
جزیرۃ العرب
جزیرۃ العرب
جزیرۃ العرب وہ مبارک سر زمین ہے،جہاں سے نبوت محمدیہ ﷺ کا شمسِ بازِغہ طلوع ہوا ۔
پہلے پہل اسی سرزمین پر اس شمسِ نبوت کا نور بکھرا،تآنکہ اس نے کل جہاں کو روشن کر دیا۔ نورِ نبوت جزیرۃ العرب میں پوری آب و تاب سے چمکا اور اس سرزمین کا ایک ایک گوشہ اس سے منور ہوا۔ لہٰذاضروری ہے کہ اس جزیرۃ العرب کا اک طائرانہ منظر اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت نظروں کے سامنے رہے،تب کمال ِنبوت کا کسی درجہ میں ادراک ہو سکے گا۔
محل وقوع
جزیرۃ العرب ،براعظم ایشیاء افریقہ اور یورپ کے سنگم پر واقع ایک جزیرہ نما ہے جسے تین اطراف سے سمندر نے گھیرا ہوا ہے۔ فی الحقیقت یہ ایک برعظیم ہے،جو طبقات ارضیہ میں سے ایک مکمل طبقہ ارضیہ پر مشتمل ہے، جسے طبقہ عربیہ کہا جاتا ہے۔علم الارض کے ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ طبقہ عربیہ کسی زمانے میں اک علیحدہ جزیرہ کی شکل میں سمندر میں تیرتا رہا ہے ،یہ جزیرہ رفتہ رفتہ براعظم ایشیاء کے قریب ہو ا، یہاں تک کہ سرکتے سرکتے براعظم ایشیا و یورپ کے سنگم پر آ ٹکرایا۔ آج بھی طبقہ عربیہ 5 تا 10 ملی میٹر سالانہ کی رفتار سے شمال کی جانب سرک رہا ہے۔
علم الارض کی رو سے مکمل طبقہ عربیہ کا نام جزیرۃ العرب ہے، یہی سبب ہے کہ
کی جانب سے جزیرۃ العرب کا جو نقشہ شائع کیا گیا ہے اس میں پورے
طبقہ عربیہ کو جزیرۃالعرب کا نام دیا گیا ہے۔
تاہم بہت سے عرب مؤرخین اور جغرافیہ دانوں کی رائے میں وہ علاقہ جسے وہ شام کے نام سے پکارا کرتے تھے وہ جزیرۃ العرب میں شامل نہیں ہے، اسی لیے وہ قدیم عراق و شام کے باشندوں کو عجمی تصور کرتے تھے۔ لیکن اس کا بنیادی سبب مؤرخین اور ماہرین انساب کے اختلافات ہیں۔ عرب ماہرین انساب کے نزدیک عربوں کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں
1۔ عرب بائدہ
2۔ عرب عاربہ
3۔ عرب مستعربہ
عرب عاربہ وہ قدیم عرب اقوام تھیں جو ہلاک ہوچکیں اور ان کے بعض آثار سے ان کے وجود کا پتہ چلتا ہے۔ جیسے عاد، ثمود، جدیس طسم وغیرہ۔ جبکہ عربہ عاربہ سے وہ قبائل مراد لیے جاتے ہیں جوہمیشہ سے نسل درنسل عربی بولتے چلے آرہے ہیں، جیسے بنو قحطان کی ذیلی شاخیں۔ عرب مستعربہ سے وہ قبائل مراد لیے جاتے ہیں جن کے آباؤ اجداد کوئی عجمی زبان بولتے تھے مگر پھر وہ عربوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے عربی بولنے لگے۔ اکثر مؤرخین و ماہرین انساب آل اسماعیل کو عرب مستعرب باور کرتی ہے کیونکہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ماں عبرانی زبان بولتی تھیں۔ ہمارے نزدیک آل اسماعیل کو عرب مستعربہ میں شمار کرنا یکسر غلط ہے کیوں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے آباؤاجداد کی زبان صحیح روایات کے مطابق عربی ہی تھی۔ اس لیے آل اسماعیل کو عرب مستعربہ کی بجائے عرب عاربہ میں شمار کیا جانا چاہیے۔ ہاں عرب مستعربہ وہ اقوام ہیں جو جزیرۃ العرب کے شمال (عراق و شام) میں بستی تھیں۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ یہ نظریہ تاریخی حقائق پر مبنی ہے۔ زمانہ مسیح علیہ السلام سے بھی پہلے کے یورپی بالخصوص یونانی جغرافیہ دان اور مؤرخین جزیرۃ العرب کو دو حصوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ جزیرۃ العرب کے شمالی حصے کو وہ عریبیا پیٹرا کہا کرتے تھے جس میں قدیم آشوری سلطنت واقع تھی۔ جبکہ جزیرۃ العرب کے جنوبی حصے کو وہ عریبیا فیلکس کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ ملاحضہ فرمائیے ایک قدیم یورپی جغرافیہ دان کا بنایا ہوا جزیرۃ العرب کا نقشہ:
1732 میں یورپ میں شائع ہونے والے اورینز یعنی مشرقی دنیا کے قدیم نقشے میں بھی جزیرۃ العرب کے مذکورہ دو حصے یعنی عریبیا پیٹرا اور عریبیا فیلکس کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
عریبیا پیٹرا کو یہ نام دینے کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس خطے کے باشندے عربی زبان میں ہی اظہار خیال کیا کرتے تھے۔ شمالی جزیرۃ العرب کی قدیم اقوام کے آثار قدیمہ سے ملنے والے کتبات سے ان کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں معلومات فراہم ہوتی ہیں،ان کتبات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قدیم اقوام اصلاً عرب ہی تھیں، البتہ ان کے کتبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا لہجہ وسطی عرب سے کچھ مختلف تھا۔ تاہم ان سب علاقائی لہجوں میں عربی زبان کی تمام بنیادی خصوصیات موجود تھیں۔ مگر مغربی ماہرین لسانیات کے حلق سے یہ گولی نگلی نہیں جاتی، اس لیے وہ عربی زبان کو جزیرۃ العرب کی قدیم ترین زبان ماننے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ اس سے عبرانی زبان کی نظریۂ قدامت پر زد پڑتی ہے جو ان کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ مغربی ذہنیت سمجھنے کے لیے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں ہسٹری آف عریبیا کے نام سے شائع ہونے والا مضمون ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
جزیرۃ العرب کی اصطلاح قدیم زمانے سے مستعمل ہے خود نبی اکرم ﷺ نے بھی کئی بار یہ اصطلاح استعمال فرمائی۔ اگرچه جزیرۃ العرب کی شرعی و فقہی حدود حجاز اور اس کے قرب و جوار تک محدود ہیں۔ تاہم اسکی جغرافیائی حدود اس کے مقابلے میں بہت وسیع ہیں۔ مکہ پرائم میریڈین کے مطابق جزیرۃ العرب 7 درجے غربی 20 درجے شرقی اور 12 درجے شمالی سے 38 درجے شمالی تک پھیلا ہوا ہے۔
حدود اربعہ
ہمارے نزدیک جزیرۃ العرب کی شمالی حدود جبال طوروس اور جبال زاغروس ( کوہ زاگرس ) تک وسیع ہیں،جبکہ اس کے شمال مغرب میں بحیرہ روم، جنوب مغرب میں بحیرہ قلزم (احمر) جنوب میں خلیج عدن، جنوب مشرق میں بحیرہ عرب اور شمال مشرق میں خلیج عربی،خلیج عمان اور آبنائے ہرمز واقع ہیں۔
طبعی خدوخال
جزیرۃالعرب پر متنوع طبعی خدوخال پائے جاتے ہیں۔یہاں صحرا،پہاڑ،میدان،سطوح مرتفع،دریا،سمندر،آتش فشاں اور نخلستان جیسے فطرت کے سبھی نظارے موجود ہیں۔
ا) صحرائے عرب
جزیرۃ العرب کا تقریبا ًدو تہائی رقبہ صحرا پر مشتمل ہے،اس سارے صحرا کو زمانہ قدیم سے صحرائے عرب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ صحرائے عرب کے پانچ بڑے حصے ہیں
صحراء ربع الخالی
صحراء نفود
صحراء دھنا
صحراء شام
صحراء سینا
ذیل میں صحرائے عرب کے مذکورہ پانچ حصوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے
صحراء ربع الخالی
جزیرۃالعرب کے جنوبی حصہ میں صحراء عرب کے چوکور شکل کے حصے کو ربع الخالی کہتے ہیں۔ یہ صحراء عرب کا سب سے بڑا حصہ ہے جس کا رقبہ تقریبا چھ لاکھ پچاس ہزار(650000) مربع کلومیٹر ہے، سطح سمندر سے اس کی زیادہ سے زیادہ بلندی آٹھ سو (800) میٹر ہے۔یہاں نہایت بلند ٹیلے پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض دوسو پچاس(250) میٹر تک بلند ہیں۔یہاں کی ریت میں فلسفار کی کثرت کے باعث ریت کا رنگ سرخی مائل نارنجی ہے۔ ربع الخالی جزیرۃالعرب کا گرم ترین مقام ہے۔ موسم گرما میں یہاں کا اوسط درجہء حرارت 47 سینٹی گریڈ ہوتا ہے،جو اپنی انتہا کا چھوتا ہے تو 60 درجے سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔یہاں تیز گرم ہوائیں چلتی ہیں جو آدمی کی جلد کو جھلس دیتی ہیں۔یہاں کی آب وہوا نہایت خشک ہے۔سالانہ اوسط بارش ۳۵ ملی میٹر سے بھی کم ہوتی ہے۔ربع الخالی ایک بے آباد صحرا ہے تاہم اس کے مغرب میں نجران کے قریب بدو قبائل عرصہ قدیم سے سکونت پذیر ہے۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ربع الخالی دنیا میں بلا تعطل وسیع رقبے پر پھیلنے والا دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ یہ سعودی عرب کے کل رقبے کے ایک چوتھائی سے زیادہ پر پھیلا ہوا ہے ۔مغرب میں سطح سمندر سے بلندی 2,000 فٹ (610 میٹر) تک ہے اور ریت باریک اور نرم ہے، جب کہ مشرق میں بلندی تقریباً 600 فٹ (180 میٹر) تک گرجاتی ہے۔
صحراء نفود
حجاز سے شام تک جزیرۃالعرب کے شمال مغربی حصے میں واقع صحراء عرب کے حصے کو اہلِ عرب النفود الکبریٰ کہتے ہیں۔ صحراء نفود کا رقبہ تقریباً 65000 مربع کلومیٹر ہے، قدرے بیضوی شکل کا یہ خطہ اچانک اچک لینے والی تیز ہواؤں کے لئے مشہور ہے،یہاں ہلالی شکل کے بڑے بڑے ٹیلے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں ۔یہاں سال میں ایک دو بار بارش برستی ہے تو موسم خوشگوار ہو جاتا ہے،عام حالات میں یہ بھی گرم ترین مقامات میں سے ہے،اس کا اوسط درجہء حرارت ربع الخالی کے قریب رہتا ہے۔
صحراء دھنا
صحراء عرب کے وسطی حصے کو صحراء دھنا کہتے ہیں،جو صحراء عرب کے شمال مغربی حصے(صحراء نفوذ) اور جنوبی حصے(صحراء ربع الخالی) کو آپس میں ملاتا ہے۔ یہ صحراء ایک لمبی پٹی کی شکل میں ہے جس کی لمبائی تقریبا ایک ہزار تین سو (1300) کلومیٹر اور چوڑائی تقریباً اسی (80) کلو میٹر ہے۔ پس اس کا رقبہ ایک لاکھ (100000) مربع کلومیٹر ہے۔اس صحراء کے ریت کا رنگ آئرن آکسائیڈ شامل ہونے کی دجہ سے سرخی مائل ہے۔
صحراء شام
صحراء عرب کے انتہائی شمالی حصےکو اہل عرب بادیۃ الشام کہتے ہیں جس کا مطلب صحرائے شام ہے۔ مشرق میں اس کی حدود بحیرہ روم کے مشرقی ساحل تک وسیع ہیں۔ صحراء عرب کے باقی حصوں کی طرح یہاں کی آب و ہوا بھی گرم اور خشک ہے تاہم یہ کلیتا بے آباد نہیں بلکہ یہاں کے نخلستانوں کے قریب زمانہ قدیم سے عرب بدو سکونت پذیر ہیں۔ وکیپیڈیا کے مطابق اس کا رقبہ تقریباً پانچ لاکھ مربع کلومیٹر ہے مگر چونکہ اس میں صحرا مسلسل نہیں ہے بلکہ کہیں کہیں چٹانی زمین بھی نمودار ہوجاتی ہے اس لیے اسے صحرائے عرب کا سب سے بڑا صحرا نہیں مانا جاتا۔
صحراء سینا
مثلث شکل کے جزیرہ نمائے سینا کا نمایاں خدوخال صحراء سینا ہے جو براعظم ایشیا اور براعظم افریقہ کے درمیان پل کا کام دیتا ہے۔ مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل نے یہیں چالیس سال تک صحرا نوردی کی تھی۔اس صحراء کا رقبہ پچاس ہزار(50000) مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ دوسرے صحراؤ ں کی طرح یہ بھی گرم اور خشک آب و ہوا رکھتا ہے،جہاں تیز ہواؤں
کے جھکڑ چلتے رہتے ہیں۔
ب) جبال العرب
جزیرۃ العرب کا دوسرا نمایاں ترین طبعی خدوخال یہاں کے بلند و بالا پہاڑ ہیں۔ جو عموماً اس کی حدود اربعہ کے قریب واقع ہیں۔اس برعظیم میں درج ذیل پہاڑی سلسلے موجود ہیں:
جبال السراۃ
جبال زاغروس
جبال طوروس
جبال الحجر
جبال حضر موت
جبال السِّراۃ
جبال السراۃ جزیرۃ العرب کا سب سے عظیم و طویل پہاڑی سلسلہ ہے جو بحیرۂ قلزم کے مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ شمالا جنوبا پھیلا ہوا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جزیرۃ العرب کے جنوبی ساحل سے لے کر شمال میں اناطولیہ تک جو پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا ہے وہ ایک ہی سلسۂ کوہ ہے جس میں کہیں کہیں درمیان میں ذرا وقفہ آجاتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کو اہل عرب السراۃ کہتے ہیں۔ اس طویل پہاڑی سلسلے کی اوسط بلندی دو ہزار(2000) میٹر ہے۔اس سلسلہء کوہ کو چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
سراۃ الیمن
سراۃ العسیر
سراۃ الحجاز
سراۃالشام
سراۃ الیمن
جزیرۃالعرب کے جنوب میں جبال السراۃ کا بلند ترین حصہ واقع ہے،جسے قدیم یمن میں موجود ہونے کی وجہ سے سراۃ الیمن کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں پہاڑوں کی چوٹیاں تین ہزار میٹر سے بھی بلند ہیں، یہیں جزیرۃ العرب کی بلند ترین چوٹی جبل النبی شعیب(علیہ السلام)،قدیم شہر صنعا کے قریب واقع ہے ،جس کی بلندی تین ہزار چھ سو چھیاسٹھ (3666) میٹر ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جہاں جزیرۃ العرب کی سب سے زیادہ بارش ہوتی ہے،حتیٰ کہ یہاں کے بعض علاقوں میں ایک ہزار ملی میٹر تک بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔عرب کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے یہ خطہ نہایت زرخیز ہے۔
سراۃ العسیر
سراۃ الیمن سے اوپر شمال کی جانب زمانہ قدیم سے عرب قبائل کا ایک بڑا مجموعہ آباد ہے جسے العسیر کہتے ہیں۔انہی کی نسبت سے یہ سارا علاقہ العسیر کہلاتا ہے۔ جبال السراۃ کے اس حصہ میں چوٹیوں کی بلندی عموما دو ہزار میٹر سے زیادہ ہے ۔اس خطے کی بلند ترین چوٹی جبل سودہ دو ہزارنو سو بیاسی (2982) میٹر بلند ہے اس حصہ میں سال میں دو دفعہ بارش ہوتی ہے۔مارچ،اپریل اور جولائی ،اگست میں تین سو(300) سے پانچ سو(500) ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔ دنیا کے اکثر پہاڑوں میں درجہ حرارت عموماً کم ہوتا ہے،مگر دیگر کوہستانوں سے موازنہ کیا جائے تو سراۃ العسیر میں درجہ حرارت نہایت بلند ہوتا ہے جو کہ دن کے وقت عموما 30 درجے سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔
سراۃالحجاز
سراۃ الحجاز جزیرۃ العرب کے تقریبا وسط میں واقع ہے،اسے مختصرا ًالحجاز بھی کہتے ہیں۔الحجاز ہی وہ خطہ ہے جہاں نبی آخر الزماں مخمد رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی حیات مبارکہ کے تریسٹھ برس گزارے۔الحجاز کی چوٹیاں دو ہزار(2000) میٹر سے دو ہزار چھ سو(2400) میٹر تک بلندہیں۔ الحجاز میں تین شہر زمانہ قدیم سے آباد ہیں،مکۃالمکرمہ ،مدینۃ المنورہ اور طائف۔ سراۃ الحجاز اور سراۃ العسیر کے درمیان تھوڑا سا خلا ہے، اس خلا کے قریب پہنچ کے الحجاز کی چوٹیاں صرف چھ سو(600) میٹر تک بلند ہیں۔الحجاز ،جزیرۃ العرب کا واحد خطہ ہے جہاں سونے کی کان دریافت ہوئی ہے،اسلئے عصر حاضر میں الحجاز کو مھد الذھب بھی کہتے ہیں۔
الحجاز میں بارش عموما سرما میں ہوتی ہے،بارش کی مقدار اکثر کم ہوتی ہے تاہم کبھی کبھار شدید بارشیں بھی ہوتی ہیں۔الحجاز کا مرکزی شہر مکۃ المکرمه ہے،جو نبی اکرم ﷺ کی جائے پیدائش ہے۔ مکۃالمکرمہ جبل ابو قیس اور جبل قعیقان کے درمیان ایک نشیبی وادی ہے جس کا رقبہ تقریباً دو سو(200) مربع میٹر ہے۔ مکۃ المکرمہ کا درجہ حرارت موسم گرما میں عموما 35 درجے سینٹی گریڈ سے اوپر ہوتا ہے،موسم سرما میں بھی درجہ حرارت زیادہ نہیں گرتا،موسم سرما میں یہاں دن کے وقت درجہ حرارت 30 درجے اور رات کے وقت 17 درجے سینٹی گریڈ رہتا ہے مکۃ المکرمہ سطح سمندر سے تقریبا تین سو(300) میٹر بلند ہے۔
مکۃ المکرمہ سے شمال کی جانب تقریبا تین سو(300) کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت نخلستان آباد ہے،جسے قدیم زمانہ میں یثرب کہا جاتا تھا۔ نبی اکرم ﷺ اس شہر میں سکونت پذیر ہوئے تو اس شہر کا نام مدینۃ الرّسول ﷺ مشہور ہو گیا۔ مدینہ منورہ سطح سمندر سے تقریباً چھ سو پچیس (625) میٹر کی بلندی پر واقع ہے، یہاں کا موسم مکۃ المکرمہ سے ملتا جلتا ہے، تاہم نخلستان ہونے کی وجہ سے یہاں گرمی کی شدت قدرے کم ہوتی ہے۔ یہاں نہایت عمدہ کھجوریں پیدا ہوتی ہیں،جن کی ہر زمانے میں بہت مانگ رہی ہے۔ یہاں سب سے بلند پہاڑ جبل اُحَد ہے جو اس نخلستان سے 2000 فٹ تک بلند ہے۔
مکۃالمکرمہ کے جنوب مشرق میں تقریبا ایک سو(100) کلومیٹر کے فاصلے پر جزیرۃ العرب کا اہم گرمائی مقام طائف واقع ہے۔ یہ شہر سطح سمندر سے تقریبا ایک ہزار آٹھ سو اناسی (1879) میٹر بلند ہے۔اس کے چاروں طرف ایک مضبوط فصیل بنی ہوئی ہے۔ طائف کو باغ حجاز بھی کہا جاتا ہے کیو نکہ یہاں انگوروں کے بہت سے باغ ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں یہاں پر لات نامی بت نصب تھا، جسے نبی ﷺ کے حکم پر مسمار کردیا گیا تھا۔
سراۃ الشام
مدینۃ المنورہ سے اوپر جا کر صحراء نفود کے پاس سراۃ الحجاز کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اور اس سے ذرا اوپر سے سراۃ الشام کا آغاز ہو جاتا ہے،سراۃ الشام کی جنوبی سرحد کے پاس اہم تاریخی شہر تبوک آباد ہے۔ یہاں تبوک میں موسم گرما شدید اور موسم سرما قدرے معتدل ہوتا ہے،موسم سرما میں یہاں درجہء حرارت 6 تا 15 درجے سینٹی گریڈ ہوتا ہے موسم سرماکی راتوں میں درجہ ء حرارت منفی چھ (6-) درجے تک گر سکتاہے۔ تبوک میں بارش موسم سرما میں عموماً نومبر تا مارچ کے درمیان ہوتی ہے جو عموما 50 تا 150 ملی میٹر ہوتی ہے۔ تین چار سال بعد شدید موسم سرما میں برف باری بھی ہو جاتی ہے ۔
تبوک سے اوپر مغرب کی جانب خلیج عقبہ واقع ہے،جو سراۃ الشام کے ایک حصے کو اس سے جدا کردیتی ہے، یہ حصہ جزیرہ نما سینا پر واقع مشہور پہاڑ طور سیناہے جسے جبل موسیٰ (علیہ السلام) بھی کہتے ہیں۔ یہی وہ پہاڑ ہے جہاں سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلی بار اللہ تعالےٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ جبل موسیٰ سطح سمندر سے دو ہزاردو سو پچاسی (2285) میٹر بلند ہے۔یہاں موسم سرما میں درجہء حرارت منفی سولہ(16-) درجہ تک گر جاتا ہے۔
بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ ایک سو ستر(170) کلومیٹر تک وسیع سراۃالشام کا وہ حصہ واقع ہے جسے جبل لُبنان کہا جاتا ہے۔ جبل لُبنان کی اوسط بلندی دو ہزار ایک سو(2100) میٹر ہے جبکہ اس کی بلند ترین چوٹی قرنۃ السودا،تین ہزار اٹھاسی (3088) میٹر بلندہے ان پہاڑوں پر شاہ بلوط اور چیڑ کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔یہاں کثرت سے بارش ہوتی ہے اور موسم سرما میں پانچ میٹر گہرائی تک برف باری بھی ہوتی ہے تو رات میں کئی مقامات پر جبل لبنان کا ذکر ہوا ہے۔جبل لبنان کے مشرقی جانب مشہور تاریخی پہاڑ جبل قاسیوان واقع ہے ،جس کے دامن میں اہم شہر دمشق بسا ہوا ہے۔ جبل قاسیون کی بلند ترین چوٹی سطح سمندر سے ایک ہزار ایک سو اکیاون(1150)میٹر بلند ہے۔
جبل موسیٰ اور جبل لبنان کے تقریبا درمیان میں جبل ام الدامی واقع ہے جو سطح سمندر سے ایک ہزار آٹھ سو چون(1854) میٹر بلند ہے۔اس کی چوٹی برف سے ڈھکی رہتی ہے۔
جبل زاغروس
جزیرۃ العرب کے شمال مشرق میں بلند سلسلہء کوہ جبال زاغروس میں واقع ہے۔ یہ سلسلہء کوہ ایک ہزار چھ سو (1600)کلومیٹر طویل ہے جو جزیرۃالعرب اور فارس کے درمیان قدرتی حد بندی کا کام دیتا ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق جبال زاغروس طبقہ عربیہ اور طبقہ یوریشیا کے تصادم سے وجود میں آئے، ان کا زیادہ حصہ فارس میں واقع ہے۔ اس سلسلہء کوہ کی بلندترین چوٹی زرد کوہ کی بلندی چار ہزار چار سو نو(4409) میٹر ہے،جو کہ فارس کا حصہ ہے۔یہاں سالانہ چار سو تا آٹھ سو(400-800) ملی میٹربارش ہوتی ہے۔ بارش عموماً موسم سرما اور بہار میں ہوتی ہے۔ موسم سرما میں یہاں کا درجہء حرارت منفی پچیس(25-) درجے تک گر جاتا ہے۔ بارش کی وجہ سے یہاں کوہستانی جنگلات اگے ہوئے ہیں۔خلیج عربی کا زیادہ تر معدنی تیل جبل زاغروس کے شمالی دامن کے قریب نکالا جاتا ہے۔
جبال طوروس
جزیرۃ العرب کی انتہائی شمالی سرحد پر عظیم سلسلہء کوہ جبال طوروس واقع ہے۔ جبال طوروس طبقہ عربیہ اور طبقہ یوریشیا کے اہم حصے اناطولیہ کے ملاپ پر واقع ہیں،اس سلسلہء کوہ کا اصل رقبہ انا طولیہ کی جانب ہے جب کہ اس کا جنوبی دامن جزیرۃ العرب کی جانب ہے۔ جبال طوروس کی بلند ترین چوٹی دمیر کازک تین ہزار آٹھ سو دس (3810) میٹر بلند ہے جو کہ اناطولیہ کا حصہ ہے۔ جزیرۃ العرب کا اہم شہر دیار بکراسی پہاڑ کے جنوبی دامن کے قریب آباد ہے،جسے اولاً عرب قبائل بنو بکر نے آباد کیا تھا،جن کا اصل وطن نجد تھا جو کہ وسطی جزیرۃ العرب میں واقع ہے۔جزیرۃ العرب کے دو اہم دریا دجلہ اور فرات دیار بکر کے قریب جبال طوروس سے نکلتے ہیں۔
جبل الاَخضَر
جبل الاخضر کا مطلب ہے سرسبز پہاڑ۔ یہ پہاڑ جزیرۃ العرب کے انتہائی مشرقی حصے میں خلیج عمان کے ساحل پر واقع ہیں۔ یہ سلسلہء کوہ تقریبا پانچ سو (500) کلومیٹر طویل ہے جو شرقا غربا پھیلا ہوا ہے۔یہاں شاہ بلوط انجیر،انار،آڑو ،اخروٹ اور خوبانی کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔یہاں بعض علاقوں میں عربی چیتا بھی پایا جاتا ہے ۔جبال الحجر کا وسطی حصہ جبل اخضر کہلاتا ہے جس کی بلندترین چوٹی جبل شمس سطح سمندر سے تین ہزار میٹر سے (3000)بلند ہے۔ یہاں سالانہ تین سو(300) ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔
جزیرۃ العرب کے جنوب مشرقی حصے میں بحیرہء عرب کے ساحل کے ساتھ واقع سلسلہء کوہ کو حضر موت کہا جاتا ہے۔ انہیں جبل مَہرہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سراۃ الیمن سے متصل پہاڑی سلسلہ ہے جو شرقاً غرباً پھیلا ہوا ہے۔اس سلسلہ ء کوہ کی اوسط بلندی ایک ہزار ساٹھ (1060)میٹر جبکہ بلند ترین چوٹی دو ہزار چار سو چالیس(2440) میٹر بلند ہے۔
ج)جزیرۃالعرب کے دریا
جزیرۃالعرب کا دو تہائی رقبہ صحرا پر مشتمل ہونے کے باعث اس خطے میں تازہ پانی کے ذخیرے بہت کم ہیں۔جزیرۃالعرب کے وسطی حصے میں سرے سے کوئی دریا نہیں ہے لہذا یہاں پانی کمیاب ہے۔یہاں پانی کا بڑا ذریعہ صرف زیر زمین پانی ہے جو کنویں کھود کر نکالا جاتا رہاہے۔جزیرۃالعرب کے صرف چار بڑے دریا ہیں جو اس کے شمالی علاقہ جات میں واقع ہیں۔یہ دریا درج ذیل ہیں
دریائے فرات
دریائے دجلہ
دریائے اردن
دریائے عاصی
دریائے فرات
یہ دریا شمال میں واقع جبال طوروس سے نکلتا ہے اور بالآخر تین ہزار کلومیٹر فاصلہ طے کر کے خلیج عربی میں جا گرتا ہے دریائے فرات جزیرۃالعرب کا طویل ترین دریا ہے جو دریائے دجلہ کے ساتھ مل کر شط العرب بناتا ہے۔ شمال میں تین چھوٹے دریا دریائے فرات سے آملتے ہیں جن کے نام سجور،بالخ اور خبور ہیں۔ یہ دریا قدیم اناطولیہ (ترکی)،شام اور عراق کے وسیع رقبوں کو سیراب کرتا ہے۔
دریائے دِجلہ
دریائے فرات کی طرح دریائے دِجلہ بھی جبال طوروس سے نکلتا ہے اور دونوں مل کر شط العرب بناتے ہیں جو خلیج عربی میں جا گرتا ہے۔ دریائے دجلہ کی لمبائی ایک ہزارؤ آٹھ سو پچاس (1850) کلومیٹر ہے۔ دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے چشموں میں صرف تیس(30) کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔دریائے دجلہ کی سر زمین عراق ہے،جہاں یہ نہایت وسیع رقبے کو سیراب کرتا ہے۔دریائے دجلہ اور دریائے فرات کا درمیانی علاقہ الجزیرۃ کہلاتا ہے جو کہ دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔اس کی زرخیزی کے سبب اسے معروف زرخیز ہلا ل کا سب سے اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
دریائے اردن
دریائے اردن جبل لُبنان میں سے نکلنے والے چار چھوٹے دریاؤں کے ملنے سے وجود میں آیا ہے جن کے نام الحاصبانی،بانیاس،اللدان اور براغیث ہیں۔ دریائے اردن جس مقام پر بحر میت میں گرتا ہے وہاں سے کچھ فاصلے پر دو اہم دریا یرموک اور زرقا بھی دریائے اردن سے آملتے ہیں۔ پہاڑوں سے اترنے کے بعد جھیل ہولا میں سے ہوتا ہوابحیرہ طریہ میں داخل ہو جاتا ہے۔بحیرہ طریہ سے نکل کر فلسطین کو سیراب کرتا ہوا بحر میت یعنی ڈیڈ سی میں جا گرتا ہے۔ دریائے اردن کی کل لمبائی تین سو ساٹھ (360) کلومیٹر ہے۔
دریائے عاصی
دریائےعاصی ملکِ شام کے شمال مغربی پہاڑوں میں وادی بقا سے نکلتا ہے،اس کا چشمہ انطاکیہ کے قریب ہے،دریائے عاصی کی سرزمین شام ہے،اس کی کل لمبائی دو سو چالیس(240) کلومیٹر ہے۔دریائے عاصی شام کے مغربی علاقوں کو سیراب کرتا ہوا بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔دریائے عاصی کے معاون دریا عفوین اور کراسو ہیں۔ دیائے عاصی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس خطے کے سب دریا شمال سے جنوب کی طرف بہتے ہیں مگر درائے عاصی جنوب سے شمال کی طرف بہتا ہے۔ اسی لیے اس کا نام عربی میں عاصی یعنی روایت سے سرکشی کرنے والا ہے۔
د) بحرمیت
جزیرۃالعرب کے شمال میں مغربی ساحل کے قریب بری حصے میں ایک عجیب و غریب جھیل واقع ہے جسے بحر میت کہتے ہیں۔اس بھیل کی لمبائی سرسٹھ (67) کلومیٹر اور چوڑائی اٹھارہ (18) کلومیٹر ہے۔ لہذا اس کا کل رقبہ تقریبا آٹھ سو دس (810) مربع کلومیٹر ہے۔اس کی ایک عجیب بات تو یہ ہے کہ اس کی سطح ،عام سطح سمندر سے چار سوتیس (430) میٹر نیچے ہے جبکہ اس کی گہرائی چار سو(400) میٹر کے قریب ہے جو کہ دنیا کی سب سے گہری نمکین جھیل ہے۔اس جھیل کے پانی میں تقریبا تیس فیصد(30) نمک حل ہے۔جس کی وجہ سے اس جھیل کے ایک لٹر پانی میں تین سو دس (310) گرام نمک پایا جاتا ہے۔یہی سبب ہے کی اس کی کثافت بہت زیادہ ہے۔اس کی انتہائی کثافت کی وجہ سے اس میں کوئی جانور زندہ نہیں رہتا۔
اس کے شمالی حصے میں سالانہ ایک سو(100) ملی میٹر جبکہ جنوبی حصے میں پچاس(50) ملی میٹر بارش ہوتی ہے۔دریائے اردن کا پانی بالآخر اسی بحرمیت میں آکے گرتا ہے،مگر اس کے باوجود اس جھیل کے نمکیات میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ قدیم شہر عمودہ اور سدوم اسی بحرمیت کے کنارے واقع تھے۔
ر) بحیرہ طبریہ
قدیم فلسطین میں واقع شہر میں پانی کی ای بڑی جھیل بحیرہ طبریہ کہلاتی ہے یہ جھیل تقریبا اکیس (21)کلومیٹر لمبی اور تیرہ (13) کلومیٹر چوڑی ہے،اس لحاظ سے اس کی سطح کا کل رقبہ ایک سو چھیاسٹھ (166) مربع کلومیٹر ہے۔اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی اڑتالیس(48) میٹر ہے۔اس کی سطح ،عام سطح سمندر سے دو سو نو(209)میٹر نیچے ہے،لہذا یہ دنیا کی تمام شیریں جھیلوں سے سب سے زیادہ گہرائی میں واقع ہے۔ دریائے اردن اس کے شمالی حصے میں داخل ہوتا اور جنوبی حصے میں سے نکلتا ہے۔