2025-05-19
محمد بن قاسمؒ

کیا محمد بن قاسمؒ کی فتوحات ِہندمحض افسانہ ہیں؟

از قلم ساجد محمود انصاری

اسلامی جمہوریہ پاکستان  اپنے باشنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس پر ہم اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ تاہم پاکستان کے دشمن نظریۂ پاکستان کو غلط ثابت کرنے کے لیے تحریکِ پاکستان کے زمانے سے ہی برسرِ پیکار ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے صحیح فرمایا تھا کہ پاکستان کی بنیاد تو اسی دن پڑگئی تھی جب محمد بن قاسم  ؒجیسے عظیم مجاہد نے سندھ فتح کرکے یہاں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تھی ۔

دشمنانِ پاکستان یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ مطالعۂ پاکستان محض جھوٹ کا پلندہ ہے اور یہ تصور کہ  نظریۂ پاکستان کی ابتدا محمد بن قاسم ؒ  کی فتح ہند سے ہوئی تھی ایک خود ساختہ افسانہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ جان لیجیے کہ دشمنانِ اسلام کا  مقصد نوجوانوں کے قلب و ذہن میں ان کی حقیقی تاریخ کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنااور انہیں پاکستان کے وجود سے ہی بد ظن  کرنا ہے۔

دشمنان پاکستان یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ محمد بن قاسم ؒ کے سندھ پر حملے اور فتوحات کے قصے محض من گھڑت ہیں اور چچ نامو(چچ نامے) سے پہلے ان فتوحات کا کسی کتاب میں ذکر نہیں ہے۔ چچ نامو  قاضی محمد اسماعیل بن علی کی تالیف  تاریخ الھند والسند کا سندھی زبان میں ترجمہ ہے جو تیرھویں صدی میں علی بن حامد کوفی نے تحریر کیا۔

باور کرلیجیے کہ محمد بن قاسم ؒ  کی فتوحات ہند کی تفصیلات  تاریخ کی بہت سی  قدیم عربی کتب میں درج ہیں جن میں  مشہور مسلم مؤرخ  اور جغرافیہ دان احمد بن یحیٰ البلاذری کی کتاب فتوح البلدان سرِ فہرست ہے۔ البلاذری کا سنِ وفات 279  ہجری (892 عیسوی) ہے۔ یہ کتاب مسلم فتوحات کی ایک عظیم داستان ہے، جس میں ابتدائے اسلام سے فتوحات ہند تک کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

فتوحاتِ ہند کی ابتدا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہوا ۔ اس زمانے میں کراچی شہر آباد نہیں ہوا تھا تاہم اس کے مشرق میں سندھ کی ایک بہت بڑی بندرگاہ تھی جو دیبل کے نام سے مشہور تھی۔ یاد رہے کہ ہند و سندھ کے باشندے مشرکین مکہ کی طرح بت پرست تھے۔چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیبل پر حملے کے لیے پہلا لشکر روانہ فرمایا، تاہم اس لشکر کو کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ سیدنا علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے زمانہ خلافت میں سن 88 ہجری میں ایک لشکرحارث بن مُرہ العبدی کی قیادت میں ایک لشکر سند ھ پر حملے کے لیے بھیجا۔ اس زمانے میں سندھ کی حدود مکران تک پھیلی ہوئی تھیں۔اس لشکر نے  مکران کے مغرب میں واقع قیقان نامی شہر فتح کیا اور یہاں مسلم حکومت کی داغ بیل ڈالی۔

(فتوح البلدان)

  امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں مکران فتح ہوا۔ ولید بن عبدالملک نے اپنے زمانہ حکومت میں حجاج بن یوسف کو عراق اور بحرین کا والی (گورنر) مقرر کیا  تو ہند کے مفتوحہ علاقے بھی اس کی نگرانی میں دے دیے گئے۔انہی دنوں میں عرب تاجروں کا ایک بحری جہاز    پرسندھ کے ہندو راجہ داہر کے ہرکاروں نے قبضہ کرلیا اور عرب تاجروں اور ان کے اہل خانہ کو قیدی بنالیا۔تب ایک قیدی خاتون کسی طریقے سے حجاج تک اپنی فریاد پہنچانے میں کامیاب ہوگئی۔ حجاج نے راجہ داہر کو یہ مسلم قیدی چھوڑنے  کے لیے اپنا پیغام بھیجا مگر راجہ داہر نے اس کی طرف التفات نہ کیا۔ تب حجاج نے محمد بن قاسم ؒ کو  راجہ داہر کی سرکوبی کے لیے  سندھ بھیجا۔محمد بن قاسم نے پہلے مکران میں قیام کیا اور وہاں سے مزید فوجی دستے لے کر دیبل  کے راستے سندھ پر حملہ آور ہوا۔ محمد بن قاسم سندھ کو فتح کرکے پنجاب کے شہر ملتان تک پہنچ گیا۔یوں  سندھ کے شہر مکران سے شروع ہونے والی  مسلم ریاست   کی حدود ملتان تک وسیع ہوگئیں۔

احمد بن یحیٰ البلاذری نے محمد بن قاسم  ؒ کی فتوحات ہند کی تفصیلات بیان کی ہیں جن کا ایک مختصر سا خلاصہ ہم نے یہاں بیان کیا ہے۔ان تفصیلات سے واضح ہے اگرچہ ہندوستان میں مسلم ریاست کی بنیاد تو امام علی علیہ السلام کے زمانہ میں ہی پڑ گئی تھی  تاہم محمد بن قاسم ؒ کی فتوحات سے مسلم ریاست کی حدود وسیع ہوئیں اور ہندوستان کے ایک جم غفیر کو مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔مگر اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کو یہ فتوحات ہضم نہیں ہوتیں اس لیے وہ ان کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یہی لوگ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ مطالعۂ پاکستان  جھوٹ کا پلنڈہ ہے۔ اللہ انہیں غارت کرے۔ آمین

Be the first to write a review

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading