مُشاجراتِ صحابہؓ میں امام علی علیہ السلام کا مؤقف
از قلم ساجد محمود انصاری
مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے مراد وہ جنگیں ہیں جو امام علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں ان کے خلاف لڑی گئیں۔مگر عجیب طُرفہ تماشہ ہے کہ فرقہ ٔ ناصبیہ ان جنگوں کا ذمہ دارامام علی علیہ السلام کو ہی ٹھہراتا ہے۔حال آن کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں نیز قرآن و سنت سے امام علی علیہ السلام کے مؤقف کی تائید اور ان کے مخالفین کے مؤقف کی تردید ہوتی ہے۔
پہلی بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ امام علی علیہ السلام کوئی دنیادار بادشاہ نہیں تھے کہ جن کے خلاف جنگوں کو محض سیاسی اختلاف قرار دے کر ان سے صرفِ نظر کیا جائے اور اسے فریقین کی جانب سے اقتدار کی خاطر لڑی جانے والی جنگیں باور کرکے غیرجانبدار رہنے کا مطالبہ کیا جائے۔ امام علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کے لیے آمادہ ہونا تو بہت بڑی جسارت ہے، ان کے لیے دل میں میل آجانا بھی خطرے سے خالی نہیں۔
یہ درست ہے کہ امام علی علیہ السلام کے مخالفین نےقرآنی آیات کو بنیاد بنا کران کے خلاف تلوار اٹھائی تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ امام علی علیہ السلام نے ان قرآنی آیات کی جو تاویل کی وہی حق ہے اور مخالفین کی رائے ان مخصوص حالات کے تناظر میں بالکل غلط تھی۔اس کے باوجود ہم ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے کلماتِ خیر ہی ادا کرتے ہیں جنہوں نے امام علی علیہ السلام کے خلاف تلوار اٹھائی کیونکہ وہ قرآنی تاویل کے باعث معذور سمجھے جائیں گے۔ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خطائیں معاف ہوچکی ہیں۔
امام علی علیہ السلام کے خلاف تلوار اٹھانا ہی بنیادی طور پر ایک غلط اقدام تھا۔اس اقدام کی غلطی درج ذیل احادیث سے واضح ہوجاتی ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِیٍّ الْیَمَنَ فَرَأَیْتُ مِنْہُ جَفْوَۃً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذَکَرْتُ عَلِیًّا فَتَنَقَّصْتُہُ، فَرَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَتَغَیَّرُ، فَقَالَ: ((یَا بُرَیْدَۃُ! أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ۔)) قُلْتُ: بَلٰییَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، مَنْ کُنْتُ وَلِیَّہٗ فَعَلِیٌّ وَلِیُّہٗ۔))[1]
اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین
سیدنا بریدۃ الاسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیّدُنا علی علیہ السلام کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سیدنا علی علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تنقیص کی۔ اسی لمحے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک (کا رنگ) متغیر ہوتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بریدہ! کیا میں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا؟ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیوں نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
جس کا میں مولا (آقا) ہوں اس کا علی مولا (آقا) ہے۔
سیدنا بریدۃ الاسلمی رضی اللہ عنہ کے شکوہ سے نبی ﷺکو پتہ چلا کہ منافقین ہی نہیں بلکہ صحیح العقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سےبعض لوگ امام علی علیہ السلام سے حسد کی وجہ سے ان سے بغض رکھتے ہیں، نبی ﷺ کو ان صحابہ کے اس طرزِ عمل سے سخت صدمہ پہنچا۔چنانچہ آپ ﷺنے ہمیشہ کے لیے اس حسد اور بغض کی جڑ کاٹنے کا فیصلہ فرمایا۔ آپ ﷺ نے غدیرِ خُم کے مقام پر ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں امت میں اہلِ بیت علیہم الصلوات والسلام کے مقام و مرتبہ کی نشاندہی فرمائی اور واضح فرمادیا کہ جس طرح نبی اکرم ﷺ تمام مؤمنوں پر ان کی جان سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں، آپ ﷺ کے اہلِ بیت بھی اسی طرح مؤمنوں پر ان کی جان سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔یاد رہے کہ اگرچہ ہمارے نزدیک تمام مؤمنین بنی ہاشم علیہم السلام نبی ﷺ کے اہلِ بیت میں شامل ہیں، تاہم خطبہ غدیرِ خُم میں آپ کی مراد اہلِ کسا یعنی سیدہ فاطمہ، امام علی، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام ہیں، اگرچہ ضمناً باقی مؤمنین بنی ہاشم اور ازواجِ مطہرات (امہات المؤمنین) علیہم السلام بھی مراد لی جاسکتی ہیں۔
خطبہ غدیرِ خُم متقارب المعانی الفاظ کے ساتھ مختلف روایات میں وارد ہوا ہے۔ جن میں سے درج ذیل حدیث کے الفاظ زیادہ جامع ہیں:
قال: ثنا أبو عوانة عن الأعمش، ثنا حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم قال: لما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من حجة الوداع، ونزل غدير خم، أمر بدوحات فقممن، ثم قال: كأني دعيت فأجبت، إني قد تركت فيكم الثقلين احدھما اکبر من الآخر: كتاب الله وعترتي أهل بيتی، فانظروا كيف تخلفوني فيهما، فإنهما لن يفترقا حتى يردا علي الحوض. ثم قال: إن الله مولاي وأنا ولي كل مؤمن، ثم أخذ بيد علي فقال: من كنت ولیہ فهذا وليه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه [2]
قال الذہبی: هذا إسناد قوي
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اکرم ﷺ حجۃ الوداع سے لوٹے تو آپ نے غدیرِ خُم کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، آپ ﷺ نے ایک بڑے درخت پر مچان بنانے کا حکم دیا جو پورا ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا مجھے لگتا ہے کہ عنقریب میرا رب مجھے بلالے گا اور میں اس کے پاس لوٹ جاؤں گا۔ میں تمہارے بیچ دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جن میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظیم ہے، یعنی اللہ کی کتاب قرآن اور میری اولاد یعنی میرے اہلِ بیت۔دیکھو کہ تم میرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہو؟ یہ دونوں (قرآن اور عترتِ رسولﷺ) ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچ جائیں۔ اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے امام علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: جس کا میں ولی (آقا) ہوں تو یہ (علیؑ) بھی اس کا ولی (آقا) ہے۔ اے اللہ جو اس (علیؑ) سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جواس ( علیؑ) سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔
ہم نے اپنے رسالے ہدایۃ المصطفےٰ فی ولایۃ المرتضےٰ علیہم الصلوات والسلام میں ان احادیث کے بہت سے طرق جمع کردیئے ہیں، لہٰذا اس حدیث کی مکمل تشریح کے لیے یہ رسالہ ملاحظہ فرمائیں۔
ہر چند کہ ان احادیثِ مبارکہ میں مولیٰ کا مطلب اولیٰ و آقا ہی ہے تاہم اگرآپ مولیٰ کا معنی اولیٰ و آقا کی بجائے صرف دوست ہی کرلیں تب بھی امام علی علیہ السلام کے خلاف تلوار اٹھانے کو کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے امام علی علیہ السلام سے بے لوث محبت اور ان کی حمایت کرنا تمام مؤمنین پر واجب کردیا ہے۔یہی سبب ہے کہ امام علی علیہ السلام اپنے زمانۂ خلافت میں لوگوں کو بار بار خطبہ غدیرِ خُم یاد دلاتے رہے۔
عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: اسْتَشْہَدَ عَلِیٌّ النَّاسَ، فَقَالَ: أَنْشُدُ اللّٰہَ رَجُلًا سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، اللَّہُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ۔)) قَالَ: فَقَامَ سِتَّۃَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَہِدُوْا۔ [3]
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کی اور کہا: میں اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں، جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! میں جس کا مولا (آقا) ہوں، علیؑ بھی اس کا مولا (آقا) ہے، اے اللہ! جو علی سے محبت کھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علیؑ سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔ یہ سن کر سولہ آدمی کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ شہادت دی (کہ واقعی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے)۔
سیدنا ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابو طالب علیہ السلام نے لوگوں کو درختوں کے جھنڈ میں جمع فرمایا۔ اور ان سے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دلاتا ہوں کہ بتاؤ رسول اللہ ﷺ نے غدیرِ خُم کے پاس خطبہ میں کیا فرمایا؟ تب لوگوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ! کیا میں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا؟ پھر آپ ﷺ نے سیدنا علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:جس کا میں مولا (آقا) ہوں علی بھی اس کا مولا (آقا) ہے، اے اللہ جو علی ؑ سے محبت رکھے اس سے تُو بھی محبت رکھ اور جو علی سےعداوت رکھے اس سے تُو بھی عداوت رکھ۔[4]
کیا ان احادیث سے واضح نہیں ہوجاتا کہ امام علی علیہ السلام اپنے خلاف تلوار اٹھانے والوں کے ساتھ جنگ کرنے میں حق بجانب تھے، جبکہ آپ کے مخالفین غلطی پر تھے۔
ایک اور حدیث اس مسئلہ میں نص کا درجہ رکھتی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ،قال:
سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ يَقُولُ:
كُنَّا جُلُوسًا نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ عَلَيْنَا مِنْ بَعْضِ بُيُوتِ نِسَائِهِ، قَال
فَقُمْنَا مَعَهُ، فَانْقَطَعَتْ نَعْلُهُ، فَتَخَلَّفَ عَلَيْهَا عَلِيٌّ يَخْصِفُهَا، فَمَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَضَيْنَا مَعَهُ، ثُمَّ قَامَ يَنْتَظِرُهُ وَقُمْنَا مَعَهُ،
فَقَالَ
” إِنَّ مِنْكُمْ مَنْ يُقَاتِلُ عَلَى تَأْوِيلِ هَذَا الْقُرْآنِ، كَمَا قَاتَلْتُ عَلَى تَنْزِيلِهِ “
فَاسْتَشْرَفْنَا وَفِينَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَقَالَ:
” لَا، وَلَكِنَّهُ خَاصِفُ النَّعْلِ “
: قَالَ
فَجِئْنَا نُبَشِّرُهُ،
قَالَ
وَكَأَنَّهُ
قَدْ سَمِعَهُ
وقال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه، ووافقه الذهبي
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم بیٹھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار کررہے تھے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ایک بیوی کے گھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے، ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے، آپ کا جوتا ٹوٹ گیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس کی مرمت کے لئے پیچھے رک گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے رہے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلتے رہے، پھر آپ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے انتظار میں کھڑے ہو گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم
میں سے بعض لوگ اس قرآن مجید کی درست تاویل کے لیے جنگ کریں گے،
جیسے میں نے قرآن کی وحی کے بارے میں (کفار سے) جنگ کی۔ ہم نے گردنیں اٹھا کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا(کہ شاید وہ مراد ہیں)، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ آدمی تو وہ شخص ہوگا جوجوتا مرمت کررہا ہے۔ پس ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خوشخبری سنانے کے لیے ان کی طرف دوڑے مگر (انہوں نے ایسا تأثر دیا کہ) گویا انہوں نے یہ خوشخبری پہلے ہی سن رکھی تھی۔[5]
رسول اکرم ﷺ نے امام علی علیہ السلام کی طرف سے قرآن کی درست تاویل کے لیے جنگ لڑنے کی تعریف و تحسین فرمائی اور وہاں موجودصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اسے امام علی علیہ السلام کی فضیلت ہی شمار کیا نہ کہ فضیحت۔ یہ حدیث امام علی علیہ السلام کے مؤقف کی صحت پر نص ہے۔لہٰذا ناصبیوں کی دال یہاں گلنے والی نہیں۔
ایک دوسری حدیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ،
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ
[6] ” تَفْتَرِقُ أُمَّتِي فِرْقَتَيْنِ، فَتَمْرُقُ بَيْنَهُمَا مَارِقَةٌ، فَيَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ
إسناده صحيح على شرط مسلم
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ عنقریب میری امت دو گروہوں میں تقسیم ہوجائے گی، پھر ان دونوں گروہوں میں سے ایک تیسرا گروہ نکلے گا جس سےوہ گروہ جنگ کرے گا جو حق کے زیادہ قریب ہوگا۔
اس حدیثِ مبارک سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ پہلے دو گروہ اصحابِ علیؑ اور اصحابِ معاویہؓ میں سے امام علی علیہ السلام کے حامیوں کا گروہ تیسرے گروہ یعنی خوارج سے جنگ کرنے کی وجہ سے حق کے زیادہ قریب ہے۔اس حدیث نےبھی امام علی علیہ السلام کے مؤقف کی درستگی پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس حدیث سے یہ باور کرانا کے امام علی علیہ السلام کے مخالفین کا گروہ بھی حق پر تھا، بڑی دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لانا ہے، کیوں کہ ہم متواتر حدیث سے ثابت کرآئے ہیں کہ امام علی علیہ السلام کی مخالفت اور ان پر تلوار اٹھانا ہی سرے سے رسول اکرم ﷺ کے فرامین کے منافی ہے۔ہاں اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کا مخالف گروہ بھی اپنے زعم میں حق کے لیے لڑ رہا تھا، مگر ان کی تاویل و تعبیر بہر کیف غلط تھی۔اسی لیے ہم اس دوسرے گروہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھتے ہیں اور ان کا ذکر ہمیشہ بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیت اطہار بالخصوص امام علی علیہ السلام سے سچی محبت نصیب فرمائے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہم آمین
اللھم صل علی محمد و آل محمد و بارک وسلم علیھم
[1] مسند احمد: رقم 23333، سسن الکبری للنسائی: رقم 8145
[2] سنن الکبریٰ للنسائی: رقم 8609
[3] مسند احمد: رقم 23531
[4] السنن الکبریٰ، للنسائی: رقم 8623
[5] مسند احمد: رقم 11773، السنن الکبریٰ للنسائی: رقم 8687، مستدرک للحاکم، مسند ابویعلیٰ: رقم 1081، صحیح ابن حبان: رقم 6937
[6] مسند احمد: رقم 11750، السنن الکبریٰ للمسائی: رقم 8702