2025-07-06

 

ایمان  کی حقیقت کیا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ایمان علم الیقین کا دوسرا نام ہے۔ جب دل میں کسی شے کے وجود کا یقین اس قدر پختہ ہوجائے کہ دل بے ساختہ اسے ایک  حقیقت تسلیم کرلے، جیسے اس نے اسے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا ہو، تو اس کیفیت کو ایمان کہتے ہیں۔ تذبذب، شک، شبہہ کی موجودگی میں ایمان کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا الْمُؤمِنُونَ الَّذِیْنَ آمَنُؤا بِاللہِ وَرسُوْلِہِ ثُمّ لَمْ یَرْتَابُؤا

(الحجرات:16)

’’ بے شک (سچے) مؤمن تو وہی لوگ ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور پھر اس میں ذرّہ بھر شک نہ کریں۔‘‘

دین اسلام میں داخل ہونے کے لیے محض قلبی ایمان کافی نہیں بلکہ زبان سے اس کا اقرار بھی ضروری ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ‏.‏ فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلاَّ بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ

’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں ‏جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہیں کہتے۔ جس نے یہ کہہ دیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان بچا لی سوائے اس کے کہ کسی حق کی بنا پر (اس کا مال یا جان لی جائے)، جبکہ اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘

(صحیح البخاری: رقم 4100)

قرآن حکیم کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ایمان کی تزئین و آرائش کے لیے اعمال صالحہ بھی مطلوب ہیں، مگر فی الحقیقت اعمال ایمان سے الگ ہیں۔ اگر اعمال کو ایمان کا جزو مانا جائے تو عدمِ اعمال سے عدمِ ایمان لازم آتا ہے مگر یہ خوارج کا عقیدہ ہے۔سورۃ الحجرات ہی کی درج ذیل آیات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کے ظاہری اعمال اور ایمان دو الگ شے ہیں:

قٌالَتِ الأَعْرٌابُ آمَنٌّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلٌكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنٌا وَلَمٌّا يَدْخُلِ الإِيـمٌانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللٌّهَ وَرَسُولَهُ لاٌ يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمٌالِكُمْ شَيْئاً إِنَّ اللٌّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الحجرات:41)

’’اور یہ بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان والے ہیں، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان والے نہیں ہو، ہاں یہ کہو کہ تم نے اطاعت قبول کرلی ہے ورنہ ایمان توابھی تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کے حقیقی فرمانبردار بن جاؤ تو وہ تمہارے اعمال (کی جزا) میں ذرہ بھر کمی نہ کرے گا۔ بے شک اللہ معاف کرنےوالا مہربان ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے بدوؤں کے ظاہری اسلام (قبولیت اطاعت)  کی تصدیق کی مگر ان کے ایمان کی نفی کی ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ایمان اور اطاعت دو الگ الگ حقیقتیں ہیں۔ اطاعت قبول کرنے سے کوئی شخص ظاہری طور پر تو اسلام میں داخل ہوسکتا ہے مگر ایمان حقیقی کے بغیر اس کا اسلام نجات کے لیے کافی نہیں۔ درج ذیل حدیث میں اس حقیقت کو مزید واضح کردیا گیا ہے:

حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لاَ يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلاَمِ ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ الإِسْلاَمُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلاً ‏.‏ قَالَ صَدَقْتَ ‏.‏ قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ ‏.‏ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ ‏”‏ ‏.‏ قَالَ صَدَقْتَ ‏.‏ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ ‏.‏ قَالَ ‏”‏ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ ‏

صحیح المسلم رقم 8، صحیح البخاری رقم 50

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ اسی اثنا میں ایک انتہائی سفید لباس میں ملبوس گہرے سیاہ بالوں والا  شخص وہاں آیا جس پر نہ تو سفر کے ہی کوئی آثار تھے اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملا کر ان کے سامنے دوزانو بیٹھ گیا جبکہ اس کے ہاتھ اپنی رانوں پر تھے۔تب وہ شخص کہنے لگا :اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مجہے اسلام کے بارے میں کچھ بتائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں،صلوٰۃ ادا کرو،  زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اگر تم استطاعت رکھتے ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ وہ شخس کہنے لگا کہ آپ نے سچ فرمایا۔ (سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں کہ) ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اورخود ہی تصدیق کرتا ہے۔پھر وہ کہنے لگا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ تب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے ملائکہ پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر ،آخرت کے دن پر اور تقدیر کے خیروشر پر ایمان لاؤ۔ وہ کہنے لگا کہ آپ نے سچ فرمایا۔ مجہے احسان کے بارے میں بتائیے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت ایسے کرو جیسے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو، کیوں کہ اگر تم اسے نہیں بھی دیکھتے وہ تو تمہیں دیکھتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان اور اسلام کو الگ الگ حقیقتیں شمار کیا ہے۔ ایمان سے یہاں مراد قلبی اعتقاد جبکہ اسلام سے مراد اعضاء وجوارح کے اعمال ہیں۔ توحید ورسالت کی زبان سے گواہی اسلام کا تقاضہ ہے اس کے بغیر اہل دنیا کے سامنے ایمان معتبر نہیں۔ ہاں کفار کے غلبہ و استیٔلاء کی صورت میں  اللہ  سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں  اثباتِ ایمان اور نجات کے لیے قلبی ایمان بھی کافی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اعمال صالحہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور قلبی ایمان کا اظہار اعمالِ صالحہ ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اسی لیے ایک مؤمن بندے سے ایمان اور اسلام دونوں مطلوب ہیں۔ ہاں اعمال میں نقص کی صورت میں آدمی کی نجات اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر منحصر ہے، وہ چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو عذاب دے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت و معافات کے طالب ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا

النسا 48

بے شک اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اس کے علاوہ وہ جس کا جو گنا ہ چاہےگا معاف کردے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے

مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

الانعام 160 

جو شخص کوئی نیکی لائے گا تو اسے اس جیسی دس نیکیوں کا بدلہ دیا جائے گا اور جو 

شخص کوئی بدی لائے گا تو اسے اس بدی کا ہی بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ہرگز ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہے کہ مؤمن سے اگر کوئی بدی سرزد ہوجائے تو اس بدی کی وجہ سے اس کے سارے نامہ اعمال پر لکیر نہیں پھیری جائے گی بلکہ صرف اسی بدی کی سزا دی جائے گی۔

اس آیتِ  مبارکہ میں ان لوگوں کا ردّ ہے جو کہتے ہیں کہ مؤمن  گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے مرتد ہوجاتا ہے۔ معاذاللہ

اسی طرح قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ایمان اعمالِ صالحہ کی بنیادی شرط ہے۔اگر ہم اعمال صالحہ کو ایمان کا جزو تسلیم کرلیں تو اس سے شرط اور مشروط کا اتحاد لازم آتا ہے جوکہ محال ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے

وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا

طہٰ: 112

جو شخص ایمان کی حالت میں نیک اعمال سرانجام دیتا  ہے اسے کسی ظلم یا نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

البتہ ایمان اور اعمالِ  صالحہ  کا تعلق لازم وملزوم جیسا ہے۔ایمان اعمالِ صالحہ پر آمادہ کرتا ہے اور اعمال صالحہ ایمان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔کامل ایمان کی مثال ایک شاداب درخت کی سی ہے، جس پر  اعمال  صالحہ کے سرسبز پتے اگتے ہیں۔درخت نہ ہو تو یہ پتے  نہیں اُگ سکتے ، تاہم پتے جھڑ بھی جائیں تو درخت قائم رہتا ہے مگر اس کی خوبصورتی اور منافع میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔اعمال صالحہ کے بغیر ایمان ایک خزاں رسیدہ درخت بن جاتا ہے اوراگر خداناخواستہ پتے مطلقاً اگے ہی نہ تو درخت کمزور ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ بالکل سوکھ جاتا ہے۔

  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading