2025-04-26
بیتِ فاطمہ

بیتِ فاطمہ سلام اللہ علیہا

از قلم ساجد محمود انصاری

جب مسجد نبوی تعمیر کی گئی تو نبی ﷺ نے اپنی رہائش کے لیے مسجد سے متصل کئی حجرے بنوائے تھے، جن میں حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں نبی ﷺ مدفون ہیں۔  چونکہ امام علی علیہ السلام کو نبی ﷺ نے پالا تھا اور وہ مکہ مکرمہ میں آپکے ہمراہ ہی رہائش پذیر تھے، اس لیے مدینہ میں نبی ﷺ نے ایک حجرہ ان کے لیے بھی  اپنے حجروں کے ساتھ ہی تعمیر کروادیا تھا۔ سیدہ فاطمہ علیہا السلام اسی گھر میں رخصت ہوکر آئیں اور انہوں نے یہیں پر اپنی مدنی زندگی بسر کی۔ اسی لیے  یہ گھر بیت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نام سے مشہور ہوا۔

عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ، فَسَأَلَهُ عَنْ عُثْمَانَ،، فَذَكَرَ عَنْ مَحَاسِنِ، عَمَلِهِ، قَالَ لَعَلَّ ذَاكَ يَسُوؤُكَ‏.‏ قَالَ نَعَمْ‏.‏ قَالَ فَأَرْغَمَ اللَّهُ بِأَنْفِكَ‏.‏ ثُمَّ سَأَلَهُ عَنْ عَلِيٍّ، فَذَكَرَ مَحَاسِنَ عَمَلِهِ قَالَ هُوَ ذَاكَ، بَيْتُهُ أَوْسَطُ بُيُوتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم‏.

(صحیح البخاری: رقم 3704)

ترجمہ:سعد بن عبیدہ ؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوکر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھنے لگا تو سیدنا ابن عمر ؓ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ  کی خوبیاں بیان کیں اور ان کے نیک اعمال کا تذکرہ کیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی سے فرمایا کہ شاید تمہیں یہ سب سن کر تکلیف پہنچی ہے تو اس شخص نے ہاں میں جواب دیا جس پر سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا کہ تیری ناک خاک آلود ہو۔ تب وہ شخص سیدنا علی علیہ السلام کے بارے میں پوچھنے لگا تو سیدنا ابن عمر ؓ نےنے سیدنا علی علیہ السلام کی خوبیاں اور نیک اعمال کا تذکرہ کیا اور فرمایا کہ ان کی خاص بات یہ تھی کہ ان کا گھر نبی ﷺ کے گھروں کے بیچ (مسجد نبوی کے ساتھ ہی ) تھا۔

مستند احادیث میں مذکور ہے  کہ نبی ﷺ کاسیدہ فاطمہ علیہا السلام کے نکاح کے بعد تقریباً چھ مہینے تک یہ معمول رہا کہ جب آپ نماز فجر کے لیے اپنے حجرے سے نکلتے تو سیدہ فاطمہ  علیہا السلام کے دروازے کے پاس کھڑے ہوکر آپ کو نماز کے لیے بیدار کرتے تھے۔

عن أنس بن مالك ، رضي الله عنه ، قال : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمر بباب فاطمة ستة أشهر إذا خرج إلى صلاة الفجر يقول : ” الصلاة يا أهل البيت ، ( إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا )

(مسند احمد: رقم 14040، جامع الترمذی: رقم 3206)

ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھ مہینے تک جب فجر کی نماز کے لیے نکلتے تو فاطمہ علیہا السلام کے دروازے کے پاس سے گزرتے اور فرماتے: 

نماز (کا وقت ہے) اے اہلِ بیت! (بے شک اللہ یہی چاہتا ہے کہ وہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی دور کر دے، اے اہلِ بیت! اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔)

ابتدا میں مسجد نبوی میں کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دروازے کھلتے تھے  لیکن پھر نبی ﷺ نے امام علی علیہ السلام کے دروازے کےسوا باقی سب دروازے بند کرنے کا حکم ارشاد فرمایا کیوں کہ ان ے  گھر کا دروازہ نبی ﷺ کے گھروں کی طرح  صرف مسجد نبوی میں ہی کھلتا تھا۔

عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ” امر بسد الابواب إلا باب علي “.

(جامع الترمذی: رقم 3732،،السنن الکبریٰ للنسائی: رقم 8571 ) .

عبداللہ بن عباس علیہما السلام کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیہ السلام کے دروازے کے علاوہ (مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام) دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔

عن زيد بن أرقم قال

كان لنفر من أصحاب رسول الله أبواب شارعة في المسجد فقال يوما : ( سدوا هذه الأبواب إلا باب علي ) ، قال : فتكلم في ذلك الناس .

قال : فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فحمد الله تعالى وأثنى عليه . ثم قال :

( أما بعد ؛ فإني أمرت بسد هذه الأبواب إلا باب علي وقال فيه قائلكم ، وإني – والله – ما سددتُ شيئاً ولا فتحته ، ولكني أُمِرتُ بشيء فاتبعته

(مسند احمد: رقم ، 19287،السنن الکبریٰ للنسائی: رقم 8567 )

ترجمہ:سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے، پھر ایک روز  نبی ﷺنے ارشاد فرمایا کہ علی کے دروازے کے سوا سب دروازے بند کردئیے جائیں۔ اس بارے میں بعض لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے تو رسول اکرم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ بے شک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں علی کے دروزے کے سوا باقی سب صحابہ کے دروازے بند کردوں اور تم لوگ اس کے بارے میں چہ مگوئیاں کرتے ہو۔ اللہ کی قسم میں کسی دروازے اپنی جانب جانب سے کھولتا یا بند نہیں کرتا بلکہ مجھے تو حکم دیا گیا ہے جس کی میں پیروی کررہا ہوں۔

اس کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے مسجد میں کھلنے والے  دروازے بند کرکے مسجد نبوی میں  جھانکنے کے لیے دریچے (کھڑکیاں) بنالیے۔ لیکن بعد میں نبی ﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کےسوا باقی سب کے دریچے  بھی بند کرنے کا حکم ارشاد فرمادیا۔

سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام سے ہی مروی ہے :

وقالَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: إنَّ مِن أمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ في صُحْبَتِهِ ومالِهِ أبا بَكْرٍ، ولو كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِن أُمَّتي لاتَّخَذْتُ أبا بَكْرٍ، إلَّا خُلَّةَ الإسْلامِ، لا يَبْقَيَنَّ في المَسْجِدِ خَوْخَةٌ إلَّا خَوْخَةُ أبِي بَكْرٍ.

(صحیح البخاری: رقم 3904، صحیح مسلم: 2382)

ترجمہ:رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر اپنی صحبت اور مال کے ذریعے باقی  سب لوگوں سے زیادہ احسان کیا ہے۔ اگر میں خود سے کسی کو جگری یار بناتا تو ابوبکر کو ہی بناتا مگر اسلام کی دوستی ہی کافی ہے۔ مسجد نبوی میں کسی کا دریچہ کھلا نہ چھوڑو سوائے ابوبکر کے دریچے کے۔

امام ابن حجر العسقلانی ؒ مذکورہ بالا دونوں قسم کی روایات کے بارے میں فرماتے ہیں:

وَلا مُعَارَضَةَ بَيْنَهُمَا بَلْ حَدِيثُ سَدِّ الأَبْوَابِ غَيْرُ حَدِيثِ سَدِّ الْخَوْخِ لأَنَّ بَيْتَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ كَانَ دَاخِلَ الْمَسْجِدِ مُجَاوِرًا لِبُيُوتِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم

(القول المسدد في الذب عن مسند أحمد: صفحہ 18)

ترجمہ: ان حادیث میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ دروازے بند کرنے کا حکم دریچے بند کرنےکے حکم سے الگ ہے۔ایسا اس لیے ہوا  کہ امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کا گھر نبی ﷺ کے پڑوس میں مسجد نبوی میں داخل تھا۔

علامہ بدرالدین عینی حنفی ؒ انہی روایات کے بارے میں فرماتے ہیں:

قلت جمع بينهما بان المراد بالباب في حديث على الباب الحقيقي. والذي في حديث ابي بكر يراد به الخوخة كما صرح به في بعض طرقه

(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، جلد 16، صفحہ 176)

ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ ان روایات میں تطبیق ممکن ہے۔ وہ اس طرح کہ اس حدیث میں با ب علی سے مراد حقیقی دروازہ ہے جبکہ سیدنابوبکر رضی اللہ عنہ کا دروازہ نہیں بلکہ دریچہ مراد ہے جیسا کہ کئی احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔

ہمارے نزدیک ان احادیث میں باب یا دریچے سے خلافت مراد نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا زعم ہے بلکہ ان احادیث میں ان بزرگ ہستیوں کی دوسرے اصحاب پر  مخصوص فضیلت کی طرف اشارہ ہے نہ  کہ خلافت کی طرف۔ یہ جو بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا دروازہ توڑ دیا تھا یا اسے آگ لگا دی تھی تو یہ محض من گھڑت قصہ ہے جس کا حقیقت سے دور بھی واسطہ نہیں۔

Be the first to write a review

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading