سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قاتل
از قلم: ساجد محمود انصاری
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگِ صفین میں شہید ہوئے، ان کی شہادت کے بارے میں نبی ﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک باغی گروہ انہیں شہید کرے گا۔سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ وہ امام علی علیہ السلام کی جانب سےجنگ صفین میں شریک ہوئے اور شامی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔جیسا کہ مسند احمد کی درج ذیل روایات سے واضح ہے:
عَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ خُوَیْلِدٍ الْعَنْزِیِّ قَالَ: بَیْنَمَا أَنَا عِنْدَ مُعَاوِیَۃَ إِذْ جَائَہُ رَجُلَانِ یَخْتَصِمَانِ فِی رَأْسِ عَمَّارٍ یَقُولُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا: أَنَا قَتَلْتُہُ، فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو: لِیَطِبْ بِہِ أَحَدُکُمَا نَفْسًا لِصَاحِبِہِ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: ((تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) قَالَ مُعَاوِیَۃُ: فَمَا بَالُکَ مَعَنَا؟ قَالَ: إِنَّ أَبِی شَکَانِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: ((أَطِعْ أَبَاکَ مَا دَامَ حَیًّا وَلَا تَعْصِہِ۔)) فَأَنَا مَعَکُمْ وَلَسْتُ أُقَاتِلُ۔
(مسند احمد: 6929)
حنظلہ بن خویلد عنبری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں حاضر تھا کہ دو آدمیوں نے ان کے ہاں آکر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے سر کے بارے میں جھگڑنا شروع کر دیا، ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ اس نے ان کو قتل کیا ہے،ان کی باتیں سن کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: تم میں سے ہر ایک اپنے اس کارنامے پر اپنا دل خوش کر لے، میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ باغی گروہ انہیں قتل کرے گا۔ ان سے یہ حدیث سن کر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر یہ بات ہے توپھر آپ ہمارا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟ انھوں (عبداللہ بن عمرو ) نے جواب دیا: میرے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میری شکایت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایاتھا: تمہارا والد جب تک زندہ ہے، تم اس کی اطاعت کرتے رہو۔ اس فرمان رسول کی وجہ سے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں، لیکن پھر بھی لڑائی میں حصہ نہیں لیتا۔
عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ حَزْمٍ عَلٰی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَقَالَ: قُتِلَ عَمَّارٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَزِعًا یُرَجِّعُ حَتَّی دَخَلَ عَلٰی مُعَاوِیَۃَ، فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ: مَا شَأْنُکَ؟ قَالَ: قُتِلَ عَمَّارٌ، فَقَالَ مُعَاوِیَۃُ: قَدْ قُتِلَ عَمَّارٌ فَمَاذَا؟ قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: ((تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) فَقَالَ لَہُ مُعَاوِیَۃُ: دُحِضْتَ فِی بَوْلِکَ أَوَ نَحْنُ قَتَلْنَاہُ؟ إِنَّمَا قَتَلَہُ عَلِیٌّ وَأَصْحَابُہُ، جَائُ وْا بِہِ حَتّٰی أَلْقَوْہُ بَیْنَ رِمَاحِنَا أَوْ قَالَ بَیْنَ سُیُوفِنَا۔ (مسند احمد: 17931)
محمد بن عمروبن حزم سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سیدنا عمر و بن حزم رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں بتلایاکہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں، جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہوئے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی حالت دیکھ کر پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: عمار قتل ہوگئے تو پھر کیا ہوا؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا ہے کہ ایک باغی گروہ عمار کو قتل کرے گا۔ یہ سن کر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم اپنے پیشاب میں پھسلو، کیا ہم نے اس کو قتل کیاہے؟ اسے تو علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے مروایا ہے، وہ لوگ انہیں لے آئے اور لا کر ہمارے نیزوں یا تلواروں کے درمیان لا کھڑا کیا۔
ان روایات سے صاف واضح ہے کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو جس باغی گروہ نے قتل کیا وہ اہلِ شام تھے۔ فقہائے اسلام بالخصوص امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اہل شام کی بغاوت اور امام علی علیہ السلام کی ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے برتاؤ سے بغاوت کے احکام اخذ کیے ہیں اور اسی حدیث سے انہوں نے امام علی علیہ السلام کا اقرب الی الحق ہونا اخذ کیا ہے۔ قرآن حکیم نے اہلِ اسلام میں سے بغاوت کرنے والے گروہ کو بھی ایمان سے متصف کیا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
(الحجرات:9)
اور اگر اہل ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
پس عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ جنگ صفین میں مبتلا ہونے والے دونوں گروہوں کو ایمان سے متصف کیا جائے اور دونوں کے لیے خیر کے کلمات کہے جائیں۔ امام علی علیہ السلام کا طرزِ عمل بھی یہی تھا کہ جب آپ سے جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ہمارے اور ان کے مقتول جنت میں ہیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: رقم 39035)
متواتر روایات سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے اتنا ہی فرمایا تھا کہ ابن سمیہ (عمار رضی اللہ عنہ) کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے:
عَنِ ابْنِ عَوْنٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أُمِّہِ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: مَا نَسِیتُ قَوْلَہُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، وَہُوَ یُعَاطِیہِمُ اللَّبَنَ، وَقَدْ اغْبَرَّ شَعْرُ صَدْرِہِ وَہُوَ یَقُولُ: ((اللَّہُمَّ إِنَّ الْخَیْرَ خَیْرُ الْآخِرَہْ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَہْ۔))قَالَ: فَرَأٰی عَمَّارًا، فَقَالَ: وَیْحَہُ ابْنُ سُمَیَّۃَ تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ، قَالَ: فَذَکَرْتُہُ لِمُحَمَّدٍ یَعْنِی ابْنَ سِیرِینَ، فَقَالَ: عَنْ أُمِّہِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، أَمَا إِنَّہَا کَانَتْ تُخَالِطُہَا تَلِجُ عَلَیْہَا۔
(مسند احمد: رقم 27015، صحیح المسلم: رقم 1234)
سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: مجھے خندق والے دن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات نہیں بھولی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کو اینٹیں پکڑا رہے تھے اور آپ کے سینہ مبارک کے بال غبار آلود ہو چکے تھے اور آپ یوں فرما رہے تھے: اے اللہ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے، تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو فرمایا: سمیہ کے بیٹے پر افسوس ہے کہ اسے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ، فَجَعَلْنَا نَنْقُلُ لَبِنَۃً لَبِنَۃً، وَکَانَ عَمَّارٌ یَنْقُلُ لَبِنَتَیْنِ لَبِنَتَیْنِ فَتَتَرَّبُ رَأْسُہُ، قَالَ: فَحَدَّثَنِی أَصْحَابِی وَلَمْ أَسْمَعْہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ جَعَلَ یَنْفُضُ رَأْسَہُ وَیَقُولُ: ((وَیْحَکَ یَا ابْنَ سُمَیَّۃَ تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔))
(مسند احمد:رقم 11024)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں مسجد تعمیر کرنے کا حکم فرمایا، ہم ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے تھے، جبکہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے، اس وجہ سے ان کا سر غبار آلود ہوگیا، سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں سنا، البتہ میرے ساتھیوں نے مجھے بتلایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے سر سے مٹی جھاڑ رہے تھے اور ساتھ ساتھ فرما رہے تھے: سمیہ کے بیٹے! اللہ تجھ پر رحم کرے، ایک باغی گروہ تجھے قتل کر ے گا۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَارَۃَ بْنِ خُزَیْمَۃَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: مَا زَالَ جَدِّی (یَعْنِیْ خُزَیْمَۃَ بْنَ ثَابِتٍ رضی اللہ عنہ ) کَافًّا سِلَاحَہُ یَوْمَ الْجَمَلِ حَتّٰی قُتِلَ عَمَّارٌ بِصِفِّینَ، فَسَلَّ سَیْفَہُ فَقَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ: ((تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔))
(مسند احمد:رقم 22217))
محمد بن عمارہ کہتے ہیں: میرا دادا سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل کے دن اپنا اسلحہ روکے رکھا، یہاں تک کہ جب صفین میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے، تو انہوںنے اپنی تلوار نکالی اور شہید ہونے تک لڑتے رہے، انہوں نے وجہ یہ بیان کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک باغی گروہ عمار کوقتل کرے گا۔
سیدہ ام سلمہ، سیدنا عمرو بن حزم، سیدنا عمرو بن العاص ، سیدنا ابو سعید الخدری اور سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہم کی متواتر روایت میں صرف اتنے ہی الفاظ مروی ہیں کہ ابن سمیہ(عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ) کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ تاہم سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: وہ انہیں جنت کی طرف بلاتے ہوں گےجبکہ وہ (قاتل گروہ) انہیں جہنم کی طرف بلائے گا۔ (صحیح البخاری: رقم 447)
اس روایت کے اس آخری ٹکڑے کو لے کر روافض نے ایک اودھم مچا رکھا ہے کہ دیکھو اس روایت کے مطابق سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قاتل جہنمی ہیں۔ دست بستہ عرض ہے کہ اس پر آپ کو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی بندروں کی طرح چھلانگیں لگانے کی ضرورت ہے۔ محققین محدثین کی تحقیق یہ ہے کہ یہ آخری جملہ رسول اکرم ﷺ کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ جملہ مُدرج ہے۔ سند کی صحت کے باوجود اس جملے کو نبی ﷺ کا کلام قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں:
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے باغی گروہ والی حدیث خود نبی ﷺ سے نہیں سنی، بلکہ کسی دوسرے صحابی کے واسطہ سے سنی ہے جیسا کہ صحیح المسلم اور مسند احمد میں صراحت ہے کہ انہوں نے یہ حدیث سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے سنی تھی، مگر اس طریق میں مدرج جملہ موجود نہیں ہے۔
وَعَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ: اَخْبَرَنِیْ مَنْ ھُوَ خَیْرٌ مِنِّیْ أَبُوْ قَتَادَۃَ رضی اللہ عنہ : اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ لِعَمَّارِ بْنِ یَاسرٍ: ((تَقْتُلُکَ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔))
(مسند احمد: رقم 22984)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بھی بہتر آدمی یعنی سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ صحیح البخاری کے بعض نسخوں میں مدرج جملہ موجود ہے اور بعض میں موجود نہیں۔ امام حمیدی ؒ نے تصریح کی ہے کہ لگتا ہے امام بخاری نے اسے خود ہی حذف کردیا تھا، کیونکہ یہ جملہ ان کی شرط پر پورا نہیں اترتا۔
چنانچہ علامہ ابن حجر العسقلانی ؒ فتح الباری میں یہ مُدرج جملہ حذف کرنے کا سبب یوں بیان فرماتے ہیں:
قلت : و یظھر لی ان البخاری حذفھا عمدا و ذالک لنکتۃ خفیۃ، و ھی ان ابا سعید الخدری اعترف انہ لم یسمع ھذہ الزیادۃ من النبی ﷺ فدل علی انھا فی ھذہ الروایۃ مُدرجۃ، والروایۃ التی بینت ذلک لیست علی شرط البخاری۔
(فتح الباری: 1/714، قدیمی کتب خانہ کراچی)
“میں کہتا ہوں کہ مجھ پر یہ حقیقت کھل گئی ہے کہ امام بخاری نے ( یہ مُدرج جملہ) ایک مخفی نکتہ کی وجہ سے جان بوجھ کر حذف کیا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے یہ اضافی جملہ نبی ﷺ سے نہیں سنا جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جملہ مُدرج ہے۔مزیدبرآن یہ کہ یہ جملہ امام بخاری کی شرطِ قبولیت پر پورا نہیں اترتا۔”
پس معلوم ہوا کہ اضافہ شدہ جملہ نبی ﷺ کا کلام ہرگز نہیں ہے بلکہ راوی کا استدراج ہے۔ اگر بالفرض محال یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ جملہ بھی نبی ﷺ کا کلام ہی ہے تو اس سے مراد یہ لی جائے گی کہ یہاں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ظن کی بنیاد پر کلام کیا گیا ہے، جیسا کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ وہ حق پر ہیں اور اہل شام کو حق کی طرف بلا رہے ہیں یعنی امام برحق علی المرتضیٰ علیہ السلام کی خلافت کی طرف اور شامی انہیں امام برحق کی نافرمانی کی طرف بلارہے ہیں، گویا انہیں جہنم کی طرف بلارہے ہیں۔اس مجمل جملے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو (معاذاللہ) جہنمی باور کرانا دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لانا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہےکہ مذکورہ جملہ نبی ﷺ کا کلام ہے ہی نہیں۔ہم اپنے مضمون “شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ اور جنگِ صفین “ میں بیان کرچکے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی جن گھمبیر حالات اور افواہوں کی بارش میں بغاوت پر آمادہ ہوئے وہ اس میں معذور ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ نے بھی فتح الباری میں یہی لکھا ہے۔ (فتح الباری:1/713) پھر امام علی علیہ السلام نے بھی انہیں معذور سمجھا ہے، جیسا کہ ان کا قول اوپر بیان ہوا۔
اگر بالفرض تسلیم کرلیں کہ جہنم کی طرف بلائے جانے والا جملہ نبی ﷺ کا کلام ہے تو اس کی تاویل کی جائے گی نہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ایک عظیم گروہ کو جہمنی کہا جائے۔(معاذاللہ) اگر ان کلمات کی نسبت نبی ﷺ کی طرف درست بھی ہے تو اس سے زیادہ سے زیادہ وہ مخصوص قاتل مراد لیے جائیں گے جنہوں نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور قتل کرنے کی عملاً کوشش کی۔ مسند احمد کی مذکورہ بالا روایت سے واضح ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کسی صحابی کے ہاتھوں شہید نہیں ہوئے، پھر اس روایت کی بنیاد پر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا ساتھ دینے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جہنمی کہنے کی کیا دلیل ہے؟
واضح رہے کہ یہ طرزِ عمل بد ترین انتہا پسندی اور حق سے منہ موڑنے کا شاخسانہ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی گمراہی اور انتہا پسندی سے محفوظ رکھے اور افراط و تفریط کی بجائے معتدل مسلک اہل سنت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔