
امام علی علیہ السلام نےمرتدین کو آگ میں جلانے کی سزا کیوں دی؟
از قلم ساجد محمود انصاری
عبداللہ بن سبا یہودی نے ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلامی عقائد پر تیشہ چلانا شروع کیا تو امام علی علیہ السلام نے اس کی سرکوبی کی ٹھان لی۔ ابن سبا تو خود روپوش ہوگیا مگر اس کے حواری اس کے عقائد کا پرچار کرنے لگے، جس میں بدترین عقیدہ امام علی علیہ ا لسلام کو خدا ماننے کا عقیدہ تھا۔ امام علی علیہ السلام نے بھانپ لیا تھا کہ ابن سبا کے حواری امت مسلمہ کے لیے کتنے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، چنانچہ انہوں نے ان مرتدین کو عبرتناک سزا دینے کا فیصلہ کیا ، جوکہ انہیں زندہ جلا دینے کا فیصلہ تھا۔
صحیح بخاری میں وارد ہوا ہے
کتاب: جہاد اور سیرت رسول اللہ ﷺ
باب: باب: اللہ کے عذاب (آگ) سے کسی کو عذاب نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 3017
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ عَلِيًّا ـ رضى الله عنه ـ حَرَّقَ قَوْمًا، فَبَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحَرِّقْهُمْ، لأَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ ”. وَلَقَتَلْتُهُمْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ” مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ ”.
ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے عکرمہ نے کہ علی ؓ نے ایک قوم کو (جو عبداللہ بن سبا کی متبع تھی اور علی ؓ کو اپنا رب کہتی تھی) جلا دیا تھا۔ جب یہ خبر عبداللہ بن عباس ؓ کو ملی تو آپ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو کبھی انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب کی سزا کسی کو نہ دو ‘ البتہ میں انہیں قتل ضرور کرتا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو۔
اس حدیث کے سرسری مطالعہ سے یوں لگتا ہے کہ معاذاللہ امام علی علیہ ا لسلام نے رسول اکرم ﷺ کے حکم کی مخالفت فرمائی۔ حاشا وکلا ایسا نہیں ہے۔
یاد رکھیں کہ جب ہم کسی بھی روایت کو دوسری تمام روایات سے الگ کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو مغالطوں کا شکار ہونا لازم ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی آیت کو سیاق سباق سے الگ کرکے اس سے مفہوم نکالا جائے۔
مذکوہ حدیث سے پچھلی حدیث (رقم 3016) میں واضح طور پر ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے بھی کچھ لوگوں کو جلا ڈالنے کا حکم ارشاد فرمایا تھا مگر پھر کسی مصلحت کے سبب یہ حکم روک دیا تھا۔
مکمل حدیث ملاحظہ کیجیے
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُ قَالَ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْثٍ فَقَالَ ” إِنْ وَجَدْتُمْ فُلاَنًا وَفُلاَنًا فَأَحْرِقُوهُمَا بِالنَّارِ ” ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ أَرَدْنَا الْخُرُوجَ ” إِنِّي أَمَرْتُكُمْ أَنْ تُحْرِقُوا فُلاَنًا وَفُلاَنًا، وَإِنَّ النَّارَ لاَ يُعَذِّبُ بِهَا إِلاَّ اللَّهُ، فَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمَا فَاقْتُلُوهُمَا ”.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ ہمیں ایک مہم پر بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو ہم سے فرمایا کہ اگر تم فلاں فلاں اشخاص پر قابو پالو تو انہیں آگ میں جلا دینا۔پھر جب ہم روانہ ہونے لگے تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں نے پہلے تم سے یہ کہا تھا کہ فلاں فلاں کو جلا دینا، (پھر مجھے خیال گزرا کہ) کہ آگ کا عذاب تو اللہ ہی دیتا ہے، لہٰذا اب اگر تم ان پر قابو پالو تو انہیں قتل کردینا۔
نبی ﷺ کے اصل الفاظ تھے
إِنَّ النَّارَ لاَ يُعَذِّبُ بِهَا إِلاَّ اللَّهُ
جس سے سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام نے حرمت مراد لی اور نبی ﷺ کے الفاظ کو مفہوم بیان کردیا جو انہوں نے سمجھا۔مگر سیدنا علی علیہ السلام نے نبی ﷺ کے الفاظ سے کراہت تنزیہی مراد لی۔گویا اصل معاملہ ان دونوں صحابہ کے اجتہاد میں اختلاف کا ہے۔ ہمارے نزدیک امام علی علیہ السلام کا اجتہاد سیدنا ابن عباس علیہما السلام کے اجتہاد سے مقدم ہے، اس لیے کسی کو یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ امام علی علیہ السلام نے نبی ﷺ کے قول کی مخالفت کی ہے یا وہ اس مسئلہ میں نبیﷺ کی تعلیمات سے ناواقف تھے۔ (معاذاللہ) جس ہستی کے بارے میں میں قرآن کی آیت تطہیر نازل ہوئی، جنہیں نبی ﷺ حکمت کا دروازہ قرار دیں ان کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے کبھی رسول اکرم ﷺ کے فرمان عالیشان کی مخالفت کی ہوگی۔ امام علی علیہ السلام سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے عہد خلافت میں بعض مرتدین کو آگ میں جلانے کی سزا دی تھی جیسا کہ امام قتادہ بن دعامہ ؒ نے اس کی صراحت کی ہے: فبعث الله عصابة مع أبي بكر، فقاتل على ما قاتل عليه نبيّ الله صلى الله عليه وسلم، حتى سبَى وقتل وحرق بالنيران أناسًا ارتدّوا عن الإسلام ومنعوا الزكاة
پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اٹھایا سو انہوں نے اسلام سے پھر جانے والوں اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح قتال کیا جیسا کہ نبی ﷺ نے قتال کیا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں قیدی بنایا گیا، قتل کیا گیا اور آگ میں جلایا گیا۔