ستر ڈھانپنا
عربی زبان میں عورۃ جسم کے ان پوشیدہ حصوں کو کہا جاتا ہے جسے انسان دوسرے انسانوں سے چھپاتا ہے۔اس کے لیے اردو اور عربی میں ستر کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے، ستر کا لفظی مطلب چھپانا ہے، اسی سے لفظ ستِار الکعبہ (کعبہ کا غلاف) کی ترکیب وجود میں آئی ہے۔ لہذا سترِ ڈھانپنے سے مراد جسم کے ان پوشیدہ حصوں کو ڈھانپنا ہے جن پر نظر پڑنے سے انسانوں کی غالب اکثریت کے جنسی جذبات میں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔یاد رہے کہ ستر ڈھانپنا صرف اجنبیوں کے سامنے ہی ضروری نہیں بلکہ اپنے احباب و اقارب حتیٰ کہ ماں باپ سے چھپانا بھی فرض ہے۔اس حکم کا بنیادی مقصد لوگوں کو اپنے جنسی جذبات پر قابو رکھنے میں مدد دینا ہے، کیونکہ اگر اس کا اہتمام نہ کیا جائے تو معاشرے میں انتشاروفساد رونما ہوسکتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ [1]
اے آدم کے بیٹو! ہم نے آپکے لیے لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو ڈھانپتا ہے اور جو تمہارا اوڑھنا بچھونا ہے، جبکہ تقویٰ کا لباس (شرعی ستر) اس سے بہتر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
اللہ تعالیٰ نے صرف شرم گاہیں ڈھانپنے کی بجائے لباس التقویٰ اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔لباس التقویٰ سے مراد شرعی ستر ہے جسے ڈھانپنا فرض ہے۔واللہ اعلم بالصواب
ستر ڈھانپنے کا یہ حکم نماز سے باہر اور نماز کے دوران عام ہے، تاہم نماز کے لیے مؤکد ہے کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ [2]
اے آدم کے بیٹو! ہر سجدہ(نماز ) کے وقت اپنی زینت اختیار کیا کرو۔
زینت سے مراد ستر ڈھانپنا ہے۔ واللہ اعلم
سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کس سے اپناستر چھپانا لازم ہے اور کس سے چھپانا ضروری نہیں؟نبی ﷺ نے فرمایا کہ اپنی بیوی اور باندی کے سوا کسی کے سامنے اپنا ستر ظاہر مت کرو۔پھر میں نے عرض کیا کہ اگر ہم اپنے ہم جنسوں کے بیچ ہوں تو کیا ان سے بھی ستر چھپائیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ان سے بھی حتیٰ الوسع اپنا ستر چھپا کر رکھو۔پھر میں نے عرض کیا کہ اگر ہم خلوت میں (اکیلے ) ہوں تو؟ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کازیادہ حقدار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔[3]
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی مرد کے ستر پر نظر نہ ڈالے اور نہ ہی کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ستر پر نظر ڈالے۔[4]
بالغ مرد کا ستر
بالغ مرد کا ستر ناف اور گھٹنوں کے درمیان کا حصہ ہے۔
سیدنا علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنی ران (لوگوں کے سامنے) ننگی مت کیا کرو اور نہ ہی کسی زندہ یا مردہ (مرد) کی ران پر نظر ڈالو۔[5]
سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام سے مروی ہے کہ نبی ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گزرے جس کی ران ننگی تھی، نبی ﷺ نے فرمایا کہ اپنی ران ڈھانپ لو کیونکہ مرد کی ران اس کے ستر میں داخل ہے۔[6]
سیدنا جَرھد الاسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے جبکہ میرے اوپر ایک چادر تھی مگر میری ران ننگی تھی،تب نبی ﷺ نے فرمایا کہ اپنی ران کو ڈھانپ لو کیونکہ ران ستر میں داخل ہے۔[7]
سیدنا محمد بن جحش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جناب معمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جبکہ ان کی دونوں رانیں ننگی تھیں، نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے معمر اپنی ران ڈھانپ لو کیونکہ ران ستر میں داخل ہے۔[8]
ان احادیث سے واضح ہے کہ ناف اور گھٹنے مردوں کے ستر میں داخل نہیں ہیں مگر ستر کو چھپائے رکھنے کے لیے بہتر ہے کہ انہیں بھی احتیاطاً چھپایا جائے۔امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا یہی مؤقف ہے۔[9]
بالغ عورت کا ستر
بالغ عورت کا ستر نماز میں اور اپنے محرم رشتہ داروں کے سامنے پورا جسم ہے سوائے چہرہ ، ہاتھ اور پاؤں کے۔البتہ بالغ عورت کے لیے مستحب یہ ہے کہ نماز میں اپنے ہاتھ اور پاؤں بھی چھپاکر رکھے۔
[1] الاعراف: 26
[2] الاعراف:31
[3] مسند احمد: رقم 20296، سنن ابو داؤد: رقم 4017، سنن ابن ماجہ: رقم 1920
[4] مسند احمد: رقم 11623
[5] مسند احمد: رقم 1249، سنن ابو داؤد: رقم 3140، سنن ابن ماجہ: رقم 1460
[6] مسند احمد: رقم 2493،
[7] مسند احمد: رقم 16023، و اخرجہ البخاری فی التاریخ الکبیر
[8] مسند احمد: رقم 22861
[9] ابن قدامہ، المغنی والشرح الکبیر:1/616