رسول اکرم ﷺ کے غزوات کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے قرآن حکیم اور سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں غور کرنا ضروری ہے۔ غزوات کی بنیادی وجہ اسلام کی حفاظت، حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرنا، اور ظلم و ستم کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہاں قرآن حکیم کے حوالے سے رسول اکرم ﷺ کے غزوات کے مقاصد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے:
1. دین کی حفاظت اور فروغ
رسول اکرم ﷺ کے غزوات کا ایک اہم مقصد دین اسلام کی حفاظت اور فروغ تھا۔ قریش اور دیگر قبائل مسلمانوں کو اسلام قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان ظالموں سے بچانے اور دین کو قائم کرنے کا حکم دیا۔
اللہ فرماتا ہے:
- “وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِ”
(البقرہ 2:193)
ترجمہ: “اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔”
2. ظلم کا خاتمہ اور مظلوموں کی مدد
غزوات کے ایک اور اہم مقصد ظلم کا خاتمہ اور مظلوموں کی مدد تھی۔ مسلمانوں کو مکہ میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور ان کے حقوق چھین لیے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے دفاع اور مظلوموں کی مدد کے لیے لڑنے کا حکم دیا۔
- “وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ”
(النساء 4:75)
ترجمہ: “اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور کمزوروں (مظلوموں) کی مدد کے لیے نہیں لڑتے؟”
3. دفاعی جنگ اور امن کا قیام
اسلام میں جنگ کا مقصد امن کا قیام تھا، نہ کہ فتنہ و فساد۔ رسول اکرم ﷺ کے غزوات اکثر دفاعی نوعیت کے تھے۔ جب کفار نے مسلمانوں پر حملہ کیا یا انہیں زبردستی جنگ میں دھکیلا، تو مسلمانوں نے اپنے دفاع کے لیے جنگ کی۔
- “وَقَٰتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوٓاْۚ”
(البقرہ 2:190)
ترجمہ: “اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں، اور زیادتی نہ کرو۔”
4. باطل کا مقابلہ اور حق کی سربلندی
غزوات کا ایک اور اہم مقصد باطل طاقتوں کو شکست دینا اور حق کی سربلندی قائم کرنا تھا۔ کفار مکہ اور دیگر قبائل اسلام کو مٹانے کی کوشش کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ کے پیغام کو روکتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حق کے لیے جدوجہد کا حکم دیا۔
- “فَإِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَضَرۡبَ ٱلرِّقَابِ”
(محمد 47:4)
ترجمہ: “پھر جب تم کفار سے آمنے سامنے ہو جاؤ تو ان کی گردنیں مارو۔”
5. عہد شکنی اور دشمنوں کے حملوں کا جواب
کفار نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو بار بار توڑا اور مسلمانوں پر حملے کیے۔ اس لیے غزوات کا مقصد معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینا اور مسلمانوں کو نقصان سے بچانا تھا۔
- “وَإِن نَّكَثُوٓاْ أَيۡمَٰنَهُم مِّنۢ بَعۡدِ عَهۡدِهِمۡ وَطَعَنُواْ فِي دِينِكُمۡ فَقَٰتِلُوٓاْ أَئِمَّةَ ٱلۡكُفۡرِ”
(التوبہ 9:12)
ترجمہ: “اور اگر وہ اپنے عہد کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں، تو تم کفر کے سرداروں سے جنگ کرو۔”
6. فتنہ و فساد کا خاتمہ
اسلام میں جنگ کا مقصد فتنہ و فساد کا خاتمہ اور زمین پر عدل و انصاف کا قیام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مسلمانوں کو زمین پر امن اور عدل کا قیام کرنا ہے اور فتنہ و فساد کا خاتمہ کرنا ہے۔
- “فَإِنِ ٱنتَهَوۡاْ فَلَا عُدۡوَٰنَ إِلَّا عَلَى ٱلظَّٰلِمِينَ”
(البقرہ 2:193)
ترجمہ: “پھر اگر وہ (فتنہ سے) باز آ جائیں تو کسی پر زیادتی نہیں کی جائے گی سوائے ظالموں کے۔”
خلاصہ:
رسول اکرم ﷺ کے غزوات کا مقصد دین اسلام کی حفاظت، ظلم کا خاتمہ، مظلوموں کی مدد، حق کی سربلندی، اور امن و انصاف کا قیام تھا۔ غزوات کو صرف دفاعی اور اصلاحی مقاصد کے لیے کیا گیا تاکہ زمین پر فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو اور انسانیت کو عدل و انصاف فراہم کیا جا سکے۔ قرآن حکیم کی یہ آیات ہمیں رسول اکرم ﷺ کی جنگی حکمت عملی اور مقاصد کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔