرآن پر اِعراب لگانے کا طریقہ سکھایا، اس سے پہلے قرآن پر اعراب (زیر زبر پیش) نہیں لگائے گئے تھے۔نیز امام علی علیہ السلام نے ہی قرآن حکیم کی روشنی میں امام ابولاسود ؒ کی نحو کے قواعد بنانے میں رہنمائی کی۔مختصر یہ کہ عربی گرامر نزول قرآن کے بعد تشکیل دی گئی۔ صَرف و نحو کے قواعد جن سے ہم واقف ہیں وہ امام ابوالاسود الدولی اور ان کے بعد والوں نے ایجاد کیے ہیں۔امام ابولاسود الدولی ؒ کے بعد الخلیل بن احمد الفراہیدی (718–786 عیسوی) نے عربی گرامر کی گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں۔سیبویہ کی نحو کی کتاب الکتاب عربی گرامر کی پہلی مفصل کتاب مانی جاتی ہے جو کہ 760 سے 796 عیسوی کے درمیان لکھی گئی۔ غرض یہ عربی گرامر کےقواعد انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اورقرآن حکیم کے نزول کے بعد بنائے گئے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان قواعد کے محتاج نہیں تھے۔
جس قرآت اور کتابت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا اجماع ہے اسے اسی طرح درست مانا جائے گا جیسے وہ امت کو منتقل ہوا ہے۔ اگرچہ قرآن کی کسی مجمع علیہ آیت یا ترکیب کی قرآت یا کتابت بعد والوں کی بنائی ہوئی گرامر سے مطابقت نہ بھی رکھتی ہو۔
عصرِ حاضر میں انٹر نیٹ کی ایجاد کے بعد قرآن حکیم جب انٹرنیٹ پر یونی کوڈ میں اپ لوڈ کیا جاتا ہے تو مروجہ گرامر کی رو سے وہ قرآن کے بعض الفاظ کو انڈر لائن کردیتا ہے کہ یہاں گرامر کی غلطی ہے۔ جان لیجیے کہ اس سے مین سرور کی مراد یہ ہے کہ عربی زبان کی جو گرامرموجودہ زمانے میں رائج ہے اس کے مطابق اس عبارت کی ترکیب(سنٹیکس) درست نہیں یا اعراب میں فرق ہے۔
یہ بھی ذہن نشین رہے قرآن حکیم کی عربی معلیٰ اب اس نحوی ترکیب کے ساتھ عرب ممالک میں نہیں بولی جاتی جو قرآن کا خاصہ ہے، اس لیے ناواقف لوگ یہ سمجھے کہ شاید معاذاللہ قرآن میں گرامر کی غلطیاں ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ انگریزی بنیادی طور پر انگلینڈ کی زبان ہے، تاہم جب یورپ سے لوگ براعظم شمالی امریکہ میں منتقل ہوئے تو وہاں انگریزی زبان کا نیا لہجہ، نئے الفاظ اور نئی تراکیب وجود میں آئیں۔ یا بالفاظ دیگر ایک نئی انگریزی زبان وجود میں آگئی۔ اب اگر موبائل یا کمپیوٹر میں امریکی انگریزی زبان کو پرائمری لینگوئیج کے طور پر سیٹ کیا گیاہو، جیسا کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، تو جب انگلینڈ کی اصل انگریزی زبان کی ترکیب اور اسپیلنگ کے مطابق ٹائپنگ کی جاتی ہے تو کمپیوٹر اور موبائل گرامر یا اسپیلنگ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔حال آن کہ یہ گرامر اور اسپیلنگ اصل انگریزی زبان کے مطابق بالکل درست ہوتے ہیں۔ بالکل یہی معاملہ قرآن کی عربی زبان کے ساتھ ہوا ہے۔ لہذا فی الحقیقت قرآن میں عربی گرامرکی کوئی غلطی موجود نہیں، جن تراکیب کو بعض لوگوں نے غلطی سمجھ لیا ہے وہ اصلاً غلطی نہیں ہے بلکہ عربی معلیٰ کی رو سے وہ بالکل درست ہے۔واللہ اعلم