کائنات کی بیٹیاں
کائنات کی بیٹیاں
از قلم ساجد محمود انصاری
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ وَ اِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌۙ اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌۙ فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍۙ لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ
الواقعہ:75-80
ترجمہ: پس ہرگز نہیں، قسم کھاتا ہوں میں ستاروں کے مقامات کی، اگر تم سمجھو تو یہ بہت بڑی قسم ہے۔ کہ یہ قرآن یقیناً لائقِ تکریم ہے، جو ایک ایسی محفوظ کتاب میں ثبت ہے، کہ جسے پاکیزہ ہستیوں(فرشتوں) کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا، یہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ مواقع النجوم( ستاروں کے مقامات)کی قسم کھا کر جتاتے ہیں کہ یہ بہت بڑی قسم ہے ۔ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ایک درجے میں اس قسم کی حقیقت تلاش کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہیں۔جس چیز کے منوانے کے لیے یہ عظیم قسم کھائی گئی ہے وہ ہے حقانیتِ قرآن کہ فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، کسی انسان کا کلام نہیں۔
گویا جس شخص پر بھی مواقع النجوم کی حقیقت آشکار ہوتی جائے گی اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت انسان کے مشاہداتی علم نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ وہ مواقع النجوم کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرسکتا۔تاہم ان آیات میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ عنقریب انسانوں پر مواقع النجوم کی حقیقت آشکار ہوجائے گی۔
برہنہ آنکھ سے جو ستارے ہم رات کے وقت آسمان پر دیکھتے ہیں وہ سب ستاروں کے ایک بہت بڑے مجمع کا حصہ ہیں جسے عرب لوگ مجریٰ یا مجرۃ ، یونانی فلسفی گلکیکٹی کوز ککلوز اور رومی گلیکسی کہا کرتے تھے۔ گلیکسی کو اردو میں کہکشاں یا دودھیا راستہ بھی کہتے ہیں۔انگریزی میں اسے ملکی وے کہا جاتا ہے۔ 1920 تک اکثر ماہرینِ فلکیات کا خیال تھا کہ کائنات کے تمام ستارے صرف ملکی وے کہکشاں میں ہی پائے جاتے ہیں۔تاہم 1920 کے بعد اس وقت ایجاد کی گئی دوربینوں سے بیسویں صدی کا یہ سب سے بڑا انکشاف ہوا کہ کائنات میں صرف ہماری کہکشاں ہی موجود نہیں ہے، بلکہ اس جیسی ہزاروں کہکشائیں کائنات میں پائی جاتی ہیں۔ہر کہکشاں میں اربوں کی تعداد میں ستارے ہیں۔ یہ بات اب زیرِ بحث ہے کہ آیا کہکشاؤں سے باہر بھی انفرادی ستاروں کا کوئی وجود ہوتا ہے ؟ ماہرینِ فلکیات کی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ستارے عام طور پر کہکشاؤں کے اندر ہی جنم لیتے ہیں، تاہم کبھی کوئی ستارہ اپنے عمومی مدار سے نکل کر کہکشاں سے باہر بھی جاسکتا ہے، ایسے ستاروں کو آوارہ ستارے (رَوگ سٹارز)کہا جاتا ہے۔ اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ جس طرح قدیم زمانے میں ناقص مشاہدے کی بنا پر ستاروں کے جھرمٹ کو ایک ہی ستارہ سمجھا جاتا تھا، اسی طرح ممکن ہے کہ دوردراز واقع کہکشاؤں کو ستارے گمان کرلیا جائے۔
ہماری رائے میں سورۃ الواقعہ میں مذکور مواقع النجوم (ستاروں کے مقامات )سے مراد کہکشائیں ہیں۔اگرچہ بعض مفسرین نے اس سے ستاروں کے گرنے کے مقامات (مساقط) بھی مراد لیے ہیں، تاہم ہماری رائے میں یہ رائے قرآن میں بیان کیے گئے بعض کائناتی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن نے گرتے ہوئے ستاروں (شوٹنگ سٹارز) کو ستارے یعنی نجوم تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ یہ بھی قرآن کا ایک اعجاز ہے کہ قرآن نے گرتے ستاروں کے لیے ایک مستقل اصطلاح شہاب ثاقب استعمال کی ہے جسے جدید فلکیات کی اصطلاح میں میٹیورائٹ کہا جاتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِزِیْنَةِ اِ۟لْكَوَاكِبِۙ وَ حِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍۚ لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰى وَ یُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍۗۖ دُحُوْرًا وَّ لَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌۙ اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ
الصافات:6-10
ہم نے آسمان دنیا کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے، اور ہر شیطان سرکش سے اس کو محفوظ
کر دیا ہے، اب یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے، ہر طرف سے مارے اور ہانکے جاتے
ہیں، اور ان کے لیے لگاتار برسنے والا عذاب ہے، تاہم اگر ان(شیاطین جنات ) میں سےکوئی کچھ
خبر لے اڑے تو ایک تیز شعلہ(شہابِ ثاقب) اس کا پیچھا کرتا ہے۔
امام عطا بن ابی رباحؒ اور امام قتادہ ؒ کی رائے میں مواقع النجوم سے مراد ستاروں کی منازل ہیں،
جس کا لغوی ترجمہ ستاروں کے گھر بنتا ہے ، اسی کو ہم نے ترجمہ میں ستاروں کے مقامات لکھا
ہے۔یعنی یہ وہ مقامات ہیں جہاں ستارے واقع ہوتے ہیں۔ ہماری رائے میں مواقع النجوم میں
کہکشاؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم
مواقع النجوم کی تفسیر ستاروں کے گرنے کے مقامات (مساقط) کو بنیاد بنا کر عصرِ حاضر کے بعض علما نے مواقع النجوم سے بلیک ہول مراد لیے ہیں۔ مگر چونکہ یہ بنیاد ہی سرے سے غلط ہے اس لیے مواقع النجوم سے بلیک ہول مراد لینا دور کی کوڑی ڈھونڈ کے لانا ہے۔ اگرچہ سورۃ التکویر کی پہلی آیت میں بلیک ہول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کے باوجود مواقع النجوم کی اصطلاح میں بلیک ہول تلاش کرنا ہمارے نزدیک درست نہیں۔
ہمارا ماننا یہ ہے کہ کائنات کی اصل شکل ایک بہت بڑی سپائرل گلیکسی جیسی ہے اورتمام کہکشائیں کائنات کی بیٹیاں ہیں، جن کی شکل بالکل اپنی ماں جیسی ہوتی ہے۔ ہر کہکشاں اپنی ماں کی تخلیق کی کہانی دہراتی ہے۔گویا ہر کہکشاں تخلیق کے انہی مراحل سے گزرتی ہے جن سے ان کی ماں گزری ہے۔بظاہر مختلف کہکشائیں مختلف شکل و صورت کی ہیں، مگر تمام کہکشاؤں میں گردابی صورت (سپائرل پیٹرن )کسی نہ کسی انداز میں بہر کیف موجود ہے۔ کہکشاؤں کی ظاہری صورت اپنی ماں (کائنات)کی زندگی کے کسی نہ کسی دور کی عکاسی کرتی ہے۔
ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے کہکشائیں تین قسم کی ہیں:
ا۔ گردابی کہکشائیں
(Spiral Galaxies)
2۔ بیضاوی کہکشائیں
(Elliptical Galaxies)
3۔ مخصوص صورت کہکشائیں
(Peculiar Galaxies)
کہکشاؤں کی یہ تقویم مشہور ماہرِ فلکیات ایڈون ہبل نے 1926 میں تجویز کی تھی۔حالیہ تحقیقات سےیہ حقیقت نکھر کر سامنے آچکی ہے کہ اب تک مشاہدے میں آنے والی کہکشاؤں میں سے 72 فیصدکہکشائیں گردابی کہکشائیں ہیں۔[2]
1۔ گردابی کہکشاؤں (سپائرل گلیکسی) کی عمر بیضاوی کہکشاؤں (ایلپٹیکل گلیکسی) کی نسبت کم ہے۔جس کا اندازہ اس چیز سے لگایا گیا ہے کہ بیضاوی کہکشاں میں اکثر ستاروں کی عمریں گردابی کہکشاں کے ستاروں سے زیادہ ہیں۔[3]
2۔گردابی کہکشاؤں میں دُخان (گیس)کی مقدار بیضاوی کہکشاؤں کی نسبت کافی زیادہ ہے، اسی وجہ سے ان میں نئے ستاروں کی تخلیق کا عمل اب بھی جاری ہے، کیوں کہ دخان ستاروں کی تخلیق میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔[4]
3۔ گردابی کہکشائیں بیضاوی کہکشاؤں کے مقابلے میں جوان ہیں جب کہ بیضاوی کہکشائیں بہت بوڑھی ہوچکی ہیں اور قریب المرگ ہیں۔اسی لیے ماہرین فلکیات بیضاوی کہکشاؤں کو مردہ کہکشائیں بھی کہہ دیتے ہیں۔[5]
4۔گردابی کہکشائیں اکثر بیضاوی کہکشاؤں کی نسبت جسامت میں چھوٹی ہیں، تاہم یہ کوئی طے شدہ اصول نہیں ہے، بہت سی بیضاوی کہکشائیں ہماری ملکی وے کہکشاں سے بھی چھوٹی ہیں جوکہ ایک گردابی کہکشاں ہے۔ [6]
ہمارا یہ نظریہ کہ کائنات ایک بہت بڑی گردابی کہکشاں ہے، جس میں اپنی ماں جیسی اربوں کہکشائیں موجود ہیں ، ہم نےرسول اکرم ﷺ کے درج ذیل فرمان سے اخذ کیا ہے:
دَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَغَيْرُ، وَاحِدٍ، – الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالُوا حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ بَيْنَمَا نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَالِسٌ وَأَصْحَابُهُ إِذْ أَتَى عَلَيْهِمْ سَحَابٌ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا ” . فَقَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ . قَالَ ” هَذَا الْعَنَانُ هَذِهِ رَوَايَا الأَرْضِ يَسُوقُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى قَوْمٍ لاَ يَشْكُرُونَهُ وَلاَ يَدْعُونَهُ ” . ثُمَّ قَالَ ” هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَكُمْ ” . قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ . قَالَ ” فَإِنَّهَا الرَّقِيعُ سَقْفٌ مَحْفُوظٌ وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ ” .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے ایک بادل گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بادل ہے اور زمین کو سیراب کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ان بندوں کی طرف چلائے جا رہا ہے، جو نہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ اس کو پکارتے ہیں، اچھا کیا تم یہ جانتے ہو کہ اس (بادل )کے اوپر کیا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آسمانِ دنیا ہے، جو کہ ایک محفوظ چھت ہے اور گردابی موج کی مانند ہے۔[7]
نبی ﷺ نے سب سے نچلے آسمان کے لیے موج مکفوف کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا ترجمہ گردابی لہریں (ورل پول ویوز) بنتا ہے۔ جب ہم کائنات کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ تین چوتھائی کے لگ بھگ کہکشائیں گردابی کہکشائیں ہیں اور باقی کہکشاؤں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان میں بھی گردابی صورت (سپائرل پیٹرن) کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے یا اس کے نشانات باقی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کہکشائیں اپنی ماں یعنی گردابی کائنات (سپائرل یونیورس) کی تاریخ دہراتی دکھائی دیتی ہیں۔
عرب محاورہ میں موج مکفوف سمندری گرداب (ورلپول) میں بننے والی گردش کرتی ہوئی لہروں کو کہتے ہیں، جبکہ یہ معلوم ہے کہ گردابی کہکشاں کی شکل و صورت بالکل گرداب جیسی ہوتی ہے۔ وہ حقیقت جو سائنسدانوں کے مشاہدہ میں بیسویں صدی میں آئی نبی ﷺ نے چودہ سوسال پہلے ہی اس طرف قوی اشارہ فرمادیا تھا۔ تاہم نبی ﷺ نے جو اصل بات کی ہے وہ یہ ہے کہ قابلِ مشاہدہ کائنات کی شکل بھی اسی گردابی کہکشاں جیسی ہی ہے۔ یہ وہ بات ہے جس بارے میں تاحال ماہرینِ فلکیات و طبیعیات سرگرداں ہیں اور حتمی طور پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ
پارہے۔
کائنات کے گردابی شکل میں ہونے کے بہت سے دلائل دیئے جاسکتے ہیں، جن میں سے نمایاں یہ ہیں:
آئن سٹائن کا عمومی نظریۂ اضافیت (جنرل ریلے ٹویٹی تھیوری) سمجھے بغیر قابلَ مشاہدہ کائنات کو سمجھنا ناممکن ہے۔عمومی نظریۂ اضافیت نے نیوٹن کے مشہورِ زمانہ قانونِ تجاذب (گریوی ٹیشنل لا)کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تجاذب (گریویٹی) کا کوئی وجود نہیں ہے۔اب اگر تجاذب کا کوئی وجود نہیں ہے تو کائنات کے بڑے بڑے اجسام کی حرکات کی کیا بنیاد رہ جاتی ہے؟ آئن سٹائن نےاس کا جواب یہ دیا ہے کہ جسے نیوٹن تجاذب سمجھا تھا اصل میں زمان و مکاں کا انحنا (سپیس ٹائم کرویچر) ہے۔[8]
اگرچہ عام آدمی کے لیے اس تصور کو سمجھنا نسبتاً مشکل ہے تاہم آئن سٹائن کے عمومی نظریۂ اضافت سےواضح ہوجاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ زمان و مکان لازم و ملزوم ہیں بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں کیوں کہ یہ باہم گندھے ہوئے ہیں۔
نیوٹن کے قانونِ تجاذب کے مطابق کائنات کے ہر دو اجسام ایک دوسرے کو اپنی طرف کشش کرتے ہیں جسے تجاذب کہا جاتا ہے، تجاذب کی اس قوت کا انحصار دو چیزوں پر ہے:
1۔ اجسام کی کمیت
2۔ اجسام کا درمیانی فاصلہ
اس قانون کی رو سے اگر مختلف کمیت کے حامل دو اجسام یکساں بلندی سے گرائےجائیں تو ان میں سےزیادہ کمیت والے جسم کی قوتِ جاذبہ کم کمیت والے جسم کی قوتِ جاذبہ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ کمیت والے جسم کو زمین سے پہلے ٹکرانا چاہیے۔کیا حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ جی نہیں، دونوں اجسام اکٹھے ہی زمین سے ٹکراتے ہیں۔ اگرچہ لوگوں نے اس کے جواب دینے کی کوشش کی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جب ایسا ہی سوال بہت زیادہ کمیت والے اجسام یعنی، سیاروں ، ستاروں، کہکشاؤں کے بارے میں اٹھایا جاتا ہے تو اس کا کوئی تسلی بخش جواب نیوٹن کے حامیوں کے پاس نہیں ہوتا۔
اس مسئلے کی بہترین مثال سیاروں کے مداروں کا اپنی جگہ سے آہستہ آہستہ سرکنا ہے، جسے اصطلاحاً پیری ہیلین پری سیشن کہتے ہیں۔ ماہرینِ فلکیات پیری ہیلین پری سیشن قانونِ تجاذب کی بنیاد پر پیچیدہ فارمولوں کے ذریعے معلوم کرتے آئے ہیں، تاہم حسابی مقداروں اور حقیقی مقداروں میں واضح فرق ہے، بالخصوص زہرہ سیارے کی مشاہداتی پری سیشن اور حسابی پری سیشن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔[9]
اہم بات یہ ہے کہ پری سیشن کی کئی قسمیں ہیں جن کا مظاہرہ تمام اجرامِ فلکی کرتے ہیں۔[10] آئن سٹائن سے پہلے تجاذب کو پری سیشن کا بنیادی سبب باور کیا جاتا تھا، اب اگر تجاذب کا وجود ہی نہیں تو پھر اجرامِ فلکی کے مداروں یا محوروں کے سرکنے کا کیا سبب ہے؟ ہماری دانست میں اس کا سبب کائنات کا خمدار ہونا ہی نہیں بلکہ گردابی کہکشاں کی طرح پیچ دار ہونا ہے۔
حالیہ مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات پھیل تو رہی ہے مگر اس کے پھیلنے کا انداز وہ نہیں ہے جو اسٹیفن ہاکنگ پھیلتے غبارے کی مثال سے سمجھاتا رہا ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کائنات ہر جگہ سے ایک جیسی دکھائی نہیں دیتی، نیز کائنات کے تمام مقامات یکساں رفتار سے نہیں پھیل رہے۔
اگر مکان ہموار ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ مکان صرف خمدار نہیں بلکہ پیچ دار(ٹوئسٹڈ) ہے، جیسا کہ گردابی کہکشاں میں ہوتا ہے۔
واللہ اعلم باصواب
https://www.esa.int/Science_Exploration/Space_Science/Where_did_today_s_spiral_galaxies_come_from [2]