فہمِ قرآن اور شانِ نزول
ساجد محمود انصاری
قرآن اللہ تعالیٰ کا ابدی کلام ہے اور یہ حوادثِ زمانہ کا محتاج نہیں ہے۔تاہم قرآن کی آیات یکبارگی اکٹھی نازل نہیں ہوئیں بلکہ تھوڑی تھوڑی کرکے وقفے وقفے سے نازل ہوئی ہیں۔ یوں قرآن کی ترتیبِ نزولی قرآن کی موجودہ ترتیب سے مختلف تھی۔یاد رہے کہ قرآن کی موجودہ ترتیب کسی ایک انسان یا کسی انسانی گروہ کی کاوش نہیں ہے بلکہ رسول اکرم ﷺ نے حکمِ الٰہی سے اپنی نگرانی میں اسی ترتیب پر قرآن لکھوایا تھا۔اسی لیے موجودہ ترتیب کو ترتیبِ توقیفی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ترتیب منجاب اللہ ہے۔لوحِ محفوظ میں قرآن اسی ترتیب توقیفی کے مطابق لکھا ہوا ہے۔ واللہ اعلم
تفسیری روایات میں اکثر ذکر ہوتا ہے کہ یہ آیت فلاں موقعہ پر نازل ہوئی اور وہ آیت فلاں موقعہ پر۔ اس بیان کو مفسرین کی اصطلاح میں آیات کا شانِ نزول کہا جاتا ہے۔ یعنی بنظرِ ظاہر اس آیت کے نزول کا سبب روایت میں مذکور واقعہ تھا۔بلا شبہہ ان روایات سے نزولِ آیات کے پسِ منظر کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔مگرجمہور علمائے امت کا اتفاق ہے کہ شانِ نزول کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ فلاں آیت کا تعلق صرف اسی مخصوص واقعہ کے ساتھ ہے اس لیے اس آیت سے کوئی حکمِ عام اخذ نہ کیا جائے۔
گنتی کی چند آیات ایسی ہیں جن کا کسی واقعہ سے مخصوص ہونا خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے تاہم عام طور پر یہ مسلمہ اصول ہے کہ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص المعنیٰ۔یعنی الفاظِ قرآن سے جو عمومی حکم اخذ ہوتا ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ کسی واقعہ سے مخصوص معانی کا۔
جن تفسیری روایات میں کسی آیت کا شانِ نزول بیان کیا جاتا ہے وہ عموماً اخبارِ احاد کی قبیل سے ہوتی ہیں بلکہ اخبارِ احاد کی بھی سب سے کمتر قسم سے۔اکثر تفسیری روایات مراسیل ہیں ،جن میں سےزیادہ تر مراسیل ضعیف ہیں۔امام احمد بن حنبل ؒ نے تو یہاں تک فرمادیاہے
ثلاثہ کتب لیس فیہا اصول :المغازی والملاحم والتفسیر
(ابن النجار الفتوحی الحنبلیؒ، شرح الکوکب المنیر:2/158، مکتبۃ العبیکان، ریاض، سعودی عرب )
یعنی تین قسم کی کتبِ روایات ایسی ہیں جن میں مسند و مرفوع احادیث نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مغازی (سیرت النبیﷺ)تفسیر اور ملاحم (جنگوں کے قصے)۔
جب اکثرتفسیری روایات کی اسنادی حیثیت اس قدر مخدوش ہے تو انہیں متواتر اللفظ قرآن پر حاکم کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ پس جن تفسیری روایات میں آیات کا شانِ نزول بیان کیا گیا ہے ان سے صرف اسی حد تک دلچسپی ہونا چاہیے کہ ان کے ذریعے نزولِ قرآن کا پسِ منظر واضح ہوجاتا ہے۔ تاہم قرآن کے معانی و مفاہیم کا تعین کرنے کے لیے ان روایات کو حاکم نہیں بنایا جاءے گا۔ بلکہ آیات کے سیاق و سباق ، سنتِ متواترہ اور اخبارِ احاد صحیحہ کی روشنی میں ہی قرآن کے معانی کا تعین کیا جانا چاہیے۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شانِ نزول بیان کرنے والی روایات میں کافی تعارض ہوتا ہے۔ اس کا ایک سبب تو روایات کی اسنادی حیثیت میں تفاوت ہوتا ہے اور کبھی راوی کسی آیت کو اپنے فہم کے مطابق اس سے اخذ ہونے والے احکامات کو کسی واقعہ سے جوڑ دیتا ہے، جبکہ دوسرا راوی اس اصل واقعہ کی نشاندہی کرتا ہے جس کے بعد وہ آیت نازل ہوئی۔اس طرح بظاہر روایات میں تعارض واقع ہوجاتا ہے۔
ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک روایت آیت کے ایک پہلو کی طرف اشارہ کررہی ہوتی ہے اور دوسری روایت اسی آیت کے دوسرے پہلو کی نشان دہی کررہی ہوتی ہے۔مگر واقعات میں اختلاف کی وجہ سے روایات بظاہر متعارض نظر آتی ہیں۔
بہر کیف یہ طے ہے کہ ان حوادثِ زمانہ کو فہمِ قرآن کے لیے پیمانہ ٔحق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر ان متعارض روایات کو پیمانۂ حق مان کر قرآن پر حاکم بنادیا جائے تو اس سے قرآن کا اپنا مدلول نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے اور آدمی شانِ نزول میں ہی الجھ کر رہ جاتا ہے۔یہی سبب ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے فرمایا
اضَرّ الاشیاء فی فھم القرآن شان النزول
(تفسیر جواہر القرآن، در بیان اصطلاحات، 1/11، کتب خانہ رشیدیہ، راولپنڈی)
فہمِ قرآن میں سب سے زیادہ مضر شے شان نزول ہے۔
ہماری ان تمام معروضات کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ عموم ِقرآن سے جو عمومی احکام اخذ ہوتے ہیں وہ قیامت تک کے لیے امت پر حجت ہیں۔ یہ احکام نہ تو عارضی نوعیت کے تھے اور نہ ہی عربوں کے ساتھ مخصوص تھے۔جیسا کہ بعض متجددین متعدداحکامِ قرآن سے جان چھڑانے کے لیے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان احکام کا تعلق محض قدیم عرب تہذیب سے تھا، اب ان احکام پر عمل کرنا ممکن نہیں رہا ، جیسے حجاب کا حکم (معاذاللہ)۔