2025-07-06
امام علی
ہ درست ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے بعد اموی بادشاہوں کے زمانہ میں ناصبیوں کو غلبہ حاصل تھا اور وہ امام علی علیہ السلام کو برسرِ منبر گالیاں دیتے اور ان کی شان میں بے ادبی کرتے تھے۔

از قلم ساجد محمود انصاری

یہ درست ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے بعد اموی بادشاہوں کے زمانہ میں ناصبیوں کو غلبہ حاصل تھا اور وہ امام علی علیہ السلام کو برسرِ منبر گالیاں دیتے اور ان کی شان میں بے ادبی کرتے تھے۔ تاہم ایسی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کبھی امام علی علیہ السلام کو گالی دینے کا حکم دیا ہو یا کبھی اس فعلِ شنیع پر خوشی کا اظہار کیا ہو۔

صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں:

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ – قَالَ – فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا – قَالَ – فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ ‏

سہل بن سعدؒسے روایت ہے کہ (ایک دفعہ) مدینہ پر آل مروان کا ایک شخص حاکم مقرر ہوا۔ اس نے سہل بن سعدؒ کو بلایا اور انہیں امام علی علیہ السلام کو گالی دینے کا حکم دیا۔ سہل نےایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ حاکم نے کہا: “اگر تم گالی نہیں دیتے تو کہو ‘اللہ ابا تراب پر لعنت کرے۔'”(معاذاللہ)
(صحیح مسلم: رقم الحدیث: 2409)

کتبِ تاریخ ایسی شواہد سے بھری پڑی ہے کہ بنو امیہ نے اہلِ بیتِ رسول خصوصاً آلِ علی علیہم السلام پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے اور امام علی علیہ السلام پر سب و شتم اور لعنت ملامت ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ جب عبدالملک بن مروان نے امام حسن بن حسن بن علی علیہم السلام پر بھرے دربار میں کوڑے برسائے تو عامر بن عبداللہ ابن الزبیر ؒ سے رہا نہ گیا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے:
انظروا إلى ما يصنع بنو أمية بالناس: يخفضون علياً، ويغرون بشتمه! وما يريد الله بذلك إلا رفعه

(نسب قریش: ص 48)

“دیکھو کہ بنی امیہ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں: وہ امام علی علیہ السلام کو نیچا دکھا رہے ہیں، اور لوگوں کو ان پر لعنت کرنے پر اکسا رہے ہیں! اور اللہ کا اس میں مقصد صرف امام علی علیہ السلام کو بلند کرنا ہے۔”

محمد علی مرزانے  اپنی  تحریرو تقریر میں متعدد بار دعویٰ کیا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ امام علی علیہ السلام کو گالیاں دینے یا ان پر لعنت کرنے کا حکم دیتے تھے اور اس سے انہیں یک گونہ خوشی حاصل ہوتی تھی۔مرزا نے اپنے دعوے کی تائید میں جو ثبوت پیش کیا ہے وہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل حدیث ہے:

 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، – وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ – قَالاَ حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، – وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ – عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلاَثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَنْ أَسُبَّهُ لأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَىَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ لَهُ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نُبُوَّةَ بَعْدِي ‏”‏ ‏.‏ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ ‏”‏ لأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلاً يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ ‏”‏ ادْعُوا لِي عَلِيًّا ‏”‏ ‏.‏ فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ ‏{‏ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ‏}‏ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ ‏”‏ اللَّهُمَّ هَؤُلاَءِ أَهْلِي ‏”‏ ‏.‏

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا تو ان سے فرمایا کہ کونسی شئے آپ کو ابو تراب (امام علی علیہ السلام ) کی عیب جوئی سے روکتی ہے؟سیدنا سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے رسول اکرم ﷺ کے ایسے تین اہم  فرامین یاد ہیں جن کی وجہ سے میں کبھی بھی امام علی علیہ السلام کی عیب جوئی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔(صحیح مسلم: رقم الحدیث 2404 د)  

اس کے بعد سیدنا سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ نے امام علی علیہ السلام کے وہ تین مشہور فضائل بیان فرماتے ہیں جو زبانِ زدِ عام ہیں یعنی غزوۂ خیبر میں امام علی علیہ السلام کو عَلَم کا عطا ہونا ، نبی ﷺ کا فرمانا کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو سیدنا ہارون علیہ السلام کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے تھی اور مباہلہ میں نبی ﷺ کا اہلِ بیتِ خاصہ(امام علی، سیدہ فاطمہ، امام حسن، امام حسین) علیہم السلام کو ساتھ لے جانا۔

حدیث سے واضح ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے امام علی علیہ السلام کو گالی دینے کا کوئی حکم دیا نہ فرمائش کی۔ ہاں انہوں نے سیدنا سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ سے یہ سوال ضرور کیا کہ وہ دوسرے  بے ادب لوگوں کی طرح امام علی علیہ السلام کی عیب جوئی کیوں نہیں کرتے یا ان کو برا بھلا کہنے سے پرہیز کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان کے اس طرزِ عمل کا کوئی خاص سبب ہے ؟ جس کے جواب  میں سیدنا سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ نے امام علی علیہ السلام کے تین فضائل بیان فرمائے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار کرکے ان فضائل کی تصدیق فرمادی۔

بادی النظر میں بعض لوگوں کو مغالطہ ہوتا ہے کہ شاید امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ کو سبِ علی پر اکسا رہے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، یہ محض ایک مغالطہ ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا توہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود بھی جواباً امام علی علیہ السلام کو برا بھلا کہتے اور مناقبِ علی  علیہ السلام سن کر اس پر خاموشی اختیار نہ کرتے بلکہ اس پر جرح کرتے۔لہٰذا کسی بھی حدیث یا اس کے کسی جملے کا مفہوم قرآن و حدیث کی مجموعی تعلیمات کو سامنے رکھ کر اخذ کیا جائے گا نہ کہ اس حدیث کو باقی سارے ذخیرۂ علم سے الگ تھلگ کرکے کوئی شاذ پہلو نکال لیا جائے جس کی قرآن و سنت، اہلِ بیت اور صحابہ کرام کے مجموعی مزاج سے کوئی مطابقت ہی نہ ہو۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک صحابی ٔرسول تھے اور ہمیں ان سے صحابیٔ رسول جیسے طرزِ عمل کی ہی توقع کرنا چاہیے۔ اگر کوئی روایت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مجموعی مزاج سے متصادم ہو تو اس پر فوری کوئی رائے قائم نہیں کرلینا چاہیے بلکہ علما کرام سے اس بارے میں رہنمائی لیناچاہیے۔

عربی زبان میں سبّ  کے کئی معانی ہیں، جن میں عیب جوئی، برا بھلا کہنا، تنقید کرنا، نکتہ چینی کرنا اور گالی دینا شامل ہے۔زبان و ادب کا اسلوب ہے کہ کسی بھی لفظ کا مطلب موقعہ و محل کی مناسبت سے لیا جاتا ہے۔ ایک مثال سے اس سمجھ لیجیے:

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

و لسوف یعطیک ربک فترضی

اب اس آیت کا ترجمہ کئی طرح سے کیا جاسکتا ہےـ

1۔ عنقریب تیرا رب تجھے اتنا نوازے گا کہ تو خوش ہوجائے گا۔

2۔ عنقریب تمہارا رب تمہیں اتنا نوازے گا کہ تم خوش ہوجاؤ گے۔

3۔عنقریب آپ کا رب آپ کواتنا نوازے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔

گرامر(قواعد) کی رو سے تینوں ترجمے درست ہیں، مگر رسول اکرم ﷺ کی شان کے لائق ترجمہ کونسا ہے؟ یقیناً آخری ترجمہ رسول اکرم ﷺ کے ادب و احترام سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ بے ادبوں اور گستاخوں کو شاید اس سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو مگر اہلِ محبت کسی ایسے ترجمے کو اختیار کرنے سے گزیز کرتے ہیں جس سے بے ادبی کا ذرا بھی شائبہ ہو۔

لہٰذا ہم حدیث کا ترجمہ بھی وہی کریں گے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان کے لائق ہے اور جس سے بے ادبی کا پہلو نہیں نکلتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ ہی میں نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے خلفائے راشدین کے زمانے میں امام علی علیہ السلام سے بغض رکھنے والے لوگ ان کے لقب ابو تراب کو بطور تحقیر استعمال کرتے رہے ہیں۔ اسے بھی عربی زبان میں سبّ و شتم کے پیرائے میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

 ایک شخص سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ (مروان بن حکم) کی طرف تھا، برسر منبر امام علی علیہ السلام کو برے ناموں سے بلاتا ہے، ابوحازم نے بیان کیا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا کہتا ہے؟ اس نے بتایا کہ انہیں ”ابوتراب“ کہتا ہے، اس پر سہل ہنسنے لگے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود امام علی علیہ السلام کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا۔ یہ سن کر میں نے اس حدیث کے جاننے کے لیے سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا: اے ابوعباس! یہ واقعہ کس طرح سے ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ امام علی علیہ السلام فاطمہ علیہا السلام کے یہاں آئے اور پھر باہر آ کر مسجد میں لیٹ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فاطمہ علیہا السلام سے) دریافت فرمایا، تمہارے چچا کے بیٹے (علی ؑ) کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گر گئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے، اٹھو اے ابوتراب اٹھو! (دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔

(صحیح البخاری: رقم 3703)

بعض اوقات الفاظ کڑوے نہیں ہوتے مگر بولنے والے کا لہجہ اتنا کڑوا ہوتا ہے کہ وہ میٹھے الفاظ میں بھی زہر گھول دیتا ہے۔ یہی کیفیت امام علی علیہ السلام سے بغض رکھنے والوں کی تھی۔ مروان بن حکم ایک کٹر ناصبی تھا اور اہل بیت رسول علیہم السلام کا دشمن تھا۔ اسی لیے وہ نبی ﷺ کے عطا کردہ لقب ابو تراب کو اس انداز میں ادا کرتا تھا کہ اس سے اس کے اندر کی خباثت ظاہر ہوجاتی تھی، اسی لیے اروایت میں مذکور شخص نے سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروان کی شکایت کی تھی۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ نبی ﷺ نے سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہ کی گود میں چار سال پرورش پائی اس لیے وہ ان کی رضاعی ماں کہلاتی ہیں اور ان کے شوہر حارث سعدی نبی ﷺ کے رضاعی باپ قرار پائے۔ حارث سعدی کی کنیت ابو کِبشہ تھی۔ بلا شبہ ابو کبشہ نبی ﷺ کے رضاعی باپ تھے مگر کفار مکہ نبی ﷺ کی تحقیر کی نیت سے انہیں محمد ابن عبداللہ ﷺ کہنے کی بجائے ابن ابی کبشہ کہہ کے بلاتے تھے۔

(صحیح البخاری: رقم 2940)

اگرچہ حقیقت کے اعتبار سے آپ ابن ابی کبشہ بھی تھے، مگر کفار مکہ کا لہجہ اور انداز حقارت آمیز ہوتا تھا۔ بالکل ایسے ہی اگرچہ ابو تراب امام علی علیہ السلام کا لقب تھا مگر اہل بیت علیہم السلام کے دشمن انہیں حقارت کی نیت سے ابو تراب کہتے تھے۔ یہ بھی ایک قسم کا سبّ و شتم ہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading