عربی زبان میں خدائے باری تعالیٰ کا اسمِ ذات (عَلَم) اللہ ہے۔ قرآن حکیم میں لفظ اللہ اس خدائے واحد کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو ساری کائنات کا یکتا و یگانہ خالق و مالک ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
اَللّٰہ ُخَالِقُ کُلِّ شَئ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَئ وَّکِیْل [1]
اللہ تعالیٰ ہرشے کا خالق ہے اور وہی ہر شے کا نگہبان ہے۔
توحید کا تصور ازل سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ عربی زبان میں اسم اللہ کا جمع (کثرت) سرے سے مستعمل ہی نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ کی تأنیث بھی ممکن نہیں ہے۔اللہ کی کوئی ضد (متضاد)بھی غیر ممکن ہے۔ اس لیےان اہل لغت کا قول دل کو لگتا ہے جو کہتے ہیں کہ اسم اللہ کسی دوسرے مادہ سے مشتق نہیں ہے بلکہ یہ مُرتجل (غیر مشتق) ہونے کی وجہ سےاپنی مثال آپ ہے۔ امام شمس الدین احمد بن یوسف المعروف بالسمین الحلبی ؒ ( متوفیٰ ۷۵۶ ھ) نے الدرّ المصون فی علوم الکتاب المکنون میں اسی قول کو ترجیح دی ہے۔[2]
بعض مستشرقین نے یہ بلا دلیل دعویٰ کیا ہے کہ سورۃ النجم کی آیت ۱۹ میں جو اللّات کا اسم وارد ہوا ہے ،یہ اللہ کی تأنیث ہے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللات الہ کی ممکنہ تأنیث ہوسکتی ہے مگر یہ اللہ کی تأنیث ہرگز نہیں ہے۔بنی اسماعیل سے تعلق رکھنے والے مشرکین عرب نے تین مشہور دیویوں لات، مناۃاور عُزّیٰ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے رکھا تھا۔ الہ کی تأنیث اللات، منان کی تأنیث مناۃ اور عزیز کی تأنیث عزیٰ بنا رکھی تھی۔ ان تینوں دیویوں کی سارے عرب میں خوب دھوم تھی۔ انہیں اللہ کی محبوب بیٹیاں قرار دے کر ان کی پوجا پاٹ کرتے تھے۔سورۃ النجم میں ان کے اس باطل قول کی یوں تردید کی گئی ہے:
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ