قرآنی صلوٰۃ اور منکرین حدیث
از قلم ساجد محمود انصاری
ہر زبان میں ہر اصطلاح کسی نہ کسی پہلے سے موجود لفظ سے ماخوذ ہوتی ہے۔ اگر وہ پہلے سے موجود لفظ اس عمل کو کما حقہ بیان کرسکتا جس کے لیے نئی اصطلاح وضع کی جاتی ہے تو نئی اصطلاح ایجاد کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ یہ معاملہ تمام قرآنی اصطلاحات پر بھی صادق آتا ہے۔ الصلوٰۃ بھی دیگر عرب کلمات کی طرح بعض مادوں سے مشتق ہے۔ تاہم جو مفاہیم اس کے مادہ میں پائے جاتے ہیں، وہ جزوی طور پر تو اس اصطلاح میں موجود ہوسکتے ہیں مگر اس جزو کو کل قرار دینا درست نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس اصطلاح میں وہ تمام معانی پائے جائیں جو اس کے مادہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ کی اصطلاح نزول قرآن کے وقت ایجاد نہیں ہوئی بلکہ اس سے بہت پہلے عربوں کے ہاں معروف تھی۔
سورہ طہٰ میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ارشاد فرمایا:
اِنَّنِیْۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدْنِیْۙ-وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ
بےشک میں ہی ہوں اللہ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لیے صلوٰۃقائم رکھ۔
(طہٰ:14)
معلوم ہوا کہ الصلوٰۃ قرآن کی ایجاد کردہ اصطلاح نہیں ہے بلکہ نزول قرآن سے پہلے سابقہ امتوں پر بھی الصلوٰۃ فرض کی گئی تھی جیسا کہ مذکورہ آیت میں بنی اسرائیل پر صلوٰۃ کی فرضیت مذکور ہے۔
قرآن میں لفظ صلوٰۃ جہاں بطور اصطلاح استعمال ہوا ہے وہیں اس کے مشتقات بعض لغوی معانی میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ان لغوی معانی سے واضح ہوتا ہے کہ قرآنی اصطلاح الصلوٰۃ اصل میں انہیں لغوی معانی سے مأخوذ ہے۔ قرآن میں صلوٰۃ اور اس کے مشتقات لغوی اعتبار سےعموماً دعائے رحمت یا صرف رحمت کے معانی میں استعمال ہوئے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
أُولٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
ترجمہ: ان پر ان کے رب کی رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں
(البقرۃ:157)
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ:آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ(زکوٰۃ) وصول کر لیجیے ، (تاکہ) آپ اس کے ذریعہ سے انہیں پاک کریں، اور ان کا تزکیہ کریں۔ اور ان کے حق میں دُعا فرمائیں، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے۔ اوراللہ تعالی خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔
اگرچہ لغویوں نے لفظ صلوٰۃ کے بہت سے معانی بیان کیے ہیں جو عربوں کے ہاں رائج رہے ہیں، مگر قرآنی اصطلاح صلوٰۃ کا مرکزی مفہوم دعا ئے رحمت ہے۔
لغویوں نے لفظ صلوٰۃ کے جو معانی بیان کیے ہیں ان میں وہ معانی جن کے پیچھے منکرین حدیث پناہ لیتے ہیں،وہ گھوڑ دوڑ اور کولہے مٹکاتے ہوئے چلنا ہے۔ہر عاقل و دانش بآسانی دیکھ سکتا ہے کہ قرآن کی مذکورہ بالا آیات میں صلوٰۃ کے ان معانی کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔یہاں تک منکرین حدیث کی اکثریت بھی مذکورہ بالا آیات میں صلوٰۃ کا مطلب گھوڑ دوڑ یا کولہے مٹکا کر چلنا (جسے منکرین حدیث فوجی پریڈ قرار دیتے ہیں) نہیں لیتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جن مقامات پر لفظ صلوٰۃ اور اس کے مشتقات اصطلاحی معانی میں استعمال ہوئے ہیں، منکرین حدیث دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان مقامات پر گھوڑ دوڑ ، فوجی پریڈ یا رقص (ڈانس)مراد ہے۔
اسی پر بس نہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کفار مکہ کی بدتہذیبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ بیت اللہ کے پاس جب وہ صلوٰۃ ادا کرنے آتے ہیں تو وہ بدبخت اس موقعہ پر بھی سیٹیاں اور تالیاں بجانے سے باز نہیں آتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَ مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّ تَصْدِیَةًؕ-فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ
ترجمہ: اوربَیْتُ اللہ کے پاس ان کی نمازصرف سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا ہی تھاتو اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔
(الانفال:35)
یہاں بھی صلوٰۃ کا مطلب گھوڑ دوڑ ، فوجی مشقیں یا رقص بہر کیف نہیں ہے کیونکہ گھوڑ دوڑ، فوجی مشقوں یا رقص کے وقت تالیاں اور سیٹی بجانا موجبِ کفر نہیں ہوسکتا۔بلکہ اللہ کے ذکر ِ خاص یعنی الصلوٰۃ کے وقت یہ اوباشانہ کام موجبِ کفر ہوسکتے ہیں۔
اگر کفار کی صلوٰۃ پر گھوڑ دوڑ، فوجی پریڈ یا رقص جیسےالفاظ کا اطلاق نہیں ہوتا تو اہل ایمان کی الصلوٰۃ پر ان کا اطلاق کرنے پر اصرار کیوں ہے؟ اس اصرار کا مقصد فرضِ صلوٰۃ سے جان چھڑانے کےسوا اور کچھ نہیں ہے۔
جب منکرینِ حدیث دیکھتے ہیں کہ گھوڑ دوڑ، فوجی پریڈ یا رقص جیسے الفاظ سے ان کی دال نہیں گلتی تو وہ ایک نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ قرآنی صلوٰۃسے مراد دنیا میں قرآنی نظام قائم کرنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماہرینِ لغتِ عرب میں سے کن علما نے صلوٰۃ کا مطلب نظام بتایا ہے؟ ہماری معلومات کی حد تک ایک بھی لغتِ عرب میں صلوٰۃ کا مطلب نظام نہیں لکھا گیا۔
وادعوا شھدأ کم ان کنتم صٰدقین