از قلم ساجد محمود انصاری
انجینئر محمد علی مرزا جہلمی رافضیت کی طرز پر اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی توہین کرنے کے راستے پر گامزن ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بطورِ خاص تختۂ مشق بنا رکھا ہے۔ بنظرِ ظاہر وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کے تیر برساتا ہے، مگر ان کی آڑ لے کر وہ جنگِ صفین میں امام علی علیہ السلام کے خلاف نبرد آزما ہونے والے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاذاللہ جہنمی باور کرانے پر تلا ہے۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں ہمارا مضمون : سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قاتل)
امیرالبحر سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کی شخصیت بعض تاریخی وجوہات کی بنیاد پر کسی حد تک متنازعہ بنا دی گئی ہے۔امام علی علیہ السلام کے حق پر ہونے کے باوجود ہم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اقد ام کو باطل سے تعبیر نہیں کرسکتے۔ اہلِ ایمان کے دو گروہ منافقین کے پیدا کیے ہوئےمغالطوں کی وجہ سے آپس میں بِھڑ گئے تھے۔ہر چند کہ امام علی علیہ السلام کا گروہ افضل اور حق پر تھا، مگر اس بنیاد پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے تمام ساتھیوں کو جہنمی قرار دینا ، بجائےخود ایمان سے تہی دامن ہونے کی نشانی ہے۔ قرآ ن حکیم کی رو سے ہر وہ شخص جنتی ہے جس نے ایمان کی حالت میں رسول اکرم ﷺ کی صحبت پالی، اب اس معیت و صحبت کا دورانیہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو، بہر کیف ہر صحابی جنتی ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے: اصحابِ رسول ؓ کے لیے جنت کی بشارتیں)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ بنت ابو سفیان سلام اللہ علیہا کے سگے بھائی تھے۔انہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا مگر انہیں رسول اکرم ﷺ کی خدمت کا کئی بار موقعہ میسر آیا۔ یہ ممکن نہیں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی بہن سے ملنے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لاتے ہوں اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوتے ہوں۔فتح مکہ کے بعد نبی ﷺ اٹھارہ ماہ بقیدِ حیات رہے، جن میں تقریبا ً 540دن تھے، یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی نبی ﷺ سے ملاقات اور صحبت کے 540 مواقع موجود تھے۔ مسند احمد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایک سو 100سے زائد احادیث مروی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بارہا مواقع پر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور آپ سے فیض یاب ہوئے۔
اہلِ بیت رسول علیہم السلام میں سےبعض اہلِ علم نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث روایت کی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مرویاتِ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے استدلال کے قائل تھے۔(مسند احمد: رقم 16884،16870،صحیح البخاری، صحیح مسلم)
مسند امام احمد میں تابعی امام ابن سیرین ؒ کایہ قول منقول ہے:
وَكَانَ مُعَاوِيَةُ لَا يُتَّهَمُ فِي الْحَدِيثِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
(مسند احمد: رقم 16239)
یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بعض لوگوں کی تنقید کے باوجود نبی ﷺ کی حدیث بیان کرنے میں انہیں ثقہ مانا جاتا ہے۔
تمام محدثین کرام بشمول امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی ؒ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایات نقل کی ہیں۔ اصحابِ رسول کے کوائف جمع کرنے والے تمام محققین نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام میں شمار کیا ہے ، مثلاً الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(امام ابن عبدالبر)، الاصابہ فی تمیز الصحابہ (امام ابن حجر العسقلانیؒ) اور اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (امام ابن الاثیرؒ) اصحاب رسول کے حالات و کوائف پر معتبر ترین کتب مانی جاتی ہیں، اور ان تینوں کتب میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔لہٰذا کسی بھی شخص کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے صحابیٔ رسول ہونے میں شک نہیں ہونا چاہیے۔کسی خاص شخص کے بارے میں یہ تحقیق تو کی جاسکتی ہے کہ وہ صحابی ہے یا نہیں، مگر جس شخص کا صحابی ہونا ثابت ہوجائے اس کے بارے میں یہ بحث نہیں کی جائے گی کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی؟ ہر صحابی از روئے قرآن بالیقین جنتی ہے۔
مانا کے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ امام علی علیہ السلام کے خلاف اقدام کی وجہ سے سیاسی طور پر متنازعہ شخصیت بن گئے تھے، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر شخص کو ان پر تنقید کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت پیدا ہونے والی صورتحال ایسی گھمبیر اور پیچیدہ ہوچکی تھی کہ منافقین کی افواہوں نے مرکز اور شام کے بیچ بہت سی غلط فہمیاں پیدا کردی تھیں۔ناصبیوں نے امام علی علیہ السلام کو قتلِ عثمان رضی اللہ عنہ کا ذمہ دار قرارر دے دیا تھا اورحقیقت یہ ہے کہ فی الوقت وہ اس پروپیگنڈے کو پھیلانے میں بہت کامیاب رہے تھے۔اس صورتحال نے بنو امیہ کو بھڑکا دیا اور وہ امام المشارق والمغارب امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف آکھڑے ہوئے تھے۔اس واقعہ سے امت مسلمہ میں ایک خلیج پیدا ہوگئی جو آج تک پر نہ ہوسکی۔
اس سب کے باوجود صحابیٔ رسول امیرالبحر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے خلاف زبان کو بے لگام چھوڑنا اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں ہے۔کتبِ تاریخ میں مذکور بے سند واقعات کو دلیل بنا کر صحابی ٔ رسول پر زبان طعن دراز کرنا درست نہیں۔ رہیں کتبِ حدیث میں مذکور تاریخی روایات تو ان کی ایسی مناسب تاویل و تشریح کرنا چاہیے جو قرآن میں مذکور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اخلاق و کردار اور مقام و مرتبہ سے مطابقت رکھتی ہو۔
انجینیئر محمد علی مرزا اور اس کے ہم خیال کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے سوا ہر شخص پر تنقید کی جاسکتی ہے۔باور کرلیجیئے کہ یہ شیطان کا ایک جال ہے جس میں یہ لوگ پھنس چکے ہیں۔ ہم ہر نماز میں ان لوگوں کے راستہ پر ثابت قدمی کی دعا مانگتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا۔ جبکہ سورۃ النسا کی آیت 69 سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا ہے ، ان میں انبیائے کرام ، صدیقین، شہدا اور صالحین شامل ہیں۔ جان لیجیے کہ ہمارے نبی امام الانبیا ہیں اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام امتوں کے سردار ہیں۔ ان صحابہ کرام ؓمیں صدیقین، شہدا اور صالحین تینوں طبقات موجود تھے۔کیا ہم اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعام یافتہ لوگوں پر تنقید کرکے ان کے راستے پر چل سکتے ہیں؟ہرگز نہیں۔ انسانی نفسیات میں یہ داخل ہے کہ جس شخص کو وہ قابلِ تنقید سمجھتا ہے، اس کی دل سے تعظیم اور تقلید نہیں کرسکتا۔یہی نفسیات انسان کو بغاوت پر آمادہ کرتی ہے۔اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قابلِ تنقید ہیں تو ہم صدقین ، شہدا اور صالحین کے راستے پر نہیں چل سکتے۔اس صورت میں ہماری دعا (صراط الذین انعمت علیھم) ہی ہماری منافقت کی دلیل ہے۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا
سورۃ النسا: 69
اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے خاص فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور صالحین ،یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں!
رسول اکرم ﷺ اپنے بعد پیش آنے والے حالات سے آگاہ تھے، اسی لیے انہوں نے ارشاد فرمایا :
اللهَ اللهَ فِي أَصْحَابِي، اللهَ اللهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ
مسند امام احمد: رقم 20549
میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، میرے بعد انہیں طعن و تشنیع کا نشانہ مت بنانا، جس نے ان سے محبت رکھی تو میری محبت کے سبب ایسا کیا، اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا۔