2025-07-06
عدت
جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے ہے کہ اگر حمل ٹیسٹ سے ثابت ہوجائے کہ خاتون حمل سے نہیں ہے تو اسے عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے۔

از قلم ساجد محمود انصاری

جاوید احمد غامدی صاحب کی رائے ہے کہ اگر حمل ٹیسٹ سے ثابت ہوجائے کہ خاتون حمل سے نہیں ہے تو اسے عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے۔(المورد) غامدی صاحب کی  یہ رائے قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ یَّكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِیْۤ اَرْحَامِهِنَّ اِنْ كُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-وَ بُعُوْلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِیْ ذٰلِكَ اِنْ اَرَادُوْۤا اِصْلَاحًاؕ-وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪-وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ

(سورۃ البقرہ:228)

ترجمہ: اور طلاق یافتہ خواتین اپنی جانوں کو(نکاح سے)  روکے رہیں تین حیض تک اور انہیں حلال نہیں کہ چھپائیں وہ جو اللہ نے ان کے پیٹ میں پیدا کیا، اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے شوہروں کو اس مدت کے اندر ان کے پھیر لینے کا حق پہنچتا ہے اگر ملاپ چاہیں اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق اور مردوں کو اس معاملے میں ان پر فضیلت ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

نیز فرمایا:

وَ الّٰٓـِٔىۡ یَئِسۡنَ مِنَ الۡمَحِیۡضِ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ اِنِ ارۡتَبۡتُمۡ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشۡہُرٍ ۙ وَّ الّٰٓـِٔىۡ لَمۡ یَحِضۡنَ ؕ وَ اُولَاتُ الۡاَحۡمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنۡ یَّضَعۡنَ حَمۡلَہُنَّ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا

(سورۃ الطلاق: 4)

تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دے گا ۔

قرآن و سنت میں عدت کے احکام میں متعدد حکمتیں ہیں۔بے شک اِستَبرا رَحم یعنی حمل نہ ہونے کی تصدیق بھی ان حکمتوں میں شامل ہے مگر تنہا استبرا رحم عدت کے مقاصد میں شامل نہیں بلکہ اس کے اور بھی بہت سے مقاصد ہیں۔

واضح رہے کہ زمانہ ٔ قدیم میں بھی حمل ٹیسٹ کے کئی طریقے رائج تھے، جن سے حکما حمل ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کرسکتے تھے۔مگر یہ طریقے قطعی نہیں تھے۔ میڈیکل سائنس کی ترقی کے باوجود آج بھی بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حمل ٹیسٹ مثبت ہونے کے باوجود بچے کی پیدائش نہیں ہوتی اور اس کے برعکس بھی ہوجاتا ہے کہ حمل ٹیسٹ منفی ہونے کے باوجود حمل ٹھہر جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی حمل کی تصدیق کے ذرائع حتمی نہیں ہیں۔ان میں غلطی کا امکان بہر کیف موجود رہتا ہے۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ عدت کے متعدد مقاصد ہیں، جن میں سے چیدہ چیدہ مقاصد درج ذیل ہیں:

1۔ جس طلاق یافتہ عورت  کا حمل واضح نہ ہوا ہو اس کی عدت تین حیض مقرر کی گئی ہے، گویا جس عورت کو تین بار مسلسل حیض آگیا اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ یہ مدت نہ صرف حمل ہونے یا نہ ہونے کی قطعی تصدیق  کردیتی ہے بلکہ شریعت  اس مدت کو میاں بیوی کے درمیان رنجشوں کے رفع ہونے کا موقعہ قرار دے کر شوہر کو اس مدت کے اند راندر رجوع  کرنے کا اختیار بھی دیتی ہے۔

اگر خاتون حمل ٹیسٹ کراکے کہے کہ مجھے عدت کی ضرورت نہیں ہے تو شریعت اس کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتی، کیوں کہ اس سے خاوند کا حقِ رجوع متأثر ہوتا ہے۔

2۔ جس خاتون کا شوہر فوت ہوجائے اس کی عدت چار مہینہ دس دن مقرر کی گئی ہے، صاف معلوم ہوتا ہے کہ رجوع کی صورت موجود نہ ہونے کے باوجود  طلاق یافتہ عورت کی عدت کے مقابلے میں بیوہ کی عدت ایک ماہ دس دن زیادہ رکھنے میں شریعت کا کوئی خاص مقصد ہے۔اس کو یونہی نظر انداز کردینا اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں ہے۔جدید سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ شوہر کی وفات کے صدمے سے جو اسٹریس ہارمون پیدا ہوتے ہیں وہ بیوہ کی ذہنی صحت کو شدید متأثر کرتے ہیں۔ ایک اسٹریس ہارمون کارٹیسول کی خون میں مقداراس صدمے کے کئی ماہ تک  نارمل سےبلند رہتی  ہے، جس کے اثرات ختم ہونے میں چار سے پانچ ماہ اوسطاً لگ جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض خواتین میں یہ مدت اس سے بھی زیادہ طویل ہوسکتی ہے۔سائنسی تحقیق بتلاتی ہے کہ ایسے صدمے کے دوران ان ہارمونز کے اثرات سے محفوظ رہنے کا کوئی طبعی طریقہ موجود نہیں سوائے اس کے کہ روحانی سکون دینے والے اعمال میں وقت گزارا جائے۔ (ویری ویل مائنڈ)

 3۔ دورانِ حمل خواتین مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہیں، جس کی وجہ کارٹی سول اور ایڈرینالین ہارمونز کی زیادتی ہے۔ تاہم اگر خدانخواستہ  اس دوران انہیں طلاق یا شوہر کی وفات کا صدمہ پہنچ جائےتو ان کی مصیبت دوگنا ہوجاتی ہے۔ اسی لیے حاملہ عورت کی عدت  شریعت نے سب سے زیادہ طویل رکھی ہے۔ یعنی اگر حمل کے آغاز میں طلاق یا شوہر کی وفات کا صدمہ لاحق ہوجائے تو اس کی عدت بچے کی پیدائش پر پوری ہوتی ہے جس میں عموماً آٹھ نو ماہ لگ جاتےہیں۔اس میں حکمت یہی ہے کہ بچے کی پیدائش تک کارٹی سول کی مقدار خون میں نارمل  نہیں ہوپاتی۔واللہ اعلم

پس ثابت ہوا کہ عدت کا مقصد صرف حمل ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کرنا نہیں ہے  بلکہ اس کے متعدد مقاصد ہیں جن میں سے بعض ہم جان چکے ہیں اور بعض اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ لہٰذا یہ رائے کہ حمل ٹیسٹ سے حمل نہ ہونے کی تصدیق کے بعد عدت کی ضرورت نہیں ہے، قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading