از قلم ساجد محمود انصاری
صحیح بخاری (3207)، اور صحیح مسلم (164)کی متفق علیہ حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ نیل اور فُرات سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے نکلتے ہیں، جبکہ صحیح مسلم کی روایت (2839) میں چار دریاؤں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جنتی دریا ہیں جن میں نیل اور فرات بھی شامل ہیں۔ان احادیث صحیحہ کی اصل مراد کے بارے میں علما میں اختلاف ہے۔بعض علما انہیں ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ متشابہ احادیث ہیں اور وہ ان کی تاویل کرتے ہیں۔(شرح مسلم امام النوویؒ)
ہمارے نزدیک راجح قول یہ ہے کہ جنت کے دو دریا ایسے ہیں جن کے نام دنیا کے دو دریاؤں نیل اور فرات سے ملتے ہیں۔جبکہ دنیا میں پائے جانے والے نیل اور فرات وہ جنتی دریا نہیں ہیں جو سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے نکلتے ہیں۔ہماری اس رائے کی اصل بنیاد تو صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث ہے:
سَيْحَانُ وَجَيْحَانُ وَالْفُرَاتُ وَالنِّيلُ كُلٌّ مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ
سیحان، جیحان، فرات اور نیل جنت کے دریا ہیں۔
ہماری رائے میں نبی ﷺ کی مراد یہ ہے کہ یہ چاروں جنت کے دریاؤں کے نام ہیں، یہ وہی چار دریا ہیں جن کے بارے میں متفق علیہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ وہ سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ سے نکلتے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ دنیا کے چار دریا ایسے ہیں جن کا منبع و سرچشمہ سدرۃ المنتہیٰ ہے، قرآن و حدیث کی دیگر تصریحات ، رسول اکرم ﷺ، اہلِ بیت رسول علیہم السلام اور اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کےان دریاؤں کے بارے میں عملی رویے سے مطابقت نہیں رکھتا۔
قرآن حکیم میں جنت کے دریاؤں کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ ان کا پانی کبھی بدبودار نہیں ہوتا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ
(سورۃ محمد: آیت 15)
ترجمہ: یہ مثال بیان کی گئی ہے اس جنت کی جس کا وعدہ متقیوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اس میں ایسے دریا ہیں جن کا پانی کبھی بدبودار نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے جنت کے دریاؤں کا یہ خاص وصف بیان کیا ہے کہ ان کا پانی برتنوں میں پڑا رہنے سے بدبودار نہیں ہوتا اس کے برعکس دنیا کے دریاؤں کا پانی طویل عرصہ کسی برتن میں پڑا رہے تو جراثیم کی وجہ سے بدبودار ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنت کے دریاؤں کا پانی جراثیم سے پاک ہوگا اس لیے وہ کبھی بھی بدبودار نہیں ہوگا۔کیا نیل اور فرات کا پانی جراثیم سے پاک ہے؟ کیا ان کا پانی کبھی بدبودار نہیں ہوتا؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔
معلوم ہوا کہ زمین پر موجود نیل اور فرات جنت کے دریا نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا منبع و سرچشمہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ واللہ اعلم
سورہ طٰہ(آیت 118-119) کے مطابق جنتیوں کو بھوک اور پیاس نہیں لگتی، تاہم جنت کی نعمتیں لذت کوشی کے لیے ہیں ، بھوک پیاس مٹانے کے لیے نہیں۔اسی طرح حوض کوثر جوکہ جنت کی ایک نہر ہے کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس نہر کا پانی ایک بار پی لیا اسے دوبارہ کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ (صحیح البخاری: رقم 7050)
اس حدیث سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ جنت کے دریاؤں اور نہروں کا پانی پینے سے پیاس ہمیشہ کے لیے بجھ جاتی ہے اور دوبارہ پیاس نہیں لگتی۔ کیا زمین پر موجود نیل اور فرات کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے؟
بے شک اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ جنت کے دریا کو زمین پر ظاہر کردے، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے کہ وہ خود اپنے ہی بتائے ہوئے اصول کی خلاف ورزی کرے۔جمہور علما کی رائے ہے کہ جنت الماویٰ زمین پر نہیں ہے، بلکہ صحیح احادیث کی رو سے یہ ساتویں آسمان سے اوپر اور عرش کے نیچے ہے۔لہٰذا زمین پر جنت کی نعمتیں بالعموم پائی نہیں جاتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی ﷺ کے ذریعے بعض صحابہ کو دنیا میں جنت کی بعض نعمتیں معجزانہ طور پرعطا فرمائیں مگر یہ عام معمول نہیں تھا۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جنت کی نعمتیں علی الاطلاق مرنے کے بعد برزخ میں ہی مل سکتی ہیں۔دنیا میں عام لوگوں کے سامنے جنت کی نعمتیں ظاہر نہیں ہوتیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ـ رضى الله عنه ـ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لاَ عَيْنٌ رَأَتْ، وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلاَ خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ”. قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ {فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ}.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کررکھی ہیں جو نہ تو کسی آنکھ نے(دنیا میں) دیکھی ہیں، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہے اور نہ کسی بندے کے دل میں ان کا خیال ہی گزرا ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم قرآن سے اس کی تائید چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ لو کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ میں نے ان کے لیے (جنت میں )کیسی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی نعمتیں تیار کررکھی ہیں۔
(صحیح البخاری: رقم 4779، صحیح مسلم: رقم 2824)
بے شک جنت کی بعض نعمتوں کے نام دنیا کی بعض نعمتوں سے ملتے جلتے ہیں، مگر دنیا کی ان فانی نعمتوں کا جنت کی لازوال نعمتوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔سیدنا عبداللہ بن عباس علیہماالسلام نے سورہ البقرۃ (آیت 25) کی تفسیر میں مذکورہ بالا حدیث کے مطابق فرمایا ہے کہ جنتیوں کو جو انواع و اقسام کی نعمتیں تناول کرنے کے لیے ملیں گی تو وہ ناموں میں مشابہت کے باوجود جسامت، ذائقے اور تاثیر میں مختلف ہوں گی۔(تفسیر ابن جریر)
لہٰذا جنت میں پائے جانے والے دو دریاؤں کے نام (نیل اور فرات) سے بظاہر ملتے جلتے ہیں، مگر جنت کے پانی کا ذائقہ ، خوشبو، تاثیر اور خواص اس دنیا کے پانی سے قطعی مختلف ہیں۔
اگر زمین پر پائے جانے والے نیل اور فرات واقعتاً جنت کے دریا ہوتے تو ان کا پانی جنتی پانی کہلاتا اور اس صورت میں یہ آب زمزم سے بھی زیادہ متبرک پانی ہوتا۔کیا نبی ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی خصوصیت کے ساتھ یہ متبرک پانی حاصل کرنے کی کوشش کی؟ یا کبھی انہوں نےنیل و فرات کے پانی کو آب زمزم پر ترجیح دی؟ فقہائے اسلام نے تعظیماً و تشریفاً آب زمزم سے استنجا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے،بعض فقہا نے تو آب زمزم سے فرض غسل کرنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ کیا فقہا نے نیل و فرات کے پانی کے بارے میں بھی ایسا فتویٰ دیا ہے؟ میری معلومات کی حد تک فقہا نے خاص طور پر نیل و فرات کے پانی کوطہارت کے اعتبار سے موضوع بحث ہی نہیں بنایا۔ کیا اس لیے نہیں کہ ان کےنزدیک نیل و فرات کو کوئی امتیازی ’مقدس ‘ حیثیت حاصل نہیں ؟
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یہ تصور کہ دنیا میں موجود نیل اور فرات جنت کے دریا ہیں اصل میں سرائیلی روایات ہیں، تورات (کتاب پیدائش) میں انداز بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے وہ جنت جس میں سیدنا آدم علیہ السلام کو ٹھیرایا گیا تھا وہ زمین پر ہی تخلیق کی گئی تھی۔ ترات کی کتاب پیدایش کے باب 2 کی آیات 11 تا 15 میں جنت کے چار دریاؤں کو زمین پر واقع ہونے کے بارے میں واضح تصریحات کی گئی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
A river issues from Eden to water the garden, and it then divides and becomes four branches. The name of the first is Pishon, the one that winds through the whole land of Havilah, where the gold is. ( (12) The gold of that land is good; bdellium is there, and lapis lazuli.) (13) The name of the second river is Gihon, the one that winds through the whole land of Cush. (14) The name of the third river is Tigris, the one that flows east of Asshur. And the fourth river is the Euphrates.
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ محرف تورات (بائبل) میں چاروں جنتی دریاؤں کا محل وقوع زمین پر بیان کیا گیا ہے۔ یہی تصور عوام میں مشہور ہوگیا کہ یہ چاروں جنتی دریا زمین پر موجود ہیں۔ جبکہ احادیث صحیحہ میں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں۔ لہٰذا جنتی دریاؤں کا زمین پر موجود ہونے کا تصور درحقیقت اسرائیلی روایات سے امت میں وارد ہوا ہے، اس لیے اسے اسلامی تصور قرار دینا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب