فرعون، ہامان اور قارون
از قلم ساجد محمود انصاری
قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے جس میں بیان کیے گئے قصے ازروئے تفنن ذکر نہیں کیے گئے بلکہ ان کا مقصد عبرت و موعظت ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم میں سب سے زیادہ جس نبی کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ہیں سیدنا موسیٰ علیہ السلام۔ بنی اسرائیل کے اس آخری صاحبِ شریعت رسول کا قرآن میں بار بار تذکرہ کیوں کیا گیا ہے؟ اس میں ایک حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تباہی جس نظام کی وجہ سے وارد ہوتی ہے وہ فرعونی نظام ہے۔قرآن میں فرعونی نظام کے تین ستون بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی فرعون بطور ایک جابروظلم حکمران، ہامان اس جابروظالم حکمران کو قائم رکھنے کے لیے مذہبی سہارا اور قارون اس نظام کا سب سے بڑا بینیفشری۔
فرعون نے اپنے اقتدار کو لازوال بنانے کے لیے اسے مذہبی رنگ دے رکھا تھا جو درحقیقت شرک اکبر کی بدترین مثال تھا۔ہامان بطور مذہبی پیشوا فرعون کے جبرو ظلم کو مذہب کا رنگ دینے والا سب سے مؤثر کردار تھا۔ وہ اس مشرکانہ نظام کی بقا کے لیے عوام الناس کو ڈھکوسلوں کے ذریعے مطمئن کرتا تھا تاکہ کبھی بھی عوام میں بغاوت کے جراثیم پیدا نہ ہوں۔فرعونی نظام نری ڈکٹیٹرشپ نہیں تھی بلکہ یہ تھیوکریسی کی بدترین شکل تھی۔
غور کیجیے کہ قارون کا وہ خزانہ جو اونٹوں پر لادا جاتا تھا اس نے کیسے جمع کیا ہوگا؟ لا محالہ اس نے مہاجنی نظام کے ذریعے ہی یہ خزانہ اکٹھا کیا تھا جسے عصرِ حاضر میں کیپیٹل ازم کہا جاتا ہے۔فرعون نے قارون کو عوام کو لوٹنے کی اجازت اس لیے دے رکھی تھی کہ وہ اس کے جابرانہ نظام کوبھاری ٹیکس کی شکل میں سپورٹ کرتا تھا۔یوں فرعونی نظام عرصہ دراز تک قائم و دائم رہا جسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پاش پاش کیا۔
قرآن میں فرعونی نظام کے بیان میں تکرار اسی لیے پائی جاتی ہے کہ کہیں امت مسلمہ اس فرعونی نظام کو اختیار کرکے تباہی کے راستے پر گامزن نہ ہوجائے۔ امت کے ذہن میں اس نظام کے نقائص اور خرابیاں واضح کرنے اور انہیں خوب ذہن نشین کرانے کے لیے یہ تکرار کی گئی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے وطن میں فرعونی نظام یا اس کے اثرات داخل نہ ہونے دیں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین