احادیث کی درجہ بندی
ساجد محمود انصاری
حدیث کالغوی مطلب
حدیث کا مادہ ح د ث ہے، اس میں نوپید ہونے، خبردینے، واقع ہونے اور گفتگو کرنے کا معنی پایا جاتا ہے۔ اسی لیے کسی نئی بات نئی چیز کو حدیث کہتے ہیں
ابوالفضل عبدالحفیظ بلیاوی، مصباح اللغات، ص 140
: امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں
و کل کلام یبلغ الانسان من جھۃ السمع او الوحی فی الیقظہ او منامہ یقال لہ الحدیث
مفردات القرآن:ص 124
ہروہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعے پہنچے، خواہ یہ وحی
حالتِ بیداری میں ہو یا نیند کی حالت میں، اسے حدیث کہا جاتا ہے۔
حدیث کا اصطلاحی مطلب
ظہورِ نبوت کے بعد نبی
ﷺکے قول، فعل اور اقرار علی الفعل کو حدیث رسول کہا جاتا ہے اگرچہ تبعاً اس میں قبل نبوت کے احوال و محاسن بھی شامل ہیں تاہم اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ نبی ﷺ
نے جو کچھ ظہورِ نبوت کے بعد پیش کیا اس پر ہی ایمان لانا اور عمل کرنا فرض ہے۔
تحقیق حدیث
صحابہ کرام نےنبی اکر م
ﷺکے اقوال و افعال کا سر کی آنکھوں اور کانوں سے براہِ راست مشاہدہ کیا، لہٰذا احادیث رسول ان کے لیے ایسے ہی قطعی الثبوت تھیں، جیسے کہ قرآن حکیم۔ انہیں احادیث کی صداقت و قطعیت جانچنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہ تھی، صحابہ سے ذخیرۂ حدیث تابعین کی طرف منتقل ہوا۔ صحابہ کرام ؓ الصادق و الامین نبی
ﷺ کی تربیت یافتہ جماعت تھی، ہر صحابی اپنے استاذ کی طرح صادق و امین تھا، اسی لیے امت کا اجماع ہوگیا کہ اصحابۃ کلہم عدول
یعنی تمام صحابہ
اخلاق کردار اور حق گوئی کے سبب قابل اعتماد ہیں، ان میں سے کسی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کوئی جھوٹی بات نبی
ﷺکی طرف عمداً منسوب کرے۔ لہٰذا تابعین بھی احادیث کی تحقیق و چھان بین کرنے کے محتاج و مکلف نہ تھے۔ نبی اکرم
ﷺکے مبارک دور سے بُعد کے سبب تابعین کے دور میں اخلاق و کردار میں کچھ ضعف پیدا ہوگیا تھا، صحابہ کرامؓ
کی سی عزیمت کا معیار بھی قائم نہ رہا تھا، اس لیے خود تابعین نے اپنے تلامذہ کو ہدایت کی کہ وہ احادیث لیتے وقت خوب چھان پھٹک کرلیں کہ وہ کس سے حدیث لے رہے ہیں، آیا حدیث بیان کرنے والے کی صداقت و حافظہ اس لائق ہے، کہ اس پر اعتماد کیا جاسکے۔تابعین تو پھر بھی قابل اعتماد تھے، اصل مسئلہ ان لوگوں کا تھا، جو صحابہ کرام ؓسے فیض یاب نہ ہوسکے تھے مگر تابعین کے معاصر تھے، لہٰذا اس دور میں حدیث کی تحقیق کی ضرورت پیش آئی، اس تحقیق کے نتیجہ میں حدیث کی دو قسمیں ہوگئیں، یعنی صحیح اور ضعیف ۔
حدیث صحیح
حدیث صحیح اس حدیث کو کہاگیا جس میں ہرطبقہ میں عادل و ضابط راوی، دوسرے عادل و ضابط راوی سے اس طرح حدیث بیان کرے کہ یہی سلسلہ سند نبی اکرم
ﷺتک پہنچ جائے۔
((مقدمہ ابن الصلاح :ص 7-8
اتباع تابعین نے جو احادیث براہِ راست تابعین سے حاصل کیں وہ بالعموم احادیث صحیحہ تھیں، ان میں کِذب کا احتمال نہ ہونے کے برابر تھا، تاہم بعض تابعین کا حافظہ کمزور تھا، اس لیے ان کی احادیث معیارِ صحت پر پوری نہ اترتی تھیں۔
حدیث ضعیف
متقدمین کی اصطلاح میں ایسی حدیث ضعیف قرار پاتی تھی جس کے راوی کاحافظہ کمزور ہوتا بشرط یہ کہ وہ متہم بالکذب(جس پر حدیث میں جھوٹ بولنے کا الزام ہو) نہ ہوتا۔ اس اعتبار سے حدیث ضعیف کی دوقسمیں ہوگئیں
ضعیف مقبول
ضعیف مردود
ضعیف مقبول
اگر صادق اللہجہ راوی کے حافظے میں ضعف ہوتا اور وہ حدیث بیان کرنے میں منفرد نہ ہو تاتو اس کی حدیث ضعیف مقبول کہلاتی تھی۔ اسی کو متأخرین کی اصطلاح میں حدیث حسن کہتے ہیں۔
ضعیف مردود
اگر راوی متہم بالکذب ہوتا تو اس کی روایت ضعیف مردود قرار پاتی، خواہ اس کا حافظہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہوتا۔ اسی کو متأخرین کی اصطلاح میں موضوع کہا جاتا ہے۔
غرض احادیث کی تحقیق ایک عمل واجب قرار پایا، جس کے نتیجہ میں حدیث، مقبول اور مردود دوقسموں میں بٹ گئی ۔ مقبول احادیث شریعت کا ماخذ ہوتیں، جبکہ مردود احادیث کو قابل اعتنا نہ سمجھا گیا۔ان دنوں محدثین اپنی کتابوں میں بالعموم مقبول و مردود دونوں قسم کی روایات جمع کردیتے تھے، تاکہ اہل فن دونوں قسم کی روایات کو پہچان لیں۔ دوسری صدی ہجری کی زیادہ تر کتب حدیث مقبول و مردود احادیث کا مجموعہ ہیں۔ تاہم اُس وقت تک احادیث کی مقبول ترین کتاب امام مالک بن انس ؒ
کی المؤطا تھی، جس میں صرف مقبول احادیث جمع کی گئی تھیں، اس کے بارے میں امام محمد بن ادریس الشافعی ؒنے فرمایا تھا کہ یہ قرآن کے بعد دنیا کی صحیح ترین کتاب ہے۔
المؤطا مقبول احادیث کا ایک مختصر مجموعہ ہے، جس میں بالعموم حجازی صحابہ کرام ؓ
کی مرویات شامل ہیں۔ اب تک کوئی ایسا مجموعہ حدیث سامنے نہ آیا تھا جس میں تقریباً سبھی مقبول احادیث جمع کی گئی ہوں۔ یہ سعادت دوسری صدی ہجری کے آخر اور تیسری صدی ہجری کے اوائل میں امام الحدیث و الفقہ ابوعبداللہ احمد بن حنبلؒ کے حصے میں آئی اور انہوں نے المسند کے نام سے مقبول احادیث کا ایک مجموعہ جمع فرمادیا۔
تاہم بعد میں بعض آئمہ حدیث نے اپنے اجتہاد کے مطابق صرف صحیح احادیث کے مجموعے بھی تیار کیے، جن میں امام محمد بن اسماعیل البخاری ؒ کی الجامع الصحیح اور امام مسلم بن حجاج القشیری ؒ کی الجامع الصحیح سرِ فہرست ہیں۔
یاد رکھیں کہ احادیث صحیحہ کی بھی دو بنیادی قسمیں ہیں
احادیثِ متواترہ
اخبارِ احاد
احادیثِ متواترہ
احادیث متواترہ وہ ہیں جنہیں اہلِ بیت عظام علیہم الصلوٰۃ والسلام سمیت چار یا چار سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے۔احادیثِ متواترہ ہی وہ احادیث ہیں جن کے بارے میں ہم پورے یقین اور قطعیت سے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ان کا مأخذ وحی خفی ہے۔
قرآن کے بعد احادیثِ متواترہ ہی واجبات و سنن اور اخلاقیات کا اصل مصدر ہیں۔
اخبارِ احاد
اخبارِ احاد جمع ہے خبرِ واحد کی۔اخبارِ احاد سے مراد وہ صحیح الاسناد احادیث ہیں جو چار سے کم صحابہ کرام ؓسے منقول ہیں۔ ان احادیث کی نبی ﷺ کی طرف نسبت ظنی نوعیت کی ہے۔ ظن سے مراد یہاں وہم نہیں بلکہ ظن غالب ہے۔یعنی یہ ایسی احادیث ہیں جن میں خطا کا امکان بہرکیف رد نہیں کیا جاسکتا۔ان کے قبول یا ترک کرنے کا معیار قرآن حکیم اور سنتِ متواترہ ہے۔مگر یہ تصور کہ ہر خبرِ واحد لازماً قرآن و سنتِ متواترہ کے خلاف ہے، یکسر جہالت پر مبنی ہے۔جس طرح ہر خبرِ واحد کو واجب العمل سمجھنا درست نہیں اسی طرح ہر خبرِ واحد کو لائقِ ردّ سمجھنا بھی قطعاً غلط ہے۔