
کیا پاکستان کا نظام طاغوتی نظام ہے؟
از قلم ساجد محمود انصاری
ہمارے بہت سے جذباتی نوجوان شدّت پسندوں کے اس پراپیگنڈے سے متأثر ہوجاتے ہیں کہ پاکستان میں چونکہ 1935 کا برطانوی قانون نافذ ہے اس لیے پاکستان ایک طاغوتی ریاست ہے اور یہ کہ پاکستان میں بھی مغربی ممالک کی طرح طاغوتی نظام رائج ہے۔اس مفروضے کی بنیاد پر ہزاروں نوجوان دہشتگرد بنے، سینکڑوں نے پاک فوج کے مجاہدین پر خودکش حملے کیے اور انہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
دراصل ہمارے یہ نوجوان نہ تو علمِ سیاسیات سے مناسب شغف رکھتے ہیں اور نہ ہی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ ملک کیسے بنتے ہیں؟ ان میں قانون سازی کا عمل کیسے ارتقا پذیر ہوتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کسی ریاست کو چلانے کے لیے دستور کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ یہ نوجوان ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کرتے اس لیے وہ بڑی آسانی سے دہشتگردوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
دستور کی ریاست کے نظام میں وہی حیثیت ہے جو ہمارے جسم میں ریڑھ کی ہڈی کی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ریڑھ کی ہڈی میں نقص بھی پڑ جائے تو آدمی حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا چہ جائے کہ وہ ہشاش بشاش چل پھر سکے۔ غور کیجیے اگر سرے سے جسم میں ریڑھ کی ہڈی موجود ہی نہ ہو تو جسم گوشت کے ایک ڈھیر کی شکل میں ایک جگہ ساکت وجامد پڑا رہےگا۔ دستور بھی ریاست کے کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔دستور نہ صرف یہ طے کرتا ہے کہ ریاست کا ڈھانچہ کیسا ہوگا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ریاست کو چلانے کے بنیادی اصول و قواعد کیا ہوں گے۔اگر دستور معایاری یا غیر معیاری صورت میں سرے سے موجود ہی نہ ہو تو کسی بھی ریاست کا نظام چلانا ممکن نہیں۔ حتیٰ کہ جابرو ظالم بادشاہت تک میں کچھ دستوری نکات تحریری یا زبانی طور پر طے ہوتے ہیں، جن کے بغیر ایک مطلق العنان بادشاہ کی حکومت بھی نہیں چل سکتی۔
تحریکِ آزادیٔ ہند کے نتیجے میں انگریز سرکار یعنی تاجِ برطانیہ بالآخر ہندوستان (پاک و ہند) کو خودمختاری دینے پر آمادہ ہوئی تو اس کے لیے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹبیٹن نے ابتداً جو طریقہ کار تجویز کیا اسے ڈکی برڈ پلان کہتے ہیں۔اپریل 1947 میں ڈکی برڈ پلان میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ ہندوستان کے ہر صوبے (مثلاً مدراس، بمبئی، بنگال، پنجاب وغیرہ) کو خودمختاری دے دی جائے اور بعد میں صوبے خود فیصلہ کرلیں کہ آیا وہ کسی وفاق یعنی کنفیڈریشن کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔ ہندو اور مسلم رہنماؤں نے اس تجویز کو قبول نہ کیا ۔ بالآخر 3جون 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نےمتحدہ ہندوستان کی خودمختاری کا ایک نیا فارمولا پیش کیا جسے ہندوستانی رہنماؤں کی اکثریت نے قبول کرلیا۔اس منصوبے کے تحت جب تاجِ برطانیہ نے متحدہ ہندوستان کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے 1947 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ایک قانون پاس کیا گیا جسے قانون آزادیٔ ہند کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور تقریباً تمام ہندوستانی رہنماؤں نے اس قانون کا خیرمقدم کیا۔اس قانون کے مطابق انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کی اپنی اپنی دستورساز اسمبلی ہوگی جو اپنے اپنے ملک کے لیے دستور تیار کرے گی۔ جب تک دستورساز اسمبلیاں اپنا دستور تیار نہیں کرلیتیں اس وقت تک وہ تاجِ برطانیہ کے بنائے ہوئے برٹش انڈیا کونسٹی ٹیوشن (1935 ایکٹ) کو مناسب ترامیم کے ساتھ عبوری دستور کے طورپر استعمال کریں گی۔
آزادیٔ ہند قانون تاجِ برطانیہ کا صرف ایک فرمان ہی نہیں تھا بلکہ تمام فریقوں کے درمیان ایک میثاق ومعاہدہ بھی تھاجسے تمام فریقوں نے برضا ورغبت تسلیم کیا تھا۔
اس معاہدے کی مثال میثاقِ مدینہ ہے جو دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا جو کہ ریاستِ مدینہ میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔میثاقِ مدینہ میں بنیادی فریق مسلمان اور یہودی تھے اور یہ معاہدہ انہیں فریقوں کے مابین طے ہوا تھا۔میثاقِ مدینہ کی تفصیل سیرت کی کتب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔اس معاہدے کی ایک اہم شِق یہ بھی تھی کہ یہودی اور مسلم کمیونٹی ایک دوسرے کی حلیف ہوگی اور مل کر مدینے کا دفاع کرے گی۔
گویا میثاقِ مدینہ میں یہودی اور مسلم کمیونٹی کا ایک بڑاا لائنس تشکیل دیا گیا تھا تاکہ مشرکین مکہ کے ممکنہ حملوں کا منہ توڑ جواب دیاجاسکے۔اگرچہ یہ الائنس صرف چند سال ہی قائم رہ سکا، مگر اس میں ہمارے لیے رہنمائی ہے کہ کسی عبوری دور میں اس طرح کے کڑوے فیصلے بھی کیے جاسکتے ہیں۔چناں چہ قیامِ پاکستان کے وقت 1935 کے ایکٹ کو بطور عبوری دستور نافذ کرنا ایسا ہی ایک کڑوا فیصلہ تھا۔دوسرے لفظوں میں ایک بت پرست ریاست نے بت پرستی ترک کرکےتوحیدِ باری تعالیٰ کی طرف پہلا قدم بڑھایا تھا۔آخر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے پہلا دستور تیار کرلیا جسے 1956 میں نافذ کیا گیا۔ جس کی پہلی تین لائنیں یہ ہیں:
In the name of Allah, the Beneficent, the Merciful
Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Allah Almighty alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
Whereas the Founder of Pakistan, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, declared that Pakistan would be a democratic State based on Islamic principles of social justice;
گویا اس قانون کے ذریعے ریاستِ پاکستان کو باقاعدہ مسلمان کرلیا گیا تھا جو اللہ تعالیٰ کو اقتدارِ اعلیٰ کا مالک مانتی اور جانتی ہے۔یہ وہ لمحہ تھا کہ جب ریاستِ پاکستان نے اسلام قبول کرکے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیا تھا۔بعد میں 1973 میں موجودہ دستورنافذ ہوا، جس کے تحت نوّے فیصد کے قریب قوانین کو اسلامائز کیا جاچکا ہے۔1973 کے دستور میں 280دفعات ہیں،جن میں سے کسی ایک شق کے بارے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اسلام کے بنیادی مسلمات کے خلاف ہے۔ ہاں بعض دفعات کے بارے میں اختلافِ رائے ہوسکتا ہے کہ انہیں کس طرح سوفیصد اسلامی روح کے مطابق ڈھالا جائے۔
اب ذرا درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے:
سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو ثقیف کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا، تاکہ اس طرح ان کے دل اسلام کے لیے مزید نرم ہو جائیں، ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ شرط پیش کی کہ جب سرکاری اہل کار ان کے پاس زکوۃ کی وصولی کے لیے آئیں تو وہ ان کو اس بات پرمجبور نہیں کریں گے کہ ہم اپنے اموال وہاں لے جائیں جہاں وہ بیٹھا ہو ا ہو بلکہ وہ ہماری قیام گاہوں پر آکر زکوۃ وصول کرے، اور ان سے مال کا عشر(دسواں حصہ) بھی نہ لیا جائے اور ان کو نماز کی پابندی سے مستثنیٰ کیا جائے اور یہ کہ ان پر باہر کا کوئی آدمی عامل یا امیر مقرر نہ کیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وصولی زکوۃ کے لیے عامل تمہاری اقامت گاہوں پر پہنچے گا اور تمہیں اپنے اموال اس کے پاس نہیں لے جانا ہوں گے اور تم سے اموال کا دسواں حصہ بھی نہیں لیا جائے گا اور تمہارے اوپر تمہارے قبیلے کے علاوہ کسی دوسرے قبیلے کے آدمی کو عامل یا امیر مقرر نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جس دین میں رکوع (یعنی نماز) نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں۔ سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ اللہ کے رسول ! مجھے قرآن سکھائیں اور مجھے میری قوم کا امام مقرر کر دیں۔
مسند امام احمد: رقم 18074
دیکھیے کہ رسول اکرم ﷺ نے کمال شفقت و رحمت سے بنو ثقیف کے لوگوں کو بت پرستی ترک کرکے اسلام قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے پر آمادہ کیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ بعد میں بنو ثقیف اسلام کے ہراول دستوں شامل ہوتے تھے۔ فاتحِ ہند محمد بن قاسم کا تعلق بھی بنو ثقیف سے تھا۔اب کیا بنو ثقیف کے ان بزرگوں کی عظمت سے انکار کیا جاسکتا ہے جنہوں نے حالتِ ایمان میں نبی ﷺ کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا اور آپ سے دین بھی سیکھا۔ البتہ نبی ﷺ نے اس تعلیم کے لیے تدریج کا رستہ اختیار فرمایا۔
فرض کریں کہ آج قوم فیصلہ کرلیتی ہے کہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بجائے امارتِ اسلامیہ پاکستان کہا جائے گا۔ کیا اس نام کی تبدیلی سے دستور مکمل طور پر بدل جائے گا؟ کیا اقتدارِ اعلیٰ کا مالک تبدیل ہوجائے گا؟ کیا امیرالمؤمنین یا خلیفہ کے فرائض صدر یا وزیراعظم سے مختلف ہوں گے؟ کیا مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) سے مشاورت ترک کردی جائے گی؟ کیا پولیس کو گھر بھیج دیا جائے گا؟ کیا فیصلے عدالتوں کی بجائے کہیں اور ہوا کریں گے؟ کیا مسلح افواج کے مجاہدین تلواروں سے لڑا کریں گے؟ ایسا کچھ نہیں ہوسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کے تمام لوازمات موجود ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی انفرادی و اجتماعی طور پر دین اسلام پر کتنا عمل کرتے ہیں؟ ہم اپنے گھر میں سو فیصد اسلامی طرزِ زندگی اپنا لیں توپاکستان جنت بن جائے۔ہاں دستوری وقانونی سطح پر جو نقائص موجود ہیں انہیں اجتماعی سیاسی جدوجہد کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کا یہ حل ہرگز نہیں کہ آپ ریاستِ پاکستان کو طاغوت اور اس کے اداروں کو طاغوتی ادارے قرار دے کردہشتگردی پر آمادہ ہوجائیں اور خودکش حملہ آوربننے کو دین کی خدمت سمجھنے لگیں۔