2025-07-07

 

دفاعِ پاکستان

ساجد محمود انصاری

مسلم ریاست کے چار ستون ہیں

۱۔ مجلسِ شوریٰ

۲۔عدلیہ

۳۔عاملہ (انتظامیہ)

۴۔ عساکر (مسلح افواج)

زیرِ نظر مضمون ریاست کے چوتھے ستون مسلح افواج کے بارے میں ہے۔رسول اکرم ﷺ کے مبارک زمانہ میں مسلم ریاست کے یہ چاروں ستون موجود تھے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ 

مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا 

تُظْلَمُونَ

الانفال:60

اور ان کے لیے مستقل بنیادوں پر پہرہ دینے والے (اسلحہ سے لیس)   گھوڑوں کی قوت تیار رکھو تاکہ اس (قوت) کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں پر دھاک بیٹھے جو تمہارے بھی دشمن ہیں اور ان کے علاوہ ان (دشمنوں) پر بھی جنہیں تم نہیں جانتے البتہ اللہ جانتا ہے۔جو کچھ تم اللہ کے رستے میں خرچ کرتے ہو تمہیں اس کا بھرپور بدلہ عطا کیا جائے گا اور تم پر ظلم ہرگز نہیں کیا جائے گا۔

یہ آیتِ مبارکہ واضح کرتی ہے کہ  مستقل مسلح افواج مسلم ریاست کاایک اہم ستون ہیں۔آیتِ مبارکہ کے پہلے حصے کا اصل مخاطب مسلم ریاست  اور اس کے حکام ہیں۔جبکہ اسی آیت کا دوسرا حصہ، جو کہ انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دے رہا ہے، وہ عامۃ المسلمین  سے متعلق ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے مبارکہ زمانہ میں بھی  یہ بات سب کو معلوم تھی کہ فوج کی تیاری اصل میں ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تاہم عصرِ حاضر میں جو اسلحہ جنگوں میں استعمال ہوتا ہے اسے تیار کرنا عوام کے بس میں ہی نہیں ہے۔اب یہ حقیقت نکھر کر سامنے آچکی ہے کہ  ریاست کا دفاع اصلاً ریاست کے بنیادی فرائض میں سے ہے اور ریاست ہی اسلحہ سازی اور مسلح افواج کی تیاری کی مجاز ہے۔ظاہر ہے کہ یہ عظیم الشان کام بہت زیادہ سرمائے کا متقاضی ہے۔یہ سرمایہ باہم پہنچانا ریاست اور عوام دونوں کی ذمہ داری ہے۔

 مشرکینِ  عرب  نے چار بار ریاستِ مدینہ پر حملہ کیا۔چونکہ ریاستِ مدینہ ابھی اپنے قیام کے ابتدائی مراحل میں تھی، اس لیے اس کی روم و فارس کی طرح  مستقل تنخواہ دار فوج تو اگرچہ نہ تھی مگر دفاعِ مدینہ کے لیے حاکمِ وقت رسول اکرم ﷺ اپنے زمانے کے  فنونِ حرب میں ماہراصحاب رضی اللہ عنہم  کا چناؤ کرکےانہیں اپنی رضاکار فوج میں شریک فرمالیتے تھے۔یہی مسلم فوج  رسول اکرم ﷺ کی سپہ سالاری میں مدینہ کا دفاع  کرتی تھی۔ بدرو احد اور خیبرو خندق  وغیرہ میں میں لڑنے والے سپاہی مسلم معاشرے کے چنیدہ افراد تھے۔تاہم غزوہ ٔتبوک میں روم کی تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوج سے مقابلہ تھا جو تعداد اور اسلحہ دونوں میں سابقہ غزوات میں شرکت کرنے والے  چند سوسپاہیوں کی تعداد  کے مقابلے میں  اتنی زیادہ تھی کہ ان کا کوئی تناسب ہی نہیں بنتا تھا۔  اس لیے  اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر نفیرِ عام کا حکم دیا۔

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۗ 

التوبہ:41

بس نکل پڑو خواہ ہلکے ہو یا بھاری اور اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال کے ذریعے جہاد کرو۔

اس حکم کے ملتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گرمی کی شدّت، قلتِ  اسباب اور اپنے کھجور  کے باغوں کا پھل ضائع ہونے کےخدشے کے باوجود اس حکم پر لبیک کہا۔اس موقعہ پر ان کی  بے نظیر قربانیاں تاریخ کا درخشندہ باب ہیں۔

قرآن و سنت اور سیرتِ نبوی ﷺ کےعمیق  مطالعہ  سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کفار کے ساتھ قتال اصل میں مسلم ریاست کی ذمہ داری ہے۔تاہم  ریاست ضرورت کے وقت  عامۃ المسلمین (عوام) سے بھی مدد طلب کرسکتی ہے۔اسی لیے  جمہور علما  کی رائے یہی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ فرضِ کفایہ ہے اور اس حکم کی اصل مخاطب ریاست ہے نہ کہ عوام۔  یعنی عوام  کا کوئی گروہ اٹھ کر جہاد کا اعلان کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

عوام کا کام صرف یہ ہے کہ وہ افواج کو تیار کرنے کے لیے حکومت کو سرمایہ فراہم کرے۔اگر محصولاتِ  زکوٰۃ اس مقصدکو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوں تو ریاست دفاعی ٹیکس بھی لاگو کرسکتی ہے۔

آج کل سرکاری سطح پر یہ روایت قائم ہے کہ بجٹ کا ایک معتد بہ حصہ دفاع کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے۔ مسلم ریاست  یہ سرمایہ  زکوٰۃ،  اموالِ غنیمت، اموالِ فئے ، ریونیو اور ٹیکسز کے ذریعے اکٹھا کرتی ہے۔دراصل مروجہ بجٹ کا یہ حصہ وہی انفاق فی سبیل اللہ ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات میں دیا ہے۔یہ ہماری خوش نصیبی  ہے کہ ہمارا  مال مسلم ریاست کے دفاع کے لیے خرچ ہورہا ہے۔ ہم اس اعتبار سے زیادہ خوش نصیب ہیں کہ ہمارا مقابلہ بھی   انہی جیسے بت پرستوں سے ہے جیسے بت پرستوں سے رسول اکرم ﷺ کا مقابلہ ہوا۔غرض ہمارا سرمایہ رائیگاں نہیں جارہا بلکہ بت پرستوں پر دھاک بٹھانے اور پاکستانی قوم کا دفاع کرنے کے لیے صرف ہورہا ہے۔

ہمیں حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو ملک کے دفاعی بجٹ کو عوام پر بے جا بوجھ قرار دیتے ہیں۔  واللہ یہ بوجھ نہیں فریضہ ہے جس کی ادائیگی پر اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 

التوبہ:111

واقعہ یہ ہے کہ اﷲ نے مومنوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے مال اس بات کے بدلے خرید لئے ہیں کہ جنت اُنہی کی ہے۔ وہ اﷲ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں ، اور مرتے بھی ہیں ۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اﷲ نے تورات اور اِنجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اﷲ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو ؟ لہٰذا اپنے اُس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اﷲ سے کر لیا ہے۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔

الحمدللہ!  افواجِ پاکستان کا شمار  دنیا کی بہترین مسلح افواج میں ہوتا ہے  جن کا لوہا دشمن بھی مانتا ہے۔ افواجِ پاکستان نے   ملک کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنایا ہے تو  بلا شبہہ اس میں بنیادی کردار عوام کے اس سرمائے کا ہے جو زکوٰۃ اور ٹیکسز کی شکل میں وصول کیا گیا تھا۔ اگر یہ سرمایہ فراہم نہ ہوتا تو دفاعِ وطن ممکن نہ ہوتا۔مگر ہمیں یہ سرمایہ  فراہم  کرنے کے لیے احسان جتانے کی بجائے رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنا 

چاہیے کہ ہمارا یہ سرمایہ  جہاد فی سبیل اللہ میں صرف ہورہا ہے۔

ہم بھارت کے ساتھ چار بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور آئندہ بھی اس امکان کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے دفاع پر خرچ کرنا ہمارا قومی ہی نہیں دینی فریضہ بھی ہے۔ 

پاکستان کے شہری ہونے کے ناطے ہم نے ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے کہ ہم ریاست کے احکامات کی تعمیل کریں گے، اس کے چاروں ستونوں کا احترام کریں گے اور اپنے کسی قول و فعل سے ریاست  یا اس کے کسی ستون کی تضحیک نہیں کریں گے۔ہاں ان چاروں ستونوں میں کام کرنے والے کسی بھی فرد سے کسی مسئلے میں ہمارا اختلافِ رائے ہوسکتا ہے، مگر ہم کسی فرد کے قول وفعل کی بنیاد پر ریاست یا اس کے کسی بھی ستون کو مطعون نہیں کریں گے چہ جائے کہ ہم ان پر دشنام طرازی کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دین کا فہمِ سلیم عطا فرمائے اور افراط و تفریط اور شدت پسندی سے  ہمیں محفوظ رکھے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading