کیا احادیث قرآن کی تفسیر ہیں؟
ساجد محمود انصاری
سنتِ رسول ﷺ کی حجیت کا انکار کرنے والوں کو جب کہا جاتا ہے کہ نبی ﷺ کے اقوال او افعال قرآن ہی کی تشریح و تفسیر ہیں تو وہ ایک اعتراض یہ کرتے ہیں کہ قرآن کی کسی سورت یا کسی دس آیات کی مرتب تفسیر نبی ﷺ سے ثابت نہیں کرسکتے۔ چوں کہ یہ لوگ نہ تو کتبِ تفسیر پڑھتے ہیں اور نہ ہی کتبِ احادیث اس لیے ان کتب کے اسلوب سے یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان کتب کا مطالعہ کریں تو ان کا یہ اعتراض خود بخود رفع ہوجائے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے اقوال و افعال قرآن حکیم کی تفسیر ہیں تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ جان لیجیے کہ قرآن بلا شبہ اپنی مثال آپ ہے اور اس کی کوئی نظیر پیش کرنا ہمالیہ پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہلانے کے مترادف ہے۔قرآن حکیم ہدایت کی ایک اکمل و احسن کتاب ہے، جس سے بڑھ کر کوئی شے ہدایت کا موجب نہیں بن سکتی۔ تاہم قرآن کی آیات از روئے قرآن دو قسم کی ہیں یعنی محکمات اور متشابہات۔ محکمات کے معانی و مطالب جاننے کے لیے کسی تفسیر کی ضرورت سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ یہ وہ آیات ہیں جن کے دو جمع دو چار کی طرح متعین معانی ہیں جن کو ہر اوسط ذہانت کا حامل شخص سمجھ سکتا ہے۔ جبکہ متشابہات وہ آیات ہیں جن میں مختلف معانی کا احتمال ہوسکتا ہے۔ متشابہات میں متعدد معانی کے احتمال کا سبب یا تو اجمال ہوتا ہے یا مجاز۔ اس لیے ان آیات کی تفسیر کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ لہٰذا نبوی تفسیر کا مطلب ہر قرآنی لفظ کے مترادفات بیان کرنا نہیں ہے بلکہ اجمال کی تفصیل بیان کرنا ہے۔مثلاً قرآن میں باربار اقیموا الصلوٰۃ کا حکم وارد ہوا ہے، مگر یہ حکم مجمل ہے، اس میں اقامتِ صلوٰۃ کا مفصل طریقہ بیان نہیں کیا گیا۔ یہ طریقہ نبی ﷺ نے اپنے اقوال و افعال کے ذریعے بیان فرمایا ہے۔اب کتبِ حدیث میں ابواب الصلوٰۃ اسی اقیموا الصلوٰۃ کی تفسیر ہے۔ قرآن میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم مجمل ہے مگر کتنی مالیت کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے اور ہاتھ کہنی سے کاٹا جائے یا کلائی سے اس کی تفصیل سنتِ نبوی ﷺ میں ملتی ہے۔
اس ضروری تمہید سے قرآن کی تفسیر نبوی ﷺ کی نوعیت سمجھنے میں مدد ملے گی۔ہم یہ ہر گز نہیں کہتے کہ قرآن کی ہر ہر آیت تفسیر کی محتاج ہے بلکہ صرف اجمالی اور مجازی کلمات کی تفسیر مطلوب ہوتی ہے۔ تاہم یہ رسول اکرم ﷺ کی کمال رحمت ہے کہ آپ نے صرف اجمال و مجاز کی تفصیل بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ بہت سی آیات محکمات کی بھی خوب تفصیل و تشریح فرمادی ہے تاکہ قرآن کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔