2025-07-07

 

کیا ہم قُرآن سے دُور بھاگ رہے ہیں؟

ساجد محمود انصاری

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ جب بھی اہلِ کفر کی طرف سے ہمارے محبوب نبی سیدنا و مولانا محمد مصطفیٰ ﷺ کی کسی بھی اندازمیں توہین کی جاتی ہے تو  امت مسلمہ تڑپ اٹھتی ہے، اس میں بے چینی کی اک لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ سراپا احتجاج بن کر اپنے شدید غم و غصے کا اظہار کرتی ہے۔جس  سےیہ ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی امت  مسلمہ میں ایمان کی رمق باقی ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنے ایمان کا ثبوت باہم پہنچانے اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے؟

جب ہم اس سوال کے جواب کے لیے قرآن حکیم کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم تو ابھی سمندر کے کنارے پر کھڑے ہیں اور اس خود فریبی میں مبتلا ہیں کہ ہم نے سمندر پار کرلیا ہے۔آج مسلم امہ  اجتماعی اور انفرادی ہر سطح پر قرآن کے معیارِ فلاح و نجات کے سب سے نچلے  درجے پر کھڑی ہے۔میں یہ بات بڑے بوجھل دل کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ  مجھ سمیت مسلم امہ کے سبھی افراد (الا ما شاءاللہ)  کا طرزِ زندگی قرآن کے بتائے ہوئے طرزِ زندگی سے یکسر مختلف ہے۔ اس کا سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم قرآن حکیم کی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر اپنی من چاہی زندگی بسر کرنے پر مُصِر ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے قرآنی اصولِ حیات کی ہماری نظر میں کوئی قدرو قیمت نہیں رہی اور نفسانی خواہشات کی پیروی ہی ہمارے لیے اصل زندگی ہے۔یہ کسی پر کوئی الزام نہیں ہے۔ اگر اس دعویٰ کی سچائی جانچنا ہو تو ایک جانب مساجد میں جھانک کر دیکھ لیں کہ وہاں کتنی رونق ہے اور دوسری جانب اپنے  بازاروں اور شاپنگ مالز  میں جمع بے ہنگم ہجوم   پرنگاہ دوڑا کر دیکھ لیں کہ  آج ہمارا  اصل مقصودِحیات کیا ہے؟ ہمیں ہمارے محبوب نبی ﷺ نے  جو دین ( اصولِ حیات ) قرآن کی شکل میں عطا فرمایا  ہے اس کا تو مقصد و محور  ہی رب واحد کی بندگی ہے ۔اب خود حساب لگا لیں کہ ہمارے ایک دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کتنا وقت اپنے کریم رب کی عبادت میں گزرتا ہے اور ہم کتنا وقت اپنے رب کریم کی نافرمانی میں گزارتے ہیں؟

اسلامی عبادات کا مقصد اپنے نفس کو رب کریم کے احکامات کی پابندی کا خوگر بنانا ہے تاکہ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ رب کی بندگی میں گزرے۔اسلامی عبادات بالخصوص نماز ہمارے نفس کی سرکشی کو لگام ڈالتی ہے۔اسی لیے قرآن نے بتایا ہے کہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے انسان کو باز رکھتی ہے۔نماز اللہ تعالیٰ  کا دھیان ہر وقت  دل میں پختہ رکھنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔جب انسان کو اللہ تعالیٰ کا دھیان نصیب ہوجائے تو پھر وہ  اپنے رب کی نافرمانی کرنے پر جری نہیں ہوتا، پھر وہ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ کرکے انسانی جانوں سے نہیں کھیلتا، کسی عفت مأب خاتون کی عزت پر بری نظر نہیں ڈالتا، کسی کا مال چوری کرنے کی جرأت نہیں کرتا اور کسی کی جان لے کر اپنے اوپر جہنم واجب کرنے سے ڈرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دھیان ایسی دولت ہے کہ  اس کی وجہ سے انسان کو جھوٹ، حسد، غیبت، حرص،کینہ اور اس جیسے تمام رذائل سے نجات مل جاتی ہے اور اس کے قلب کو حقیقی اطمینان اور فرحت نصیب ہوتی ہے۔اگر مجھے نماز سےاطمینانِ قلب اور سچی فرحت حاصل نہیں ہوتی تو اس  کایہ مطلب نہیں کہ قرآن کا فرمان غلط ہے  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن  عبادتِ ا لٰہی  کے لیے جس اخلاصِ نیت کا مجھ سے تقاضہ کرتا ہے  میں اس سے محروم ہوں اور محض لوگوں کو دکھاوے کے لیے مسجد جاتا ہوں تاکہ لوگ میرے دامِ فریب میں آسانی سے پھنس سکیں۔ افسوس کہ آج ہمارے نمازیوں کی اکثریت ایسی ہی ہے۔الا ماشاء اللہ

اگر ہم مسلم امہ کے اجتماعی امور کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا اجتماعی نظام  دگرگوں ہے،ہمارا شیرازہ بکھرا ہوا ہے،طوائف الملوکی کا راج ہے اور اسی تقسیم در تقسیم  کے سبب آج ہم ملتِ کفر کے باجگزار بنے ہوئے ہیں۔ان سب کا اصل سبب  بھی  عبادتِ رب سے روگردانی  ہی ہے۔ جیسے ہم انفرادی سطح پر عبادتِ رب سے دست کش ہوچکے ہیں اسی طرح اجتماعی سطح پر بھی ہم عبادتِ الٰہی سے بغاوت کے مرتکب ہیں۔اطاعت ِ الٰہی  اس کی عبادت ہے اور اطاعت ِ الٰہی سے انکار اپنے کریم  رب سے بغاوت ہے۔ آج جو ریاستیں مسلم ریاست ہونے کی دعویدار ہیں کیا ان میں  رب کا قانون (قرآن)  نافذ ہے یا یہودو نصاریٰ کے وضع کیے ہوئے قوانین؟ دور کیوں جائیں، وطنِ عزیز پاکستان جس  کی بنیاد ہی لاالٰہ الا اللہ پر رکھی گئی اس میں آج تک تاجِ برطانیہ کا بنایا ہوا وہ قانون نافذ ہے جو اس نے  متحدہ ہندوستان میں  1935 میں نافذ کیا تھا۔ آج بھی  ہماری عدالتیں اسی قانون کے تحت ’نام نہاد انصاف ‘فراہم کرتی ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ذکر کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے رب سے یہ شکوہ کرتے   رہے  کہ ان کی کافر قوم قرآن سے دور بھاگتی ہے۔

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا

الفرقان:21

اور رسول اکرم نے کہا کہ اے میرے رب بے شک میری یہ قوم قرآن سے دور بھاگتی ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا وہ شکوہ جو کبھی  انہوں  نے کفارِ مکہ کے بارے میں کیا تھا، آج مسلم امہ پر صادق آتا ہے۔حیف صد حیف!

آج ہماری یہ کیفیت ہے کہ قرآن کے احکام کی بجاآوری تو درکنار ہمیں سرے سے یہی علم نہیں کہ ہمارا کریم رب  اپنی اس کتاب میں ہم سے کیا مطالبات کرتا ہے؟ ہم میں سے بہت سے تو ایسے بھی ہونگے جنہیں یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ ان کے گھر کے کسی کونے میں اللہ کی کتاب گرد سے آلود پڑی ہے۔اور جنہیں یہ یاد ہے وہ اسے کبھی کبھار تبرک کے طور پر پڑھ لیتے ہیں۔بہت  کریں تو روزانہ پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ جس کتاب کو وہ روزانہ پڑھتے ہیں وہ کہتی کیا ہے؟ اس کا پیغام کیا ہے؟ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی کے  کون  کون سے اصول بیان کیے ہیں اور ان پر عمل کی صورت کیا ہے؟ آخر وہ ایسا کیوں کریں  کہ جب اس کتابِ تذکیر  کے رکھوالوں نے  ہی اسے ایک کتابِ معمہ (پزل) بنا کر پیش کیا ہے؟ آخر  لوگ اسے سمجھنے کی سعی کیوں کر کریں گے جب ان کے ذہنوں میں یہ بات بار بار انڈیلی جائے گی کہ  یہ کتاب   چودہ علوم کے بغیر سمجھ ہی نہیں آتی؟ اسی پر بس نہیں،  افسوس تو یہ ہے  کہ چودہ علوم پڑھ کے بھی لوگ براہِ رست قرآن سے ہدایت حاصل کرنے سے گریز اں رہتے ہیں کہ کہیں قرآن کی کوئی بات ان  کے من پسندمسلک کےخلاف نہ نکل آئے اور وہ  قرآن کی مان کر اپنے مسلک کو ترک کرکے کہیں گمراہ ہی نہ ہوجائیں۔  

آج ہمیں خود سے بار بار یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم قرآن سے دور بھاگ رہے ہیں؟ اگر خدا نخواستہ اس کا جواب ہاں میں ہے تو ہم اپنے کریم رب اور اس کے آخری نبی ﷺ سے بے وفائی کررہے ہیں۔ ہماری اسی بے وفائی کی وجہ سے کفار کو ہمارے نبی ﷺ کی توہین کرنے کی جرأت ہوتی ہے۔ آئیے ہم سب  اللہ کے حضور توبہ کریں  اور قرآن سے دور بھاگنا چھوڑ کر قرآن کو اپنا رہنما بنائیں اور اسوۂ رسول ﷺ  کی روشنی میں اس کی ہدایات  پر عمل کریں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading