کیا کتبِ حدیث عوام الناس کے لیے لکھی گئی ہیں؟
ازقلم ساجد محمود انصاری
ہم سب جانتے ہیں کہ کتابیں بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں، کتابوں کی ایک قسم وہ ہے جو عوام الناس کے لیے لکھی جاتی ہیں، جن میں معاشرے کے عمومی حالات بیان کیے جاتے ہیں، یا مصنف عوام الناس تک کوئی خاص پیغام پہنچانا چاہتا ہے تو وہ ایسی عمومی نوعیت کی کتاب لکھتا ہے۔ جیسے افسانے، قصے، حکایات یاناول وغیرہ۔ یہ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے خواندگی کے فن کے سوا کسی خاص علم و فن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ عام پڑھا لکھا آدمی ان کتابوں سے باآسانی استفادہ کرسکتا ہے۔ تاریخ بھی چونکہ زیادہ تر قصوں کی شکل میں ہوتی ہے اس لیے عوام الناس تاریخی کتب سے بھی مقدوربھر استفادہ کرلیتے ہیں۔
کتابوں کی دوسری قسم وہ ہے جو کسی خاص علم و فن پر لکھی جاتی ہیں، جیسے علم طب، علم نفسیات، علم جغرافیہ، علم فلکیات، علم نباتات، علم حیوانات، علم کیمیا ا،علم طبیعیات اور فلسفہ وغیرہ۔ہر علم و فن کی اپنی مخصوص اصطلاحات ہوتی ہیں جن کو جانے اور سمجھے بغیر اس علم پر لکھی گئی کتب کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔مثلاً علمِ طب کو ہی دیکھ لیجیے۔علم طب خواہ قدیم ہو یا جدید، ہر ایک کی اپنی اصطلاحات ہیں۔علم طب کے مختلف شعبوں مثلاً علم تشریح الابدان(اناٹومی)، علم فعلیات (فزیالوجی) ، علم الامراض (پیتھالوجی)، علم الادویات (فارماکالوجی) اور علم الجراحت(سرجری) کے علوم جانے اور سمجھے بغیر علم طب کی کسی کتاب کا سمجھنا تقریباًمحال ہے۔ اب کوئی شخص کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو، علم طب کے مذکورہ علوم میں بنیادی مہارت کے بغیر علم طب کی کوئی کتاب نہیں سمجھ سکتا۔ اگر کوئی شخص علم طب میں مہارت نہ رکھتا ہو تو کیا اسے یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ علم طب کی کتب پر تنقید کرے؟ ان کتب کے مندرجات کو چیلنج کرے؟
اب آئیے کتب حدیث کی طرف۔ باور کرلیجیے کہ علم حدیث بھی ایک مستقل فن ہے جس کی مخصوص اصطلاحات ہیں۔ ان اصطلاحات کو سمجھے بغیر کوئی پڑھا لکھا شخص بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کتب حدیث میں لکھی ہوئی ہر عبارت کو سمجھ سکتا ہے۔
ایک شخص عربی زبان کا کتنا ہی عالم فا ضل ہو، علم حدیث کے اصول و اصطلاحات سمجھے بغیر کتب حدیث کی ہر عبارت کا معنی و مطلب سمجھنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ جس زمانے میں کتب حدیث مدون کی گئیں، اس وقت چھاپہ خانہ(پرنٹنگ مشین) ایجاد نہیں ہوئی تھی، لہٰذا ہر کتاب ہاتھ سے لکھی جاتی تھی، جس کی وجہ سے کتابیں اس طرح فراوانی سے دستیاب نہیں تھیں جیسے آجکل دستیاب ہیں۔ لہٰذا اس زمانے میں یوں تو اکثر کتابیں علما یا طلبا کے لیے لکھی جاتی تھیں البتہ کتب حدیث خاص طور پر علمائے حدیث اور طلبائے حدیث کے لیے ہی لکھی جاتی تھیں، کیونکہ اصول حدیث کو تفصیل سے سمجھے بغیر عام آدمی ان کتب سے استفادہ کر ہی نہیں سکتا۔
جس طرح قرآن کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اسے ایک یا دو نشستوں میں پیٹھ کر ناول کی طرح پڑھ ڈالا جائے، کیونکہ قرآن کو نہ صرف ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ اس میں تدبر کا حکم زیادہ مؤکد ہے۔ حدیث کی کوئی بھی کتاب مثلا صحیح بخاری ایسی نہیں ہے کہ اسے چند نشستوں میں بیٹھ کر پڑھ ڈالیں اور آپکو اس کے سب مندرجات سمجھ بھی آجائیں۔چہ جائے کہ آپ اصول حدیث سے بھی واقف ہوں، اسما الرجال پر بھی نظر ہو، سیرت النبی ﷺ بھی آپکو ازبر ہو، پھر بھی چند نشستوں میں بیٹھ کر مکمل صحیح بخاری پڑھنے اور اسے مکمل طور پر سمجھ لینے کا دعویٰ آپ نہیں کرسکتے۔علم حدیث میں مقدم و مؤخر، ناسخ و منسوخ، احاد و متواتر، راجح و مرجوح، شا ذو معلول، مقبول و متروک، صحیح و ضعیف، مرفوع و موقوف وغیرہ کا تعین محض ایک کتاب پڑھ لینے سے نہیں ہوتا۔ حدیث کی کسی ایک کتاب کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ نبی ﷺ کے سب اقوال و افعال کا بیان اس میں شامل ہے۔ حتیٰ کہ خود صحیح بخاری کے بارے میں نہ امام بخاری نے خود یہ دعویٰ کیا نہ کسی دوسرے معتبر امام حدیث سے ایسا قول منقول ہے۔ لہٰذا علم حدیث کے کسی بھی باب کے مکمل فہم کے لیے اس موضوع پر دستیاب تقریباً تمام احادیث کا احاطہ کیے بغیر کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں دیا جاسکتا کہ جو حدیث کسی ایک کتاب میں درج ہے لازماً وہی راجح ہے۔
یقیناً ان احادیث کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے مگر فقہائے امت نے اس مشکل کام کو بھی سرا نجام دیا اورقرآن و حدیث ، سیرت النبی ﷺ، آثار صحابہ اور دیگر ضروری علوم میں مہارت حاصل کرکے انہوں نے ان مشکلات کو حل کیا۔