کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ایک دوسرے کو گالیاں دیا کرتے تھے؟
از قلم ساجد محمود انصاری
منکرین حدیث یوں تو محدثین کرام پر الزام تراشی کرتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے احادیث میں ایسی باتیں نبی ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کردی ہیں جن سے ان بزرگ ہستیوں کی توہین کا پہلو نکلتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ان شیطان کے پیروکاروں کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے، جس میں ایک فیصد بھی سچائی نہیں ہے۔
منکرین حدیث کی ایک پوسٹ پر نظر پڑی جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ احادیث میں صحابہ پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے۔اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے منکرین حدیث نے صحیح بخاری کی دو احادیث کا حوالہ دیا ہے۔آئیے ذرا ان دونوں احادیث کا بغور مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کیاوا قعی صحابہ ایک دوسرے کو گالیاں دیاکرتے تھے ۔
منکرین حدیث جھوٹوں کے پیر ہیں۔ دئیے گئے پمفلٹ میں پہلی حدیث سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا صحیح بخاری میں نمبر 6048 ہے
اس حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ صُرَدٍ، رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ اسْتَبَّ رَجُلاَنِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَغَضِبَ أَحَدُهُمَا، فَاشْتَدَّ غَضَبُهُ حَتَّى انْتَفَخَ وَجْهُهُ وَتَغَيَّرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم “ إِنِّي لأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا لَذَهَبَ عَنْهُ الَّذِي يَجِدُ ”. فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ تَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ. فَقَالَ أَتُرَى بِي بَأْسٌ أَمَجْنُونٌ أَنَا اذْهَبْ.
پوسٹ میں دئیے گئے ترجمے میں رجلان (دو آدمی) کوصحابہ ثابت کرنے کے لیے بریکٹ میں صحابہ لکھنا پڑا۔ حالانکہ اصل حدیث میں کہیں کوئی اشارہ بھی نہیں ہے کہ جھگڑنے والے دو آدمی صحابی رسول تھے۔اس کے برعکس حدیث کے آخر میں اس آدمی کے الفاظ قابل غور ہیں جسے تعوذ پڑھنے کا مشورہ نبی ﷺ نے دیا تھا۔ وہ شخص نبی ﷺ کے مشورے کو قبول کرنے کی بجائے کہتا ہے کہ میں کوئی مجنون ہوں؟ کسی صحابی سے اس طرح رسول اکرم ﷺ کی گستاخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑنے والے وہ دو آدمی صحابی نہیں تھے۔
دوسری حدیث سیدنا ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے ۔ صحیح بخاری میں اس کا اصل نمبر 6050 ہے۔ حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنِ الْمَعْرُورِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ رَأَيْتُ عَلَيْهِ بُرْدًا وَعَلَى غُلاَمِهِ بُرْدًا فَقُلْتُ لَوْ أَخَذْتَ هَذَا فَلَبِسْتَهُ كَانَتْ حُلَّةً، وَأَعْطَيْتَهُ ثَوْبًا آخَرَ. فَقَالَ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ كَلاَمٌ، وَكَانَتْ أُمُّهُ أَعْجَمِيَّةً، فَنِلْتُ مِنْهَا فَذَكَرَنِي إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ لِي ” أَسَابَبْتَ فُلاَنًا ”. قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ ” أَفَنِلْتَ مِنْ أُمِّهِ ”. قُلْتُ نَعَمْ. قَالَ ” إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ ”. قُلْتُ عَلَى حِينِ سَاعَتِي هَذِهِ مِنْ كِبَرِ السِّنِّ قَالَ ” نَعَمْ، هُمْ إِخْوَانُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ أَخَاهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ يُكَلِّفُهُ مِنَ الْعَمَلِ مَا يَغْلِبُهُ، فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ ”.
اس حدیث کا ترجمہ بھی عمدا ً غلط کیا گیا ہے جو اس مفروضے پر مبنی ہے کہ سب یسب کا مطلب صرف گالی دینا ہی ہوتا ہے، جبکہ غصے میں کسی کو کوسنا بھی سب و سباب کے معنی میں آتا ہے۔
اصل میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو عجمی ماں کی اولاد ہونے کا طعنہ دیا تھا، اس طرح کے طعنوں کو بھی عربی میں سب و سباب کہا جاتا ہے۔ لیکن برا ہو شیطان کا کہ جو منکرین حدیث کو صحابہ کے بارے میں یوں جھوٹ بولنے پر اکساتا ہے، انہوں نے یوں ظاہر کیا کہ جیسے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کوئی فحش گالی دے دی ہو۔ دراصل ہمارے ہاں گالی کا جو مفہوم پایا جاتا ہے اور جس طرح کی گالیاں رواج پذیر ہیں ان کی بنیاد پر منکریں حدیث نے یہ سارا واویلا مچا رکھا ہے، مگر اس کا اصل سبب ان کی عربی زبان سے ناواقفیت ہے۔منکرین حدیث اپنی جہالت کو کوسنے کی بجائے محدثین عظام ؒ پر الزام تراشی کرتے ہیں۔