
مسلم ریاست میں قوانین کی تشکیل
از قلم ساجد محمود انصاری
دین اسلام کامل نظامِ حیات ہے جو انفرادی و اجتماعی، سیاسی و سماجی اور نفسیاتی مسائل کا قابل عمل اور شافی حل پیش کرتا ہے۔ اسلام کی بنیاد قرآن و سنت، اجماع امت اور فتاویٰ اہلِ بیت و اصحاب پر رکھی گئی ہے اور یہی اسلامی قوانین کے اصولی مصادر ہیں۔ لہٰذا کوئی بھی ریاست مسلم ریاست نہیں کہلا سکتی تاوقت یہ کہ اس میں قوانین کا مأخذ و مصدر مندرجہ بالا منابع کو تسلیم نہ کیا جائے۔
اسلامی قوانین قرآن وسنت میں متفرق شکل میں پائے جاتے ہیں۔ یعنی قرآن و سنت میں صرف اسلامی قوانین بیان نہیں کیے گئے بلکہ عقائد، عبادات، اخلاقیات اور سیرت انبیا بھی بیان کی گئی ہے۔ اسلامی قوانین سے متعلق نصوص ان سب موضوعات کے درمیان متفرق حالت میں مندرج ہیں۔ لہٰذا علمائے اسلام نے اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہی اسلامی قوانین کی تدوین کی ضرورت کو بھانپ لیا تھا۔ اسی مقصد کے تحت علمِ فقہ وجود میں آیا جس کی تدوین آئمہ فقہا نے سر انجام دی۔ ان فقہا میں امام زید بن علیؒ، امام جعفر صادقؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ سرِ فہرست ہیں۔
سادہ لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ علمِ فقہ اسلامی قوانین کا دوسرا نام ہے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانہ مبارک میں علمِ فقہ کی تدوین کی ضرورت کیوں پیش نہیں آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تین خلفائے راشدین ؓ کے زمانہ میں علمِ فقہ باب العلم امیر المؤمنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کی شکل میں بطور قاضی القضاۃ(چیف جسٹس) مجسم موجود تھا۔ علمِ فقہ امام علی علیہ السلام کے زمانۂ خلافت میں اپنےجوبن پر پہنچ گیا۔ اس کے علاوہ خلفائے راشدینؓ سبھی خود بھی علمِ فقہ کے پہاڑ تھے۔نیز مدینہ میں فقہائے سبعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علم کے جامع موجود تھے جن کا فتویٰ سارے عالمِ اسلام میں جاری تھا۔تاہم جب علمِ فقہ کے یہ پہاڑ دنیا سے رخصت ہوگئے اور فرداً فرداً لوگوں کے علم و تفقہ کا معیار چونکہ اہل بیت و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسا نہ ہوسکتا تھااس لیے ضرور ت محسوس ہوئی کہ علمِ فقہ کو کتابی شکل میں مدوّن کیا جائے تاکہ اسلامی عدالتوں میں قاضیوں کی رہنمائی کے لیے مرتب شکل میں قوانین موجود ہوں جن کی روشنی میں وہ فیصلے کرسکیں۔
جدید زمانہ میں مسلم ریاست کے معاملات پہلے سے کہیں پیچیدہ اور گنجلک ہیں۔ تمدن کی ترقی سے جدید مسائل رونما ہوچکے ہیں جیسےشناختی کارڈ، نکاح نامے اور پاسپورٹ کے مسائل، سائبر سیکورٹی کے مسائل، ٹریفک کے مسائل، جدید صنعتوں میں ٹیکنالوجی کے استعمالات اور جدید طبی مسائل وغیرہ کی وجہ سے بہت سے قوانین وضع کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لہٰذا قرآن و سنت کی روشنی میں نئے قوانین کی تشکیل وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ بعض ذہنوں میں جدت کا لفظ آتے ہی خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوجاتی ہیں،وہ یہ سمجھتے کہ ہیں جدت سے مراد شاید پرانے قوانین کو بدل کر ان کی جگہ نئے قوانین وضع کرنا ہے۔ حاشا و کلا ایساہرگز نہیں ہے۔ جدید مسائل سے مراد صرف وہ مسائل ہیں جن کا وجود پہلے نہ تھا۔ مثال کے طور پر ریل گاڑی کی ایجاد سے پہلے ریلوےٹکٹ کا کوئی تصور نہ تھا۔اب ظاہر ہے کہ ریلوے کا محکمہ چلانے کے لیے نئے قوانین بنانے کی ضرورت پیش آئی۔ ہوائی جہاز کی ایجاد کے بعد ہوائی سفر سے متعلق قوانین کی تشکیل کا تقاضہ پیدا ہوا اور کسٹم قوانین وجود میں آئے۔ قرآن و سنت میں صرف اصولی قوانین بیان کیے گئے ہیں ان کی جزوی تفصیلات فروعات کی شکل میں علمِ فقہ میں ظاہر ہوئیں۔ آج بھی نئی سے نئی ٹیکنالوجی وجود میں آرہی ہے اور ان سے متعلق قوانین کی تشکیل کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس لیے یہ سوال کہ قرآن و سنت کی موجودگی میں قوانین کی تشکیل کی کیا ضرورت ہے صرف ان ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے جو نہ صرف علمِ فقہ سے نابلد ہیں بلکہ وہ دورِ جدید میں مسلم ریاست کے تقاضوں سے ہی ناواقف ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سوال سب سے زیادہ خوارج کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے۔ یہ لوگ قوانین کی تشکیل جدید کو کفر قرار دے کر مسلم حکمرانوں کو بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیتے ہیں کیونکہ قانون سازی کا حق تو صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ قوانین کی تشکیل جدید شریعت سازی نہیں ہے بلکہ قرآن و سنت میں بیان کیے گئے قوانین کا جدید اطلاق ہے۔
البتہ بعض ایسے مسائل بھی ہیں جن میں اسلامی قوانین کے عملی اطلاق کے بارے میں اجتہاد کی ضرروت پیش آتی ہے۔ جیسے عدالت میں شہادتوں کے بعد کسی کا قاتل ثابت ہوجانے پر اسے سزائے موت دینے کے طریقہ کار کے بارے میں اجتہاد کی گنجائش ہے۔ اگرچہ علما کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا قاتل کو سب کے سامنے سرِعام تلوار سے قتل کرنے کی بجائے کسی الگ تھلگ جگہ پر خاموشی سے پھانسی دی جاسکتی ہے یا نہیں ، مگر یہ کہنادرست نہیں کہ اس طرح اسلامی سزا سرے سے نافذ ہی نہیں ہوتی ۔ یہی معاملہ بعض دوسری سزاؤں کا بھی ہوسکتا ہے۔غرض یہ سب اجتہادی مسائل ہیں جن میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے، مگر خوارج کا کمال یہ ہے کہ وہ اسے ایمان و کفر کا مسئلہ بنادیتے ہیں۔