2025-07-12
سفینۂ نجات
سفینہ ٔ نجات

سفینہ ٔ نجات

از قلم ساجد محمود انصاری

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ الزَّاهِدُ، بِبَغْدَادَ، ثنا الْعَبَّاسُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْقَرَاطِيسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْأَحْمَسِيُّ، ثنا مُفَضَّلُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ حَنَشٍ الْكِنَانِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: وَهُوَ آخِذٌ بِبَابِ الْكَعْبَةِ مَنْ عَرَفَنِي فَأَنَا مَنْ عَرَفَنِي، وَمَنْ أَنْكَرَنِي فَأَنَا أَبُو ذَرٍّ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّ مَثَلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مِنْ قَوْمِهِ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ»

المستدرك على الصحيحين: رقم4720 

 ترجمہ:

جناب حنش کنانیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوذر غِفاری رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ کے دروازے کو تھامے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھےجس نے مجھے پہچانا، وہ پہچانتا ہے، اور جس نے مجھے نہیں پہچانا، تو (جان لے کہ) میں ابوذر ہوں۔

میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

’’خبردار! میرے اہلِ بیت کی مثال تم میں نوح علیہ السلام کے سفینے( کشتی) کی مانند ہے،جو اس (کشتی) میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا، اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔‘‘

یہ روایت امام حاکم کی کتاب “المستدرک علی الصحیحین” کی حدیث نمبر 4720 ہے۔اس کے علاوہ امام طبرانی ؒ نے اپنے معجم کبیر، معجم صغیر اور معجم الاوسط میں اس حدیث کی مختلف اسانید بیان فرمائی ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حدیث کم از کم حسن درجہ کی ہے۔یہ روایت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ کہ علاوہ سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام اور سیدنا ابو سعید الخدری  رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔

 سیدنا  ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیت اللہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اپنی شناخت کروا رہے ہیں تاکہ لوگ ان کے الفاظ کو معمولی نہ سمجھیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابی تھے، جن کی صداقت اور تقویٰ مشہور تھا۔

یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔اس حدیث کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، گویا اہل بیت کے سفینۂ نجات میں سوار ہونا ان پر بھی ویسے ہی واجب تھا جیسے بعد والی امت پر واجب ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مناقب و فضائل اپنے مقام پر قابل لحاظ اور لائق توجہ ہیں، تاہم کوئی بھی انصاف پسند شخص اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی اہل بیت رسول علیہم السلام کی محبت و مودت اور اتباع اسی طرح لازم تھی جیسے بعد والوں پر لازم ہے۔  گویا اس حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ جب فتنوں کا طوفان برپا ہو تو تم سب کے لیے نجات کاا یک ہی طریقہ ہے کہ اہلِ بیت رسول علیہم السلام کے سفینے میں سوار ہوجاؤ، ان کے  دامن سے وابستہ ہو جاؤ، ان کی مخالفت مت کرو بلکہ ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کردو۔ ہم امت کے بیترین زمانے میں جنم لینے والے تنازعات کے بارے میں جتنا بھی کف لسان کر لیں، اس حدیث کی روشنی میں یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ مذکورہ تنازعات میں حق اہل بیت علیہم السلام  کے ساتھ تھا۔یقیناً ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں سوئے ظن اور طعن و تشنیع سے اجتناب کرنا چاہیے، مگر اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت کو بھی نہیں جھٹلانا چاہیے۔ حدیث ثقلین حدیث سفینہ کو مزید کھول دیتی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

 سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا

 أَنَا تَارِکٌ فِیکُمْ ثَقَلَینِ: أَوَّلُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ فِیہِ الْھَدْيُ وَالنُّورُ فَخُذُوا بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوا بِہِ فَحَثَّ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ وَرَغَّبَ فِیْہِ۔ ثُمَّ قَالَ: وَأَھْلُ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي

یں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے پہلی  چیز اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں ہدایت اور نور ہے پس تم کتاب اللہ کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ مضبوطی اختیار کرو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کے حوالے سے لوگوں کو ابھارا اور ترغیب دلائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور (دوسری عظیم چیز) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ  کی یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں اللہ  کی یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، یعنی اللہ سے ڈراتا ہوں۔

(صحیح مسلم)

حدیث ثقلین سے واضح ہے کہ دین میں اہل  بیت علیہم السلام کی وہی اہمیت ہے جو قرآن  حکیم کی اہمیت ہے، جس طرح ہدایت کے حصول کے لیے قرآن سے تمسک ضروری ہے اسی طرح سنت کے بعد اہل بیت رسول علیہم السلام سے تمسک بھی ضروری ہے۔ یہاں اہل بیت سے محض محبت کرنے کا تقاضہ نہیں کیا جارہا بلکہ امت کو باور کرایا جارہا ہے کہ اہل بیت خاصہ قرآن و سنت کے بعد حجتِ شرعی ہیں جن کی پیروی لازم ہے۔ہمارے اس دعویٰ کی تائید حدیث ثقلین کے ایک دوسرے طریق سے ہوجاتی ہے:

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں

أيُّها الناس، إنِّي تاركٌ فيكم أمرينِ لن تضلُّوا إن اتَّبعتموهما، وهما: كتابُ الله، وأهلُ بيتي عِترتي

اے لوگو! میں تمھارے بیچ دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں , تم جب تک ان کی پیروی کرتے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے, یعنی اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت۔

(مستدرک للحاکم: رقم 4577)

 حدیثِ ثقلین بھی   حدیث سفینہ کی طرح اہل بیت کی فضیلت اور تمام امت مسلمہ  کے لیے ان کی رہنمائی کی اہمیت کو بیان کرتی ہے۔حدیث سفینہ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے اہل بیت  علیہم السلام کی مثال سیدنا نوح علیہ السلام کی کشتی سے دی۔ اس کشتی میں جو لوگ سوار ہوئے، وہ طوفان سے بچ گئے۔ جو نہیں چڑھے، وہ ہلاک ہو گئے۔اس تشبیہ سے مراد یہ ہے کہ اہل بیت کی محبت اور اطاعت امت کے لیے ذریعہ نجات ہے۔جو شخص اہل بیت کی مخالفت یا ان سے بے رخی اختیار کرے، وہ دین میں گمراہ ہو سکتا ہے۔

غرض حدیث سفینہ کی رو سے  اہل بیت علیہم السلام سے محبت اور ان کی اطاعت واجب ہے ۔اس حدیث مبارک کا  مفہوم یہ ہے کہ اہل بیت رسول علیہم السلام دین کے صحیح منہج کی طرف رہنمائی کرتے ہیں،ان کی باتوں، سیرت، اور تعلیمات میں حق کی روشنی ہوتی ہے۔ دنیا و آخرت میں نجات درکار ہے تو اہل بیت کے سفینے میں سوار ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading