2025-07-06

 

وِلایتِ  علی علیہ الصلوات والسلام کی حقیقت  

ارشادِ باری تعالیٰ ہے
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [1]
اے اھل بیت ! اللہ چاہتا ہے کہ وہ آپ سے (گناھوں کی) نجاست دور کردے اور آپ کو (گناھوں سے) خوب پاک صاف کردے۔
اس آیت کے بارے میں عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ھیں کہ یہ آیت ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ علیھا السلام کے حجرے میں نازل ھوئی۔تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ, سیدنا حسن اور سیدنا حسین علیھم السلام کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانپ لیا جبکہ علی علیہ السلام آپ کی پشت پر کھڑے ھوگئے اور آپ نے انکو بھی چادر میں ڈھانپ لیا. پھر آپ نے یوں دعا کی: اے اللہ یہ سب میرے اھل بیت ھیں پس ان سے گناھوں کی نجاست دور کردے اور انھیں گناھوں سے خوب پاک صاف کردے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا یہ دیکھ کر کہنے لگیں, کہ اللہ کے نبی! مجھے بھی ان میں شامل کر لیجیے تو آپ نے فرمایا
آپ پہلے ہی اپنے اعلی ٰمقام پر ھیں, جو میرے خیال میں زیادہ بہتر ھے۔[2]

یہاں اس دعا سے رسول اکرم ﷺ کا مقصود اللہ تعالیٰ کو بتلانا نہیں تھا کہ ان کے اہلِ بیت کون ہیں بلکہ اس کا گوہرِ مقصود مذکورہ اہلِ بیت علیہم الصلوات والسلام کی منقبت  اور مقام و مرتبہ واضح کرنا تھا۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ  اھل ِکساء کو اھل بیت میں خاص امتیازی مقام حاصل ہے نیز ان کی گناہوں سے حفاظت کا اللہ نے  خود ذمہ لے لیا ہے لہٰذا اہلِ بیت رسول علیہم الصلوات والسلام معصوم عن الخطا تو نہیں مگر محفوظ عن الخطا ضرور ہیں۔ یہی سبب ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے  مذکورہ اہلِ بیت کی اطاعت کا باقاعدہ حکم ارشاد فرمایا ہے۔

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنھما سے مروی ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
 أَنَا تَارِکٌ فِیکُمْ ثَقَلَینِ: أَوَّلُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ فِیہِ الْھَدْيُ وَالنُّورُ فَخُذُوا بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوا بِہِ فَحَثَّ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ وَرَغَّبَ فِیْہِ۔ ثُمَّ قَالَ: وَأَھْلُ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي.
میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے پہلی بھاری چیز اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں ہدایت اور نور ہے پس تم کتاب اللہ کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ مضبوطی اختیار کرو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کے حوالے سے لوگوں کو ابھارا اور ترغیب دلائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور (دوسری بھاری چیز) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ  کی یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں اللہ  کی یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، یعنی اللہ سے ڈراتا ہوں۔[3]

سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں الفاظ یوں ھیں
أيُّها الناس، إنِّي تاركٌ فيكم أمرينِ لن تضلُّوا إن اتَّبعتموهما، وهما: كتابُ الله، وأهلُ بيتي عِترتي [4]
اے لوگو! میں تمھارے بیچ دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں , تم جب تک ان کی پیروی کرتے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ھوگے, یعنی اللہ کی کتاب اور میرے اھل بیت۔
سیدناُ جابرِ بن عبد الله رضي الله عنہما سے یہ الفاظ مروی ھیں
يا أيُّها الناس، إني تركتُ فيكم ما إنْ أخذتُم به لن تضلُّوا: كتاب الله، وعِترتي أهْلَ بَيتي [5]
اے لوگو! میں تمھارے بیچ دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں , اگر تم ان سے چمٹے رہو گے تو ہرگز کمراہ نہ ہوگے, یعنی اللہ کی کتاب اور میرے اھل بیت۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں
إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ: كِتَابُ اللهِ ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ، أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي[6]
میں تمھارے بیچ دو جانشین چھوڑے جارہا ہوں, یعنی کتاب اللہ جو آسمان سے لٹکی ہوئی اللہ کی رسی ہے اور میرے اھل بیت۔

ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ سورہ نسا کی آیت ۵۹ میں جن اولی الامر کی اطاعت کا حکم  وارد ہوا ہے وہ اہلِ بیت رسول علیہ الصلوات والسلام ہیں۔ جبکہ اہلِ بیت میں سے خاص طور پر سیدہ فاطمہ علیہا السلام کے بطن سے جنم لینے والی آلِ علی علیہ السلام مراد ہے۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل صحیح حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابو طالب علیہ السلام نے لوگوں کو درختوں کے جھنڈ میں جمع فرمایا۔ اور ان سے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ بتاؤ رسول اللہ ﷺ نے غدیرِ خُم کے پاس خطبہ میں کیا فرمایا؟ تب لوگوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کیا میں مومنوں کے لیے ان کی جانوں سے عزیز تر نہیں ہوں؟ پھر آپ ﷺ نے سیدنا علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کا مولیٰ ہے،  اے اللہ جو علی کو عزیز تر رکھے اسے تُو بھی عزیز رکھ اور جو علی سےعداوت رکھے اس سے تُو بھی عداوت رکھ۔[7]

اس حدیث کا شاہدمسند امام احمد میں موجود ہے۔

سیدنا بریدہ  الاسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدُنا علی علیہ السلام کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سیدنا علی علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تنقیص کی۔ اسی لمحے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک (کا رنگ) متغیر ہوتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بریدہ! کیا میں مومنوں پر  ان کی جانوں سے  زیادہ اختیار نہیں رکھتا؟

میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیوں نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.

جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔[8]

اسی حدیث کی مزید تائید درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے۔

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک سریہ سے واپسی پر بعض لوگوں نے سیدنا علی علیہ السلام کے کسی عمل پر اعتراض کیا تو  رسول اکرم ﷺ کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا اور آپ ﷺنے فرمایا: تم لوگ مجھ سے علی کی بابت کیا چاہتے ہو؟ بے شک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد سب مؤمنوں کا ولی ہے۔[9]

یہ احادیثِ صحیحہ  ولایتِ علی و آل علی علیہم الصلوات والسلام پر نص ہیں، جو کہ قرآنی نصِ قطعی  میں 

اولی الامر 

کا مفہوم متعین کردیتی ہیں۔ ان احادیث میں مولیٰ سے مراد سردارو آقا کے 

     ہیں۔ ظاہر ہے کہ من کنت مولاہ  میں مولیٰ کا جو مطلب ہے وہی فعلی مولاہ میں ہے۔ اب


 یہ آپ کا اپنا ذوق ہے کہ آپ نبی ﷺ کو محض دوست سمجھتے ہیں یا آقا و سردار؟ 


دراصل یہاں ولایت فی العلم والفقہ والحکمہ مراد ہے۔جس کی طرف ایک دوسری حدیث میں قوی اشارہ موجود ہے۔

سیدنا علی  اور سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا

اَنَا دَارُالْحِکمَۃِ و عَلِیٌّ بَابُھَا[10]
میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔

غرض 

علوم نبوی کے اصل وارث سیدنا علی علیہ السلام اور ان کے توسط سے ان کی وہ آل و اولادہے جو سیدہ فاطمہ علیہا السلام کے بطن سے پیدا ہوئی یعنی سیدنا حسن، سیدنا حسین اور سیدنا محسّن علیہم السلام ہیں اور ان کی ذریت۔ اس کی ادنیٰ سی شہادت یہ ہے کہ تزکیہ ٔ نفس کے تمام سلسلے سیدنا علی علیہ السلام پر منتہا ہوتے ہیں۔

درواز



[1] الاحزاب :۳۳

[2]جامع الترمذی ۳۷۸۷

 

[3] صحیح مسلم: 2408

[4] مستدرک الحاکم 4577:

[5] جامع الترمذی ۳۷۸۶

[6] مسند امام احمد ۲۱۹۱۱

[7] السنن الکبریٰ، للنسائی: رقم ۸۶۲۳

[8] مسند امام احمد: رقم ۲۲۹۹۵

[9] السنن الکبریٰ، للنسائی: رقم ۸۶۱۹

[10] جامع الترمذی: رقم ۳۷۲۳

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading