2025-07-06
زیورات پر زکوٰۃ
امام شعبیؒ ،امام قتادہؒ، امام مالکؒ، امام شافعی ؒ، امام ابو عبید القاسمؒ،امام ابو ثورؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام اسحاق بن راہویہؒ  کی یہی رائے ہے کہ خواتین کے زیرِ استعمال زیورات پر زکوٰۃ فرض نہیں

از قلم ساجد محمود انصاری

زکوٰۃ کا لغوی مطلب ہے نشو و نما، پھلنا پھولنا اوراضافہ ہونا۔ اسلامی شریعت نے زکوٰۃ کسی جرمانے یا ٹیکس کے طور پر فرض نہیں کی بلکہ یہ ایک عبادت کے طور پر فرض کی ہے۔ زکوٰۃ بنیادی طورپر  آمدن کی بجائے بچت پر فرض کی گئی ہے، نیز زکوٰۃ عام طور پر مال کے مالک پر فرض ہوتی ہے۔ امام علاؤ الدین علی بن سلیمان المرداوی الحنبلیؒ فرماتے ہیں:

تَجِبُ الزَّكَاةُ فِى أَرْبَعَةِ أصْنَافٍ مِنَ الْمَالِ، السَّائِمَةِ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ، وَالْخَارِجِ مِنَ الْأَرْضِ، وَالْأَثْمَانِ، وَعُرُوضِ التِّجَارَةِ.

وَلَا تَجِبُ فِى غَيْرِ ذَلِك (الانصاف:6/293)

زکوٰۃ مال کی چار اقسام پر فرض کی گئی ہے یعنی چوپائے، زمین کی پیداوار، نقدی (سونا چاندی) اور سامانِ تجارت۔اس کے سوا کسی چیز میں زکوٰۃ فرض نہیں۔

جب ہم  مال کی ان چاروں قسموں پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب اصناف  اپنے اندر پیداواری صلاحیت رکھتی ہیں، یعنی ان میں نشو و نما اور بڑھوتری (پروڈکشن) کا عمل واقع ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ زشیا جن میں بڑھوتری کا عمل نہیں ہوتا ان میں زکوٰۃ فرض نہیں کی گئی۔ مثال کے طور پر شریعت نے  غیر تجارتی زمین پر زکوٰۃ فرض نہیں کی بلکہ  اس کی پیداوار پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ اگر اسی زمین کو فروخت کیا جائے تو اس  سے حاصل ہونے والی دولت پر زکوٰۃ فرض ہوجائے گی۔اسی طرح اگر کوئی زمین تجارتی مقاصد کے لیے خریدی گئی ہے تو اب اس کا شمار عروض تجارت یعنی تجارتی سامان میں ہوگا اور اگر اس کی قیمت نصاب (200 درہم) کو پہنچ جائے تو سال گزرنے پر اس کی زکوٰۃ فرض ہوجائے گی۔

امام ابن قدامہ الحنبلیؒ فرماتے ہیں:
روى جابر عن النبي – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  

أنه قال 

 (سنن الدارقطنی)«ليس في الحلي زكاة»

 ولأنه مصروف عن جهة النماء إلى استعمال مباح فلم تجب فيه زكاته كثياب البذلة.

(الکافی: 1/406)

ترجمہ:سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نےفرمایا: ’زیور میں زکوٰۃ نہیں ہے‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زیور نمو (بڑھوتری) کی غرض سے نہیں بلکہ جائز استعمال کے لئے مخصوص ہوتا ہے، اس لیے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، جیسے عام استعمال کے کپڑوں پر زکوٰۃ نہیں ہوتی۔

امام شعبیؒ ،امام قتادہؒ، امام مالکؒ، امام شافعی ؒ، امام ابو عبید القاسمؒ،امام ابو ثورؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام اسحاق بن راہویہؒ  کی یہی رائے ہے کہ خواتین کے زیرِ استعمال زیورات پر زکوٰۃ فرض نہیں۔(المغنی: 3/42)

چونکہ زیرِ استعمال زیورات کے ذریعے مال میں نمو یا بڑھوتری نہیں ہوتی  اس لیے شریعت نے ان پر زکوٰۃ فرض نہیں کی۔ نیز شریعت نے خواتین کو مال کمانے کا ذمہ دار قرار نہیں دیا اس لیے عام طور پر خواتین کے پاس اتنا مال نہیں ہوتا کہ وہ زیورات کی زکوٰۃ ادا کرسکیں۔ لہٰذا انہیں زیورات کی زکوٰۃ ادا کرنے کا پابند بنانا ان پر ظلم کرنا ہے۔

تاہم صحیح روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اپنی  بیویوں اور بیٹیوں کے زیورات کی زکوٰۃ استحباباً  ادا کیا کرتے تھے۔لہٰذا جس شخص کواللہ نے رزق میں فراوانی دی ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنے زیرِ کفالت خواتین کے زیورات کی زکوٰۃ ادا کردیا کرے۔

 زیرِ استعمال زیورات پر زکوٰۃ فرض نہ ہونے کے قول پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ لوگ زکوٰۃ سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ زیورات  کی شکل میں مال ذخیرہ کرنے لگیں گے۔ جو لوگ فرض زکوٰۃ ادا  نہیں کرتے وہ اپنی نیوں اور اعمال کے مطابق سزا پالیں گے۔ مگر اس احتمال کی بنیاد پر بے روزگار خواتین پر زیورات کی زکوٰۃ فرض کرنا کیسی دانشمندی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading