کشمیر کا اصل مقدمہ کیا ہے؟
از قلم ساجد محمود انصاری
3 جون 1947 کو کیے جانے والے تقسیمِ ہند کے منصوبے کے مطابق یہ طے پایا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہ پاکستان میں شامل کیے جائیں گے جب کہ ریاستوں یا راجواڑوں کو اختیار ہوگا کہ وہ چاہے تو پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں یا بھارت کے ساتھ۔جموں و کشمیر کی اکثریت آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، لہٰذا کشمیری مسلمان پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے۔اس مقصد کے لیے انہوں نے متحدہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے باقاعدہ تحریک چلائی۔ کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ عوامی امنگوں کے برعکس ہندوؤں کے ساتھ سازباز کرچکا تھا، چنانچہ اس نے تقسیمِ ہند کا اعلان ہوتے ہی اکتوبر 1947 میں ہندوستانی فوجوں کو کشمیر میں داخل ہونے کی دعوت دی۔ہندوستانی فوجوں سے لڑنے کے لیے مسلمان قبائلی بھی پاک فوج کی مدد سے کشمیر پہنچنے لگے۔یوں کشمیریوں نے قبائلیوں کی مدد سے کشمیر کے مغربی حصہ سے ہندوستانی فوج کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔24 اکتوبر 1947 کو مسلم کانفرنس (کشمیر) کے سربراہ سردار ابراہیم نے مغربی کشمیر میں آزاد کشمیر کے قیام کا اعلان کردیا۔قبائلی مجاہدین ہندوستانی فوجوں کے ساتھ مسلسل برسر پیکار تھے اور ہندوستانی فوج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔چنانچہ بھارت (موجودہ ہندوستان) نے قبائلی مجاہدین کی یلغار کے آگے بند باندھنے کے لیے اقوامِ متحدہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔اقوام متحدہ نے کافی گفت وشنید اور مذاکرات کے بعد22 اپریل 1948 کو قرار داد نمبر 47 منظور کی، جس کے مطابق فوری طور پر جنگ بندی عمل میں لائی گئی اور اس وقت کے محاذوں کو لائن آف کنٹرول قرار دے کر عارضی حد بندی کردی گئی۔ظاہر ہے کہ یہ ایک ہنگامی نوعیت کا معاہدہ تھا، لہٰذا ضروری نہیں کہ اس کی ہر شق پاکستان کے لیے سوفیصد قابل قبول ہو۔ہاں عمومی طور پر یہ معاہدہ قابلِ قبول تھا اسی لیے فریقین نے اس پر رضامندی کا ظہار کیا۔
اس قرارداد(معاہدے) میں پاکستان کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ قبائلی مجاہدین کو کشمیر سے واپس بلائے اور انڈیا کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ جموں و کشمیر سے اپنی افواج واپس بلائے اور اقوام متحدہ کے کمیشن کی نگرانی میں جموں و کشمیر میں استصواب رائے کرائے کہ آیا اہل کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا انڈیا کے ساتھ۔پاکستان کا مؤقف یہ ہے کہ چونکہ مذکورہ قرارداد میں جموں و کشمیر سے افواج کے انخلا اور استصواب رائے کرانے کی ذمہ داری انڈیا پر ڈالی گئی ہے، تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس قرارداد کا اطلاق صرف اس مشرقی جموں کشمیر پر ہوگا جوکہ انڈیا کے قبضے میں ہے، آزاد کشمیرپر اس کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ نہ تو وہ انڈیا کے زیر تصرف ہے اور نہ ہی وہاں انڈین فوج موجود ہے۔نیز یہ کہ آزاد کشمیر مقامی آبادی کی جدوجہد سے وجود میں آیا ہے، لہٰذا وہ مذکورہ قرارداد سے مستثنیٰ ہے۔قرارداد کی رو سےپاکستان صرف مقبوضہ کشمیر سے پاکستانی مجاہدین واپس بلانے کا پابند ہے۔در آن حال یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے مقامی مسلمان انڈیا سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، پاکستان کا سرکاری سطح پر اس میں براہ راست کوئی کردار نہیں ہے۔
انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 47 کا اطلاق آزاد کشمیر پر بھی ہوتا ہے، وہ اس وقت تک انڈیا سے اپنی افواج واپس نہیں بلائے گا جب تک پاکستانی فوج آزاد کشمیر سے نہیں چلی جاتی۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے بعض پاکستانی دانشور اور سیاستدان انڈیا کے مؤقف کی تائید کررہے ہیں۔سوال تو یہ ہے کہ کیا انڈیا جیسے مکار و دغاباز دشمن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اس کی کیا ضمانت ہے کہ اگر پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی افواج نکال بھی لے، جو کہ آزاد کشمیر کے عوام کی مرضی سے وہاں موجود ہیں، تو انڈیا مقبوضہ کشمیر سے واقعی اپنی افواج نکال لے گا؟
حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 47 کے تحت آزادکشمیر میں استصواب رائے کرانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ عمران خان کا یہ ارادہ پاکستان کی 72 سالہ کوششوں اور آزاد کشمیر کے مجاہدین کی قربانیوں کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی عوام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا کہ وہاں استصواب رائے کرایا جائے۔ پھر آخر عمران خان کو کونسی افتاد آن پڑی ہے کہ وہ پاکستان کے دیرینہ مؤقف کو پاؤں تلے روندتے ہوئے انڈیا کے اس مؤقف کی تائید کرے کہ مذکورہ قرارداد کا اطلاق آزاد کشمیر پر بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں ان ذرائع کا قول درست معلوم ہوتا ہے، جن کے خیال میں عمران خان کو انٹرنیشنل ایجنڈا پورا کرنے کے لیے مسلط کیا گیا ہے۔اگر بالفرض آزاد کشمیر میں استصواب رائے کرا دیا جائے اور وہاں کی عوام پاکستان سے کلی علیحدگی کا مطالبہ کردے تو کیا پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ آزاد کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلالے؟ اگر بالفرض پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی افواج واپس بلانے پر آمادہ ہوبھی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ انڈیا آزاد کشمیر پرقبضہ نہیں کرے گا؟
کیا آزاد کشمیر کے بعد لداخ اور گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان سے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کریں گے کیونکہ تقسیمِ ہند سے پہلے یہ بھی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے؟ کیا پاکستان اپنے سب سے بڑے دریا سندھ سے محروم ہونے کے لیے تیار ہے جس کا منبع و ماخذ لداخ کے پہاڑ ہیں؟ستلج، بیاس اور راوی کےپانی پر تو انڈیا پہلے ہی قبضہ کرچکا ہے، کیا اب ہم دریائے سندھ سے بھی ہاتھ دھو لیں؟ کیا ہم سندھ اور پنجاب کے سرسبزو شاداب کھیتوں کو بنجر کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں سے ان کا رزق چھین لینا چاہتے ہیں؟ کیا ہم آزاد کشمیر کو دوبارہ ہندوستانی ظلم و جبر کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں؟
اگر ہم خودکشی پر آمادہ نہیں ہوچکے تو ہمیں انڈیا کے بیانیے اور اس بیانیے کی تائید کرنے والوں کے خلاف اٹھنا ہوگا۔اس میں نہ صرف ہماری بقا ہے بلکہ آزاد کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی اور بقا بھی اسی میں مضمر ہے۔
اگر آپ ہماری رائے سے اتفاق کرتے ہیں تو اپنی نسلوں کی بقا کے لیے اسے شیئر کرنا مت بھولیے تاکہ یہ پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جاسکے۔