2025-07-06
فقہ ہاشمی

اصولِ فقہ ہاشمی

از قلم ساجد محمود انصاری

شریعتِ اسلامی کے تمام احکام کی  اصل بنیاد قرآن  و سنت کے دلائل و براہین اور آل محمد صلوات اللہ علیہم کے پاکیزہ فرامین ہیں۔ فقہ ہاشمی کی بنیاد انہی تین اصولوں پر قائم ہے۔ یہ دلائل و براہین امت پر حجت قائم کرتے ہیں۔ یہ دلائل بنیادی طور پر  دو قسم کے ہیں یعنی قطعی اور ظنی۔دلیل قطعی کو حجتِ قطعیہ اور دلیل ظنی کو حجتِ ظنیہ کہتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں کہ حجتِ قطعیہ اور حجتِ ظنیہ میں کیا فرق ہے اور اسے کیسے تلاش کیا جاسکتا ہے؟

اہل اصول کا متفقہ فیصلہ ہے کہ حجت صرف ایسی روایت ہوسکتی ہے جسے ہر طبقہ میں عادل راوی روایت کرے اگرچہ اس کے حافظے میں ضعف ہی ہو۔

حجتِ قطعیہ

قرآن حکیم بالاتفاقِ امت اعلیٰ ترین حجتِ قطعیہ ہے، جس کے مقابلے میں کسی بھی شے کو فوقیت نہیں دی جاسکتی، اس کا  ظاہری سبب یہ ہے کہ قرآن حکیم کو رسول اکرم ﷺ سے سینکڑوں عادل راویوں نے براہِ راست نقل کیا ہے ۔ نیز نبیﷺ نے اپنے سامنے مکمل قرآن حکیم تحریر کردیا تھا، جس کی نقول ہر دور میں وقت کے صالح ترین لوگوں کے پاس محفوظ رہی ہیں۔ لہٰذا قرآن حکیم کی قطعیت کے بارے میں ذرا بھی شبہہ نہیں کیا جاسکتا۔

دوسری قسم کی روایات وہ ہیں جو قرآن حکیم کی وحی پر تو مشتمل نہیں ہیں تاہم  رسول اکرم ﷺ کے ہزاروں اقوال و افعال  ان کے آل و اصحاب سے منقول ہیں۔جن روایات کے راوی عادل ہیں، وہ دو قسم پر ہیں:

وہ روایات جن کی نسبت رسول اکرم ﷺ سے بلا شک و شبہہ قطعیت کے ساتھ  ثابت ہے، وہ حجت قطعیہ ہیں۔ان روایات کی پہچان یہ ہے کہ وہ درج ذیل شرائط میں سے کسی ایک شرط پر پورا ترتی ہوں:

1۔اہلِ بیت رسول علیہم الصلوات والسلام میں سے تین افراد ایک ہی مفہوم کی حامل مرفوع روایت بیان کریں۔

2۔ اہلِ بیت علیہم الصلوات والسلام میں سے دو اور غیر ہاشمی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک فرد ایک ہی مفہوم کی مرفوع روایت بیان کریں۔

3۔  اہلِ بیت علیہم الصلوات والسلام سے کوئی ایک اور دو غیرہاشمی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  ایک ہی مفہوم کی روایت  بیان کریں۔

حجتِ ظنیہ

جن  مقبول روایات میں حجتِ قطعیہ کی مذکورہ بالا تین شرطوں سے کوئی ایک  شرط بھی نہ پائی جائے وہ حجتِ ظنیہ ہیں۔ تاہم چونکہ ان روایات کی نبی ﷺ کی طرف نسبت درست ہونے  کا ظن غالب ہے، اس لیے انہیں حجتِ ظنیہ کہا جاتا ہے۔

جس روایت کا کوئی ایک راوی بھی عادل نہ ہو وہ حجت قطعیہ ہے نہ حجتِ ظنیہ۔ایسی روایات قابلِ التفات نہیں ہیں خواہ انہیں کتنی ہی عظیم ہستیوں کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔واللہ اعلم

اسلامی شریعت میں حجتِ قطعیہ اور حجتِ ظنیہ دونوں سے استدلال کیا جاتا ہے۔تاہم حجت کی نوعیت کے اعتبار سے حکم کی نوعیت بدل جاتی ہے۔اسلامی احکام کا حجتِ قطعیہ اور حجتِ ظنیہ کے ساتھ درج ذیل تعلق ہے:

فرض

اگر حجتِ قطعیہ قرآنیہ میں کسی کام کے کرنے کی تاکید صراحتاً یا اشارتاً  کی گئی ہو ،یا اس کے نہ کرنے پروعید سنائی گئی ہوتو ایسا کام شریعت میں فرض کے درجے میں ہوتا ہے، جس کا ترک کرناگناہ کبیرہ ہے۔

واجب

اگر حجتِ قطعیہ سُنّیہ  میں کسی کام کی تاکید بیان کی گئی ہو، یا رسول اکرم ﷺ کی کسی فعل پر مواظبت (دوام)  مذکور ہو، یا اس کے ترک کرنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہو تو ایسا کام واجب کے درجے میں ہے، اس کا  بلا عذر شرعی جان بوجھ کر ترک کرنا  گناہ کبیرہ ہے۔

سنت

اگر حجتِ ظنیہ(ہاشمیہ) میں کسی کام کی تاکید بیان کی گئی ہو ،یا اس کی پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہو،یا رسول اکرم ﷺ کی کسی فعل پر مواظبت (دوام)   مذکور ہویا اس کے ترک کرنے پر وعید وارد ہوئی ہو تو ایسا کام سنت کے درجے میں ہے، اس کا ترک کرنا   گناہ صغیرہ ہے۔

مستحب

اگر حجتِ ظنیہ(غیرہاشمیہ) میں کسی کام کی تاکید بیان کی گئی ہو یا اس کی پسندیدگی کا اظہار کیا گیا  ہو تو ایسا کام مستحب کے درجے میں ہے، اس کا ترک کرنا  گناہ نہیں  ہے، تاہم کرنا باعثِ ثواب ہے۔

حرام

اگر حجتِ قطعیہ(قرآنیہ و سنّیہ) میں کسی کام سے ممانعت کی گئی ہو، یا اس کے کرنے والے کو وعید سنائی گئی ہو یا ناپسندیدگی کا اظہار کیاگیا ہو تو ایسا کام عموماً حرام قرار پاتا ہے۔جس کا ارتکاب گناہ کبیرہ ہے۔

مکروہِ تحریمی

حجتِ ظنیہ (ہاشمیہ) میں کسی کام سے منع کیا گیا ہو، یا اس کے کرنے والے کو وعید سنائی گئی ہو یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہو توایسا کا م مکروہِ تحریمی ہے جس کا ارتکاب گناہِ صغیرہ ہے۔

مکروہِ تنزیہی

حجتِ ظنیہ (غیرہاشمیہ) میں کسی کام سے منع کیا گیا ہو، یا اس کے کرنے والے کو وعید سنائی گئی ہو یا ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہو توایسا کا م مکروہِ تنزیہی ہے جس کا ارتکاب گناہ تو نہیں مگر ناپسندیدہ ہے۔

مباح

جو کام مذکورہ بالا کسی بھی قسم کے تحت نہ آتا ہو وہ عام طور پر مباح ہوتا ہے  جس کے کرنے یا نہ کرنے سے گناہ و ثواب نہیں ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading