2025-07-06

 

کیا نبی ﷺ نے نماز پڑھنا نہیں سکھائی؟

از قلم ساجد محمود انصاری

منکرین حدیث نے بھولے بھالے  عوام کو گمراہ   کرنے کے لیے ایک نیا شوشہ یہ چھوڑا ہے کہ اگر حدیث قرآن کی تشریح ہے اور نبی ﷺ نے صلوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ سکھایا ہے تو بتاؤ وہ کونسی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے مکمل نماز (اول سے آخر تک) ادا کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے؟ اب بھولے بھالے عوام کیوں کہ منکرین حدیث کی اصل چال سے ناواقف ہوتے ہیں تو وہ چل پڑتے ہیں ایسی حدیث تلاش کرنے کے لیے جس میں نبی ﷺ نے مکمل نماز ادا کرنے کا طریقہ سکھایا ہو۔ جان لیجیے کہ منکرین حدیث  نےیہ شوشہ محض علم حدیث سے نا آشنا عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے چھوڑا ہے۔ ورنہ وہ تو سرے سے حدیث کو حجت ہی نہیں مانتے۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر ایسی حدیث انہیں بتادی جائے تو کیا وہ حدیث کو حجت مان لیں گے؟

قرآن حکیم نے واضح طور پر اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے ذریعہ امت مسلمہ کو نماز کا وہ طریقہ سکھایا ہے جسے وہ پہلے نہیں جانتے تھے۔  ارشادِ باری تعالیٰ ہے

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

البقرہ: 144

اور صلوٰۃ کی حفاظت کرو خاص طور پر صلوٰۃِ وسطیٰ کی۔اور اللہ کے سامنے عاجزی سے قیام کیا کرو۔اور اگر تم حالتِ خوف( یعنی جنگ) میں ہو توپیدل چلتے ہوئے یا سوار ہوکر بھی (صلوٰۃ ادا کرو)، اور جب تم امن کی حالت میں ہو تو اللہ کا ذکر اسی طریقہ پر کرو جو اس نے  تمہیں سکھایا ہے ،جس سے پہلے تم ناواقف تھے۔

قرآن میں ارکان نماز مثلاً تکبیر،  قیام، قرأت سبع المثانی، رکوع، سجود ، درودو سلام کا ذکر اجمالی طور پر موجود ہے، مگر ان کی ترتیب اور تفصیل نبی ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھائی۔ نبی اکرم ﷺ اور مسلمانوں پر نماز ابتدائے  شریعت محمدی  میں ہی فرض ہوچکی تھی۔ جو لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے جاتے آپ ﷺ انہیں توحید کے بعد  سب سے پہلے نماز ہی سکھاتے تھے۔ تاہم نماز سکھانے کا یہ عمل ایک ہی نشست پر مشتمل نہیں ہوتا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ہم نے بھی ساری نماز بچپن میں صرف ایک  ہی نشست میں نہیں سیکھ لی تھی بلکہ سبقاً سبقاً متعدد نشستوں میں سیکھی تھی۔  نبی ﷺ بھی اپنے شاگردوں کو  ساری نماز ایک ہی نشست میں نہیں سکھا دیتے تھے بلکہ ان پر شفقت فرماتے ہوئے سبقاً سبقاً وقفے سے سکھاتے تھے۔اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ ابتدا میں صحابہ کرام ؓ  کی اکثریت لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ حجاز میں کتابیں لکھنے کا  عام رواج نہ تھا کیوں کہ کتابیں تو ان لوگوں کے لیے لکھی جاتی ہیں جو پڑھنا جانتے ہوں۔ چونکہ پڑھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اس لیے ابتدائے اسلام میں کتابوں کا زیادہ رواج نہ ہوسکا تھا۔ لہٰذا نبی ﷺ صحابہ کرام ؓ کو نماز کے  جو اسباق دیتے تھے وہ زبانی اسباق ہوتے تھے ناں کہ تحریری۔  اس لیے کسی کے ذہن میں یہ مغالطہ پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو نماز کی کوئی کتاب دی تھی۔ اس کے بر عکس صحابہ کرام ؓ نے  متعد دنشستوں میں زبانی اسباق  کی صورت میں نماز سیکھی تھی۔

اب آئیے احادیث کی طرف۔ احادیث صحابہ کرام  ؓ و اہل بیت عظام علیہم السلام  کے نبی ﷺ کے احوال کے بارے میں بیانات پر مشتمل  ہیں ۔یہ وہ بیانات ہیں جو ان اصحاب و اہل بیت  رضی اللہ عنہم اجمعین نے بالعموم کسی نہ کسی شاگرد کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمائے یا خود کسی کی اصلاح کے طور پر ارشاد فرمائے۔لہٰذا ہر حدیث کا ایک مرکزی موضوع ہوتا ہے جو اصل میں کسی خاص سوال کا جواب ہوتا ہے یا کسی خاص موقع سے متعلق ہدایت پر مشتمل ہوتا ہے۔ تاہم حدیث سند اور متن کا مجموعہ ہوتی ہے۔ سند میں ایک راوی بھی بدل جائے تو حدیث الگ شمار ہوتی ہے۔ احادیث میں صحابہ کرام و اہل بیت  رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے مشاہدات بیان فرمائے ہیں۔ اب چونکہ نبی ﷺ نے مکمل نماز اور اس کے تمام مسائل کبھی کسی  کو ایک  ہی نشست میں نہیں سکھائے اس لیے کسی ایک حدیث میں نماز کے تمام مسائل بیان نہیں کیے گئے بلکہ جیسے آپ  ﷺنے مختلف نشستوں میں  نماز کے مسائل سکھائے اسی طرح صحابہ کرام نے انہیں متعدد واقعات کی صورت میں الگ الگ بیان کیا ہے۔کسی  حدیث کا جو مخصوص موضوع ہوتا ہے  اس میں اسی موضوع سے متعلق مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کسی  تابعی نے کسی صحابی سے نماز کی قرأت کے بارے میں پوچھا  تو انہوں نے نبی  ﷺ کی قرأت کے بارے میں بتادیا۔ کسی نے نبی ﷺ کے ارکان کی طوالت کے بارے میں پوچھا تو صحابی نے اس کے بارے میں بتادیا۔ کسی نے نبی ﷺ کے رکوع و سجود کی تسبیح کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس سے آگاہ کردیا۔  کسی نے نبی ﷺ کی اعتدال کے بارے میں پوچھا تو صحابی نے اس کے بارے میں خبر دے دی۔غرض جیسا سوال ہوتا تھا ویسا ہی جواب ہوتا تھا۔  ایک ہی نشست میں نماز کے تمام مسائل سکھانا ممکن ہی نہیں ہے۔  اس لیے کسی ایک حدیث میں نماز کے سارے مسائل جمع نہیں ہیں۔ ایسا تو ہوا کہ نبی ﷺ نے کسی صحابی کو نماز میں کوئی غلطی کرتے دیکھا تو سرسری طور پر اس طرف توجہ دلادی۔ یا کسی نے نماز کے کسی خاص پہلو سے متعلق سوال کیا تو اسے وہ پہلو سمجھا دیا۔مگر مکمل نماز (تمام مسائل کے ساتھ) کسی ایک حدیث میں جمع نہیں ہے  کیونکہ کسی کو ایک ہی نشست میں نماز کے سب مسائل سکھانا تعلیمی اصولوں اور عقلی ضرورت  کے منافی ہے۔ البتہ وہ کتب حدیث جن کو موضوعات کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے ان میں آپ کو نماز کے مسائل ایک ہی کتاب میں مل جاتے ہیں۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ ایک کتاب حدیث میں نماز کا ہر مسئلہ بیان کیا گیا ہو۔  مختلف کتابیں مختلف نوعیت کے قارئین کے لیے لکھی جاتی ہیں یا مؤلف کتاب کا مقصد خاص نوعیت کی احادیث جمع کرنا ہوسکتا ہے۔  اس لیے یہ مطالبہ بھی عبث ہے کہ نماز کے تمام مسائل کی تمام احادیث لازماً ایک ہی کتاب میں جمع ہوں۔ احادیث کے تمام موضوعات کو اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading