
از قلم ساجد محمود انصاری
عصرِ حاضر میں بے ہودہ معاشقوں کے بڑھتے رواج اور عاشق و معشوق کو ہیرو بناکر پیش کرنے کے رجحان کے باعث جہاں دوسری اسلامی اقدار بری طرح پامال کی جارہی ہیں وہیں اسلام کے انسانی نفسیات کے مطابق بنائے گئے اس اصول کی بھی بہت بے قدری کی جارہی ہے کہ نکاح کی کامیابی کے لئےضروری ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی شادی اس کے ہم منصب خاندان میں کی جائے۔ نسل پرستی، قبائلی عصبیت اور برادری ازم جیسے لیبل لگاکر اسلام کے اس سنہری اصول کی کھلی خلاف ورزی جاری ہے۔
منصب سے کیا مراد ہے؟ منصب پانچ چیزوں کا مجموعہ مانا جاتا ہے:
1۔ اخلاق
2۔ نسب
3۔ پیشہ
4۔ دولت
5۔حُریت
ہم منصب خاندان میں شادی کرنے کے اصول کی بنیاد رسول اکرم ﷺ کے فرامین پر رکھی گئی ہے۔درج ذیل فرامین ملاحظہ فرمائیں:
عن علی أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، قال له: يا عليُّ، ثلاثٌ لا تؤخِّرْها: الصَّلاةُ إذا آنَت والجِنازةُ إذا حضَرَت والأيِّمُ إذا وجدَت لها كُفُؤًا
نبی کریم ﷺ نے حضرت امام علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو: جب نماز کا وقت ہو جائے، جب جنازہ حاضر ہو جائے، اور جب بے بِن بیاہی لڑکی کے لیے کوئی اس کا ہم منصب رشتہ مل جائے۔
(مسند امام احمد: رقم 828، جامع الترمذی: رقم 171، سنن ابن ماجہ: رقم 1486)
عن ام المومنین عائشۃ رضی اللہ عنھا عن النبی ﷺ قال: تخيَّروا لنُطَفِكم ، فانكِحوا الأكفاءَ و أَنكِحوا إليهم
(سنن ابن ماجہ: رقم 1968، مستدرک الحاکم: رقم 2687)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اپنی نسل بڑھانے کے لیے بہترین عورت کا انتخاب کرو، چنانچہ ہم منصب (کفو) عورتوں سے نکاح کرو اور اپنی عورتوں کا نکاح بھی ہم منصب (کفو) لوگوں سے کرو۔
عن عبد الله بن بريدة عن عائشة ، قالت : جاءت فتاة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت : يا رسول الله إن أبي زوجني ابن أخيه ليرفع بي من خسيسته ، قال : فجعل الأمر إليها
(مسند احمد: رقم 25043، سنن النسائی: رقم 3269)
حضرت عبداللہ بن بریدہؒ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ
ایک لڑکی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا
یا رسول اللہ! میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے اس لیے کر دیا ہے کہ میرے ذریعے اس کی کمتر حیثیت کو بلند کریں۔
آپ ﷺ نے نکاح کو باقی رکھنے کا معاملہ اس لڑکی کے اختیار میں دے دیا۔
ہم منصب خاندان میں شادی کرنے کے اصول کو فقہی اصطلاح میں مسئلہ کفأۃ کہا جاتا ہے۔ فقہ شافعی اور فقہ حنبلی میں ہم منصب خاندان میں شادی صحتِ نکاح کی شرط ہے اگرچہ بعض متاخرین حنابلہ اسے صحتِ نکاح کی شرط کی بجائے شرطِ لزوم قرار دیتے ہیں۔
(شرح منتھی الارادات)
فقہ حنفی میں لڑکی کا نکاح ہم منصب لڑکے سے کرنا نکاح کی لازمی شرط تو نہیں ہے تاہم اگر لڑکی اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف کسی ایسے لڑکے سے نکاح کرلے جس کا منصب لڑکی کے خاندان سے کم ہو تو لڑکی کے خاندان والوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسا نکاح فسخ (کینسل) کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔(فتاویٰ عالمگیری)
فقہ حنفی کی معروف کتاب فتح القدیر میں ہے:
ولأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة ، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشة للخسيس فلا بد من اعتبارها
’’مسئلہ کفأۃ میں حکمت یہ ہے کہ ہم منصب افراد کے درمیان معاملات کا انتظام عام طور پر بہتر ہوتا ہے، اس لیے کہ عزت دارعورت یہ گوارا نہیں کرتی کہ کسی کم درجے والے کے لیے بستر بنے۔ لہٰذا کفأۃ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔‘‘
فتح القدیر کے حاشیہ میں لکھا ہے:
مقتضى الأدلة التي ذكرناها الوجوب : أعني وجوب نكاح الأكفاء
’’ہم نے جو دلائل بیان کیے ہیں ان سے تو وجوب ہی ظاہر ہوتا ہے یعنی لڑکی کا نکاح اس کے ہم منصب شخص سے کرناواجب ہے۔‘‘
تاہم بعض احناف کا قول ہے کہ مسئلہ کفأۃ صرف عربوں کے لیے ہے عجمیوں کے لیے نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا عجمیوں میں اپنے خاندانی مقام و مرتبہ کا کوئی پاس کرنے کا رواج نہیں ہے ؟ یقیناً عجمیوں میں بھی نکاح شادی میں حسب و نسب کا خیال رکھا جاتا ہے۔بعض عجمی قبائل اور برادریوں میں تو اس مسئلہ میں ضرورت سے زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔اس لیے ہمارے نزدیک یہ رائے محل نظر ہے کہ شادی کے لیے خاندانوں کا ہم منصب ہونا صرف عربوں کے ساتھ خاص ہے۔