اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذَ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّہ شَرِیْک فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہ تَکْبِیْرًا۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ اِقْرَارًا بِہِ وَ تَوْحِیْدًا۔ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ اُرْسِلَ بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْداً۔وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ تَسْلِیْماً کَثِیْراً۔اَمَّا بَعْدُ!
نورِ مجسم، ہادیٔ کامل، خاتم النبیین، رحمةًللعالمین،امام المرسلین، احمدمجتبےٰ ،محمد مصطفےٰ علیہ الصلوة والسلام بعد دالنجوم کی سیرتِ منورہ کے بارے میں لکھتے وقت دل کانپ رہا ہے اور قلم لرز رہا ہے کہ یہ بار ِعظیم مجھ جیسا بندئہ اثیم اٹھا بھی پائے گا کہ نہیں۔ جس ذاتِ اقدس کی سیرت ربِ عظیم نے بیان کی ہے، اس کی سیرت بیان کرنا فکرِ بشر کے بس میں نہیں۔
خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گلِ چیدہ
کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصافِ حمیدہ
تجھ سا کوئی آیا ہے نہ آئے گا جہاں میں
دیتا ہے گواہی یہی عالم کا جرِیدہ
تاہم عصرِ حاضر کے گھمبیرفتنوں کی آگ بجھانے کے لئے سحابِ رحمت کی موسلا دھار بارش کی اشد ضرورت ہے، رحمةً للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مطہرہ سے رہنمائی حاصل کیے بغیر بھانت بھانت کے فتنوں کی سرکوبی ممکن نہیں۔آج ہر شخص ان گنت مسائل سے دوچار ہے،ان سب مسائل کا شافی و کامل حل محبوبِ کبریا ا کی سیرت منورہ کے سوا اور کہیں میسر نہیں، کیونکہ محض آپ ہی وہ ہادیٔ کامل ہیں جنہوں نے زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلہ میں انسانیت کو مکمل رہنمائی فراہم کی۔بقولِ شاعر
نبی کی سیرت ِ عالم فروز کا پر تو
فروغ ِحسن ِ تمدن ، تجلی ئِ تہذیب
نظامِ دہر کہ فر سودہ و پریشاں تھا
مرے حضور نے بخشی اسے نئی ترتیب
مرے حضور نے اسرا رِ زِیست سمجھائے
مرے حضور نے چمکائے آگہی کے نصیب
یہ سوال جواب طلب ہے کہ سیرت کے اس قدر ضخیم و مقدس ذخائر کی موجودگی میں سیرت کی ایک اور کتاب کی کیا ضرروت پیش آگئی؟میرا عذر عین وہی ہے جو قاری محمد طیب نے ” آفتابِ نبوت” کے مقدمہ میںذکر فرمایا ہے:
” سیرت کے جتنے علمی پہلو ہو سکتے تھے ان سب پر علمائِ امت قلم اٹھا چکے ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ کسی آنے والے کے لئے گنجائش نہیں چھوڑی کہ قلمکاری کی جائے، سیرت کے تاریخی،اخلاقی، سیاسی، معاشرتی، دینی، تبلیغی اور تعلیمی سارے ہی گوشے محققینِ امت کی روشنائی سے کاغذ پر اس طرح روشن ہوچکے ہیں کہ ان پر قلم اٹھانا روشنی میں اضافے کی بجائے کاغذ پر سیاہی ڈال دینے اور روشنی میں حائل ہوجانے کے مرادف ہے،لیکن یہ خیال کرتے ہوئے کہ سیرت ِنبوی حسبِ ارشادِ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا جب کہ عین قرآن ہے۔ وَ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن(اور آپ کا خلق قرآن ہے) اور قرآن کی شان لا تنقضی عجائبہ اور اس کے عجائبات کبھی ختم نہ ہونگے، فرمائی گئی ہے، تو دوسرے لفظوں میں سیرتِ نبوی کے عجائبات بھی کبھی ختم ہونے والے نہیں، اسلئے گنجائش نکلتی ہے کہ سیرت کا نام لے کر کچھ کہا جاسکے۔”
یقیناً سیرت کے لا متناہی عجائبات کا احاطہ کرنا نوع ِ ِ بشر کی طاقت سے بالا تر ہے، تاہم جن بنیادی مقاصد کے لئے زیرِ نظر صفحات کو نورِ سیرت سے منور کیا گیا ہے، وہ حسبِ ذیل ہیں
١۔سیرت کے اصل مأخذ عربی زبان میں ہیں، جن تک غیر تعلیم یافتہ عوام تو ایک جانب، جدید تعلیم یافتہ افراد کی رسائی بھی غیر ممکن ہے، جس کا بنیادی سبب عربی زبان سے عدم واقفیت ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ مکمل سیرت کو اردو زبان میں ڈھالا جائے۔
٢۔ برصغیر پاک وہند کے سینکڑوں بزرگ علماء نے سیرت کے موضوع پر اردو زبان میں قلم اٹھایا ہے، یوں اردو میں بھی ایک گرانقدر ذخیرہ سیرت پر وجود میں آچکا ہے،مگر اس میں بَل یہ ہے کہ ان بزرگوں نے جو زبان استعمال کی ہے ،وہ ان کے اپنے زمانے کے مزاج ورواج کے مطابق تھی۔بہت سے الفاظ ومحاورات کا استعمال یا تو کلیتاً متروک ہو چکا یا نوجوان نسل ان اَدَق تراکیب سے نا آشنا ہے۔ایسے میں ضرورت ہے کہ ہر طبقہ کی ذہنی سطح و فہم کے مطابق سلیس و سہل زبان میں سیرت کی تدوین کی جائے۔
٣۔ تصنیف وتالیف کے وقت ہر سیرت نگارکسی خاص نقطہ ٔ ٔ نظر کے تحت قلمکاری کرتا ہے، کسی نے رسول اکرم ﷺکے اوصافِ حمیدہ پر توجہ مرکوز کی ہے، کسی نے ان کے شمائل کو موضوعِ سخن بنایاہے، کسی کا محورِ تحقیق آپ کی تعلیمات ہیں,تو کسی نے آپ کے سوانح اکٹھے کیے ہیں۔غرض ہر سیرت نگار نے اپنے مزاج کے مطابق سحاب ِرحمت سے اپنی روح کو سیراب کیا ہے۔ بلا شبہہ ان سب علماء ِ حق کا کام لائقِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے۔تاہم راقم کے پیشِ نظر ایسی جامع و مفصل تألیف ہے، جو سیرت کے سبھی پہلوؤں کی خوشبو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو۔
٤۔ عربی و اردوسیرت نگاروں کی اکثریت نے محض روایات جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے،جو بذاتِ خود کوئی معیوب فعل نہیں، بلکہ قابلِ ستائش ہے، تاکہ تمام قسم کی روایات علمائے امت کے سامنے موجود ہوںاور وہ ان کی صحت و قوت کے بارے میں آگاہی رکھ سکیں، مگر اس وجہ سے بیشتر کتبِ سیرت میں صحیح و مقبول روایات کے ساتھ ساتھ موضوع (بناوٹی) و متروک روایات بھی شامل ہوگئی ہیں۔ جن میں اکثر شدید تضاد پا یا جاتا ہے۔جو لوگ علومِ اسلامیہ میں تخصص
نہیں رکھتے، وہ ان متضادو متعارض روایات سے ان گنت مغالطوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، لہٰذاایسی بعض کتابیں عوام کے لئے ہدایت کی بجائے الٹاگمراہی کا سبب بن جاتی ہیں۔راقم الحروف نے نہ صرف مقبول روایات کا اہتما م کیا ہے،بلکہ اسلوب ِبیان ایسا اختیار کیا ہے، کہ جو قابلِ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ مغالطات کو بھی رفع کردے۔نیزبندہ نے صرف راجح قول بیان کیا ہے، متفاوت و متضاد اقوال سے عوام کے ذہنوں کو الجھن میں ڈالنے سے اجتناب کیا ہے۔
٥۔ بیشتر اردو سیرت نگاروں نے صرف روایات بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے، بہت سوں نے تو روایات کا مأخذ فرداً فرداً بیان کرنے سے عمداًگریز کیا ہے،بعض نے صرف چید چیدہ روایات کا مأخذ ذکر کرکے جان چھڑالی ہے اور بعض نے ناقابلِ مراجعت اورنامکمل مأخذ بیان کیے ہیں جو کسی محقق کی شان سے فرو تر ہے۔راقم الحروف نے ایسی کوئی روایت بیان نہیں کی جس کا مکمل و معتمد اور قابلِ مراجعت مأخذ مہیا نہ کیا ہو۔فللّٰہالحمد۔سوائے اس کے کہ کہیں کوئی حوالہ سہواً رہ گیا ہو۔اس اعتبار سے زیرِ نظر کتاب عوام اورنو آموز محققین کے لئے انمول تحفہ ثابت ہوگی۔انشأ اللہ
٦۔تمام اہلِ اسلام کا ایمان ہے کہ امام المرسلین محمدرسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر گوشہ محفوظ ومنور ہے، جس پر کتبِ حدیث شاہد ہیں۔تاہم بعض عربی سیرت نگاروں کے سوا کسی محقق نے زمانی ترتیب پر سوانح نبوی اس طور پر جمع نہیں کیے کہ جس سے اہلِ اسلام کا مذکورہ دعویٰ صحیح ثابت کیا جاسکے۔عربی کتبِ سیرت میں سے عیون الاثر اور السّیرة الشامی کے نام پیش کیے جاسکتے ہیں، جن میں نبی ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے تمام پہلوؤں پر مفصل روشنی ڈالنے کی کامیاب سعی کی گئی ہے،لیکن اردو میں ایسی مثال مفقود ہے۔
٧۔سیرت النبی ﷺکی تشکیل و تعمیر میں مرکزی کردار قرآن ِحکیم کا ہے، لہٰذا حکمتِ رسول کے فہم کے لئے ضروری ہے کہ سیرت پر قرآن حکیم کے اثرات کا مفصل تجزیہ کیا جائے۔ عام طور پر کتبِ سیرت میں فضائلِ رسول ﷺ کی آیات تو بکثرت ملتی ہیں مگر جن حالات میں قرآنی آیات کا تدریجی نزول ہوا ، سیرت نگار عام طور پر ان کے مفصل بیان سے احتراز کرتے ہیں۔غالباً ان کا عذر یہ ہوتا ہے کہ اسبابِ نزولِ قرآن کا تعلق علم التفسیر سے ہے اور کتب ِتفسیر اس موضوع کے لئے کفایت کرتی ہیں، لہٰذا اس کا سیرت کی کتب میں تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ان سیرت نگاروں کا عذر اپنی جگہ، مگر راقم الحروف پوری دیانت داری سے یہ رائے رکھتا ہے کہ حکمتِ رسول ﷺ کی تشکیل میں اسبابِ نزولِ قرآن کے کردار پر مفصل روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ جونسخۂ کیمیا رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھ لائے تھے وہ فی الواقع تھا کیا ؟آپ نے اسے عملی شکل کیسے دی ؟خصوصی تائیدِ الٰہی کے باوجود کن فطری مراحل سے گزر کرآپ اسے دنیا میں نافذ کرنے میں کامیاب ہوئے؟
اس بندۂ اثیم نے ہمت کرکے یہ بارِ عظیم اپنے ناتواں کندھوں پر لیا ہے تاکہ اردو دان طبقہ کے لئے ا یک ایسی مفصل و معتبر کتابِ سیرت منصۂ شہود پر آسکے جو مذکورہ بالا مقاصد پورے کر تی ہو۔ربِّ ذوالجلال سے دعا ہے کہ وہ ہر قدم پر میری مدد اور رہنمائی فرمائے اور کسی بھی لمحے میرے قدم سلف صالحین کے منہج سے ہٹنے نہ دے، آمین۔
راقم الحروف نے اولاً اپنی ذات کی اصلاح اور ثانیاً معاشرے کی صلاح و فلاح کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت منورہ کے انوار چار سو پھیلانے کا یہ بار ِعظیم اپنے کندھوں پر لینے کی جسارت کی ہے۔اس تمام تر کاوش و کوشش میں ہر لحظہ یہ خیال دامن گیر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ممدوح و محبوب کی سیرت بیان کرتے وقت ان کا وہ ادب و احترام ہمہ وقت ملحوظ رہے، جو ہر مومن و مسلم پر واجب ہے۔
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے
یہ کوچہ ٔ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ
سوز و تپش سخن میں اگر چاہتا ہے تو
عشقِ نبی کی آگ سے تائب پگھل کے آ
پیشتر اس سے کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت مفصل بیان کی جائے ، چند ضروری باتیں عرض کرنا چاہتاہوں، جو سیرت النبی ﷺ کو سمجھنے کے لئے لازم ہیں۔
سیرت کا لُغوی مطلب
سیرت کا لغوی مطلب سنت ،طریقہ اور ہیئت ہے۔جیسا کہ ابو لفضل جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی المصری نے لسان العرب میں بیان کیا ہے۔ ( لسان العرب، ج ٤، ص ٣٨٩۔٣٩٠، دارِ صادر، بیروت، لبنان
قرآن حکیم میں صرف ایک مقام پرسورة طہٰ میں لفظ سیرت وارد ہوا ہے اور یہاں بھی یہ اپنے لغوی معنیٰ ہیٔت و حلیہ میں استعمال ہوا ہے۔جب موسیٰ علیہ السلام وادیٔ مقدس طویٰ میں تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے براہِ راست کلام فرمایا اور آپ کو اپنا عصا زمین پر ڈالنے کا حکم فرمایا تو زمین پرڈالتے ہی عصا اژدھابن گیا، تب موسیٰ علیہ السلام کو قدرے خائف پا کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَخُذْھَاوَلَا تَخَفْسَنُعِیْدُھَاسِیْرَتَھَاالْاُوْلٰی(طہٰ:٢٠
”فرمایا اسے پکڑ لیجئے اور ہرگزمت گھبرائیے ہم اسے ابھی پہلی ہیئت میں لوٹا دیتے ہیں”
سیرت کا اصطلاحی مفہوم
سیرت کا اصطلا حی مفہوم قرآن حکیم کی درج ذیل آیت سے ماخوذ ہے
لَقَدْکَانَلَکُمْفِیْرَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةحَسَنَةً (الاحزاب: ٢١
”یقینا رسول اللہ کی زندگی میں تمہارے لیئے بہتر ین نمونہ ہے ۔”
رسول اکرم ﷺکی ساری زندگی ْ، ولادت تا وفات، ہمارے لیے بہترین کامل نمونہ ہے۔ چنانچہ آپ ﷺکی ساری زندگی کے احوال
بیا ن کر نے کا نا م سیر ت الر سو ل ہے۔آپکی سا ری زندگی کو اس لئے نمو نہ قرا ر دیا گیا ہے کہ آپ ﷺ ظہو ر نبو ت کے قبل ہر عمر میں اللہ کی معصیت سے محفو ظ رہے اور ظہو ر نبو ت کے بعد ہر قسم کی معصیت سے بچے رہے بلکہ ایک ایک لمحہ اطا عت الہٰی میں صر ف کیا (سبحا ن اللہ)
نبی اکر م ﷺ کی حیا ت طیبہ ،اطا عت الٰہی کی ایسی مثا ل ہے کہاللہ تعا لیٰ نے اطا عت رسو ل کو اطا عت الٰہی کا مظہر قرار داد دیا:
مَنْیُّطِعِالرَّسُولَفَقَدْاَطَاعَاللہُ(النساء: ٨٠
جس نے رسو ل کی اطا عت کی در حقیقت اس نے اللہ کی اطا عت کی
پس جو شخص بھی اطا عت الٰہی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے لا زم ہے کہ وہ رسو ل اکرم ﷺ کی سیر ت منورہ کا علم حا صل کر ے ۔
اے سرور دیں نو ر ہے یکسرتر ی سیرت
اقدار کو کر تی ہے منو ر تری سیر ت
زیبا ئی افکا ر کا مصدر ترے انوار
رعنا ئی کر دار کا جو ہر تر ی سیر ت
ہر راہ پہ مرا ہا تھ لیے ہا تھ میں اپنے
چلتی ہے مرے سا تھ برا بر تر ی سیر ت
علما ء فر ما تے ہیں کہ ایک مو من کا اپنے با رے جا ننا اتنا ضرو ری نہیں جتنا محمد ﷺ کی حیات طیبہ کاجا ننا ضرو ری ہے۔
یہ تو ان خو ش نصیبو ں کے لیے ہے جو محمد عر بی ﷺکی نبو وت پر ایما ن رکھتے ہیں،رہے وہ لو گ جو ابھی ایما ن سے محرو م ہیں ، وہ جب رحمتہ للعا لمین کی سیر ت منو رہ کا مطا لعہ کر یں گے تو نا صر ف یہ جا ن پا ئیں گے کہ اسلا م کی ابتدا کیسے ہو ئی او ر کن ار تقا ئی مرا حل سے گز ر کر اسے عرو ج حا صل ہوا بلکہ ان پر وا ضح ہو جا ئے گا کہ محمد عر بی علیہ الصلوة وا لسلا م فی الوا قع تما م انسا نو ں کے محسن اعظم اور مصلح اعظم ہیں ۔ آپﷺکا پیغام تما م انسا نو ں کی بقا کا پیغا م ہے،جس میں انسا نیت کے ہر سلگتے مسئلے کا قا بل عمل حل مو جو د ہے۔ تب انہیں اس معجزے کی حقیقت سے بھی آگا ہی ہو گی کہ ایک فرد بشر کی زندگی کے حا لا ت اس قدر تفصیل اور جا میت کے ساتھ تا ریخ کے اوراق میں کیو نکر محفو ظ ہیں ،جبکہ دو سر ے کسی انسان کےسوانح اس معیا ر و تفصیل کے سا تھ میسر نہیں ۔عا م انسا ن تو در کنا ر کسی دو سر ے نبی یا صا حب سلطنت با دشا ہ تک کے مفصل حا لا ت بھی تلا ش کے با وجو د دستیا ب نہیں ہو تے۔یقینا یہ نبو ت محمدی ﷺکا ایسا نا قا بل انکا ر معجزہ ہے جو قیامت تک آپکی نبو ت کی شہا دت دیتا رہے گا ۔
معا ملہ محض سوانح کی تفصیلا ت کا نہیں،بلکہ اس سے بھی بڑ ھ کے ان کے درجہ صحت کا ہے ۔جس صحت کے سا تھ محمد عر بی ﷺ کی حیا ت طیبہ کے مفصل حا لا ت آج محفو ظ ہیں ، کسی نبی مر سل یا با دشا ہ یا کسی ذی وجا ہت ہستی کی زندگی کا ایک بھی مفصل وا قعہ اس صحت کے سا تھ ان کے پیرو کا رو ں کے پا س محفو ظ نہیں ۔یہ محض دعو ٰی نہیں بلکہ اس کتا ب کا ہر با ب اس دعو ٰی کی صدا قت کی گوا ہی دے گا ۔
سیرت کے مآخذ
سیرت کے اصل مأخذ تین ہیں:
قرآن حکیم
حدیث رسول
تاریخ اسلام
قرآنِ حکیم
قرآن حکیم متواتر اللفظ ہونے کی وجہ سے قطعی الثبوت ہے۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ آج ہمارے درمیان جو قرآن
ؓ پر وحی کیا گیا۔ آپ ﷺ نے خود اپنی نگرانی میں قرآن حکیم لکھوایا، کئی صحابہ کرام موجود ہے، یہ بعینہ وہی ہے جو سیّدنا محمد عربی کے پاس قرآن مکمل صورت میں لکھا ہوا موجود تھا۔ جب نبی ﷺدنیا سے رخصت ہوئے تو قرآن کے متعدد نسخے صحابہ کرامؓ
کے پاس محفوظ تھے۔ عرب میں کاغذ کمیاب تھا، لہٰذا قرآن کے اجزا چمڑے کے پارچوں، اونٹ کے شانے کی ہڈیوں، پتھر کی تختیوں وغیرہ پر لکھا گیا تھا، نبی ﷺکے خلیفہ اوّل سیّدنا ابوبکر صدیق ؓنے پہلے سے موجود نسخوں سے دیکھ کر ایک معیاری نسخہ تیار کروایا جو سارے کا سارا کاغذ پر لکھا گیا تھا، اس کے بعد خلیفہ ثالث سیّدنا عثمان غنی کے دورِ خلافت میں
اس نسخے کی مزید نقول تیار کرکے تمام عالم اسلام میں بھیج دی گئیں۔ کتابت کے ساتھ ساتھ، قرآن کی حفاظت کا ایک دوسرا ذریعہ بھی استعمال کیا گیا جو کہ حفظ قرآن کی شکل میں تھا، سینکڑوں صحابہ کرام نے قرآن حکیم اپنے حافظے میں محفوظ کرلیا تھا،
کتابت قرآن اور حفظ قرآن کا یہ سلسلہ پشت درپشت چلتا رہا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حفاظِ قرآن کی تعداد بڑھتی چلی گئی، تاآنکہ قرآن ہم تک پہنچ گیا، حفاظت قرآن کا یہ سلسلہ آج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے جیسے پچھلے ادوار میں جاری رہا۔ قرآن کا قطعی الثبوت ہونا ایسی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بہت سے انصاف پسند غیرمسلم محققین بھی اس کی قطعیت و استنادکے معترف ہیں ۔
یہ متواتر اللفظ اور قطعی الثبوت قرآن نبی اکرم ﷺکی سیرت منورہ کا اوّلین مأخذ ہے۔ نبی اکرم ﷺپر قرآن یک بارگی نازل نہیں ہوا بلکہ آپ کو جیسے حالات پیش آتے ان کی مناسبت سے قرآن کی آیات نازل ہوتیں، چنانچہ تقریباً تیئس سال کے عرصہ میں قرآن کا نزول مکمل ہوا۔ یہی سبب ہے کہ قرآن میں جابجا نبی ﷺاور آپ کے ساتھیوں کو ہدایات دی گئی ہیں، آپ کی دعوت بیان کی گئی ہے اور اس دعوت کے ردّعمل میں کفار کا طرزِ عمل مفصل بیان ہوا ہے۔ آپ ﷺکی دعوت جن ارتقائی مراحل سے گزری، ان سب کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔ کفار کے ساتھ آپ کے مجادلوں، مباہلوں، مجاہدوں اور معاہدوں کا ذکر قرآن میں محفوظ ہے۔ لہٰذا قرآن، نبی کریم ﷺکی سیرت کا سب سے زیادہ مستند مأخذ ہے۔ قرآن کے مأخذِ سیرت ہونے کی حقیقت مولانا ابوالکلام آزاد ؒنے بہت خوبصورت پیرایہ میں بیان کی ہے، انہی کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:
’’لوگوں نے حیات و سیرتِ طیبہ ختم المرسلین (ﷺ) پر اس حیثیت سے بہت کم نظر ڈالی ہے کہ اگر روایات و دفاتر ِتاریخی سے قطع نظر کرلیا جائے اور صرف قرآن حکیم ہی کو سامنے رکھا جائے، توآپ کی سیرت و حیات پر کیسی روشنی پڑتی ہے؟ اور جس طرح قرآن اپنی کسی بات میں اپنے غیر کا محتاج نہیں، اسی طرح اپنے حامل و مبلغ کے وجود و حیات کے بیان میں بھی خارج کا محتاج ہے یا نہیں! اصحابِ سیر و محدثین کرام نے فضائل و مدائح منصوصہ قرآنیہ کے تو باب باندھے ہیں، مثلاً قاضی عیاض نے ”شفا” کے متعدد ابواب میں قرآن حکیم کی آیات متعلق فضائل و مدائح جمع کی ہیں، لیکن جہاں تک مجھے معلوم ہے، آج تک کبھی اس کی کوشش نہیں کی گئی کہ صرف قرآن حکیم میں دائرئہ استناد و اخذ محدود رکھ کر ایک کتاب سیرت میں مرتب کی جائے۔‘‘
(ابواکلام آزاد، تذکرہ،ص ٢٠٥)
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’چنانچہ دہلی سے آکر میں نے کچھ وقت اس میں صرف کیا اور ایک مستقل سیرتِ نبویہ مجرد قرآن حکیم سے ماخوذ و مستنبط شروع کردی، جوں جوں قدم آگے بڑھتا گیا، نئے نئے دروازے کھلتے گئے، اور امید و توقع سے کہیں زیادہ کامیابی ہوئی، گو یہ حقیقت پہلے سے پیش نظر تھی، حتی کہ اس بارے میں بڑا ذخیرہ آیات کا ذہن میں مستحضر تھا، لیکن یہ بات تو کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں گزری تھی کہ جس کتاب کو بظاہر جابجا ذکر ِاحکام و مسائل و قصصِ گزشتگان سے مملو پاتے ہیں، اس میں اس قدر وافر ذخیرہ خاص شخصِ رسالت کے حالات و وقائع کا بھی موجود ہوگا۔ کتاب کے مرتب ہوجانے کے بعد جو دیکھا تو ایک عجیب عالم نظر آیا۔ حیات و سیرت کا کوئی ضروری ٹکڑا ایسا نہیں ہے جس کے لیے قرآن میں ایک سے زیادہ آیات نہ ہوں۔ اور پھر نہ صرف آنحضرت ﷺ ہی کی سیرت بلکہ صحابہ کرام کے حالات و خصائص کا بھی کافی ذخیرہ موجود ملا۔ صحابہ کی جماعت درسگاہِ تزکیہ و تعلیم نبوت سے نکلی ہوئی مؤمنون الاوّلون کی اوّلین کی جماعت تھی۔ وَیُزَکِّیْہِمْوَیُعَلِّمُہُمُالْکِتٰبَوَالْحِکْمَة۔ اس لیے ان کے سوانح و ایام بھی سیرت نبویہ ہی کے مختلف اجزا ہیں، بلکہ ہدایاتِ قرآنی و حکمت نبوی کے عملی و مجسم ثمرات ہونے کے لحاظ سے دلائل و آیاتِ نبوت کے حکم میں داخل۔ پس یقینا آپ کی سیرت مکمل نہ ہوتی اگر ان کے حالات بھی قرآن میں پوری شرح و تفصیل سے نہ ملتے۔ اس ٹکڑے کو دیکھ کر مجھ کو آخری مرتبہ یقین اس بارے میں حاصل ہوگیا کہ اگر دنیا سے تاریخ اسلام کی ساری کتابیں معدوم ہوجائیں اور دنیا نے جو کچھ چھٹی صدی عیسوی کے ایک ظہورِ دعوت کی نسبت سنا ہے، وہ سب کچھ بھلا دے اور صرف قرآن ہی دنیا میں باقی رہے، جب بھی آنحضرت ﷺ کی شخصیت مقدسہ اور آپ کی سیرت و حیات کے براہین و شواہد مٹ نہیں سکتے۔ صرف ایک قرآن ہی اس کے لیے بس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دنیا کو بتلادے کہ اس کا لانے والا کون تھا؟ کیسے زمانے میں آیا؟ کس ملک میں پیدا ہوا؟ اس کے خویش و یگانہ کیسے تھے؟ قوم و مرزبوم کا کیا حال تھا؟ اس نے کیسی زندگی بسر کی؟ اس نے دنیا کے ساتھ کیا کیا اور دنیا نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ اس کی باہر کی زندگی کیسی تھی اور گھر کی معاشرت کا کیا حال تھا؟ اس کے دن کیسے بسر ہوتے تھے اور راتیں کن کاموں میں کٹتی تھیں؟ اس نے کتنی عمر پائی؟ کون کون سے اہم واقعات و حوادث پیش آئے؟ پھر جب دنیا سے جانے کا وقت آیا تو دنیا اور دنیا والوں کو کس حال میں چھوڑ گیا؟ اس نے جب دنیا پر پہلی نظر ڈالی تو دنیا کا کیا حال تھا؟ اور جب واپسیں نظرِ وداع ڈالی تو وہ کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی تھی؟ غرض کہ ایک وجود و مقاصد ِوجود اور اعلامِ صداقت و عظمت کے لیے اس کے وقائع و مایتعلّق بہا و مایناسب ذالک میں سے جن جن باتوں کی ضرورت ہوسکتی ہے، وہ سب کچھ صرف قرآن ہی کی زبانی دنیا معلوم کرسکتی ہے اور اس بارے میں قرآن اپنے سے باہر کا ابتداً محتاج نہیں۔ اور پھر یہ سب کچھ از قبیل اشارات و مرموزات نہیں ہے جیساکہ اربابِ نکات و دقائق کا طریق استنباط ہے، بلکہ صاف صاف اور کھلا کھلا بیان جو فقہا کے طریق استنباطِ اشارة النص سے کہیں زیادہ واضح و ظاہر ہے۔ اور اگر رموز و اشارات و تلمیحات کا طریق اختیار کیا جائے تو پھر خاص خاص آیتوں کو چھانٹے کی کیا ضرورت؟ پورے قرآن میں بجز اس ایک ذکر کے اور کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔
(ایضاً، ص ٢٠٥۔٢٠٦
مولانا ابوالکلام کے زمانہ میں ہی دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمدقاسم نانوتوی کے پوتے اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمدطیب(1987-1897)نے مذکورہ طرز پر کتابِ سیرت تحریر فرمائی، وہ اپنی اس کتاب ”آفتابِ نبوت” کے مقدمہ میں فرماتے ہیں :
’’اس لیے اس یادداشت میں محض سیرت کے پہلوئوں کا پیش کردینا یا ان کی تفصیلات کھول دینا موضوع تحریر نہیں کہ یہ پیش کش سیرت کی ہر کتاب میں بالتفصیل موجود ہے، بلکہ ان پہلوئوں کو قرآن حکیم میں سے نکلتا ہوا دکھلانا اور ایک ہی مختصر آیت کو ساری سیرت کا ماخذ نمایاں کرنا اس یادداشت کا موضوع ہے۔‘‘(مقدمہ آفتابِ نبوت
یہ بعینہ وہی بات ہے جو اُم المومنین، زوجۂ رسول، سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمائی تھی، جب آپ سے نبی ﷺکے خُلق (سیرت و کردار) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
کَانَخُلُقُہُالْقُرْآن
(مسند اما م احمد:حدیث ٢٥١٠٨، ٢٥٨١٦، ٢٦٣٢٣
”آپ ﷺکی سیرت تو قرآن ہے”
سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان کے بعد اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ نبی اکرم ﷺکی سیرت کا بنیادی و اوّلین مأخذ قرآن حکیم ہے۔ یقینا آپ ﷺایک متحرک قرآن تھے، لہٰذا جس نے آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن حکیم کا مطالعہ کرے۔ سیرت کی ہر وہ کتاب نامکمل اور ادھوری ہے جس کے ہر باب میں قرآنی آیات لازمی جزو کے طور پر شامل نہ ہو۔
حدیث رسول ﷺ
سیرت کا دوسرا مصدرو مأ خذ حدیث رسول ﷺ ہے۔
حدیث کالغوی مطلب
حدیث کا مادہ ح د ث ہے، اس میں نوپید ہونے، خبردینے، واقع ہونے اور گفتگو کرنے کا معنی پایا جاتا ہے۔ اسی لیے کسی نئی بات نئی چیز کو حدیث کہتے ہیں (ابوالفضل عبدالحفیظ بلیاوی، مصباح اللغات، ص ١٤٠
: امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں
وکلکلامیبلغالانسانمنجھةالسمعاوالوحیفییقظہاومنامہیقاللہحدیث۔
مفردات القرآن:ص ١٢٤)
ہروہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعے پہنچے، خواہ یہ وحی حالتِ بیداری میں ہو یا نیند کی حالت میں، اسے حدیث کہا جاتا ہے۔
حدیث کا اصطلاحی مطلب
ظہورِ نبوت کے بعد نبی ﷺکے قول، فعل اور اقرار علی الفعل کو حدیث رسول کہا جاتا ہے اگرچہ تبعاً اس میں قبل نبوت کے احوال و محاسن بھی شامل ہیں تاہم اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے کہ نبی ﷺنے جو کچھ ظہورِ نبوت کے بعد پیش کیا اس پر ہی ایمان لانا اور عمل کرنا فرض ہے ۔
حفاظت حدیث
نبی اکرم ﷺکے اقوال و افعال کے شاہدین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، انہوں نے اپنے مشاہدات کا مل صداقت و حفاظت کے ساتھ اپنے تلامذہ یعنی تابعینرحمة اللہ علیہم کے سامنے بیان کیے، عربوں کا حافظہ ضرب المثل ہے، چنانچہ صحابہ کرام نے اپنے محبوب نبی ﷺکے اقوال و افعال کو اپنے حافظے میں خوب اچھی طرح محفوظ کیا اور کمال احتیاط کے ساتھ تابعین کو یہ علومِ نبویہ منتقل کردیے۔ تابعین نے ان علومِ نبویہ کو حفظ کیا اور اپنی اگلی نسل کو منتقل کردیا، یہی عمل سینہ بہ سینہ دہرایا گیا اور علومِ نبویہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے رہے۔ اس سارے عمل ابلاغ و انتقال کے دوران سب سے زیادہ زور اس پہ صرف کیا گیا کہ نبی ﷺ کے اقوال و افعال کو بلا کسی کمی بیشی کے پوری دیانتداری کے ساتھ محفوظ کیا جائے۔ صحابہ کرام، تابعین اور اتباعِ تابعین نے اس میں اس قدر احتیاط سے کام لیا کہ اپنی ذاتی رائے کو انھوں نے کبھی بھی حدیث رسول کے ساتھ خلط ملط نہیں ہونے دیا۔ ان کی اس حددرجہ احتیاط کا سبب نبی ﷺ کا یہ فرمانِ عالیشان ہے:
نَضَّرَاللّٰہُامْرَأًسَمِعَمِنَّاحَدِیثًافَحَفِظَہُحَتَّییُبَلِّغَہُ،فَرُبَّمُبَلَّغٍأَحْفَظُلَہمِنْسَامِعٍ
(مسند امام احمد:ح ٤١٥٧، جامع الترمذی: ح ٢٦٥٧، ٢٦٥٨)
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو ہماری حدیث سنے پھر اسے یاد رکھے، یہاں تک کہ اسے آگے پہنچادے، بعض اوقات وہ شخص جس تک حدیث پہنچائی جائے، حدیث سننے والے سے زیادہ قوی حافظے کا مالک ہوتا ہے۔‘‘
نبی ﷺنے اپنی حدیث سننے، اس کی حفاظت کرنے اور اسے آگے پہنچانے کا یہ حکم علومِ نبویہ کی مستقل حفاظت کے لیے دیا تھا۔ جس پر اُمت کے علماء نے بخوبی عمل کیا۔ نبی ﷺ کو بذریعہ وحی مطلع کردیا گیا تھا کہ ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اپنی جانب سے حدیثیں گھڑکے ان کی طرف منسوب کریں گے۔ چنانچہ آپ نے اُمت کو اس بارے میں سخت تنبیہ فرمائی، ارشاد ہے:
مَنْکَذَبَعَلَیَّمُتَعَمِّدًا،فَلْیَتَبَوَّأْمَقْعَدَہُمِنَالنَّارِ
(مسند امام احمد:ح ٦٤٨٦، صحیح البخاری: ح ٣٤٦١
”جس نے جان بوجھ کر میری جانب کوئی جھوٹی بات منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے”
اس ہولناک وعید کے سبب صحابہ کرامؓ کی یہ کیفیت ہوگئی تھی کہ وہ جب حدیث رسول ﷺ بیان کرتے تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے، چہرہ فق ہوجاتا اور کبھی زبان کانپنے لگتی کہ کہیں غلطی سے بھی کوئی ایسی بات نبی ﷺ کی طرف منسوب نہ کربیٹھیں، جو حقیقتاً آپ نے ارشاد نہ فرمائی ہو۔ حتی کہ بعض صحابہ کرام تو حدیث بیان کرنے سے کتراتے تھے مبادہ کوئی معمولی غلطی انہیں جہنم کا ایندھن نہ بنادے۔صحابہ کرام ؓکے تربیت یافتہ تابعین کی کیفیت بھی اس سے مختلف نہ تھی، تقریباً یہی حال اتباعِ تابعین کا رہا۔
کتابت حدیث
اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں بعض صحابہ نے قرآن کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ کے فرامین بھی علیحدہ طور پر لکھنا شروع کردیے تھے، اس وقت احتمال تھا کہ کہیں ارشاداتِ نبوی کو بھی غلطی سے قرآن نہ سمجھ لیا جائے، اس لیے نبی ﷺنے قرآن کے سوا کوئی اور شے لکھنے سے منع فرمادیا، ارشاد ہے
لَاتَکْتُبُواعَنِّیشَیْئًاغَیْرَالْقُرْآنِ،فَمَنْکَتَبَعَنِّیشَیْئًاغَیْرَالْقُرْآنِ،فَلْیَمْحُہُ
(مسند امام احمد:ح ١١٥٥٧، صحیح المسلم:ح ٣٠٠٤)
”قرآن کے سوا مجھ سے کوئی شے مت لکھو، جس نے مجھ سے قرآن کے سوا کچھ اور لکھا ہے وہ اسے مٹادے”
جب قرآن کا معتدبہ حصہ نازل ہوگیا اور بہت سے صحابہ کرام
نے قرآن حفظ کرلیا، نیز ان کی ضروری تربیت ہوگئی تو مذکورہ بالاحکم منسوخ ہوگیا۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: ج ٢٠، ص ٣٢٢)۔
خود نبی ﷺ نے اپنی احادیث لکھنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اسی اجازت کے سبب سیّدناعبداللہ بن عمرو بن العاص
نبی ﷺ سے سنی ہوئی ہر بات لکھ لیتے تھے تاکہ اسے سہولت کے ساتھ یاد کرسکیں، بعض قریشی صحابہ نے یہ خیال ظاہر کیا کہ نبی ﷺ بشر ہیں، کبھی خوش ہوتے ہیں، کبھی غصے میں ہوتے ہیں، لہٰذا انھیں حدیث رسول لکھتے وقت اس کا لحاظ رکھنا چاہیے، سیّدنا عبداللہ
نے یہ بات نبی ﷺکے روبرو پیش کی تو آپ ﷺنے فرمایا
اُکْتُبْفَوَالَّذِینَفْسِیبِیَدِہِمَاخَرَجَمِنِّیاِلَّاحَقّ
(مسند امام احمد:ح ٦٥١٠، سنن ابو داؤد:ح ٣٦٤٦
”ارے لکھ لیا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا”
اس طرح متعدد صحابہ کرام نبی ﷺکی احادیث مبارکہ لکھنے لگے تاکہ انھیں سہولت کے ساتھ یاد رکھ سکیں۔ سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے جمع کیے ہوئے مجموعۂ حدیث کو الصحیفةالصادقةکے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ صحیفہ آپ کے بعد آپ کی اولاد میں ورثے کے طور پر منتقل ہوتا رہا ہے، آپ کے پوتے جناب عمروبن شعیب اسی صحیفہ سے احادیث بیان کیا کرتے تھے۔ اس مسودے میں ایک ہزار کے لگ بھگ احادیث تحریر تھیں ۔(محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج ٢، ص ٢٨٥
دوسرے صحابہ کرام جنھوں نے نبی کی زندگی میں احادیث رسول تحریر کیں ان میں سیّدنا ابوہریرہ، سیّدنا انس بن مالک، سیّدنا علی بن ابی طالب، سیّدنا جابر بن عبداللہ اور سیّدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سرفہرست ہیں ان صحابہ کرام کے مسودات کا تذکرہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے، طوالت کے خوف سے یہاں تفصیل سے اعراض کیا جارہا ہے، اس کے لیے سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص کے صحیفہ صادقہ کی مثال کفایت کرتی ہے۔
تابعین نے بھی احادیث زبانی یاد کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں ضبط تحریر میں لانے کا اہتمام کیا، یہ کام اس وقت مزید اہمیت اختیار کرگیا جب امیرالمومنین امام عمربن عبدالعزیزنے سرکاری اہتمام کے ساتھ تدوین حدیث کی ذمہ داری اس وقت کے عظیم محدثین کے سپرد کی، جن میں محمد بن مسلم ابن شہاب الزہری کا نام سر فہرست ہے۔ دورِ تابعین میں جن محدثین کا کام نمایاں رہا ان میں امام ہمام بن منبہ، امام شعبی، امام محمد الباقر، امام مکحول الشامی، امام سعید بن جبیر، امام مجاہد بن جبر، امام ابوبکر محمد بن حزم رحمة اللہ علیہم شامل تھے ۔
تابعین کے کام کا تعلق پہلی صدی ہجری سے ہے، جبکہ دوسری صدی ہجری میں تو گویا تدوین حدیث کا کام عروج پر پہنچ گیا، اس صدی میں علماء حدیث نے بلامبالغہ بیسیوں کتب خاص حدیث کے موضوع پر تالیف کیں، ان کتب کی فہرست یہاں ذکر کرنا طوالت کا باعث ہوگا، تفصیل کے شائقین علومِ حدیث پر لکھی گئی کتب کی طرف مراجعت فرمائیں۔ مثلاً تاریخ الحدیث و المحدثین (ابوزہرہ مصری)، حجیت حدیث (محمدادریس کاندھلوی)، حجیت حدیث (محمد تقی عثمانی) وغیرہ۔ دوسری صدی ہجری کی بعض مشہور کتب جو آج بھی دستیاب ہیں، ان میں امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کی کتاب الآثار، مصنف عبدالرزاق بن ہمام، مسند امام شافعی، موطاامام مالک، مسند ابودائود الطیالسی، موطا امام محمد بن حسن وغیرہ شامل ہیں۔
غرض صحابہ ، تابعین اور اتباعِ تابعین نے احادیث رسول ۖکی حفاظت و ابلاغ کا ہر وہ ذریعہ اختیار کیا جو ان کے دور میں ممکن تھا۔
تحقیق حدیث
صحابہ کرام نےنبی اکر م ﷺکے اقوال و افعال کا سر کی آنکھوں اور کانوں سے براہِ راست مشاہدہ کیا، لہٰذا احادیث رسول ان کے لیے ایسے ہی قطعی الثبوت تھیں، جیسے کہ قرآن حکیم۔ انہیں احادیث کی صداقت و قطعیت جانچنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہ تھی، صحابہ سے ذخیرۂ حدیث تابعین کی طرف منتقل ہوا۔ صحابہ کرام ؓ الصادق و الامین نبی ﷺ کی تربیت یافتہ جماعت تھی، ہر صحابی اپنے استاذ کی طرح صادق و امین تھا، اسی لیے اُمت کا اس پر اجماع ہوگیا کہ اَلصَّحَابَةُکُلُّہُمْعُدُوْل(مقدمہ الاصابة فی تمیز الصحابہ) یعنی تمام صحابہ اخلاق کردار اور حق گوئی کے سبب قابل اعتماد ہیں، ان میں سے کسی سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کوئی جھوٹی بات نبی ﷺکی طرف عمداً منسوب کرے۔ لہٰذا تابعین بھی احادیث کی تحقیق و چھان بین کرنے کے محتاج و مکلف نہ تھے۔ نبی اکرم ﷺکے مبارک دور سے بُعد کے سبب تابعین کے دور میں اخلاق و کردار میں کچھ ضعف پیدا ہوگیا تھا، صحابہ کرامؓ
کی سی عزیمت کا معیار بھی قائم نہ رہا تھا، اس لیے خود تابعین نے اپنے تلامذہ کو ہدایت کی کہ وہ احادیث لیتے وقت خوب چھان پھٹک کرلیں کہ وہ کس سے حدیث لے رہے ہیں، آیا حدیث بیان کرنے والے کی صداقت و حافظہ اس لائق ہے، کہ اس پر اعتماد کیا جاسکے۔تابعین تو پھر بھی قابل اعتماد تھے، اصل مسئلہ ان لوگوں کا تھا، جو صحابہ کرام سے فیض یاب نہ ہوسکے تھے مگر تابعین کے معاصر تھے، لہٰذا اس دور میں حدیث کی تحقیق کی ضرورت پیش آئی، اس تحقیق کے نتیجہ میں حدیث کی دو قسمیں ہوگئیں، یعنی صحیح اور ضعیف ۔
حدیث صحیح
حدیث صحیح اس حدیث کو کہاگیا جس میں ہرطبقہ میں عادل و ضابط راوی، دوسرے عادل و ضابط راوی سے اس طرح حدیث بیان کرے کہ یہی سلسلہ سند نبی اکرم ﷺتک پہنچ جائے۔
(مقدمہ ابن الصلاح :ص ٧۔٨
اتباع تابعین نے جو احادیث براہِ راست تابعین سے حاصل کیں وہ بالعموم احادیث صحیحہ تھیں، ان میں کِذب کا احتمال نہ ہونے کے برابر تھا، تاہم بعض تابعین کا حافظہ کمزور تھا، اس لیے ان کی احادیث معیارِ صحت پر پوری نہ اترتی تھیں۔
حدیث ضعیف
متقدمین کی اصطلاح میں ایسی حدیث ضعیف قرار پاتی تھی جس کے راوی کاحافظہ کمزور ہوتا بشرطیکہ وہ متہم بالکذب نہ ہوتا۔ اس اعتبار سے حدیث ضعیف کی دوقسمیں تھیں:
(۱) ضعیف حسن
ضعیف متروک (۲)
ضعیف حسن :
اگر صادق اللہجہ راوی کے حافظے میں ضعف ہوتا تو اس کی حدیث ضعیف حسن کہلاتی تھی۔
ضعیف متروک:
اگر راوی متہم بالکذب ہوتا تو اس کی روایت ضعیف متروک قرار پاتی، خواہ اس کا حافظہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہوتا۔
غرض احادیث کی تحقیق ایک عمل واجب قرار پایا، جس کے نتیجہ میں حدیث، مقبول اور مردود دوقسموں میں بٹ گئی ۔ مقبول احادیث شریعت کا ماخذ ہوتیں، جبکہ مردود احادیث کو قابل اعتنا نہ سمجھا گیا۔ان دنوں محدثین اپنی کتابوں میں بالعموم مقبول و مردود دونوں قسم کی روایات جمع کردیتے تھے، تاکہ اہل فن دونوں قسم کی روایات کو پہچان لیں۔ دوسری صدی ہجری کی زیادہ تر کتب حدیث مقبول و مردود احادیث کا مجموعہ ہیں۔ تاہم اُس وقت تک احادیث کی مقبول ترین کتاب امام مالک بن انس کی المؤطا تھی، جس میں صرف مقبول احادیث جمع کی گئی تھیں، اس کے بارے میں امام محمد بن ادریس الشافعی نے فرمایا تھا کہ یہ قرآن کے بعد دنیا کی صحیح ترین کتاب ہے۔
المؤطا مقبول احادیث کا ایک مختصر مجموعہ ہے، جس میں بالعموم حجازی صحابہ کرام ؓ کی مرویات شامل ہیں۔ اب تک کوئی ایسا مجموعہ حدیث سامنے نہ آیا تھا جس میں تقریباً سبھی مقبول احادیث جمع کی گئی ہوں۔ یہ سعادت دوسری صدی ہجری کے آخر اور تیسری صدی ہجری کے اوائل میں امام الحدیث و الفقہ ابوعبداللہ احمد بن حنبل الشیبانی رحمہ اللہ کے حصہ میں آئی۔
مسند امام احمد
امام اہل سنت علی الاطلاق احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی البغدادی رحمہ اللہ کا نامِ نامی کسی تعارف کا محتاج نہیں،تاہم اَلْمُسْنَدکی صحیح قدرو منزلت پہچاننے کیلئے ان کے مناقب سے واقفیت ضروری ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ خلافتِ عباسیہ کے دارالحکومت دارالسلام بغداد میں ربیع الاول ١٦٤ھ (نومبر ٧٨٠ء )میں ایک مجاہد سپاہی محمد بن حنبل کے گھر پیدا ہوئے ، جو کہ مسلم فوج کے اہم کماندار
تھے۔اس وقت عالمِ اسلام پر عادل خلیفہ المہدی ابو عبداللہ محمد بن منصو ر کی حکومت تھی۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے والدِ محترم آ پ کی پیدائش سے صرف تین سال بعد داغِ مفارقت دے گئے تھے۔یوں آپ نے حالتِ یتیمی میں پرورش پائی، مگر آپ کی غیور والدہ ماجدہ نے کسمپرسی کے باوجود آپ کی بہترین تربیت فرمائی۔اس وقت دارالسلام بغداد جملہ معارف و فنون کا مرکز بن چکا تھا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی میں حفظِ قرآن ،علمِ لغت اور فنِ کتابت سیکھ لئے تھے۔اس کے بعد دیگر علومِ اسلامیہ کی طرف متوجہ ہوئے، جن میں سے ابتداًعلمِ فقہ کی طرف مائل ہوئے،چناچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے تلمیذ ِرشید امام قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ بغداد میں رائج فقہ حنفی کے عمیق مطالعہ کے بعد آپ کا رجحان علمِ حدیث کی جانب ہوگیا،چنانچہ آپ علمِ حدیث کےحلقوں میں شریک ہونے لگے۔انہوں نے علمِ حدیث کی باقاعدہ تحصیل کا آغاز ١٧٩ھ میں پندرہ سال کی عمر میں کیا اور پھر تادمِ واپسیں وہ اسی علم کی تحصیل و تکمیل اور نشرو اشاعت میں لگے رہے۔ بغداد کے تمام اہم شیوخ سے علم ِ حدیث حاصل کرنے کے بعد آپ دیگر بلادِ اسلامیہ میں رہنے والے شیوخ سے حدیث سننے کے لئے علمِ حدیث کے تمام مراکز میں تشریف لے جاتے رہے، حجازِ مقدس علمِ حدیث کا اہم ترین مرکز تھا، چنانچہ آپ نے تحصیلِ حدیث کے لئے پانچ بار حجازِ مقدس کا سفر کیا، جب آپ حجازِ مقدس تشریف لے جاتے تو کئی کئی ماہ وہاں قیام فرماتے اور حجِ بیت اللہ کے ساتھ ساتھ کبار شیوخ سے سماعتِ حدیث کا شرف حاصل کرتے۔ آپ نے حجازِ مقدس کاسفر تین بار پا پیادہ کیا،یوں راستہ میں آنے والے شہروں میں مقیم شیوخ سے استفادہ کرتے جاتے تھے۔ حجازِ مقدس کے علاوہ آپ نے محض تحصیلِ حدیث کے لئے جن بلادِ اسلامیہ کا سفر کیا ان میں بصرہ وکوفہ(عراق)، صنعا (یمن)، ثغور(شام) کے طویل و تھکادینے والے سفر سرِفہرست ہیں۔آپ نے حدیث کی نہ صرف سماعت کی بلکہ اس مبارک علم کو اپنے قلب وذہن میں محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے قلمبند بھی کیا۔یہاں تک کہ جوانی میں ہی آپ کو اس علم میں ملکہ تامہ حاصل ہوگیا۔آپ نے جن شیوخ سے کسبِ فیض کیا ان میں امام سفیان بن عیینہ،امام سفیان الثوری، امام عبدالرزاق بن ہمام، امام ابراہیم بن سعد، امام عباد بن عباد اور امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہم اللہ تعالیٰ زیادہ نمایاں ہیں۔امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے آپ میں علمِ حدیث کے ساتھ علمِ فقہ کی چاشنی بھی پیدا کردی، یوں آپ حدیث و فقہ دونوں علوم کے امام بن گئے۔اپنی جلالتِ علمی کے باوجود، آپ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آپ چالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مسندِ تحدیث و افتاء پر متمکن نہ ہوئے کیونکہ اسی عمر کو قرآن نے کمالِ رُشد قرار دیا ہے اور اسی عمر کو پہنچ کر خاتم الرسل محمد عربی علیہ الصلوٰة والسلام کی نبوت کا باقاعدہ ظہور ہوا ، جس سے ان(امام موصوف) کی سنتِ نبویہ علیہ الصلوٰة والسلام سے والہانہ محبت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔مسندِ تحدیث و افتاء پر جلوہ افروز ہونے کے بعد آپ نے اَلْمُسْنَد کی باقاعدہ تدوین کی طرف توجہ فرمائی۔آپ بغداد کی جامع مسجد میں روزانہ صلوٰة العصر کے بعددرسِ حدیث ارشاد فرماتے جس میں ہزاروں طالبانِ علم شریک ہوتے تھے،جن میں سے بہت سے محبان ِ علم آپ کے علم کو ضبطِ تحریر میں بھی لے آتے تھے۔آپ درسِ حدیث کی ایک خصوصی مجلس اپنے گھر پر منعقد فرماتے، جس میں آپ کی اولاد اور بعض خاص شاگردشریک ہوتے تھے۔آپ نے اس مجلس میں المسند املاء کرائی ۔آپ کے اہلِ بیت میں سے امام عبداللہ اور امام صالح رحمہما اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس علم کو محفوظ کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا، ان دونوں بیٹوں میں سے امام عبداللہ رحمہ اللہ اپنے بھائی سے سبقت لے گئے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے وفات سے قبل مسندکو مختلف اجزاء کی شکل میں جمع کرلیا تھااور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مکمل مسند اپنے اہلِ بیت کو املاء کرادی تھی۔ آخر ١٢ربیع الاول ٢٤١ھ(٣١جولائی ٨٥٥عیسوی) بروز جمعہ پیغامِ اجل آن پہنچا اور آپ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے ہونہار بیٹے اور شاگرد محدث امام عبداللہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے المسندکو مجلد کتاب کی شکل دی، تاہم انہوں اس میں بعض وہ روایات بھی شامل کردی تھیں جو انہوں نے اپنے والد سے سنی تھیں، مگر وہ المسند میں موجود نہ تھیں، ان روایات کی تعدادالمسند کی کل روایات کا ایک فیصد بھی نہیں ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ ایسی بلند پایہ شخصیت ہیں کہ ان کے اساتذہ کا تذکرہ کرنے سے ان(امام احمد ) کی فضیلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ،اسی طرح ان کے شاگردوں کا تذکرہ کرنے سے بھی ان(امام احمد ) کے فضل و کمال میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکتا ہے، ہاں خود ان کی نسبت سے ان کے اساتذہ و تلامذہ کے شرف وفضل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگردوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق پانچ ہزار کے قریب ہے،جن میں سب سے نمایاں مقام حاصل کرنے والے امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری، امام مسلم بن الحجاج القشیری، امام ابو داؤد سلیمان بن الاشعث السجستانی، امام ابو زرعہ الرازی ، امام عبداللہ بن احمد، امام ابراہیم بن اسحاق الحربی ، امام ابو سعید عثمان بن سعید الدارمی رحمہم اللہ تعالیٰ جیسے جلیل القدر محدثین شامل ہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی جوانی میں ہی اپنے علم وتقویٰ کی وجہ سے ہر دلعزیز شخصیت بن چکے تھے،باوجود اس کے کہ آپ نے چالیس سال کی عمر سے قبل باقاعدہ درسِ حدیث اور مجلسِ افتاء قائم نہیں کی تھی، لوگ پھر بھی اپنے روز مرہ مسائل کے حل تلاش کرنے کے لئے آپ کی طرف رجوع فرماتے تھے۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے جہاں حدیث و فقہ میں لوگوں کے لئے منارۂ نور کا کردار ادا کیا، وہیں علمِ عقیدہ میں بھی آپ کو ایسا نمایاں مقام حاصل ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔آپ کے زمانہ میں بہت سے بدعتی فتنے شباب پر تھے، جن میں فرقہ معتزلہ سب سے نمایاں ہو چکا تھا۔معتزلہ کے اس عروج کا سبب یہ بنا کہ خلیفہ مامون الرشید عقلیت پسندی کے زیرِ اثر معتزلہ سے کافی متأثرہوگیا تھا، چنانچہ اس نے متعدد معتزلی علما کو اپنے دربار میں نمایاں مقام دے دیا تھا، حتیٰ کہ وہ اپنے مشیرِخاص ابو عبداللہ ابن ابی داؤد معتزلی کے ہاتھوں کھلونا بن چکا تھا۔معتزلہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق اور فانی شے ہے، انہوں نے خلیفہ مامون کو بھی اپنا ہم عقیدہ بنا لیا تھا، تاہم مامون بذاتِ خود اس عقیدہ میں متشدد نہ تھا۔اپنی زندگی کے آخری سالوں میں جب تک وہ بغداد میں مقیم تھا،وہ اسی مسلک عدم تشدد پر کاربند رہا۔جب وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک جہادی مہم پر بغداد سے باہر چلا گیا تو اس کی جانب سے علماء کا عجیب امتحان شروع ہوگیا۔جب وہ بغداد سے دور رِقہ میں بسترِعلالت پر دراز تھا،اس کی طرف سے یہ حکم جاری کیا گیا کہ اگر علماء قرآن کو مخلوق تسلیم نہیں کریں گے تو انہیں سزا دی جائے گی، بعض علماء نے جان بچانے کی خاطربظاہر اس عقیدہ کا اقرار کر لیا،مگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ اس باطل عقیدہ کے خلاف ڈٹ گئے، جس کی پاداش میں انہیں ضعیف العمری میں سخت اذیتیں پہنچائی گئیں، حتیٰ کہ ان کی بوڑھی پیٹھ پر کوڑے تک برسائے گئے، جن سے وہ لہو لہان ہوگئے۔ مگر انہوں نے سلف کے عقیدہ سے انحراف کرنا گوارا نہ کیا۔آپ یہی کہتے رہے کہ قرآن کلام اللہ ہے اور غیر مخلوق ہے۔آپ آخری دم تک اسی عقیدۂ حق پر ڈٹے رہے ۔اپنی اس غیر معمولی استقامت کے باعث آپ کو پوری امت میںایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آپ کو امام اہل سنت علی الاطلاق کہا جانے لگا۔آپ کے صبرو استقامت کا یہ فائدہ ہوا کہ امتِ مسلمہ گمراہ ہونے سے بچ گئی۔ جہاں دیگر علماء نے کراہت علی الکفر کو جواز بنا کر ظاہری طور پر خلقِ قرآن کا اقرار کر لیا تھا، اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ان کی طرح مصلحت سے کام لے کر محض زبان سے اس کا اقرار کر لیتے تو اس قدر سخت آزمائش سے بچ سکتے تھے، مگر آپ نے رخصت کی بجائے عزیمت کاراستہ اختیار کیااور امت کے لئے ایسی روشن مثال قائم کردی ، جو انبیا علیہم السلام کے ہاں ملتی ہے۔آپ کے معاصر علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی جان کی بازی نہ لگاتے تو اسلام مٹ جاتا۔(حلیة الاولیأ:٩/ ٧١
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے علم وتقویٰ ،اعلائے کلمة اللہ اور استقامت علی الحق کی وجہ سے حق و باطل کا ایسا معیاربن گئے، جس سے انحراف کا مطلب اسلام سے انحراف قرار پایا۔یہاں تک کہ امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٢٠٤ھ) نے فرمایا:
منابغضاحمدبنحنبلفھوکافر(طبقات الحنابلہ:١/٧)
”جس نے احمد بن حنبل سے بغض رکھا اس نے کفر کیا۔”
مشہور محدث امام ابو جعفر محمد بن ہارون المخرمی رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٢٦٥ھ) نے فرمایا کہ جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جوامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کو برا کہتا ہے،تو سمجھ لو کہ وہ شخص بدعتی گمراہ ہے۔ (کتاب الجرح والتعدیل: ١/٣٠٩)
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٢٧٧ھ) نے فرمایا کہ جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ احمد بن حنبل سے محبت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ متبعِ سنت ہے۔ (کتاب الجرح والتعدیل: ج ١، س ٣٠٨)
امام محمد بن حبان البستی رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٣٥٤ھ) فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ثقہ حافظ اورمتقی فقیہ تھے جو خفیہ پرہیز گاری اور دائمی عبادت کو لازم پکڑتے تھے۔ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہ (علیہ الصلوٰة والسلام) کی مدد فرمائی۔یہ اس طرح کہ وہ آزمائش میں ثابت قدم رہے اور اپنے آپ کو اللہ کے لئے وقف کر دیا اور شہادت کے لئے تیار ہوگئے۔آپ کو کوڑے مارے گئے،مگر اللہ نے آپ کو کفر سے بچا لیا اور آپ کوایسا نشان بنا دیاجس کی اقتدا کی جائے اورایسی پناہ گاہ بنا دیا، جہاں پناہ لی جائے۔
(کتاب الثقات ابن حبان ج ٨ص ٨،١٩
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے علم و معرفت کا اعتراف آپ کے تمام معاصرین اور متأخرین کرتے آئے ہیں۔آپ کے تلمیذِ خاص شیخ الاسلام امام ابراہیم الحربی رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٢٨٥ھ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کواگلے پچھلے تمام علماء کا علم عطا فرمایا تھا۔(محمد بن احمد الذہبی، تذکرة الحفاظ:ج ٢، ص ١٦)
امام موصوف کے معاصر محدث امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٢٦٤ھ) فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کو دس لاکھ احادیث زبانی یاد تھیں۔(ایضاً،ج ٢، ص ١٥)
امام عبداللہ بن احمدرحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے والد ( امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ) نے بیاض میں دس لاکھ احادیث لکھیں اور ان سب کو حفظ بھی کیا۔(ابو موسیٰ محمد بن عمر المدینی ،خصائص المسند:ص ١٤)
اتنی تعداد میں احادیث کا حفظ ہونا بذاتِ خود ایک عظیم کرامت ہے، جس میں آپ کی کوئی نظیر نہیں۔یہی سبب ہے کہ جلیل القدرمحدثین آپ کو آپ سے پہلے گزرے ہوئے اکابر آئمہ تک پر فوقیت دیتے تھے۔ امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٢٤٠ھ) فرماتے ہیں کہ اگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے امام سفیان الثوری،امام مالک اور امام الاوزاعی کا زمانہ پایا ہوتا تو آپ ہی مقدم ہوتے، سائل نے پوچھا کہ کیا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کو تابعین کے ساتھ شامل کیا جاتا ہے؟انہوں نے فرمایا ہاں بلکہ اکابر تابعین کا ساتھ۔(کتاب الجرح والتعدیل:ج ١،ص ٢٩٣)
امام زکریا بن یحییٰ الساجی رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٣٠٧ھ) فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ، امام مالک،امام الاوزاعی ، امام سفیان الثوری اور امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہم اللہ تعالیٰ سے بھی افضل ہیں کیونکہ ان سب کی نظیریںموجود ہیں مگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کی کوئی نظیر نہیں۔(طبقات الحنابلہ:ج ١، ص ٩)
اگرچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مبارک دور کے بعدپیدا ہوئے ،مگر اس کے باوجود آپ کو اکابر تابعین جیسا مقام حاصل تھا، جس کا سبب علم وحِلم میں آپ کا وفوروکمال تھا۔آپ کو آپ کے تمام معاصر علماء حدیث نے اپنا امام تسلیم کیا۔جیسا کہ امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کے امام ہیں۔(کتاب الجرح والتعدیل:ج ١، ص ٢٩٥)
امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے فرمایاکہ وہ (علمِ حدیث کے)امام اور(فن اسما ء الرجال میں ) حجت ہیں۔ (ایضاً، ج ٢، ص ٧٠)
معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ دس لاکھ احادیث کے صرف حافظ ہی نہیں تھے بلکہ آپ فنِ اسماء الرجال کے بھی بے مثال ماہر تھے۔احادیث کی صحت و سقم کو خوب جانتے تھے۔امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ صحیح اور ضعیف احادیث کی معرفت میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔(ایضاً، ج ١، ص ٣٠٢)
اسی پر بس نہیں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ حفظِ حدیث اور معرفتِ حدیث کے ساتھ فقہ الحدیث کے ایسے مجدّدومجتہد امام تھے جس کی کوئی نظیر صحابہ کرام کے بعد چشمِ فلک نے نہیں دیکھی۔امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٢٢٤ھ) فرماتے ہیں کہ علمِ حدیث کی انتہا چار آئمہ (امام احمد، امام علی بن عبداللہ المدینی ،امام یحییٰ بن معین ، امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ) پر ہوتی ہے،جبکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ ان سب میں سب سے بڑے فقیہ ہیں۔(ایضاً، ج ١، ص ٢٩٣)
مجتہد مطلق امام ابو ثور ابراہیم بن خالدرحمہ اللہ تعالیٰ (متوفیٰ ٢٤٠ھ) فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ، امام سفیان الثوری سے بھی بڑے عالم یا فقیہ ہیں۔(ایضاً)
امام بو زرعہ الرازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ جامع و کامل شخصیت نہیں دیکھی، آپ میں زہد، فضل، فقہ اور دوسری بہت سی صفات جمع تھیں۔(ایضاً ،ج ١، ص ٢٩٤)
محدث مہنا بن یحییٰ الشامی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میںنے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ تمام قسم کی خیر کا جامع نہیں دیکھا،میں نے امام سفیان بن عیینہ، امام وکیع بن الجراح، امام عبدالرزاق الصنعانی، امام بقیہ بن الولید اور امام ضمرہ بن ربیعہ رحمہم اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، مگر علم، فقہ،زُہد اور تقویٰ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔(حلیة الاولیائ، ج ٩، ص ١٦٥، ١٧٤)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے فضائل و مناقب بیشمار ہیں، جن کا احاطہ کرنا غیر ممکن ہے۔ محدث ابو العباس محمد بن حسین الانماطی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں تھے جس میں امام یحییٰ بن معین ،امام ابو خیثمہ زہیر بن حرب اور اکابرعلماء کی ایک جماعت موجود تھی، وہ سب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کی تعریف اور فضائل بیان کر رہے تھے،ایک شخص کہنے لگا کہ ایسی باتیں زیادہ مت کریں۔اس پر امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کی کثرت سے تعریف بیان کرنا زیادتی ہے؟ اگر ہم اپنی ساری مجلسوں میں صرف ان کی تعریف ہی بیان کرتے رہیں تو بھی ان کے مکمل فضائل بیان نہیں کر سکتے۔ (ایضاً، ج ٩، ص ١٦٩)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کے مناقب مستقل کتابی شکل میں جمع کرنے کا شرف متعدد علماء نے حاصل کیا ہے، جن میں امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی (متوفیٰ ٣٦٠ھ) ، امام ابو بکر احمد بن الحسین البیہقی (متوفیٰ ٤٥٨ھ)، امام ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد الانصاری الہروی (متوفیٰ ٤٨١ھ)،امام ابومحمد عبداللہ بن یوسف الجرجانی (متوفیٰ ٤٨٩ھ)، امام ابو الحسین محمد بن ابو یعلیٰ البغدادی (متوفیٰ ٥٢٦ھ) ، امام ابو زکریا یحییٰ بن عبدالوہا ب ابن مندہ الاصبہانی (متوفیٰ ٥٤١ھ )، امام ابو لفرج عبدالرحمٰن بن علی ابن الجوزی (متوفیٰ ٥٩٧ھ) اور امام محمد بن احمد الذہبی (متوفیٰ ٧٤٨ھ ) کے اسماء اعلام سرِ فہرست ہیں۔(سیر اعلام النبلائ)
المسند کی تدوین سے پہلے عام رواج تھا کہ محدثین خاص خاص صحابہ کرام کی احادیث جمع کرتے تھے، شام کے محدثین نے شام میں بسنے والے صحابہ کی مرویات جمع کرنے کا کام سرانجام دیا، حجازی محدثین نے حجاز میں رہنے والے صحابہ کی احادیث اکٹھی کیں، جبکہ امام احمد نے تمام بلادِ اسلامیہ میں بکھرے ہوئے تقریبا سبھی صحابہ کرامj کا علم حاصل کیا اور اسے المسند کا حصہ بنایا، یوں المسند تمام جیدصحابہ کرامj کی مرویات کا مجموعہ ہے۔ ان جیدصحابہ کی احادیث جمع کرنے کے لیے آپ نے بلادِاسلامیہ کے تمام معروف مراکز حدیث کا سفر کیا اور وہاں کے محدثین عظام سے کسب فیض کیا، حجازمقدس، بصرہ، کوفہ، دمشق، یمن وغیرہ کے سفروں کا تذکرہ آپ کی سوانح میں ملتا ہے، حج کے موقع پر اکثر محدثین مکہ میں جمع ہوتے تھے، اس لیے آپ نے پانچ بار حجاز مقدس کا سفر کیا، حج کی سعادت کے ساتھ ساتھ طلب حدیث کا فریضہ بھی ادا کرتے۔ اس طرح آپ کے پاس ان تمام جلیل القدر صحابہ کرام کا علم جمع ہوگیا، جن سے تابعین نے کسب فیض کیا۔ اس وفورِ علم کے سبب آپ کا مجموعہ حدیث تمام سابقہ مجموعوں سے سبقت لے گیا، بلکہ آپ کے بعد بھی کوئی آپ کے درجہ کمال کو نہ پہنچ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ مسند احمد حدیث کے تمام اصلی مجموعوں میں سے سب سے زیادہ مبسوط اور ضخیم ہے ۔(سید سلیمان ندوی، خطباتِ مدراس:ص ٥٩)
المسند میں وہ سب کچھ ہے جس کی ضرورت ایک مؤمن و مسلم کو دنیا و دین کے لیے لاحق ہوسکتی ہے، المسند سنت و سیرت کا جامع ترین ماخذ ہے۔ علم حدیث کا کوئی ایسا باب نہیں جو المسند میں شامل نہ ہوسکا ہو۔ المسند موضوع وار ترتیب نہیں دی گئی بلکہ اس میں صحابہ کرام کی عمومی ترتیب فضیلت پر احادیث جمع کی گئی ہیں، سب سے پہلے خلفائے راشدین کی علیٰ ترتیب الفضیلت احادیث آتی ہیں، پھر بقیہ عشرہ مبشرہ کی اور پھر بنو ہاشم کی اور پھر مکثرین فی الحدیث صحابہ کرام کی احادیث۔ علیٰ ہٰذا القیاس، المسند میں ایک صحابی سے مروی تمام احادیث ایک ہی جگہ اکٹھی بیان کی گئی ہیں۔ المسند کی اس ترتیب میں بہت بڑی حکمت ہے، المسند کا متداول نسخہ چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، اگر امام احمد اسے موضوع وار ترتیب دیتے تو اس کی ضخامت کم از کم پانچ گنا بڑھ جاتی۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے، حسن البنا ٔمصری شہید کے والد محترم احمد عبدالرحمن البنا ٔالساعتی نے عصرحاضر میں المسندکو موضوع وار ترتیب دیا ہے، اس موضوعاتی ترتیب پر تالیف کا نام انھوں نے الفتح الربانی فی ترتیب المسند الامام احمد بن حنبل الشیبانی رکھا ہے۔ اس موضوع وار ترتیب و تالیف کی چوبیس جلدیں ہیں ۔ بظاہر تو موضوع وار ترتیب سے احادیث کو سمجھنے میں سہولت پیدا ہوگئی ہے، مگر ضخامت اس قدر بڑھ جانے کی وجہ سے اس کا مطالعہ کئی گنا دشوار ہوگیا ہے، جبکہ امام احمد کی ترتیب مطالعہ کے لیے نسبتاً آسان ہے۔ جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے مسنداحمد سے استفادہ مزید آسان بنادیا ہے۔ ادارہ بیت الافکار الدولی (سعودی عرب) نے المسند کا الف بائی اشاریہ شائع کردیا ہے جس کی مدد سے کسی زیر تحقیق موضوع سے متعلق احادیث المسند میں آسانی سے تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ حدیث کا کوئی ٹکڑا یاد ہو تو اسے المسند سے تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔
یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ المسند تمام احادیث رسول کی جامع ہے، تاہم یہ دعویٰ درست ہے کہ کوئی اہم دینی موضوع ایسا نہیں جس کا ذکر مسند کی احادیث میں موجود نہ ہو۔ کوئی ایسی اہم حدیث مسند سے خارج نہیں جس کا جاننا تکمیل ایمان کے لیے ضروری ہو یا جس کے بغیر علم فقہ ناقص رہ جاتا ہو۔ غرض مسند امام احمد عقیدہ و عمل دونوں کے لیے کامل رہنما ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ کامل طور پر مسند میں شامل ہے، چونکہ نبی ﷺچلتا پھرتا قرآن تھے، اس لیے مسند احمدکو معنوی طور پر دوسرا قرآن کہا جاسکتا ہے، اگرچہ اس کی استنادی حیثیت قرآن کے مساوی نہیں، مگر قرآنی تعلیمات کی جامع ترین تشریح المسند میں موجود ہے۔ اسی لئے راقم الحروف نے قرآن کے بعد سب سے زیادہ انحصار المسند پر کیا ہے۔
المسند کے بعد احادیث کے کئی مجموعے مدوّن ہوئے، جن میں سب سے نمایاں مجموعے صحاحِ ستہ کے نام سے معروف ہیں۔ صحاحِ ستہ میں سب سے اعلیٰ مقام امام بخاری کی الجامع الصحیح اور امام مسلم کی الجامع الصحیح کو حاصل ہے، علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتابیں یہ مذکورہ کتابیں ہیں۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ٢٠، ص ٣٢١، مقدمہ ابن الصلاح، ص ٩) تاہم یہ دونوں کتابیں تمام مقبول احادیث کی جامع نہیں ہیں، یہ وصف و شرف تو صرف اور صرف مسنداحمد ہی کو حاصل ہے۔ اوپر مذکور ہوا کہ امام احمد بن حنبل نے المسند میں صرف مقبول احادیث جمع کی تھیں، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ حنبلی فرماتے ہیں کہ امام احمدنے المسند میں حدیث کی قبولیت کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں، وہ ان شرائط سے اعلیٰ و اجود ہیں جو امام ابودائودنے اپنی کتاب السنن میں اختیار کی ہیں ۔حق یہ ہے کہ امام احمدنے کسی متہم بالکذب راوی کی کوئی حدیث المسند میں شامل نہیںکی، لہٰذا امام الحدیث حافظ ابوالعلا ہمدانی نے تصریح کی ہے کہ امام احمد کی مرویات میں کوئی موضوع روایت شامل نہیں۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ١، ص ٢٤٨۔٢٥٠)
امام ابو بکر جلال الدین السیوطی اپنی عظیم تالیف جامع الکبیر کے مقدمہ میں فرماتے ہیں
وکلماکانفیمسنداحمدفھومقبولفانالضعیفالذیفیہیقربالحسن(جامع الکبیر)
”مسند امام احمد کی تمام احادیث مقبول احادیث ہیں، اگر اس میں کوئی ضعیف حدیث ہے بھی صحیح تو وہ بھی حسن درجہ کی ہے۔”
امام زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی اور امام ابن الجوزی الحنبلی رواة پر جرح میں متشدد مشہور ہیں، انھوں نے مسند احمد کی بعض روایات کو موضوع قرار دیا تو امام احمد بن علی ابن حجرالعسقلانی الشافعی سے نہ رہا گیا اور انھوں نے المسند کی حمایت و نصرت میں مستقل رسالہ لکھ دیا جس کانام القول المسدّد فی الذبّ عن مسند الامام احمد ہے، اپنی اس تالیف لطیف میں امام ابن حجر عسقلانی نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ مسند احمد (مرویاتِ احمد) میں کوئی موضوع حدیث شامل نہیں، جن روایات کو مذکورہ آئمہ نے موضوع قرار دیا تھا، امام ابن حجر نے انھیں مقبول احادیث ثابت کیا ہے۔
امام ابن حجر العسقلانی ، علامہ العراقی کی ذکر کردہ نو موضوع روایات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں
ثمنشرعالآنفیالجوابعنالاحادیثالتسعةالتیاوردھاواقتصرعلیھا،ونجیبعنھااولامنطریقالاجمالبانالاحادیثالتیذکرھالیسفیھاشیءمناحادیثالاحکامفیالحلالوالحراموالتساھلفیایرادھامعترکالبیانبحالھاشائع،وقدثبتعنالاماماحمدوغیرہمنالائمةانہمقالوا: اذاروینافیالحلالوالحرامشددنا، واذاروینافیالفضائلونحوھاتساھلنا،وھکذاحالھذہالاحادیث۔
(احمد بن علی ابن حجر العسقلانی ، القول المسدد ، ص ١١۔١٢)
’’اب ہم ان نو احادیث کے بارے جواب دیتے ہیں جو امام العراقی نے بیان کی ہیں اور ان کے علاوہ اور کسی حدیث کو انہوں موضوع نہیں کہا۔ ہم پہلے ان کا اجمالی جواب دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مذکورہ احادیث میں حلال و حرام کے احکام بیان نہیں ہوئے اور اس قسم کی احادیث کو ان کی اسنادی حیثیت واضح کیے بغیربیان کرنے کا عام رواج ہے۔امام احمد بن حنبل اور دیگر آئمہ حدیث کا یہ قول ثابت ہے :’ جب ہم حلال و حرام کے بارے میں احادیث بیان کرتے ہیں تو اسناد میں شدت سے کام لیتے ہیں اور جب ہم فضائل یا ان جیسی دوسری اشیاء کے بارے روایت کرتے ہیں تو نرمی سے کام لیتے ہیں۔’ مذکورہ احادیث اسی (دوسری) قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔‘‘
یہ درست ہے کہ مسند کی ہر حدیث کا درجہ صحیحین کے مساوی نہیں، مگر اس کی اکثر احادیث صحیحین کے معیار کی ہیں، اس کی جو روایات اس معیار کی نہیں ہیں، وہ سنن اربعہ (سنن ابی دائود، جامع الترمذی، سنن النسائی، سنن ابن ماجہ) کے معیار کی ضرور ہیں، بلکہ بعض ایسے ضعیف و مجروح راوی بھی ہیں جن کی روایات کتب سنن میں شامل ہیں مگر امام احمد نے ان سے روایات لینے سے گریز کیا ہے۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ١، ص ٢٥٠)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مسنداحمد کا درجہ استناد اس قدر اعلیٰ ہے تو اسے صحاحِ ستہ میں شمار کیوں نہیں کیا جاتا؟
اس سوال کا جواب اول تو یہ ہے کہ مسند امام احمد کا پایۂ استناد فی الحقیقت اتنا اعلیٰ ہے کہ اسے صحاح ستہ میں شمار کیا جاسکے، جیسا کہ نواب صدیق حسن خان القنوجی (م ١٣٠٧ھ)نے صراحت کی ہے۔(الحطة فی ذکر الصحاح الستہ، ص ٢١٣)
اس سوال کا دوسراجواب یہ ہے کہ امام احمد بن حنبل نے جو مسند امام عبداللہ کو اِملا کرائی تھی، انھوں نے امام احمد کی وفات کے بعد اس میں مزید روایات کا اضافہ کیا، جن میں اپنے والد سے سنی ہوئی روایات بھی تھیں اور اپنے دوسرے شیوخ سے سنی ہوئی روایات بھی۔ امام عبداللہ کے شاگرد ابوبکر جعفرالقطیعی ؒجو المسند کے ناقل ہیں، انھوں نے بھی اس میں مزید روایات شامل کیں، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ الحنبلی نے وضاحت کی ہے کہ ابوبکر جعفر القطیعی ؒکی شامل کردہ روایات کا ایک بڑا حصہ موضوع روایات پر مشتمل ہے ۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ٥، ص ١٤)
آج جو مسند ہمارے پاس موجود ہے،اس کے بارے میں محدث العصر علامہ ناصر الدین الالبانی ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ اس میں ابو بکر جعفر القطیعیؒ کی کوئی زیادات پائی نہیں جاتیں۔ عبدالرحمٰن الساعاتی نے الفتح الربانی میں جن احادیث کو زیادات القطیعی قرار دیا ہے، ان کے بارے علامہ الالبانی فرماتے ہیں
تبینلیانھاکلھالیستمنزیاداتالقطیعیفیشیء،وانھامنزیاداتعبداللّٰہبناحمد
(ناصرالدین الاالبانی ، الذب الاحمد عن مسند الامام احمد، ص ٤٤)
”مجھ پر یہ واضح ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی ابو بکر القطیعی کی زیادات نہیں ہیں بلکہ وہ سب عبداللہ بن احمد کی زیادات میں سے ہیں۔”
علامہ الالبانی کی تحقیق کے علی الرغم ، متقدمین میں سے بہت سے علماء کی رائے یہی ہے کہ المسند میں ابو بکر القطیعیؒ کی زیادات موجود ہیں۔تاہم ان زیادات کی تعداد دس کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
ممکن ہے کہ امام ابن تیمیہ اور دیگر متقدمین کے زیرِ استعمال المسند کاجو نسخہ تھا، اس میں زیادات القطیعی پائی جاتی ہوں۔ بہر کیف القطیعی کی موضوع روایات کی بنا پر المسند کو صحاح میں شمار نہیں کیا جاتا، اگرچہ خود امام احمد کی مرویات صحاح میں شامل ہونے کے لائق ہیں۔ مسند کی اسناد سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کونسی احادیث امام احمد کی مرویات ہیں اورکونسی امام عبداللہ بن احمدکی۔
امام احمد نے اپنے بیٹے امام عبداللہ سے فرمایا تھا
احتفظبھذاالمسند،فانہسیکونللناساماما
(عبدالرحمٰن ابن الجوزی، کتاب مناقب الامام احمد)
المسند کو خوب اچھی طرح یاد کرلو، یہ عنقریب لوگوں کی امام ہوگی‘‘
فی الواقع المسند میں صحاحِ ستہ کی چند ایک احادیث کے سوا باقی سبھی احادیث شامل ہیں، صحاح ستہ کی وہ احادیث جو المسند میں شامل ہونے سے رہ گئی ہیں، ان کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے، اس لحاظ سے المسند کو صحاحِ ستہ کی ماں کہا جاسکتا ہے۔ یوں المسند کے امامُ الناس ہونے کا قول پورا ہوجاتا ہے۔
امام ابو الحسین علی بن محمد الیونینی سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے صحاح ستہ حفظ کی ہیں؟
انہوں نے جواب میں فرمایا:”میں نے صحاح ستہ حفظ کی بھی ہیں اور نہیں بھی کی۔”
سائل نے کہا کہ وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ’’میں نے مسند احمد حفظ کی ہے، صحاح ستہ کی صرف چند احادیث ہی مسند میں شامل نہیں ہو سکیں، جب کہ ان احادیث کی اصل بھی مسند میں موجود ہے۔اس اعتبار سے میں نے گویا صحاح ستہ حفط کرلی ہیں۔‘‘
( ابو الخیر محمد بن محمد ابن الجزری ، المصعد الاحمد فی ختم مسند الامام احمد:ص ١٢)
المسند اس اعتبار سے بھی امام الناس ہے کہ فقہائے اُمت نے جن احادیث سے شریعت کے احکام اخذ کیے ہیں، تقریباً وہ سبھی المسند میں موجود ہیں، اُمت آج جن اَئمۂ کرام کے اجتہادی مذاہب کی پیرو ہے، وہ سب قرآن حکیم کے بعد انہی احادیث سے ہدایات حاصل کرتے رہے ہیں، جو المسند میں جمع ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اپنے ز مانۂ تالیف سے لے کر آج تک المسند کو اَئمۂ حدیث و فقہ کے نزدیک تلقّی بالقبول حاصل رہا ہے، بلامبالغہ ہزاروں خوش نصیبوں نے المسند کو ابتدا سے آخر تک ایسے حفظ کیا ہے جیسے قرآن حکیم کو حفظ کیا جاتا ہے، ایسے خوش نصیبوں کا مفصل تذکرہ امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی کی تالیف لطیف ’’ تذکرةالحُفَّاظ‘‘میں دیکھا جاسکتا ہے۔
امام ابو الخیر محمد بن محمد بن محمد ابن الجزری ( م ٨٣٣ھ)مسند امام احمد کے بارے فرماتے ہیں
وھوکتابلمیُروعلیوجہالارضکتابفیالحدیثاعلیمنہ
( ابو الخیر محمد بن محمد ابن الجزری ، المصعد الاحمد فی ختم مسند الامام احمد:ص ٨)
”یہ ایسی کتاب ہے کہ علم الحدیث میں اس سے اعلیٰ کتاب روئے زمین پر نہیں دیکھی گئی۔”
امام ابو الخیر محمد بن محمد ابن الجزری نے المسند کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا یہ قول نقل کیا ہے:
’’میں نے یہ کتاب ساڑھے سات لاکھ احادیث میں سے جمع اورمنتخب کی ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہوجائے تووہ اس کی طرف رجوع کریں،اگر اس میں وہ حدیث مل جائے تو ٹھیک ہے، ورنہ حجت نہیں۔‘‘
(ایضاً، ص ١١)
امام ابن الجزری اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس سے امام احمدؒ کی مراد حدیث کے بنیادی متون ہیں، غالب احادیث ایسی ہیں کہ ان کی اصل(متن) مسند احمد میں لازماً موجود ہیں۔‘‘ (ایضاً)
صحاحِ ستہ کے بجائے المسند کے بارے میں اس ساری تفصیل کا پہلا سبب یہ ہے کہ المسند صحاحِ ستہ کی احادیث کو محیط ہے، جیسے کہ اوپر مذکور ہے، المسند کا دِفاع اصلاً رسول اللہ ﷺکے اقوال و افعال کا دفاع ہے، یہ امام احمد بن حنبل ؒ کا دفاع ہرگز نہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مقبول احادیث کا ضخیم ترین مجموعہ ہونے کی وجہ سے زیرنظر کتاب کا دوسرا بڑا مأخذ مسنداحمد ہے، لہٰذا میرا فرض تھا کہ میں اس کی اسنادی حیثیت واضح کردوں، الحمدللہ میں فرض سے سبکدوش ہوگیا۔ مسنداحمد کے مأخذ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں نے صحاحِ ستہ سے استفادہ نہیں کیا، حاشاوکلا ایسا نہیں، صحاحِ ستہ کی جو احادیث المسند میں شامل نہیں ہوسکی ہیں، ان کے لیے صحاحِ ستہ ہی کی طرف رجوع کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ صحاح کے بغیر سیرت النبی ﷺکا موضوع اپنے کمال کو کیسے چھو سکتا ہے۔
حدیثِ صحیح کی اقسام
خبر متواتر
جب کسی خبر کو بیان کرنے والے ہر طبقہ میں متعدد افراد ہوں جن کا کسی جھوٹ پر اتفاق کرنا محال ہو، تو اسے خبر متواتر کہتے ہیں۔ احادیث صحیحین میں سے اکثر درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں، خواہ یہ تواتر لفظی ہو، خواہ معنوی ہو، خواہ اُمت کی جانب سے قبولیت عامہ حاصل ہونے کی وجہ سے ہو۔ ان سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے ۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ١٨، ص ٤١)
خبر واحد
ایسی حدیث جو خبر متواتر کی شرائط پوری نہ کرتی ہو، خبرواحد کہلاتی ہے۔
خبر واحد کی تین قسمیں ہیں:
١۔ مشہور:
جس حدیث کے ہر طبقہ میں کم از کم تین راوی ہوں وہ ’حدیث مشہور‘کہلاتی ہے۔
٢۔ عزیز:
جس حدیث کے ہر طبقہ میں دو دو راوی ہوں، اسے ’حدیث عزیز‘کہتے ہیں۔
٣۔ غریب:
جس حدیث کے ایک یا ایک سے زائد طبقہ میں صرف ایک ہی راوی ہو، اسے
’حدیث غریب‘ کہتے ہیں۔
(شرح نخبة الفکر، ص ٩۔٢١)
وہ تمام اخبارِ آحاد جن کو اُمت نے عام قبولیت بخشی ہے، علم یقینی کا ذریعہ ہیں، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب کی یہی رائے ہے ۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ١٨، ص ٤١)
رہیں وہ احادیث جن کی صحت کے بارے علمائے حدیث میں اختلاف ہے، وہ بھی علم ظنی کا ذریعہ ہیں، یہی حال ان ضعیف احادیث کا ہے جو درجہ حسن تک پہنچی ہوئی ہیں۔ کیونکہ جب متعدد اسناد و طرق سے ایک خبر ثابت ہو تو اسناد کا انفرادی ضعف نظرانداز کیے جانے کے لائق ہوتا ہے۔ ایک ہی خبر متعدد طرق سے مروی ہو تو ہر طرق دوسرے طرق کو تقویت پہنچاتا ہے، یوں خبر میں مجموعی طور پر قوت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے جھوٹ ہونے کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ جب اس طرح مختلف زمانے کے مختلف افراد ایک ہی خبر بیان کرتے ہیں، جن کی باہمی ملاقات عموماً ممکن نہیں ہوتی، تو عقل چاہتی ہے کہ ایسی خبر سچی ہے، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ مختلف زمانے کے مختلف بلاد و امصار میں رہنے والے لوگ ایک ہی خبر کے گھڑنے پر اتفاق کرلیں۔(ایضاً، ج ١٨، ص ٢٢۔٢٣)
علم الرجال
اُمت محمدیہ کا یہ امتیازی وصف ہے کہ اس نے اپنے نبی مرسل محمد عربی ﷺ کی سنت و سیرت اور سوانح کی حفاظت کے لیے ان تمام انسانوں کے احوال قلمبند کیے ہیں، جنھوں نے نبی اکرم ﷺ سے منسوب کرکے کوئی روایت بیان کی ہے۔ رُواة کی روایات کو جانچنے کے لیے کہ آیا وہ صحیح ہیں یا ضعیف؟ اگرضعیف ہیں تو ضعیف حسن درجہ کی ہیں یا ضعیف متروک کے درجہ کی؟ غرض احادیث و روایات کے مقبول یا مردود ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے علمائے اسلام نے تقریباً پانچ لاکھ انسانوں کے ضروری احوال جمع کیے ہیں۔ جن میں ان کے صدق و کذب، تاریخ ولادت ووفات اور ان کے اساتذہ و تلامذہ کے نام وغیرہ شامل ہوتے ہیں،تاکہ واضح ہوجائے کہ انھوں نے کس کس سے روایت سُنی، کن سے بیان کی؟ کن شخصیات سے ان کی ملاقات و سماع ممکن تھا اور کن سے نہیں۔ رُواةِ حدیث کے بارے میں اس مفصل علم و فن کو علم الرجال کہتے ہیں۔
علم الرجال بھی ابتداً صرف سینوں میں محفوظ تھا، یہاں تک کہ امام اہل السنہ علی الاطلاق احمد بن حنبل کا دور آیا اور علم الرجال بھی ضبط تحریر میں لانے کا رواج ہوا۔ علم الرجال کی ابتدائی کتب درج ذیل تھیں:
العلل و معرفة الرجال امام احمد بن حنبل الشیبانی (م ٢٤١ھ)
التاریخ
ایضاً
التاریخ و العلل امام ابوزکریا یحییٰ بن معین البغدادی (م ٢٣٣ھ)
معرفة الرجال ایضاً
التاریخ امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب البغدادی (م ٢٣٤ھ)
التاریخ امام ابوالحسن علی بن عبداللہ المدینی (م ٢٣٤ھ)
التاریخ الکبیر امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری (م ٢٥٦ھ)
التاریخ الصغیر ایضاً
التاریخ الاسط ایضاً
کتاب العلل ایضاً
کتاب الجرح و التعدیل امام ابوحاتم عبد الرحمن بن الرازی (م ٣٢٧ھ)
کتاب العلل امام ابوالحسین مسلم بن حجاج القشیری (م٢٦١ھ)
کتاب فی الرجال امام ابودائود سلیمان بن الاشعث السجستانی (م ٢٧٥ھ)
التاریخ و علل الرجال امام ابوزُرعہ الدمشقی (م ٢٨١ھ)
مذکورہ بالا کتب میں سے اکثر کتب آج بھی متبوعہ موجود ہیں اور عالم اسلام میں دستیاب ہیں۔ بعد میں اما م عبدالغنی بن عبدالواحد المقدسی الحنبلی (م٤٠٠ھ) نے سلف کی ان سبھی کتب کا علم یکجا کرنے کا اہتمام کیا اور علم الرجال کی مبسوط ترین کتاب ”الکمال فی اسماء الرجال” تالیف کی، اس کتاب میں لاکھوں انسانوں کے احوال جمع کردیے گئے ہیں، اس اعتبار سے اس کتاب کی کوئی نظیر علم الرجال میں موجود نہیں۔ اس کتاب کے بعد جتنی بھی کتب اسماء الرجال پر لکھی گئی ہیں سب اسی کتاب ‘الکمال’ سے ماخوذ ہیں۔ تہذیب الکمال (یوسف بن عبدالرحمن المزی) تذہیب تہذیب الکمال (شمس الدین محمد بن احمد الذہبی) میزان الاعتدال (الذہبی) تہذیب التہذیب (ابن حجر العسقلانی) تقریب التہذیب (العسقلانی) وغیرہ در حقیقت الکمال فی اسماء الرجال کے مختلف اختصارات ہیں۔(مقدمہ تحقیق تقریب التھذیب، ص ٤،٧)
مذکورہ کتب میں سب سے مختصر تقریب التہذیب ہے، اس میں بھی تقریباً آٹھ ہزار روات کے حالات مختصراً بیان کیے گئے ہیں۔
مقصود بیان یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے منسوب ہرروایت کی تحقیق آج اسی طرح ممکن ہے جس طرح تابعین کے دور میں ممکن تھی، حفاظت علم نے زمانی بعد کو یکسر بے معنی کردیا ہے، تاہم تحقیقِ حدیث ہرکس وناکس کا کام نہیں بلکہ یہ ذمہ داری علم الرجال کے ماہرین کے کندھوں پر ہے۔ اس فن سے نابلد اگر کسی حدیث کے مقبول یا مردود ہونے فیصلہ کریں گے تو وہ اسی طرح ناقابل قبول ہوگا جیسے کسی طبی مسئلہ میں اطباء کی بجائے کسی غیر کا فیصلہ نامقبول ہوتا ہے۔ الحمدللہ ہم اہل اسلام، تحقیق حدیث کے لیے کسی غیرمسلم کے محتاج نہیں، بلکہ اس کے لیے ہمیں مسلم علمائے حدیث کافی ہیں۔
تعارضِ روایات کے اسباب:
بسا اوقات روایات میں باہم اختلاف و تعارض محسوس ہوتا ہے، اس تعارض کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں، جن میں سے بعض اہم اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
١۔بعض اوقات روایت میں قلّت فہم کے سبب ظاہراً تعارض محسوس ہوتا ہے، مگر فی الحقیقت ان کے معانی و مطالب میں تعارض نہیں ہوتا۔
٢۔بعض اوقات متعارض روایت میں سے ایک روایت قوی ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابل روایت ضعیف ہوتی ہے، اس روایت کا ضعف یا تو راوی کے ضعف حافظہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور وہ اصل واقعہ بھول جاتا ہے یا یہ ضعف راوی کے کذاب (جھوٹا) ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ وہ عمداً روایت میں دروغ گوئی سے کام لیتا ہے۔
٣۔بعض اوقات متعارض روایات بظاہر صحت کے ایک ہی درجہ پر جائز ہوتی ہیں، مگر ایک روایت کا ثقہ راوی واقعہ کی بعض جزئیات میں کسی وہم کے سبب غیرارادی طور پر غلطی کرجاتا ہے، جس سے سنداً صحیح روایات میں تعارض پیدا ہوجاتا ہے۔
٤۔بعض اوقات متعارض روایات سند و متن دونوں کے اعتبار سے صحیح ہوتی ہیں، اس صورت میں احتمال ہوتا ہے کہ ایک روایت قدیم حکم کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ دوسری جدید حکم کو۔ گویا ایک روایت ناسخ ہوتی ہے دوسری منسوخ۔
٥۔بعض اوقات سند و متن کے اعتبار سے صحیح روایات میں تعارض اس سبب سے محسوس ہوتا ہے کہ نبی اکرم ۖنے کوئی خاص عمل متعدد طریقوں سے سرانجام دینے کی اجازت دی ہوتی ہے، تاکہ اُمت کو وہ عمل سرانجام دینے میں سہولت رہے۔
حل تعارض
تعارضِ روایات کا کوئی بھی سبب ہو، اس کا قابل اطمینان و اعتماد حل، اہل فن ہی بتلاسکتے ہیں۔ چنانچہ جب متعارض روایات سامنے آئیں تو اس بارے میں خودرائی کی بجائے فقہاء و محدثین کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا اسباب بظاہر تو بہت سادہ معلوم ہوتے میں مگر فی الحقیقت ان کی بنیاد میں نہایت دقیق مباحث پاشیدہ ہیں، جن کو اہل فن ہی کماحقہ سمجھ سکتے ہیں، علومِ دینیہ سے محروم عام لوگ ان اَدَق و ثقیل مباحث کو سمجھنے سے قاصر ہیں اس لیے تعارضِ روایات کے حل کے لیے فقہاو محدثین سے رہنمائی حاصل کرنا لازمی و لابدی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاسْئَلُوْااَھْلَالذِّکْرِاِنْکُنْتُمْلَاتَعْلَمُوْنَ
(النحل:٤٣)
’’اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھ دیکھو۔‘‘
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی جھوٹا راوی، کسی عادل و ضابط راوی کے نام پر کوئی حدیث بیان کردے اور اُمت اسے سچ سمجھ کر قبول کرلے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ علم الرجال کے ذریعے فوراً پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ یہ راوی اس ثقہ راوی سے ملا بھی تھا یا نہیں اور یہ کہ ثقہ راوی نے فی الواقع اسے کوئی حدیث سنائی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ محدثین کرام اس روایت کے الفاظ میں موجود سقم و علل اپنی مہارت سے بآسانی معلوم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ ساری اُمت کسی ایسی روایت کو سچ سمجھ لے ، جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہو۔
تاریخ اسلام
سیرة النبی ﷺکا تیسرا مصدر و ماخذ تاریخ اسلام ہے۔ تاریخ اسلام سے ہماری مراد وہ علم ہے جس میں ظہورِاسلام کے زمانے اور مابعد کے احوال و حوادث کو زمانی ترتیب پر بیان کیا جاتا ہے۔ تاریخ اسلام کا اوّل و افضل زمانہ خود نبی اکرم ۖکا مبارک زمانہ ہے، لہٰذا سب سے پہلے اسی زمانہ سے متعلق معلومات جمع کی گئیں۔ تاریخ اسلام کی اوّلین کتب نبی ۖکے سوانح، وقائع، شمائل، خصائص اور دلائل (معجزات) وغیرہ کے تذکرہ مبارکہ پر مشتمل ہیں۔ تاہم کتب ِسیرت کے بعد وہ کتب ِتاریخ منصہ شہود پر آئیں جن میں عموماً ابتدائے آفرینش سے لے کر رسول اللہ ﷺکے دورِ سعید اور بعد کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ ان کتب تاریخ میں انبیائے سابقین علیہم السلام، نبی آخرالزمان ﷺ، آپ کے صحابہ کرام، تابعین، اَتباعِ تابعین، خلفاء و سلاطین اور ملوک قدیم وغیرہ کے سوانح و وقائع جمع کیے گئے ہیں۔ تاریخ اسلام پر جو عظیم الشان کام خیرالقرون میں سرانجام دیا گیا اُس کی ایک جھلک درج ذیل سطور میں دکھائی گئی ہے۔
عہد ِصحابہؓ
صحابہ کرا م ؓسے زیادہ سیرت النبی ﷺکی قدرومنزلت اور اہمیت سے کون واقف ہوگا؟ سیرت النبیﷺکے عینی شاہدین و امین صحابہ کرام ہی تو ہیں۔ چنانچہ ان سے بڑھ کر سیرت کا جاننے والا اور کوئی فردِ بشر نہیں ہوسکتا۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب نبی ﷺکی سیرت کی تعلیم اور حفاظت پر خاص توجہ دی۔ رسول اکرم ﷺنے جہاں دعوت و تبلیغ کے ذریعے کفار کے عقائد باطلہ کا ردّکیا اور انھیں دین حق کی طرف بلایا وہیں، معاندین حق کی سرکوبی کے لیے کفار سے جنگیں بھی کرنا پڑیں۔ چونکہ غلبۂ اسلام میں ان جنگوں نے اہم کردار ادا کیا، اس لیے صحابہ کرام کے نزدیک ان جنگوں کی بہت اہمیت تھی۔ عربی میں جنگوں کے لیے خاص اصطلاح ‘مغازی’ استعمال ہوتی ہے، اس لیے اس دور میں سیرت النبی کے لیے المغازی کی اصطلاح مشہور ہوگئی۔یہی اصطلاح قرون اولیٰ کی اکثر کتبِ سیرت کا عنوان بنی، نیز کتبِ حدیث میں خاص سیرت النبی پر مرتب کئے گئے ابواب کو عموماً کتاب المغازی کا عنوان دیا گیا۔ یہاں تک کہ علم المغازی ،علم الحدیث کا ایک مستقل شعبہ قرار پایا۔
صحابہ کرام ؓکے نزدیک سیرت النبی کی اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے درج ذیل دو مثالیں کافی ہیں:
امام زین العابدین علی بن حسین ؒ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺکے مغازی و سرایا ہمیں ایسے سکھائے جاتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورت سکھائی جاتی تھی۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ میرے والد ہمیں مغازی و سرایا رسول ۖسکھایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے میرے بیٹو! یہ تمہارے آباء و اجداد کے آثار ہیں، انہیں بھلا مت دینا۔ (طبقات ابن سعد)
صحابہ کرا ماپنی نجی مجالس میں اور مسجد کی اجتماعی مجالس میں اکثر نبی ﷺکے سوانح و وقائع کا مذاکرہ کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام کی کوئی مجلس ایسی نہ تھی جس میں احادیث رسول کا تذکرہ نہ کیا جاتا ہو۔ سیرت النبی ﷺکا بیان صحابہ کرام کا محبوب مشغلہ تھا۔ حتیٰ کہ بعض صحابہ کرام ؓنے خود کو اسی مبارک کام کے لیے وقف کررکھا تھا۔
صحابہ کر ام ؓ میں علوم اسلامیہ کے ہر شعبہ کے ماہرین موجود تھے، علم القراء ت، علم التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ، علم القضأ، علم الفرائض، علم الادب کے ساتھ ساتھ علم المغازی کے ماہرین و متخصصین صحابہ کرا م میں نمایاں تھے۔ ان میں سے علم المغازی کے چند ماہرین کا اجمالی تذکرہ آئندہ سطور میں کیا جارہا ہے۔
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م ٧٨ھ)
ترجمان القرآن، حِبرالامة سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانبی ﷺکے چچازاد بھائی تھے، جو اجتماعی مجالس کے ساتھ ساتھ نبی ﷺکی نجی مجالس میں بھی شریک ہوتے تھے، چنانچہ آپ سیرت النبی کے بہت بڑے عالم تھے۔ آپ ہرشام صلوٰة العصر کے بعد سیرت النبی کا درس دیا کرتے تھے۔(محمد بن احمد الذہبی، سیر اعلام النبلائ، ج ٣، ص ٣٥٠)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے ہفتے کا ایک دن تعلیم سیرت کے لیے بھی وقف کررکھا تھا۔ (محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج ٢، ص ١٢١)
زمانہ قبل از ظہورِ نبوت کے اکثر حالاتِ نبوی انہی سے مروی ہیں، جو انھوں نے اکثر اپنے والد اور نبی ﷺکے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے سنے تھے۔ مسنداحمد میں ان سے ایک ہزار سات سو (مع مکررات) کے قریب احادیث مروی ہیں۔
سیّدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما (م ٦٣ھ)
سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کا صحیفہ صادقہ سیرت النبی ﷺکی پہلی کتاب کہلانے کا مستحق ہے، کیونکہ آپ نبی ﷺکی ہر بات قلمبند کرلیتے تھے، ظاہر ہے کہ یہ صحیفہ فطری طور پر زمانی ترتیب پر مرتب ہوا۔ تاہم اس صحیفہ میں عموماً مدنی دور کے واقعات ہی رقم ہوسکے ہیں، کیونکہ سیّدنا عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہماتقریباً ٤٣میلاد الرسول (٣نبوی) میں پیدا ہوئے اور ہجرت کے ذرا پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ احایث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اکابر صحابہ کرام ؓسے سن کر مکی دور کے حالات کا علم بھی حاصل کیا تھا۔ یہی سبب ہے کہ کتب حدیث میں ان کی وہ مرویات بھی شامل ہیں جن میں مکی دور کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً ملاحظہ کیجیے صحیح البخاری: کتاب مناقب الانصار۔ (محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ، رقم الترجمہ ٦١٨١)
سیّدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما(م ٧٣ھ)
سیّدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکا شمار ان صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنھوں نے نبی ﷺسے کثرت کے ساتھ احادیث روایت کی ہیں ان سے صرف مسنداحمد میں دوہزار (مع مکررات) سے زائد احادیث منقول ہیں، جن میں مکی و مدنی دونوں اَدوار کے حالات و وقائع مذکور ہیں۔ آپ بھی تقریباً ٤٣میلاد النبی (٣نبوی) میں پیدا ہوئے اور اپنے والد سیّدنا عمر بن خطابرضی اللہ عنہ کے ہمراہ دولت ایمان سے سرفراز ہوئے۔ اِتباعِ سنت میں اس قدر سخت تھے کہ لوگوں کو آپ کے مجنون ہونے کا گمان ہوتا ۔ آپ کے شاگرد ابوبکر محمد العمری بیان کرتے ہیں کہ آپ نبی ﷺکا تذکرہ کثرت سے فرماتے تھے اور جب بھی ان کا تذکرہ فرماتے، آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔
(محمد بن احمد الذہبی، سیر اعلام النبلائ: رقم الترجمہ ٢٦٢، محمد بن سعد ، الطبقات الکبریٰ :رقم الترجمہ ١٠٦٠)
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (م٣٢ھ)
سیّدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ السابقون الاوّلون اور راسخون فی العلم میں سے ممتاز صحابی رسول ہیں۔ مرد حضرات میں سے اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا چھٹا نمبر ہے۔ غرض آپ نے ابتدائے نزولِ قرآن سے لے کر وفات الرسول تک تمام حوادث کا مشاہدہ کیا۔ آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ مجھے قرآن حکیم کی ہر آیت کے بارے میں علم ہے کہ وہ کب کہاں اور کن حالات میں نازل ہوئی۔
(محمد بن احمد الذہبی، سیر اعلام النبلائ: رقم الترجمہ ٨٧)
سیّدہ عائشہ صدیقہرضی اللہ عنہا (م٥٧ھ)
سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانبی ﷺ کی سب سے چہیتی بیوی ہیں جو اپنی رخصتی سے لے کر نبی ﷺکی وفات تک ان کی خدمت کرتی رہیں، اس طرح آپ کو تقریباً آٹھ سال پانچ ماہ نبی ﷺکی معیت نصیب ہوئی۔ نبی ﷺکے اکثر عائلی اور ازدواجی معاملات آپ سے ہی مروی ہیں۔ مذکورہ بالا صحابہ کی طرح آپ بھی مکثرین حدیث میں شمار ہوتی ہیں۔(محمد بن احمد الذہبی، تذکرة الحفاظ: ج ١، ص ٢٥۔٢٦) مسند امام احمد میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی مرویات کی تعداد(مع تکرار) دوہزار چار سو سے زائد ہے۔
دورِ تابعین
تابعین سے مراد وہ ہستیاں ہیں جنھوںنے براہ راست صحابہ کرام سے کسب فیض کیا۔ صحابہ کرام نے اپنے ان تلامذہ کو محض علم ہی منتقل نہیں کیا، بلکہ محبت رسول ۖاور تقویٰ وتدیّن بھی تحفے میں دیے۔ جن تابعین نے علم ِ سیرت میں نام پیدا کیا ان میں سے بعض کا تذکرہ اجمالاً پیش خدمت ہے۔
امام زین العابدین علی بن حسین رحمة اللہ علیہ (م٩٤ھ)
شہید ِمظلوم سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے امام زین العابدین علی بن حسین علم و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ اہل بیت ِ رسول ﷺکے علم وحکمت کے امین تھے۔ اہل بیت کے علاوہ سیّدنا عبداللہ بن عمر ؓاور سیدنا ابوہریرہ ؓسے بھی کسب فیض کیا۔ امام ابوبکر ابن ابی شیبہ (م ٢٣٥ھ)فرماتے تھے کہ حدیث کی صحیح ترین سند وہ ہے جس میں امام زہری،امام علی بن حسین سے وہ اپنے والد حسین بن علی سے اور وہ اپنے والد علی بن ابو طالب سے روایت کریں۔(جلال الدین السیوطی، طبقات الحفاظ، ص ۸)
اگرچہ امام زین العابدین قلیل الحدیث ہیں، تاہم کتب سیرت میں بہت سی اہم روایات آپ سے منقول ہیں۔ آپ کے بیٹے امام ابوجعفر الباقر سے منقول سیرت کے اکثر وقائع آپ سے ہی مروی ہیں۔ آپ کے قلیل الحدیث سمجھے جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ آپ نے صحرائے کربلا میں اہل بیت پر ہونے والے ظلم وستم کا سرکی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ ظلم وبربریت کے یہ مناظر آپ کے ذہن پر ثبت ہو گئے تھے، جس شخص کے سارے گھر والے اور اعزہ و اقارب اس کی آنکھوں کے سامنے یوں بے دردی سے شہید کردیے جائیں، اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ ہم اس کا ادراک بھی نہیں کرسکتے۔ محض بیس بائیس سال کی عمر میں اس قدر شدید صدمات کا سامنا کرنے کے بعد آپ نے بقیہ زندگی تقریباً عزلت نشینی میں بسر کی تاہم اپنی اولاد کو علومِ نبویہ منتقل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔۔(محمد بن احمد الذہبی، تذکرة الحفاظ: ج ١، ص ۶۰)
امام عروہ بن زبیر بن العوّام رحمة اللہ علیہ (م٩٤ھ)
حواریٔ رسول سیّدنا زبیر بن العوام اور سیّدہ اسما بنت ابوبکر کے صاحبزادے، نبی اکرم ﷺکے بھانجے، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے نواسے امام عروہ بن زبیر ؒخلافت فاروقی کے آخری ایام میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد ووالدہ کے علاوہ سیّدہ عائشہ صدیقہ، سیّدنا علی ابن ابی طالب، سیّدنا ابوہریرہ،سیّدنا زیدبن ثابت، سیّدنا اسامہ بن زید، سیّدنا حکیم بن حزام، سیّدنا عبداللہ ابن عباس، سیّدنا عبداللہ بن عمر، سیّدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہم اور دوسرے بہت سے صحابہ سے کسب ِفیض کیا۔ کتب حدیث وسیرت میں آپ کی سینکڑوں مرویات منقول ہیں۔ آپ نے اپنا علم سیرت قلمبند کر رکھا تھا اور کثرت کے ساتھ واقعات سیرت بیان فرماتے تھے۔ امام محمد بن مسلم ابن شہاب الزہری ؒنے آپ سے براہِ راست علمِ سیرت سیکھا۔ صرف مسند امام احمد میں آپ کی ایک سو کے قریب مرویات وارد ہوئی ہیں۔ آپ کا شمار اہل مدینہ کے اجل و افضل علماء میں ہوتا تھا۔ امام ابن تیمیہ الحنبلی نے تصریح کی ہے کہ علم سیرت کے سب سے بڑے عالم اہل مدینہ ہیں۔ آپ کا شمار مدینہ منورہ کے فقہائے سبعہ میں کیا جاتا ہے۔
(محمد بن احمد الذہبی، سیر اعلام النبلا: ج ۴، ص ۴۲۱، رقم الترجمہ ۶۶۸، محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ:رقم الترجمہ ۲۱۴۰)
ڈاکٹر محمد مصطفےٰ الاعظمی نے ابوالاسود کی روایت سے امام عروہ بن زبیر ؒ کی مرویات ”مغازیٔ عروہ بن زبیر” کے نام سے الگ جمع کردی ہیں، جسے مکتب التربیة العربی لدول الخلیج نے شائع کیا ہے۔
امام ابان بن عثمان بن عفان رحمة اللہ علیہ(م١٠٥ھ)
امام ابان بن عثمان خلیفہ ثالث عثمان بن عفان کے برگزیدہ سپوت تھے۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دورِ خلافت میں نو سال حاکم ِمدینہ کے عہدہ پر فائزرہے۔ اہل مدینہ کے جلیل القدر علما ئے حدیث میں سے تھے۔ علم سیرت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اپنے باپ کی خلافت میں ولی العہد تھا، جب وہ ٨٢ھ میں حج کے لیے مکہ آیا تو اس نے امام ابان بن عثمان سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے سیرت کی ایک کتاب لکھ دیں، چنانچہ انہوں نے ایک کتاب سیرت لکھ کر سلیمان بن عبدالملک کو تحفہ میں دی۔ اگرچہ یہ کتاب ہم تک نہیں پہنچ سکی، تاہم یقینا یہ سیرت النبی ﷺکا عمدہ نمونہ رہی ہو گی۔
(زبیر بن بکار، الاخبار الموفقیات،ص ۳۳۲، مطبعۃ العانی، بغداد، محمد بن احمد الذہبی، تاریخ الاسلام: ج ۳، ص ۱۹، سیر اعلام النبلا: ج ۴، ص ۳۵۱۔۳۵۳، رقم الترجمہ ۶۳۳)
امام سعید بن المسیّب رحمة اللہ علیہ (م٩٤ھ)
امام سعید بن المسیب خلافت فاروقی کے دوسرے سال کے اختتام پر پیدا ہوئے۔ علم وفضل کے اعتبار سے کبار تابعین میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ آپ نے سیّدناعثمان بن عفان، سیّدنا علی، سیّدنا ابوہریرہ، سیّدنا عباس، سیّدنا عبداللہ بن عمر اور سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم ے علومِ نبویہ سیکھے۔ صحابہ کرام کے بعد مدینہ منورہ کے سب سے ممتاز مفتی تھے۔ حق گوئی اور دیانت آپ کا امتیازی وصف تھا۔ فقہ، تفسیر،حدیث، سیرت اور ایام العرب کے ممتاز عالم تھے۔ کتب سیرت میں جابجا آپ کی مرویات منقول ہیں۔ امام زہری نے حدیث وسیرت میں آپ سے بہت زیادہ استفادہ کیا۔ آپ فقہائے سبعہ میں سے تھے۔
(محمد بن احمد الذہبی، سیر اعلام النبلا: ج ۴، ص ۲۱۷۔۲۴۶، رقم الترجمہ ۵۸۸، محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ:رقم الترجمہ ۲۰۹۴)
امام مجاہدبن جبر رحمة اللہ علیہ(م١٠٣ھ)
امام التفسیر والحدیث امام مجاہد بن جبر رحمة اللہ علیہ سیّدنا عبداللہ بن عباس کے مایہ ناز شاگرد تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میںنے سیّدنا عبداللہ بن عباس سے تیس بار قرآن پڑھا ہے اور ہر بار میں نے ان سے ہر آیت کے شانِ نزول اور معانی واسرار سیکھے۔ مذکورہ صحابی کے علاوہ آپ نے سیّدنا عبداللہ بن عمر، سیّدنا ابو سعید الخدری اور سیّدة عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے کسب فیض کیا۔ آپ کا شمار ان کبارتابعین میں ہوتا ہے ، جو علوم ِ نبویہ کے جلیل القدر امام تھے۔ کتب تفسیر آپ کے اقوال سے بھری پڑی ہیں کیونکہ آپ کو علم التفسیر میں حجت مانا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں آپ علم سیرت کے بھی امام تھے، کیونکہ تفسیر القرآن سیرت کا اہم ماخذ ہے۔
(محمد بن احمد الذہبی، سیر اعلام النبلا: ج ۴، ص ۴۴۹، رقم الترجمہ ۶۷۵)
امام سالم بن عبداللہ رحمة اللہ علیہ (م١٠٦ھ)
سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پوتے امام سالم بن عبداللہ ؒ کا شمار ان فقہائے سبعہ میں ہوتا ہے، جو مدینہ منورہ کے سب سے زیادہ جلیل القدر مفتی تھے۔ امام احمد بن جنبل ؒاور امام اسحاق بن ابراہیم الحنظلی ؒفرمایا کرتے تھے کہ حدیث کی سب سے زیادہ صحیح سند وہ ہے جس میں امام زہری ، امام سالم بن عبداللہ سے اور وہ اپنے والد عبداللہ بن عمر سے روایت کریں۔ آپ نے زیادہ تر اپنے والدعبداللہ بن عمر، سیّدة عائشہ صدیقہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے اکتسابِ علم کیا۔
(محمد بن احمد الذہبی، سیر اعلام النبلا: ج ۴، ص ۴۵۷۔۴۶۷، رقم الترجمہ ۶۶۸، تذکرۃ الحفاظ: ج ۱ ص ۶۸)
امام ابوالعالیہ رحمة اللہ علیہ(م٩٠ھ)
امام ابوالعالیہ رُفیع بن مہران الریاحی ؒ تفسیر، حدیث اور سیرت کے بلند پایہ امام ہیں۔ آپ نے نبی ﷺ کا زمانہ پایا مگر ان کی وفات کے دوسال بعد خلافت صدیقی میں اسلام قبول کیا۔ آپ نے سیّدنا ابوبکر صدیق اور سیّدنا عمرکا زمانہ بھی پایا بلکہ خلیفہ ثانی کی اقتداء میں صلوٰة ادا کرنے کا شرف بھی حاصل کیا۔ آپ نے سیّدنا عمربن خطاب ،سیّدنا اُبیّ بن کعب، سیّدنا ابوذرالغفاری، سیّدنا عبداللہ بن مسعود، سیّدنا عبداللہ بن عباس، سیّدنا زید بن ثابت، سیّدناابو موسیٰ الاشعری، سیّدنا ابو ایوب الانصاری اور سیّدةعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم سے کمال فیض حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ صحابہ کرام کے بعد علم التفسیر کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ نے صرف سیّدنا عمر بن خطابے تین بار مکمل قرآن پڑھا اور اس کی تفسیر سیکھی۔ امارتِ بصرہ کے ایام میں سیّدنا عبداللہ بن عباسآپ کواپنے برابر تخت پر بیٹھاتے تھے، جبکہ قریشی زعماء نیچے چٹائی پر بیٹھے ہوتے تھے۔ امام ابوزرعہ الدمشقیاور امام ابوحاتم الرازی نے آپ کی توثیق کی ہے۔ علم کے ساتھ ساتھ تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔
(محمد بن احمد الذہبی، سیر اعلام النبلا: ج ۴، ص ۲۰۷۔۲۱۳، رقم الترجمہ ۵۸۵، محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ:رقم الترجمہ ۵۱۶۶)
امام ابو عمر عامر الشعبی رحمة اللہ علیہ(م١٠٣ھ)
امام ابوعمرعامر بن شراحیل الشعبی ؒخلافت فاروقی کے دوران ١٧ہجری میں پیدا ہوئے۔ حدیث و سیرت کے بے مثال عالم تھے۔ آپ نے تقریباً پانچ سو صحابہ کراکی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ جن میں سے سیدنا علی، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عبداللہ بن جریر بن عبداللہ، سیدنا مغیرہ بن شعبہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ کمالِ فیض پایا۔ آپ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کے سب سے بڑے شیخ تھے۔ صحابہ کرام کے دورِ سعید سے مسند افتاء پر فائز تھے۔ علم سیرت کی باقاعدہ تعلیم دیا کرتے تھے۔ خلیفہ عمربن عبدالعزیز ؒکے زمانہ میں عہدئہ قضا پر بھی متمکن رہے۔ آپ نے بلا کا حافظہ پایا تھا۔ تحصیل حدیث کے لیے آپ قلم دوات کے محتاج نہ تھے۔ کسب ِکمال کے بعد آپ فرمایا کرتے تھے کہ بیس سال گزرگئے میں نے اپنے سے زیادہ عالم بالحدیث نہیں پایا۔ امام ابراہیم النخعیؒ (م ٩٥ھ) جیسے جلیل القدر فقیہ و محدث آپ کے لیے اپنی نشست خالی کردیتے تھے۔
(محمد بن احمد الذہبیؒ، تذکرۃ الحفاظ:ج ۱، ۶۳۔۶۸)
امام محمد بن مسلم ابن شہاب الزہری رحمة اللہ علیہ(م ١٢٤ھ)
امام محمد بن مسلم بن شہاب الزہریؒ ٥٠ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ مدینہ منورہ علوم کا قدیم مرکزہے، چنانچہ آپ نے یہیں پر علوم دینیہ کی تحصیل کا آغاز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت قوی حافظہ عطا فرمایا تھا جس کی نظیر صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ آپ کے حافظہ کی سرعت و قوت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے صرف اسّی (٨٠) دنوں میں مکمل قرآن حفظ کر لیا تھا۔ فنِ قرأت و کتابت اور اعرابِ قرآن سیکھنے کے بعد آپ تحصیل حدیث میں مشغول ہوگئے۔ آپ کو سیّدنا عبداللہ بن عمر، سیّدنا انس بن مالک اور سیّدنا سہل بن سعد رضی اللہ سے سماعت ِ حدیث کا موقع میسر آیا۔ اس لئے آپ کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ مذکورہ صحابہ کرام ؓکے علاوہ کبار تابعین سے بھی کسب فیض کیا، جن میں امام سعید بن مسیبؒ، امام عروہ بن الزبیرؒ، امام سالم بن عبداللہؒ، امام زین العابدین علی ؒبن حسینؓ سر فہرست ہیں۔ امام زہری نے تمام بلادِ اسلامیہ میں واقع مراکز حدیث کا سفر کیا اور وہاں مقیم کبار تابعین سے علم ِ حدیث وسیرت حاصل کیا۔ مذکورہ بالا تابعین کی مانند آپ بھی جملہ علومِ نبویہ کے جامع تھے۔ امام عمر بن عبدالعزیز (م ١٠١ھ) آپ کے تبحر علمی کے دلدادہ تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ سنت نبوی ﷺکا جامع عالم زہری کے سوا کوئی نہ رہا۔ چنانچہ جب وہ خلیفہ بنے تو انہوں نے امام زہری کو تدوین حدیث کا فریضہ سر انجام دینے کا حکم دیا جس پر آپ نے علمِ حدیث کو مدوّن کرنا شروع کیا۔
(محمد بن احمد الذہبی،تذکرۃ الحفاظ:ج ۱، ص ۸۳۔۸۵)
امام زہری کی عدالت و ثقاہت پر محدثین عظّام کا اجماع و اتفاق ہے۔ امام محمد بن احمد الذہبی
٧٤٨ھ) نے آپ کو اَعلم الحُفّاظ (حفاظ حدیث میں سب سے بڑے عالم) کے لقب سے یاد کیا ہے۔ سابقہ سطور میں مذکور ہوا کہ امام احمدؒ بن حنبل، امام اسحاق بن ابراہیم الحنظلی اور امام ابن ابی شیبہ کے نزدیک حدیث کی صحیح ترین سند میں امام زہری مرکزی راوی ہیں۔ امام ابن حبان البستی، کتاب الثقات، رقم الترجمہ ۵۱۶۲) کا قول ہے کہ امام زہری ؒنے دس صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ (محمد
امام لیث بن سعدؒفرماتے تھے کہ میں نے امام زہری ؒسے زیادہ جامع شخصیت نہیں دیکھی۔ امام زہری ؒ خود فرماتے ہیں کہ میں نے آٹھ سال امام سعید بن مسیب ؒکے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا۔ امام عمروبن دینارؒ
کہ امام زہری کے لئے درہم و دینار کی حیثیت بکری کی مینگنیوں کے برابر تھی۔ امام سفیان بن عیینہ ؒ
فرماتے ہیں کہ امام زہری کی وفات کے وقت دنیا میں ان سے بڑا عالم کوئی نہ تھا۔ امام علی بن عبداللہ المدنی ؒ
فرماتے ہیں کہ ثقہ علمائے حدیث کے علم کا مدار چھ لوگوں پر ہے، حجاز میں امام زہری ؒاور امام عمروبن دینارؒ، بصرہ میں امام قتادہؒ اور یحییٰ بن کثیر ؒاور کوفہ میں امام ابو اسحاق ؒاور امام اعمشؒ
امام ابوالزناد ؒ
فرماتے ہیں کہ ہم صرف حلال وحرام سے متعلق احادیث لکھا کرتے تھے، جبکہ امام زہریؒ جو بھی حدیث سنتے اسے لکھ لیتے تھے، چنانچہ جب ہمیں ان کے علم کی حاجت ہوئی تو معلوم پڑا کہ وہ تمام علمائے حدیث سے زیادہ عالم ہیں ۔ امام صالح بن کیسانؒ
فرماتے ہیں میں امام زہری کا ہم جلیس تھا، چنانچہ پہلے ہم نے سنن نبوی لکھنے کا ارادہ کیا اور وہ ہم نے لکھ لیں۔ پھر امام زہری ؒ کہنے لگے کہ آؤ اقوال صحابہ بھی لکھ لیں۔ امام زہری ؒنے تو اقوال صحابہ لکھ لئے مگر ہم نے نہ لکھے۔
(احمد بن علی ابن حجر العسقلانیؒ، تہذیب التہذیب، رقم الترجمہ ۸۷۳۴)
مؤرّخین کا اتفاق ہے کہ صحابہ
و تابعین کے علم سیرت کا ذخیرہ پہلے پہل امام زہری ؒنے مدوّن کیا، چنانچہ انہیں علم ِسیرت کا بلاشرکت ِغیر مستند امام مانا جاتا ہے۔استاد سہیل ذکار نے امام زہری ؒ کی روایاتِ سیرت ”مغازی ابن شہاب الزہری ” کے نام سے شائع کی ہیں۔ ان کا اصل مأخذ مصنف عبدالرزاق ہے۔ تاہم امام زہری کے دو بلاواسطہ شاگردوں نے امام زہری کا علم سیرت ان کے زمانہ میں ہی باقاعدہ مرتب کتابوں کی شکل میں مدوّن کرنے کا شرف حاصل کیا، ان فضلاء کے نام امام موسیٰ بن عقبہؒ اور محمد بن اسحاق المطّلبی ؒہیں۔
دورِ اتباع تابعین:
تابعین کے درج ذیل تلامذہ کانام علم سیرت میں نمایاں ہوا۔
امام موسیٰ بن عقبہ المدنی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۴۱ ھ)
موسیٰ بن عقبیٰ الاسدی المدنی ؒ ثقہ و متقن حافظ الحدیث تھے، جنہوں نے صحابیہ ام خالد بن الولید رجیا للہ عنہا کے علاوہ امام عروہ بن زبیرؒ، امام سالم بن عبداللہ ؒ، امام ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن ؒ اور امام زہری ؒ وغیرہ سے کسبِ فیض کیا، جب کہ ان سے امام مالک بن انسؒ، امام سفیان بن عیینہؒ اور امام عبداللہ بن مبارک ؒ جیسے جلیل اقلدر آئمہ نے استفادہ کیا۔آپ نے امام زہری ؒ کے علمِ سیرت کی نشرو اشاعت میں مرکزی کردار ادا کیا۔چناں چہ اس موضوع پر آپ کی تالیفِ لطیف مغازی موسیٰ بن عقبہ کے نام سے معروف ہے۔اپنے زمانۂ تالیف سے آج تک یہ سیرت کا نہایت معتمدو مستند مأخذ رہا ہے۔امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا کہ مغازی موسیٰ بن عقبہ کو لازم پکڑو کیوں کہ وہ ثِقہ(قابلِ اعتماد) ہیں۔(محمد بن احمد الذہبی،تذکرۃ الحفاظ:ج ۱، ص ۱۱۱۔۱۱۲)
امام موسیٰ بن عقبہ ؒ بالاتفاق محدثین ثِقہ و ثَبَت ہیں۔امام احمد بن علی ابن حجر العسقلانی ؒ ان کے بارے فرماتے ہیں:
ثِقہفقیہامامفیالمغازی (تقریب التہذیب، ج۲، ص ۲۲۶، رقم الترجمہ ۷۰۱۸)
امام بخاری ؒاور امام مسلم ؒ نے بھی آپ کی عدالت و ثقاہت تسلیم کرتے ہوئے آپ کی مرویات صحیحین میں شامل کی ہیں، نمونہ کے طور پر ملاحظہ کیجیے صحیح البخاری : رقم الحدیث ۱۴۱۶، ۳۰۲۱،۱۵۴۱، ۳۶۳۴، ۶۶۲۸، اور صحیح المسلم :رقم الحدیث ۱۱۸۶، ۱۷۴۶، ۲۴۵۱ وغیرہ۔ مسند امام احمد میں ان سے ۸۰ سے زائد احادیث مروی ہیں۔اصل مغازی موسیٰ بن عقبہ عرصۂ دراز سے نایاب ہے، تاہم ابو مالک محمد باقشیشی نے ۱۹۹۴ عیسوی میں قدیم مصادر سے اخذ کرکے امام موسیٰ بن عقبہؒ کی مرویات مغازی موسیٰ بن عقبہ کے نام سے جمع و طبع کردی ہیں۔۷۸۹ ھ میں یوسف بن قاضی شہیۃ نے مغازی موسیٰ بن عقبہ کا ایک انتخاب و اختصار شائع کیا تھا جس کا ایک اصل قطعہ برلن (جرمنی) بروس لائبریری میں محفوظ ہے۔امامبخاری نے امام موسیٰ بن عقبہ ؒ کی نوّے ( ۹۰) احادیث، امام مسلم نے چوالیس (۴۴)، امام ترمذیؒ نے پچیس (۲۵)، امام ابو داؤد ؒ نے اٹھارہ (۱۸)، امام ابن ماجہ ؒ نے سترہ (۱۷) اور امام نسائی ؒ نے آٹھ (۸) روایات نقل کی ہیں۔یوں صرف صحاحِ ستہ میں ان کی مرویات کی تعداد ۲۰۲ بنتی ہے۔جبکہ امام ابوالقاسم الطبرانیؒ نے اپنی کتاب المعجم الکبیر میں امام موسیٰ بن عقبہ ؒ کی ۲۳۷ روایات جمع کی ہیں۔(ابو مالک محمد باقشیش، مقدمہ مغازی موسیٰ بن عقبہ، ص ۴۹۔۵۰)
امام احمد بن حسین البیہقی ؒ نے دلائل النبوۃ میں، امام ابولفداٗ اسماعیل بن کثیر ؒ نے البدایہ والنہایہ میں اور امام ابن قیم الجوزیہؒ نے زادالمعاد میں اصل مغازی موسیٰ بن عقبہ سے جابجا اقتباس کیا ہے۔
امام محمد بن اسحاق المطّلبی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۵۱ھ)
امام محمد بن اسحاق المطّلبی المدنی رحمۃ اللہ علیہ علمِ سیرت کے وہ پہلے امام ہیں جن کی کتاب کتاب المغازی مکمل صورت میں تقریباً تمام ادوار میں دستیاب رہی ہے اور آج بھی مطبوعہ موجود ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا آپ بھی امام موسیٰ بن عقبہ کی طرح امام محمد بن مسلم ابن شہاب الزہری ؒ کے خاص تلمیذ ہیں۔اگرچہ محدثین کے ہاں آپ کی مرویات کا مرتبہ امام موسیٰ بن عقبہ ؒ کی مرویات سے کمتر ہے، تاہم جمپور محدثین نے آپ کی روایات قبول کی ہیں۔امام زہریؒ نے اپنےا س شاگرد کے بارے میں خود فرمایا تھا کہ جو شخص علمِ سیرت حاصل کرنا چاہتا ہو اس پر لازم ہے کہ مولیٰ قیس بن مخرمہ (محمد بن اسحاقؒ) کی طرف رجوع کرے۔
(محمد بن اسماعیل البخاری، التاریخ الکبیر)
امام محمد بن حبان البُستی ؒ نے ان کا تذکرہ کتاب الثقات میں کیا ہے (رقم الترجمہ ۱۰۵۳۴) رئیس المحدثین امام احمد بن حنبل ؒ نے انہیں حَسَنُ الحَدِیث قراردیا ہے اور المسند میں ان سے کثرت روایات نقل کی ہیں۔(محمد بن احمد الذھبیؒ، تذکرۃ الحفاظ، ج ۱، ص ۱۳۰)
امام بخاری ؒ نے صحیح البخاری ،کتاب المغازی، کے باب غزوہ بنی المصطلق میں ان کا قول تعلیقاً نقل کیا ہے اوراسی طرح تاریخ الکبیر کے مقدمہ میں رسول اکرم ﷺ کا نسب اطہر بلا نقد نقل کیا ہے۔
امام احمد بن علی ابن حجر العسقلانی ؒ امام محمد بن اسحاق المطّلبی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
اما ھو فی نفسہ فصدوق و ھو حجۃ فی المغازی عندا لجمھور (القول المسدّد، ص ۴۴)
’’ امام محمد بن اسحاق المطّلبی رحمۃ اللہ علیہ بذاتِ خود صدوق (سچے اور قابلِ اعتماد) ہیں اور جمہور علمأ کے نزدیک سیرت النبی ﷺ میں حجت ہیں۔‘‘
امام محمد بن اسحاق المطّلبی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا دیدار کرنے کا شرف حاصل کیا ۔ آپ کو امام سعید بن المسیب ؒ، امام ابان بن عثمان ؒ جیسے جلیل قدر تابعین سے فیضیاب ہونے کا موقر ملا ہے۔ان کے علاوہ جن آئمۂ حدیث میں آپ نے استفادہ کیا ان میں امام ابو جعفر الباقر الہاشمیؒ ، امام مکحول الشامیؒ، امام عمرو بن شعیبؒ، امام قاسم بن محمد ؒ،امام عبدالرحمٰن بن القاسم ؒ، امام ابو بکر بن حزم ؒ، امام صالح بن کیسانؒ اور امام شعبہ بن الحجاج ؒ کے نام سرِ فہرست ہیں۔آپ کے جن تلامذہ کا نام فلکِ علم پر روشن ہوا ان میں امام یحیٰ بن سعید الانصاریؒ، امام سفیان بن عیینہؒ، امام یزید بن ہارونؒ، امام سفیان الثوریؒ زیادہ مشہور ہیں۔امام محمد بن ادریس الشافعی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص علمِ سیرت میں ماہر ہونا چاہتا ہو اسے امام محمد بن اسحاق المطّلبی رحمۃ اللہ علیہ کا عیال بننا پڑے گا۔امام سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ میں تقریباً ستر سال امام محمد بن اسحاق المطّلبی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں بیٹھتا رہا ہوں ، اہلِ مدینہ میں کوئی بھی عالم ان پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگاتا تھا۔امام شعبہ بن الحجاج ؒ فرماتے ہیں: محمد بن اسحاق امیرالمؤمنین فی الحدیث یعنی امام محمد بن اسحاق المطّلبی رحمۃ اللہ علیہ حدیث میں امیر المؤمنین ہیں۔(محمد بن احمد الذہبیؒ، سیر اعلام البنلأ)
امام محمد بن احمد الذہبیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
و کان احد اوعیۃ العلم حِبراً فی معرفۃ المغازی والسیر (محمد بن احمد الذہبی،تذکرۃ الحفاظ:ج ۱، ص ۱۳۰) ’’علم کے بھرے ہوئے ظروف میں سے ایک تھے، سیرت و تاریخ کے متبحر عالم تھے۔‘‘
انسان کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت کیوں ہے؟
یہ مایوس دنیا یہ بے خوف دنیا
اسے چاہئے پھر بشیراً نذیراً
دلوں کی صدا ہے، لبوں پہ دعا ہے
سراجاً منیراً، سراجاً منیراً
انسان کو اپنی پیدائش سے لے کر موت تک نہایت متنوع حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عمر میں اضافہ کے ساتھ اسے نئے اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر مسائل سے واسطہ پڑتا ہے، شیرخوارگی میں اس کے مسائل سب سے کم ہوتے ہیں، لڑکپن میں ان مسائل میں اضافہ ہوتا ہے اور جوانی میں یہ مسائل اپنے عروج کو پہنچ جاتے ہیں۔ عمر کے ہر درجہ میں مسائل کے حل کے لیے اسے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر انسان کو ان گھمبیر مسائل کے حل کے لیے محض سعی و خطا
کے اُصول کے رحم وکرم پر چھوڑدیا جائے تو انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان میں ہوشربا اضافہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی بہت مختصر ہے، وہ سعی و خطا کے عمل کے ذریعے اپنے سبھی مسائل حل نہیں کرسکتا اس لیے اسے رہنمائی کی ضرو رت پڑتی ہے۔ اسی رہنمائی کے لیے بچے کو مدرسہ میں بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ زندگی گزارنے کے اصول اور مہارتیں سیکھ سکے، لیکن کیا مدرسہ انسان کو سب کچھ سکھا دیتا ہے؟ یقینا مدرسہ بچے کی ذہنی عمر کے کم ہونے کے باعث اسے زندگی کے سبھی اصول نہیں سکھا سکتا۔ خصوصاً انسان کو اپنی عملی زندگی میں جن مسائل کا سامنا کرنا ہوتا ہے، مدرسہ بچے میں ان مسائل کا سامنا کرنے کی ہمت تو پیدا کرسکتا ہے ، مگر عملاً اس کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ یہی حال ثانوی و اعلیٰ درجہ کے مدارس کا ہے۔
قطع نظر اس کے کہ مدارس میں کس نظریۂ تعلیم کو بنیاد بنایا گیا ہے، وہ انسان کے عملی مسائل خود حل نہیں کرسکتے۔ ان مسائل میں سے تو خود انسان کو براہِ راست گزرنا ہے۔ اس تمام صورت حال میں انسان کو ایک ایسے ہادیٔ کامل کی ضرورت ہے جو قدم قدم پر اس کی رہنمائی کرسکے، جو اس کے واقعی و عملی مسائل حل کرسکے، بالخصوص انسان جن ذہنی کیفیات میں مبتلا ہوتا ہے، اس کا صحیح ادراک کرکے اس کے نفسیاتی و شخصی مسائل کو حل کرنے میں اس کی مدد کرے۔
اسی طرح نظریۂ تعلیم بذاتِ خود بہت اہم ہے، ہر نظریۂ تعلیم کسی ایک یا ایک سے زائد شخصیات کو مثالی نمونہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ آج دنیا میں جن شخصیات کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے، ان میں عموماً مختلف زمانوں کے نیک سیرت رہنما ہوتے ہیں، بعض نظریاتِ تعلیم کسی نبی مرسل کو نمونہ کے طور پر اپناتے ہیں تو بعض کسی پیروِ نبی کو ، جبکہ بعض دوسرے نظریاتِ تعلیم کسی سائنسدان، ادیب، شاعر، فلسفی یا بادشاہ کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی ہستی کو نمونہ بنایا جائے، سوال یہ ہے کہ آیا وہ ہستی ہادیٔ کامل کہلانے کی مستحق ہے؟ تاکہ وہ زندگی کے سبھی مسائل میں رہنمائی فراہم کرسکے۔ جب دِقت نظر اور غیرجانبداری سے مذکورہ مثالوں
کا جائزہ لیا جاتا ہے، تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اگر دنیا میں کسی ہستی کو ہادیٔ کامل تسلیم کیا جاسکتا ہے، تو وہ صرف ایک ہستی ہے اور وہ ہے احمد مجتبیٰ، محمد مصطفےٰ ﷺکی۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے اس دعوے کو عقیدت اور عقیدے کا شاخسانہ سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے، مگر اس دعوے کو دلائل سے جھٹلانا ممکن نہیں۔ زیرنظر کتاب اسی دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے ضبط تحریر میں لائی گئی ہے۔ اس کتاب کی ایک ایک سطر یہ ثابت کرے گی کہ انسانی دنیا کے لیے اگر کوئی ہستی ہادیٔ کامل کے منصب پر فائز ہے تو وہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔
نبی اکرم ﷺنے زمین پر بحیثیت انسان زندگی گزارنے کے جو سنہری اُصول و قواعد وضع کیے، ان پر پہلے خود عمل کرکے دکھایا۔ انسانی تاریخ میں بہت سے لوگوں نے انقلابی نظریے پیش کیے، عظیم الشان قوانین وضع کیے، قابل تحسین فرامین جاری کیے، مگر ان کا عملی نمونہ پیش کرنے والے قائدین کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ یقینا تمام انبیاء نے نیکی، خداترسی، محبت و الفت، سچائی، ایمانداری، عفو و درگزر، ایفائے عہد اور دیگر اخلاقِ فاضلہ کی تعلیم دی، مگر آج ان کی تعلیم محض قدیم صحیفوں اور کتبوں تک محدود ہے۔ ان کے تعلیم کردہ اخلاقِ فاضلہ کا عملی نمونہ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود نہیں کیونکہ خود ان کی اپنی زندگیاں تاریخ کی گرد میں گم ہوچکی ہیں۔ اس کے برعکس پیغمبر اسلام کی زندگی آج بھی شمس بازغہ کی صورت روشن ہے، ان کی حیاتِ طیبہ کا اِک اِک گوشہ محفوظ ہے اور ان کی سیرت کاملہ کا نور چہار دانگ عالم پھیل رہا ہے۔ دنیا میں کئی تہذیبیں اُبھریں اور مٹ گئیں مگر امام المرسلین محمد رسول اللہ
نے جو اسلامی تہذیب برپاکی وہ آج تک قائم ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک قائم و دائم رہے گی۔
روشن ہوئی حیات کی جس سے روش روش
وہ نور کا مینار ہے سیرت حضور کی
محمد رسول اللہ ﷺکی حیاتِ مبارکہ اس قدر متنوع اور ہمہ جہت ہے کہ اس میں انسان کو اپنی زندگی کے تمام مراحل میں پیش آنے والے مسائل کا شافی و کافی حل مل جاتا ہے۔ محض دنیا ہی نہیں آخرت سنوارنے کے لیے بھی آپ ۖکا اُسوہ کامل ہمارے لیے رہنمائی کے لیے موجود ہے۔ انسان کیاہے؟ انسان کہاں سے آیا ہے؟ اس دنیا میں اس کے فرائض منصبی کیا ہیں؟ اس کا انجام کیا ہوگا؟ کیا موت سے معاملہ ختم ہوجائے گا یا اس کے بعد بھی کوئی دنیا ہے، جس کے لیے ہمیں تیاری کرنا ہے؟ موت کے بعد کی زندگی میں کن حالات سے دوچار ہونا ہوگا؟ کیا اُخروی زندگی دنیا کا عکس ہوگی یا اس سے کوئی مختلف شے؟ کیا انسان کے مرنے کے بعد پیچھے رہ جانے والی دنیا ہمیشہ قائم رہے گی یا اس کو بھی فنا ہے؟ اگر دنیا فنا ہوگئی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا کوئی نئی دنیا بسائی جائے گی؟ کیا اس نئی دنیا میں ہمارا بھی کوئی مقام ہوگا؟ نئی دنیا میں ہمارے مقام کا تعین کس بنیاد پر ہوگا؟ کیا وہاں مال و دولت، دنیاوی جاہ و حشمت اور آل و اولاد کام دے گی یا ہمارے اعمال ہمارے مقام کا فیصلہ کریں گے؟ غرض اس طرح کے سبھی سوالات کا عقلی جواب امام المرسلین محمد رسو ل اللہﷺ
کی سیرتِ طیبہ میں موجود ہے۔ وہ تمام نفسیاتی رویے جو انسان سے سرزد ہوسکتے ہیں، ان کے بارے معتدل و پسندیدہ راہ کیا ہے اور
ناپسندیدہ رویہ کیا ہوتا ہے؟ ان سب کے بارے کامل رہنمائی محمد رسول اللہ ۖکی سیرت طیبہ میں ہی مل سکتی۔ ایک ماہر ترین نفسیات دان بھی اپنی عقل و خرد سے ایسی رہنمائی فراہم نہیں کرسکتا جو پیغمبر اسلام ﷺنے فراہم کی۔
آئے نہ اس کے کام جہاں بھر کے فلسفے
انساں کو پھر ہے رحمتِ عالم کی جستجو
ہر اک جہاں پہ ان کا کرم ان کی رحمتیں
اُن محسن ِ عظیم پہ صلّوا وسلّموا
وہ تمام اخلاقِ فاضلہ جن کی تعلیم جملہ انبیأ f
دیتے آئے ہیں ان کا کامل عملی نمونہ آپ ﷺکی ذاتِ اقدس ہے۔ آپ کا اُسوہ ایسا کامل ہے کہ آپ کے عقیدت مند ہی نہیں آپ کے جانی دشمن بھی اس کے کمال و جمال کے معترف تھے، آپ کے دشمنوں نے کبھی آپ کے اخلاقِ فاضلہ پر انگلی نہیں اُٹھائی، کبھی کوئی ایک شخص بھی آپ کے کردار پر حرف گیری نہیں کرسکا۔
رؤف آگئے ہیں، رحیم آگئے ہیں
جہاں میں رسولِ کریم آگئے ہیں
بپا شور ہے گھر میں فرعونیوں کے
کلیم آگئے ہیں ، کلیم آگئے ہیں