2025-07-07
کیا نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے قرآن لکھا ہے؟

کیا نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ سے قرآن لکھا ہے؟

ازقلم ساجد محمود انصاری

منکرین حدیث کی ہر ادا نرالی ہے۔ دعویٰ تو ان کا ہے تدبر قرآن کا مگر قرآن کی آیات کو تروڑ مروڑ کر ان سے ایسے معانی اخذ کرتے ہیں جو قرآن کے مقصد و منشا کے یکسر الٹ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 48 ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا كُنۡتَ تَـتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِهٖ مِنۡ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيۡنِكَ‌ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ

العنکبوت:48

 

اور آپ اس (قرآن کے نزول ) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی آپ اسے (قرآن  کو) اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں کہ جس سے شک میں مبتلا ہونے والوں کو کوئی جواز مل سکے۔

ہمارا ماننا یہ ہے کہ اس آیت  مبارکہ میں

قبلہ اور تخطہ  

دونوں میں ضمیر غائب کا مرجع قرآن حکیم ہے۔اس تقدیر پر تخطہ مضارع کا صیغہ بنتا ہے نہ کہ ماضی کا۔ بعض مترجمین و مفسرین  نے   

وَّلَا تَخُطُّهٗ 

کو کُنتَ پر عطف مان کر اسے ماضی کا صیغہ سمجھ لیا ہے ، حالاں کہ یہ بات  قرآن کی دلیل اور مدلول دونوں کے خلاف ہے۔ قرآن  کفار مکہ کو دلیل دے رہا ہے کہ دیکھو یہ محمد ﷺ چالیس سال سے تم میں موجود ہیں، تم نے انہیں کبھی کوئی  کتاب پڑھتے  نہیں دیکھا  جو شخص پڑھنا نہ جانتا ہو وہ لکھ کیسے سکتا ہے؟ اب تم کہتے ہو کہ یہ خود سے قرآن لکھ کر لائے ہیں اللہ نے قرآن نازل نہیں کیا۔ کیا عقل یہ مانتی ہے  کہ جو شخص چالیس سال تک لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو اب وہ اچانک اتنی پُر حکمت کتاب لکھ کر لے آئے؟  

اصل زور قرآن کا اس پر ہے کہ نبی ﷺ قرآن خود نہیں لکھتے یعنی یہ ان کی اپنی تصنیف نہیں ہے۔اگر ہم تخطہ کو مضارع تسلیم نہ کریں تو قرآن کا یہ دعویٰ فوت ہوجاتا ہے۔اگرچہ 

قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا لازوال کلام ہے جس کی بناوٹ میں کسی مخلوق کا کوئی کردار نہیں۔ اللہ کا کلام اپنے وجود مسعود کے لیےکسی بھی مخلوق کے کسی بھی عمل کا محتاج نہیں۔عرب بنیادی طور پر ایک اُمی یعنی ان پڑھ قوم تھی اور اپنی فصاحت و بلاغت اور بے مثال حافظے کی وجہ سے کلام کو تحریر کرنے کو اپنی توہین جانتی تھی۔ تاہم قرآن حکیم چونکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے نازل ہوا ہے، اس لیے رسول اکرم ﷺ نے اللہ کے حکم سے اسے لکھوانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ چنانچہ آپ کے 40 کے قریب کاتب تھے جو مختلف اوقات میں قرآن حکیم کو ضبطِ تحریر میں لانے کی سعادت حاصل کرتے تھے۔ اگرچہ رسول اکرم ﷺ نے کبھی کسی استاد سے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا تھا، تاہم اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن حکیم کا علم خود براہ راست عطا فرمایا تھا، جس میں قرآن پڑھنا بھی شامل تھا۔ نیز صحیح البخاری کی حدیث نمبر 4251 میں وضاحت ہے کہ اگرچہ رسول اکرم ﷺ کسی حد تک لکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے مگر خوشنویسی آپ کا معمول نہ تھا۔ قرآن کو لکھنے کے لیے جو کاتب مقرر کیے گئے تھے وہ اپنے زمانے کے اعتبار سے ممتاز خوشنویس تھے۔ لہٰذا کاتب جو لکھتے تھے اسے آپ ﷺ خود پڑھ کے اس کی توثیق فرماتے تھے اور اگر کہیں کاتب سے غلطی ہوجاتی تو اس کی اصلاح بھی فرمادیتے تھے جیسا کہ آپ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے معاہدے کی اصلاح اپنے دستِ مبارک سے فرمائی۔

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading