از قلم ساجد محمود انصاری
اہل بیت رسول اطہار سلام اللہ علیہم اجمعین کے کردار کی عظمت و رفعت کی گواہی قرآن کی آیات اور رسول اکرم ﷺ کے فرامین باہم پہنچاتے ہیں۔یہ پاکیزہ ہستیاں عفت و عصمت ، تقویٰ و تدین، اخلاص و انفاق اورزہدو فقر کا استعارہ ہیں۔ امت مسلمہ ہمیشہ اپنے تزکیۂ نفس اور روحانی تطہیر کے لیے اہل بیت رسول کو مینارۂ نور مان کر ان کی حیات طیبہ سے رہنمائی حاصل کرتی آئی ہے۔
جن پاکبازنفیس روحوں کو رسول اکرم ﷺ نے اپنی خوشبو اور نوجوانان جنت کے سردار قرار دیا ان کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنا یاجانے انجانے میں ان کے کردار کو مجروح کرنا کسی صاحبِ ایمان کو زیب نہیں دیتا۔مگر ہمارے ذخیرہ ٔروایات میں بعض ایسی روایات داخل ہوچکی ہیں جو مستند ذرائع سے ثابت نہیں پھر بھی بعض لوگ ان روایات کو استعمال کرکے اہلِ بیت علیہم السلام کے کسی فرد کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔بعض روایات میں امام علی ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے کردار پر بہت کیچڑ اچھالا گیا ہے۔
ایسی ہی غیر مستند روایات میں وہ روایات بھی شامل ہیں جن میں امام حسن المجتبیٰ ابن علی ابن ابی طالب علیہم السلام کی طرف غیر معمولی کثرتِ ازدواج اوربلاجواز کثرتِ طلاق کی نسبت کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض روایات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امام حسن علیہ السلام کثرت کے ساتھ پے درپے نکاح کرتے تھے اور اپنی بیویوں سےجلد از جلد جان چھڑانے کے لیے بلاجواز طلاق دے دیتے تھے۔ قصہ گو ملا تو ان روایات کو مرچ مسالہ لگا کر بیان کرتے ہیں اور یہاں تکہ کہہ جاتے ہیں کہ امام موصوف ایک مجلس میں چار چار نکاح کرتے اور نئے نکاح کرنے کے لیے چار چار بیویوں کو ایک ہی مجلس میں طلاق دے دیتے تھے۔یہاں تک کہ ان کے نکاحوں کی تعداد روایات میں 50سے 300 تک بیان کی گئی ہے۔ بعض روایات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کے منع کرنے کے باوجود امام حسن علیہ السلام اس روش سے باز نہ آئے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ امام علی علیہ السلام کوفہ کے منبر پر لوگوں کوتاکید فرماتے تھے کہ امام حسن علیہ السلام کو اپنی بیٹی نہ دیں کیوں کہ انہوں نے تو لازماً طلاق دے دینی ہے۔معاذاللہ
ذرا غورکیجیے کہ اگر آج کے اس عیاش اور ہوس پرست معاشرے میں بھی کوئی شخص اتنی کثرت کے ساتھ نکاح کرے اور کثرت کے ساتھ طلاق دے یہاں تک کہ نکاحوں کی تعداد صرف 50 تک ہی پہنچ جائے تو اس شخص کے بارے میں آپ کے ذہن میں کتنا مکروہ تصور پیدا ہوتا ہے؟جبکہ مذکورہ روایات یہی تصور اس عظیم شخصیت کے بارے میں قائم کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں جن کے حق میں آیتِ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ کمال یہ ہے کہ ان باتوں کو بیان کرنے والے محض قصہ گو ملا ہی نہیں ہیں بلکہ بڑے بڑے علامہ اور مفتیان منبرَ رسول ﷺ پر بیٹھ کر امام حسن علیہ السلام پر یہ مکروہ الزام لگاتے ہیں۔یہ صاحبان نہ صرف ان روایات کو’’سچی روایات‘‘ کہہ کر پیش کرتے ہیں بلکہ ان کی بے سروپا تاویلات کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان روایات سے امام موصوف کا کردار مجروح نہیں ہوتا۔اب ان وڈیو بیانات کو سوشل میڈیا کے پر لگ گئے ہیں جس کی وجہ سےیہ بات تقریباً زبان زدِ عام ہوچکی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ لوگ ان بے سروپا باتوں کو بیان کرنے میں کوئی عار بھی نہیں سمجھتے۔
جن غیر مستند روایات کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے یہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے ذخیرۂ روایات میں پائی جاتی ہیں۔ اہل سنت کے ذخیرہ میں سب سے زیادہ مضبوط سمجھی جانے والی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں وارد ہوئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اہلِ بیت علیہم السلام کے چشم و چراغ کو بدنام کرنے کے لیے اہل بیت کے ہی آئمہ کا نام استعمال کیا گیا۔
حدثنا أبو بكر قال: نا حاتم بن إسماعيل عن جعفر عن أبيه قال: قال علي: يا أهل العراق -أو يا أهل الكوفة- لا تزوجوا حسنا، فإنه رجل مطلاق
ترجمہ: امام جعفر الصادق علیہ السلام اپنے والد امام محمد الباقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علی علیہ السلام نے ایک روز اہل عراق یا اہل کوفہ والوں سے فرمایا کہ اپنی بیٹیوں کا نکاح امام حسن علیہ السلام سے مت کیا کرو کیوں کہ ان کو کثرت سے طلاق دینے کی عادت ہوچکی ہے۔
یہی روایت ملتے جلتے الفاظ کے ساتھاہل تشیع کے سب سے زیادہ معتبر سمجھنے جانے والے ذخیرۂ روایت اصول کافی میں یوں منقول ہے:
حميد بن زياد، عن الحسن بن محمد بن سماعة، عن محمد بن زياد بن عيسى، عن عبد الله بن سنان، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن عليا قال وهو على المنبر: لا تزوجوا الحسن فإنه رجل مطلاق، فقام رجل من همدان فقال: بلى والله لنزوجنه وهو ابن رسول الله صلى الله عليه وآله وابن أمير المؤمنين عليه السلام فإن شاء أمسك وإن شاء طلق.
ترجمہ: امام ابو عبداللہ جعفر الصادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ امام علی علیہ السلام نے منبر پر فرمایا کہ اپنی بیٹیوں کا نکاح امام حسن علیہ السلام سے مت کیا کرو کیوں کہ ان کو کثرت سے طلاق دینے کی عادت ہوچکی ہے۔ تب ہمدان (فارس) کا ایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگا کہ ہم تو ضرور اپنی بیٹیوں کا نکاح امام حسن علیہ السلام سے کرتے رہیں گے کیوں کہ رسول اکرم ﷺ اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے بیٹےہیں، اب چاہے وہ انہیں اپنے پاس ٹھہرائے رکھیں یا چاہیں تو طلاق دیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس روایت کو بیان کرنے کے لیے امام جعفر الصادق اور ان کے والد محترم امام باقر بن علی بن حسین علیہم السلام کا کندھا نہایت حماقت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ جس وقت کا واقعہ ان کی زبانی بیان کیا جارہا ہے، اس وقت تک وہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔لہٰذا محدثین کے اصول کی رو سے یہ روایت منقطع ہے مسند نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایسی روایات کو موضوع بحث لایا ہی نہ جاتا، مگر افسوس کہ روایت کو سچی روایات کہہ کر امام حسن علیہ السلام کا دامن داغدار کیا جارہا ہے۔ اس روایت کے ذریعے ایک تیر سے تین شکار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس روایت سے درج ذیل تین نتائج برآمد ہوتے ہیں:
1۔ امام حسن علیہ السلام کثرت کے ساتھ بلاجواز طلاق دینے کے عادی تھے۔
2۔ امام علی علیہ السلام کو اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کا یہ عمل پسند نہیں تھا ، مگر پھر بھی امام حسن علیہ السلام اس سے باز نہ آئے۔
3۔ جب امام حسن علیہ السلام اپنے والدِمحترم کی بات ماننے کے لیے آمادہ نہ ہوئے تو امام علی علیہ السلام کو بھری مجلس میں انکے اس فعل شنیع کی نا پسندیدگی واضح کرنا پڑی اور لوگوں سے کہنا پڑا کہ امام حسن علیہ السلام تو باز نہیں آرہے تم ہی انہیں بیٹیاں دینے سے باز آجاؤ۔
دیکھیے کہ اس ایک روایت میں کس چابکدستی کے ساتھ امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کے مابین ناچاکی اور امام حسن علیہ السلام کی جانب سے اپنےوالد گرامی قدر کی نافرمانی کرنے کی داستان گھڑی گئی ہے۔نیز یہ روایت امام حسن علیہ السلام کے کردار کو کس بری طرح مجروح کررہی ہے۔
قرآن حکیم کا اسلوب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلاجواز طلاق ہرگز پسندیدہ نہیں ہے، بلکہ قرآن حکیم تو انتہائی نامساعد حالات میں بھی صبروتحمل اورازدواجی تعلق کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن تومباح و جائز طلاق کی بھی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور مصالحت اور ازدواجی زندگی میں ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی کوشش پر زور دیتا ہے۔ یہ طلاق کو ایک آخری حربے کے طور پر پیش کرتا ہے، جس پر تب ہی غور کیا جائے گا جب مصالحت کے دیگر تمام راستے بند ہو جائیں۔
اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
ما أحل الله شيئا أبغض إليه من الطلاق
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں میں اللہ کے غضب کو سب سے زیادہ دعوت دینے والی شے طلاق ہے۔
(مستدرک الحاکم: رقم 2848، سنن ابو داؤد: رقم 2178)
جمہور فقہا کی رائے میں طلاق اصلاً محظور (ممنوع) عمل ہے تاہم عندالضرورت اس کو جائز کہا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ نکلتا ہے کہ کہ بلاجواز طلاق عورت پر ظلم ہے۔ جیسا کہ فقہ حنفی کے مشہور محقق علامہ محمد امین ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر ، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها
ترجمہ:جہاں تک طلاق کا تعلق ہے، تو اس کی اصل ممانعت پر مبنی ہے، یعنی یہ ممنوع ہے سوائے کسی عارضی وجہ کے جو اسے جائز بنائے۔ یہی فقہا کےاس قول کا مطلب ہے کہ ’اصل میں طلاق ممنوع ہے، اور اس کی اجازت صرف اس وقت ہے جب نجات کی ضرورت ہو‘۔ پس جب طلاق بغیر کسی وجہ کے ہو، تو نجات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی بلکہ یہ محض حماقت، بے وقوفی، نعمت کی ناشکری، اور عورت، اس کے خاندان اور بچوں کو تکلیف پہنچانے کے ارادے کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔
(رد المحتار على الدر المختار: جز 3، صفحہ 227)
اصولِ کافی،طبقات ابن سعد، تاریخ طبری، تاریخ دمشق اور البدایہ والنہایہ میں امام حسن علیہ السلام کے نکاحوں کی تعداد 55 سے 300 تک بیان کی گئی ہے۔ البدایہ والنہایہ چونکہ نسبتاً بہتر تاریخی کتاب ہے، اس لیے اس میں بیان کی گئی روایت کو سب سے زیادہ بیان کیا جاتا ہے۔
آئیے ذرا اس روایت کو بھی ملاحظہ فرمالیں:
يُقَالُ:
إِنَّهُ أَحْصَنَ بِسَبْعِينَ امْرَأَةً
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 70 نکاح کیے تھے۔
(البدایہ والنہایہ: جلد 11، صفحہ 196)
لیجیے امام ابن کثیر ؒ سے بھی بیویوں کی اتنی بڑی تعداد ہضم نہیں ہوئی اسی لیے انہوں نے اس قول کو صیغۂ تمریض کے ساتھ بیان کرکے اس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ غرض البدایہ والنہایہ کی روایت بھی ازواج کی اتنی بڑی تعداد کے لیے قابلِ اعتبار نہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ انساب کی سب سے معتبر کتاب ’نسب قریش‘ میں امام حسن بن علی علیہما السلام کی صرف چار بیویوں کے نام مذکور ہیں:
۔ ام کلثوم بنت فضل بن عباس ؑ
۔ خولہ بنت منظور ؑ
ام اسحاق بنت طلحہ ؑ
۔ ام بشر بنت ابو مسعود عقبہ ؑ
ان چار بیویوں سے امام حسن علیہ السلام کے آٹھ بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے جبکہ آپ کی باقی آٹھ اولادیں کنیزوں کے بطن سے تھیں۔ اگر غیر معمولی کثرت ازدواج کی روایات درست ہوتیں تو ان کے نام بھی تاریخ میں محفوظ ہوتے اور ان کی اولاد کم از کم 100 کے قریب تو ہوتی۔مگر ایسا نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ امام حسن علیہ السلام کی غیر معمولی کثرتِ ازواج کا قصہ محض ایک افسانہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
واضح رہے کہ تاریخ کی کتب میں ایسے قصے کہانیوں کا نقل ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، حیرت تو ان لوگوں پر ہے جو ان روایات کو سچی روایات بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اہلِ بیت علیہم السلام سے بہت محبت ہے اور وہ ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں۔