آل محمد
رسول اکرم ﷺ کا مشن: دعوت الی اللہ
از قلم ساجد محمود انصاری
اللہ تعالیٰ نے زمین پرانسانوں کو بسانے کے بعد انہیں بے یارومدگار چھوڑنے کی بجائے، ان کی ہدایت اور تزکیے کا مستقل سامان بہم پہنچانے کے لیے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا۔ پہلے ہی انسان ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کونبوت کے منصب پر فائز فرمایا تاکہ وہ اپنی اولاد کی رہنمائی کرسکیں۔نبوت و رسالت کا یہ طویل سلسلہ بالآخر امام الانبیا محمد رسول اللہ ﷺ پر اپنی کامل ترین صورت میں ظاہر ہوا اور آپ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی بن کر آئے۔
قرآن حکیم میں چار مقامات پر رسول اکرم ﷺ کے فرائضِ منصبی کا تذکرہ خاص اہتمام سے کیا گیا ہے۔سورۃ البقرہ میں دومقامات پر (آیت 129 اور 151)، سورہ آل عمران (آیت 164) اور سورۃ الجمعہ(آیت 2) میں رسول اکرم ﷺ کے فرائضِ منصبی بطور رسول اللہ کھول کر بیان کیے گئے ہیں۔
سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیِنَ اِذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہ وَیُزَکِیّْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِینْ [1]
یقینااللہ تعالےٰ نے مؤمنین پر احسان فرمایا ہے کہ اس نے انہی کی جنس میں سے اک رسول ان کی طرف بھیجا ہے جو انہیں اس (اللہ) کی آیات پڑھ کے سناتا ہے اور ان کا تزکیہ نفس کرتاہے اورانہیں الکتاب اور الحکمة کی تعلیم دیتاہے حالانکہ اس سے قبل وہ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
تلاوتِ آیات سے یہاں مراد دعوت الیٰ اللہ کے لیے قرآنی آیات سے دلائل دینا ہے۔گویا یہ تلاوتِ آیات تبلیغ کا استعارہ ہے۔ دوسرا کام جو رسول اکرم ﷺ سر انجام دیتے تھے وہ تزکیہ ٔنفس ہے اور تیسرا فریضہ جو آپ ﷺ نے انجام دیا وہ کتاب و حکمت کی تعلیم ہے۔ اب ہم آئندہ سطور میں ان تینوں فرائضِ منصبی پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
دعوت الیٰ اللہ
رسول اکرم ﷺ پر جس روز پہلی قرآنی وحی نازل ہوئی گویا وہ آ پ کی نبوت دنیا میں باقاعدہ طور پر ظاہرہونے کا مبارک دن تھا۔آپ ﷺ نے اپنی نبوت کی خبر سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ علیہا السلام تک پہنچائی اور انہوں نے فوراً بلا کسی تردُّد کے آپ کی نبوت کی تصدیق کی۔بلا شبہہ رسول اکرم ﷺ تمام انسانیت کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں، تاہم آپ کا واسطہ جس قوم سے پڑا وہ جزیرۃ العرب پر آباد عرب قوم تھی۔
عرب قوم کی اکثریت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے فرزند سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے مکہ شہر کو باقاعدہ آباد کیا اور یہاں بیت اللہ تعمیر کرکے لوگوں کو خالقِ کائنات وحدہ ٗ لاشریک رب کی عبادت کی دعوت دی۔آلِ اسماعیل علیہ السلام اسی دینِ توحید کی وارث قرار پائی۔ مگر برا ہو شیطان کا کہ جو ابتدائے آفرینش سے انسان کا دشمن چلا آرہا ہے۔ اس نے بنو خزاعہ کے سردار عمرو بن لّحئی کے ذریعے اہل مکہ کو بت پرستی کی دعوت دی، جسے لوگوں نے رفتہ رفتہ قبول کرلیا۔یوں حجاز اور اس کے ارد گرد آباد قبائل دینِ حنیف کو بھلا کر پکے بت پرست بن گئے۔قصی بن کلاب کے زمانہ میں قریش کو مکہ کی ریاست حاصل ہوئی تو وہ مکہ میں بتوں کے سب سے بڑے پجاری بن گئے۔بیت اللہ میں تین سو ساٹھ بت آراستہ کیے گئے ،جن میں داعیانِ توحید سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام تک کے بت آویزاں کیے گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو اس بت پرست قوم کو بت پرستی سے بچانے اور توحیدِ باری تعالیٰ کے زمزموں سے روشناس کرانے کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔رسول اکرم ﷺ نے پہلے تیرہ سال مکہ میں اور پھر دس سال مدینہ میں جس لگن، مستعدی،دلسوزی اور حکمت کے ساتھ دعوت الیٰ اللہ کا فریضہ سرا نجام دیا اس کے ہر مرحلے کا شافی و کافی بیان قرآن حکیم میں موجود ہے۔غرض قرآن حکیم میں رسول اکرم ﷺ کی اس دعوت الیٰ اللہ کی مکمل روداد ہمیشہ کے لیے ثبت کردی گئی ہے۔ہم اس روداد کے چیدہ چیدہ مقامات ذکر کرکے اپنے ایمان کی تجدید کا سامان کریں گے اور اس بات کا جائزہ لیں گے کہ رسول اکرم ﷺ کی دعوت فی الواقع کیا تھی؟ اولاً مشرکینِ مکہ اور پھر یہودِ مدینہ نے رؤف و رحیم نبی ﷺ کی پُر حکمت دعوت کو کس زاویہ سے دیکھا اور اس پر کیا ردّ عمل ظاہر کیا؟رسول اکرم ﷺ نے کفار کے ہمت شکن رد ِّعمل کو کیسے برداشت کیا اورکس طرح ان کے لیے سراپا رحمت بنے رہے؟
باور کر لیجیے کہ رسول اکرم ﷺ بنیادی طور پر ایک مخلص ترین داعی الی اللہ تھے۔خود اللہ تعالیٰ نے ان کی اس شان کو خوب واضح کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا [2]
اے نبی ! بے شک ہم نے آپ کو (توحید کی )شہادت دینے ولا، بشار ت دینے والا ،خبردار کرنے ولا ،اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔
قرآن حکیم نے انبیائے سابقین کے قصے عبرت کے لیے بیان کیے ہیں اور ان سب کے بارے میں یہی بتایا ہے کہ انبیا ہمیشہ داعی الی اللہ اوربشیرونذیر بناکر بھیجے جاتے ہیں، انہیں داروغا بنا کر نہیں بھیجا جاتا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ[3]
اور ہم نے ہر امت میں رسول (محض اسی لیے ) بھیجا کہ (وہ لوگوں کو دعوت دے) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ [4]
اور ہم رسولوں کو محض بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے ہی بنا کر ہی بھیجا کرتے ہیں۔
آگے چل کر فرمایا
قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ [5]
اے نبی ﷺ کہہ دیجیے کہ میں تم پر داروغہ بناکر نہیں بھیجا گیا ہوں۔
نیز فرمایا
وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ [6]
بس ہمارے ذمّہ تو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔
ان آیات سے واضح ہوجاتا ہے کہ انبیا علیہم الصلوات والسلام کا بنیادی منصب داعی الی اللہ ہونا ہے، یہ الگ بات کہ دعوت الی اللہ کے لیے وہ اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔کتنے ہی انبیا اسی دعوت الی اللہ کی پاداش میں قتل کردئیے گئے۔ ہاں رسول قتل نہیں کیے جاسکتے مگر اکثر رسولوں کے قتل کے منصوبے ضرور بنتے رہے ہیں۔مگر معاندین کے یہ ہتھکنڈے انبیا و رسل کو دعوت الی اللہ سے باز رکھنے میں ہمیشہ ناکام و نامراد ٹھہرے۔
رسول اکرم ﷺ نے داعی الی اللہ کی حیثیت سے سب سے پہلے اپنے خانوادہ بنو ہاشم کو جمع کرکے انہیں بت پرستی ترک کرنے اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے کی دعوت دی۔پھر اپنی دعوت کا دائرہ بڑھانے کے لیے آپ نے کوہِ صفا پر بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا اور قریش کو دعوتِ توحید دی۔یوں دعوت الیٰ اللہ کا یہ مبارک عمل روز بروز ترقی کرتا گیا۔آپ ﷺ کا یہ معمول بن گیا کہ مکہ کی گلیوں میں جہاں کہیں مجمع دیکھتے انہیں اپنی طرف متوجہ فرماکر معبودانِ باطلہ کی بے بسی، لاچاری اور بے یارو مددگار ہونا دلائل سے واضح فرماتے اور ان کے برعکس اللہ وحدہٗ لاشریک کی لا محدود قدرت و کبریائی، ابدی و بے مثل صفات ِ الوہیت اور دائمی و لازوال حقِ عبودیت کا اظہارو اعلان فرماتے۔
رسول اکرم ﷺ کا آلۂ دعوت قرآن حکیم تھا کیونکہ قرآن حکیم کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔ اس لیے قرآن کا کوئی صفحہ ایسا نہیں جہاں توحید کا مفصل یا مجمل بیان نہ کیا گیا ہو۔قرآن حکیم نے توحید باری تعالیٰ پر ایسے واضح دلائل قائم فرمائے ہیں کہ جو ہر عقیل و فہیم شخص کے قلب و دماغ کو اپیل کرتے ہیں۔چنانچہ رسول اکرم ﷺ لوگوں کو دین توحید کی طرف بلانے کے لیے انہیں قرآن حکیم کی آیات پڑھ پڑھ کے سناتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کے نزول کا بنیادی مقصد ہی یہ بتایا ہے کہ رسول اکرم ﷺ اس کے ذریعے ساری انسانیت کو پیامِ توحید سنائیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ [7]
اوریہ قرآن مجھ پر اس لیے وحی کیا گیا ہے تاکہ میں اس کےذریعے تمہیں اور ان تمام لوگوں کو خبردار کردوں جن تک اس کا پیغام پہنچے۔ کیا تم گواہ بنتے ہو کہ اللہ کے سوا اور بھی معبود ہیں، کہہ دیجیے میں اس کا گواہ نہیں ہوں، یہ بھی کہہ دیجیے کہ وہ (اللہ ) تو اکیلا معبود برحق ہے اور میں ان (معبودانِ باطلہ) سے برأت کا اعلان کرتا ہوں جنہیں تم اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو۔
ظاہر ہے کہ عربوں کے لیے قرن حکیم کی زبان اجنبی نہ تھی، وہ قرآنی دلائل سن کر انہیں براہ راست سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔لہٰذا رسول اکرم ﷺ نے قرآن حکیم کو ہی ذریعۂ دعوت بنایا۔قرآن حکیم نے توحید باری تعالیٰ کہ دلائل بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان دلائل کو سن کر کفار کی جانب سے جو اشکالات و اعتراضات پیش کیے جاتے تھے قرآن ان کے شافی و مسکت جواب فراہم کرتا تھا۔
قرآن حکیم نے انفس و آفاق کے حقائق کی طرف بار بار توجہ مبذول کرائی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ مطلقہ اور رحمت و رافت کا خوب اظہار ہو اور اس کی شانِ ربوبیت کے ساتھ ساتھ اس کی شانِ الوہیت بھی مبرہن ہوجائے۔ اگرچہ دین ابراہیمی کے اثرات کے تحت عرب ربوبیتِ باری تعالیٰ کا اقرار کرتے تھے، مگر صدیوں سے بت پرستانہ ماحول کے باعث اللہ تعالیٰ کی شانِ الوہیت ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی اور وہ اپنے خودساختہ خداؤں کے ہی پرستار بن کر رہ گئے تھے۔ عرب بت پرست اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبرائی اور شانِ خداوندی سےآگاہ تو تھے مگر انہوں نے دیوی دیوتاؤں کی ایک لمبی فہرست تیار کرلی تھی جو ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہونے کے باعث لائقِ پرستش تھے۔بتوں کے پجاریوں نے انہیں یہ باور کرادیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی شان اتنی بلند ہے کہ اسے ہم جیسے گناہگار براہ راست پکارنے کی جرأت نہیں کرسکتے اس لیے اللہ کے ان چہیتوں کو اللہ کے حضور اپنے سفارشی کی حیثیت سے پیش کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان کے اس زعمِ باطل کا یوں رد کیا ہے
وَ یَعْبُدُ وْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالَا یَضُرُّھُمْ وَلَایَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ ط قُلْ اَتُنَبِّؤُنَ اللّٰہَ بِمَالاَ یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِی الْاَرْضِ ط سُبْحٰنَہ وَتَعَالیٰ عَمَّا یُشْرِکُونَ[8]
وہ ایسوں کی عبادت کرتے ہیں جو ان کونقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ کوئی نفع ہی دے سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں ،کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو کہ جو آسمانوں اور زمین میں اس کے علم میں ہی نہیں ،اللہ ان کے اس شرک سے پاک ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کفار پر واضح فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں ایساکوئی سفارشی مقرر نہیں کیا کہ جسے حاجت روائی و مشکل کشائی کے لیے پکارا جائے، جسے جھولیاں بھرنے والا اور کشتی پار لگانے والا جان کر اللہ کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس زعم کا بھی قلع قمع کردیا کہ جن دیوتاؤں کو اللہ کا چہیتا قرار دے کر پکار رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا چہیتا سرے سے بنایا ہی نہیں ۔
یہ تو محض چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے گھڑ لیے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے نام کا کوئی پروانہ جاری نہیں کیا۔یہ لوگ صرف ایک گمان اور خواہشِ نفس کی پیروی میں لگے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ کے اقرار ربوبیت کو بنیاد بنا کر دلیل دی کہ بھلا خالق و رازق معبود ہونے کے لائق ہے یا وہ خوساختہ معبودانِ باطلہ جن کا آسمان و زمین میں کوئی اختیار ہی نہیں۔
یٰاَیُّھَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ طھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ طلَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ [10]
اے لوگو ! اللہ نے تمہیں جو نعمتیں عطا کر رکھی ہیں ذرا انہیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دے سکے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔
سورۃ الانعام میں مشرکینِ مکہ کے عقائدو رسومات اور ان پر مدلل تنقید تفصیل سے وارد ہوئی ہے۔اس سے اس سارے ماحول پر روشنی پڑتی ہے جس کا سامنا رسول اکرم ﷺ کو داعی الی اللہ کی حیثیت سے کرنا پڑا۔
مثلاً مشرکینِ مکہ جانتے تھے کہ ان کا حقیقی مشکل کشا اور حاجت روا اللہ تعالیٰ ہے، چنانچہ اگر کبھی سمندری سفر میں کسی طوفان کا سامنا ہوجاتا تو یہی بت پرست خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے مگر جب اللہ تعالیٰ انہیں اس مصیبت سے نجات دے دیتا اور وہ صحیح سالم اپنے وطن لوٹ آتے تو پھر اسی بت پرستی میں مگن ہوجاتے اور اپنے خودساختہ معبودوں کے شکرانے گزارتے۔ان کے نام کی نذرو نیاز کرتے، ان کے استھان پر شکرانے کے طور پر جانور قربان کرتے، یا ان کے نام پرجانور آزاد چھوڑ دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس احمقانہ رویے پر یوں تنقید کی ہے
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّوَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً ج لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ ھٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ
قُلِ اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِنْھَا وَ مِنْ کُلِّ کَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ [11]
اے نبی( ﷺ) کہہ دیجئے کہ کون ہے جو تمہیں جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے ،جب تم اسے عاجزی سے اور چپکے چپکے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) کہ اگر اللہ ہم کو اس مشکل سے نجات بخشے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔کہہ دیجئے کہ اللہ ہی تمہیں اس مشکل سے اور ہر تکلیف سے نجات دیتا ہے ،تم پھر بھی اس کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہو۔