2025-07-06
ڈیفنس بجٹ

از قلم ساجد محمود انصاری

پاک فوج افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کی پانچویں بڑی فوج ہے۔ پاک فوج میں خدمات سرانجام دینے والے خوش نصیبوں کی تعداد ایک ملین (دس لاکھ) کے قریب ہے، ان یک ملین فوجیوں کی تنخواہیں رہائش، خوراک، یونیفارم، تربیت، آمدو رفت کے اخراجات اور ریٹائرڈ فوجیوں کے لیے پنشن اور مراعات کے لیے ہر سال ایک خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے جس کا ایک بڑا حصہ ڈیفنس بجٹ کی صورت میں قومی بجٹ سے فراہم کیا جاتا ہے۔

ذیل میں دنیا کے ان15 سرِ فہرست (Top Fifteen) ملکوں کے نام دئیے گئے ہیں جو اپنی قومی فوج پر باقی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ان 15ممالک میں امریکہ، چین، روس، بھارت، سعودی عرب، برطانیہ، جرمنی، یوکرائن، فرانس، جاپان اور جنوبی کوریا علی الترتیب سرِ فہرست ہیں۔

Statistic: Countries with the highest military spending worldwide in 2023 (in billion U.S. dollars) | Statista
Find more statistics at Statista

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کی پانچویں بڑی فوج ہونے کے باوجود پاکستان اپنی قومی فوج پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے 15 ممالک کی فہرست میں شامل نہیں۔ حال آن کہ امریکی فوج کی کل افرادی قوت 1.3 ملین (دس لاکھ تیس ہزار) ہے جبکہ وہ اپنی فوج پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہے۔ چلیں ہم اپنا موازنہ امریکہ کے ساتھ نہیں کرتے کہ وہ دنیا کی سپرپاور ہے اور اسے دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے پوری دنیا میں اپنی افواج کو حرکت دینا پڑتی ہے۔ ہمارا دشمن بھارت جس کی فوج کی کل افرادی قوت 1.4 ملین (دس لاکھ چالیس ہزار) ہے نے 2023 میں اپنی فوج پر 84 بلین ڈالر خرچ کیے جبکہ پاکستان کا 2024۔2025 کا ڈیفنس بجٹ کل 7 بلین ڈالر (2122 بلین روپے) ہے جو کہ بھارت کے ڈیفنس بجٹ کا بارہواں حصہ بنتا ہے۔ پھر بھی حرامخور گلہ کرتے ہیں کہ سارا بجٹ فوج کھاجاتی ہے۔اب اتنے کم بجٹ کے ساتھ پاک فوج نے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ اسلحہ بنانا ہے، فوجیوں کی تنخواہیں اور پنشن ادا کرنی ہے اور ان کی رہائش، خوراک اور لباس کا انتظام کرنا ہے۔ شہدا کی فیمیلییز کی کفالت بھی کرنا ہے۔

یہ وہ حقائق ہیں جن کو نظر انداز کرکے دشمن کے کچھ ایجنٹ پاک فوج کے ان تجارتی اداروں پر انگلی اٹھاتے ہیں جو مذکورہ بالا مقاصد کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ پاک فوج کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ان تجارتی اداروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading