حلال اور حرام چوپائے
از قلم ساجد محمود انصاری
خشکی کے جانوروں کے بارے میں شریعت کابنیادی اصول یہ ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ۬ ؕ اُحِلَّتۡ لَکُمۡ بَہِیۡمَۃُ الۡاَنۡعَامِ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ غَیۡرَ مُحِلِّی الصَّیۡدِ وَ اَنۡتُمۡ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ [1]
اے ایمان والو! اپنے معاہدوں کی پاسداری کیا کرو۔ تمہارے لیے چار پاؤں پر چلنے والے
بے زبان
زبان جانور حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جن کے بارے میں تمہیں متنبہ کردیا جائےاور ہاں حالتِ احرام میں (ان کے) شکار کو حلال مت جاننا۔
عربی زبان میں اَنعام کا اطلاق چرنے والے چوپاؤں پر ہوتا ہے، چونکہ چوپاؤں کی آواز ہمارے لیے بے معنی ہوتی ہے اس لیے ان کو بہیمہ کہا گیا ہے جس کا مطلب بے زبان بنتا ہے۔ لغتِ قرآن کے ماہر علامہ راغب اصفہانیؒ مفردات القرآن میں لکھتے ہیں
والبہیمۃ مالا نطق لہ و ذلک لما صوتہ من الابہام لکن خُص فی التعارف بماعدا السباع والطیر[2]
بہیمہ اسے کہتے ہیں جو بول نہ سکتا ہو۔اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی آواز میں ابہام ہوتا ہے۔تاہم عرب محاورہ میں اس سے درندوں اور پرندوں کے سوا باقی جانور مراد ہیں۔
آیتِ مبارکہ میں دو قسم کے اَنعام کا تذکرہ ہے ، یعنی پالتو چوپائے اور وہ جنگلی چوپائے جن کو عام طور پر کھانے کے لیےشکار کیا جاتا ہے۔زمانہ جاہلیت میں بھی دین ابراہیمی کے زیر اثرعربوں میں درندوں کو کھانے کا رواج نہ تھا۔
پس بہیمۃ الانعام کا لغوی مطلب چارہ کھانے والے چوپائے قرار پاتا ہے۔تاہم مفسرین کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ اہلِ عرب اَنعام کا اطلاق صرف بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے پر کرتے تھے، چنانچہ یہاں ان اجناس کی پالتو اور وحشی (جنگلی) دونوں قسمیں مراد ہیں۔سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام کا قول مستند ذرائع سے ثابت ہے کہ سورۃ المائدہ کی پہلی آیت میں جن چوپایوں کو حلال قرار دیا گیا ہے وہ اجناس اربعہ یعنی بھیڑ بکری، اونٹ اور گائے ہیں۔ملاحظہ کیجیے تفسیر ابن جریر طبری اور تفسیر قرطبی۔
مفسرین کی اس رائے کی تائید دیگر قرآنی آیات سے بھی ہوتی ہےجیسا کہ سورۃ النحل میں وارد ہوا ہے:
وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ [3]
بے شک تمہارے لیے چوپایوں میں عبرت کا سامان ہے۔ ہم اس (چوپائے) کے پیٹ میں سے گوبر اور خون کے مابین جاری خالص دودھ انہیں پلاتے ہیں جو پینے والے کے لیے فرحت بخش ہوتا ہے۔
عرب کے باشندے جن جانوروں کا دودھ شوق سے پیتے تھے وہ بکری، بھیڑ، گائے اور اونٹ ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہی ان چاروں اجناس کا نام حلال جانور وںکی فہرست میں گنوایا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَذَا فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ[4]
اور چوپایوں پر تم سوار ہوتے ہو اور انہی کی کھال کا بچھونا بناتے ہو۔اوراللہ نے جو رزق (حلال مویشیوں میں سے ) تمہیں دیا ہے اس میں سےکھاؤ ، مگر شیطان کی پیروی ہرگز مت کرنا کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔آٹھ جوڑے یعنی بھیڑوں کا (نرو مادہ کا) جوڑا اور بکریوں کا (نرو مادہ کا) جوڑا آپ کہئے کہ کیا اللہ نے دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں تم مجھ کو کسی دلیل سے تو بتاؤ اگر سچے ہو۔ اور اونٹ کا (نرو مادہ کا) جوڑااور گائے کا (نرو مادہ کا) جوڑا آپ کہئے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادہ کو؟ یا اس کو جس کو دونوں مادہ پیٹ میں لئے ہوئے ہوں؟ کیا تم حاضر تھے جس وقت اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کا حکم دیا ؟ تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے یقیناً اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو راہ نہیں دکھلاتا ۔
مشرکینِ مکہ دینِ ابراہیم علیہ السلام میں ٹھہرائے ہوئے بعض حلال جانوروں کو بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے تھے اور ان کے بارے میں ان کا گمان یہ تھا کہ ان کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے کا نام لے کر ان کی حرمت کی دلیل پوچھی ہے پھر عدم دلیل کے باعث خود ہی صراحت فرمادی ہے کہ ان حلال جانوروں میں سے بعض کو حرام ٹھہرا کر یہ اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی کرتے ہیں۔غرض معلوم ہوگیا کہ سورۃ المائدہ کی پہلی آیت میں ملک ِعرب میں پائے جانے والے جن چرندوں کے حلال ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہی چار قسم کے چوپائے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ سورۃ الانعام کی مذکورہ آیت میں حمولۃ (سواری کے جانور) سے مراد صرف اونٹ ہے۔
اسی طرح سورۃ النحل کی درج ذیل آیت ملاحظہ فرمایے
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّن بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُم مِّن جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ[5]
اور اللہ نے تمہیں گھر دئیے بسنے کو اور تمہیں چوپایوں کی کھالوں سے بنے کچھ گھر (خیمے) عطا فرمائے جو تمہیں ہلکے پڑتے ہیں تمہارے کُوچ کے دن اور منزلوں پر ٹھہرنے کے دن، اور اسی طرح ان (میں سے بھیڑوں )کی اون اور (اونٹ کی ) پشم اور(بکری اور گائے کے) بالوں سے کچھ گھریلو ضروریات کا سامان اور برتنے کی چیزیں ایک وقت مقررہ تک کے لیے (مہیا فرمادیں)۔
اس آیتِ مبارکہ میں اصواف جمع ہے صوف کی جو کہ بھیڑ کی اون کے لیے مستعمل ہے، اوبار جمع ہے وبرکی جو اونٹ کی پشم کے لیے مستعمل ہے، اور اشعار شعر کی جمع ہے جوکہ بکری اور گائےکے بالوں کے لیے مستعمل ہے۔ پس اس آیت مبارکہ میں بھی الانعام سے اجناسِ اربعہ ہی مراد لی گئی ہیں۔
ان تمام آیات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ جانور جو دنیا میں کہیں بھی دودھ حاصل کرنے کے لیے پالے جاتے ہیں اور لوگ ان کا دودھ رغبت سے پیتے ہیں وہ مذکورہ آیات کی رو سے حلال قرار پاتے ہیں۔ جیسے بھینس اور جنوبی امریکہ میں پایا جانے والا اونٹ کے خاندان سے تعلق رکھنے والا جانور لاما۔ ان آیات سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ پالتوگھوڑے، گدھے اور خچر وغیرہ بہیمۃ الانعام کے زُمرے میں نہیں آتے۔ یہی سبب ہے کہ عرب عام حالات میں کبھی پالتو گھوڑے ، گدھے اور خچر نہیں کھاتے تھے ۔ البتہ اگر کبھی کسی طویل صحرائی سفر کے دوران انہیں قلتِ خوراک کے باعث اپنی جان بچانے کے لیے اپنی سواری کا جانور ہی کھانا پڑجاتا تو وہ ایک ہنگامی صوتحال ہوتی تھی جسے عام عادت پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔پھران کے پالنے کا بنیادی مقصد سواری اور باربرداری تھا نہ کہ ان کا دودھ پینا کیونکہ ان جانوروں کا دودھ عربوں کے ہاں مرغوب نہ تھا۔ اس کا ایک سبب تو یہی ہے کہ یہ جانور دنیا میں کہیں بھی دودھ حاصل کرنے کے مقصد سے نہیں پالے جاتے۔اس کے پیچھے بھی ایک معقول وجہ کارفرما ہے وہ یہ کہ ان جانوروں کا دودھ دوہنا ایک سخت مشقت طلب کام ہے کیوں کہ ان میں بھیڑ، بکری ،گائے اور اونٹ جیسے تھن نہیں ہوتے۔جن سے دودھ دوہنے میں کافی سہولت ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ خنزیر بھی عربوں کے ہاں الانعام میں شمار نہیں ہوتا۔ خنزیر کے تھن نمایاں اور تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود کسی بھی قوم کے لوگ اس کا دودھ رغبت سے نہیں پیتے۔اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اس کا دودھ پانی جیسا پتلا ہوتا ہے جس میں کوئی لذت نہیں ہوتی دوسرا چونکہ خنزیر اپنا فضلہ کھانے کا عادی ہوتا ہے اس لیے اس کے دودھ میں سے ناخوشگوار بو آتی ہے جو سلیم الفطرت انسانوں کو اچھی نہیں لگتی۔[6]
خنزیر اور اس کے تمام اجزاء
خنزیر کو قرآن میں چار مقامات پر حرام قرار دیا گیا ہے۔جن میں سے سب سے صریح آیت درج ذیل ہے
قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ[7]
کہہ دیجیے کہ جو کچھ مجھ پر وحی کیا جاتا ہے (قرآن) اس میں نہیں پاتا میں کوئی شے حرام ان چیزوں میں سے جسے کھانے والا کھاتا ہے، سوائے اس کے کہ وہ ہو مرداریابہتا ہوا خون یا خنزیر کا گوشت کیونکہ یہ ناپاک ہے یا جو جانور غیراللہ کے نام ذبح کیا جائے کیونکہ یہ بھی فسق(ناپاک) ہے۔ہاں جو شخص کسی اضطراری حالت میں بغیر جذبۂ سرکشی اسے کھالے اور ایسا بار بار بھی نہ کرے تو تمہارا رب بخشنے والا اور مہربان ہے۔
علما نے خنزیر کے حرام کیے جانے کی دو علتیں بیان کی ہیں
۱۔ خنزیر ہمہ خور (اومنی وور) ہے یعنی چارہ، اناج اور زندہ مردہ جانور کاگوشت سب کچھ کھالیتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ دنیا کا واحد جانور ہے جو اپنے نو مولود بچے تک کھا جاتا ہے۔[8]اس قدر بے رحمی تو شیر اور چیتے جیسے درندے بھی نہیں دکھاتے۔اس کی اس بے رحمی اور گوشت کھانے کی عادت کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا گیا ہے۔
۲۔ خنزیر اپنا فضلہ یعنی نجاست بھی کھاجاتا ہے۔ اس کی اس عادت کو جدید اصطلاح میں کوپرو فے جیا کہتے ہیں۔جس کی وجہ سے اس کا گوشت کھانے سے بہت سے امراض جنم لیتے ہیں۔اس کی کوپروفے جیا کی عادت کی وجہ سے بھی اسے حرام کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
غالب گمان یہ ہے کہ نزول قرآن کے زمانہ میں صحرائے عرب میں جنگلی و صحرائی خنزیر پایا جاتا تھا جس کے ہاتھی کی طرح دو نوکیلے دانت نمایاں طور پر باہرنکلے ہوتے ہیں اگرچہ وہ ہاتھی دانت سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ صحرائی خنزیر افریقی صحرا میں آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے نیچے دی گئی تصاویر
تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ حجاز اور اس کے اطراف میں خنزیر پالنے کا رواج نہ تھا۔ اس کا ایک بنیادی سبب صحرائے عرب کی شدیدگرم آب و ہوا تھی، جس میں خنزیر کی بقا نہایت مشکل تھی۔ تاہم جزیرۃ العرب کے شمالی علاقے( شام) میں موسم نسبتاً سرد رہتا تھا اور وہ خنزیر کے اصل وطن یعنی یورپ سے بھی قریب تھا۔نزولِ قرآن کے زمانہ میں شام کا علاقہ رومی سلطنت کے زیرِ تسلط تھا۔ رومی سلطنت میں خنزیر پالنے کا نہ صرف رواج تھا بلکہ چربی کی کثرت کی وجہ سے خنزیررومیوں کی مرغوب غذا بن چکا تھا۔[9] اس لیے جب وسطِ عرب سے لوگ تجارت کی غرض سے شام جاتے تو وہ خنزیر کو ایک لذیذ غذا سمجھ کر کھا لیا کرتے تھے۔ تورات میں بھی خنزیر کو حرام کہا گیا ہے جس کی وجہ سے مدینہ اور اس کے ارد گرد آبادیہودی بھی خنزیر کا گوشت کھانےسے گریز کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث اورتاریخی روایات میں حجاز میں بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے وغیرہ کے پالنے کا توجابجا تذکرہ ملتا ہے مگرخنزیر کے پالنے کا کوئی اشارہ تک نہیں ۔ یہاں تک کہ جن غیر مسلم مستشرقین نے عربوں کی تاریخ پر مستقل تصانیف لکھی ہیں انہوں نے بھی عربوں کی روزمرہ کی غذا میں خنزیر کا تذکرہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ رابرٹ ہائے لینڈ نے کانسی کے زمانے کے آغاز سے لے کر ظہور اسلام تک کی عرب تاریخ لکھی ہے مگر اس نے پوری تصنیف میں کہیں خنزیر کا لفظ تک استعمال نہیں کیا[10]۔بہر کیف چونکہ مشرکینِ مکہ خنزیر کھانے میں کوئی قباحت نہیں جانتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے پالتو جانوروں میں سے خنزیر کا نام صراحت کے ساتھ ذکر کرکے اسے حرام قرار دیا ہے ۔ چونکہ اس کے ہمہ خور ہونے کی وجہ سے اسےچرنے والا چوپایہ سمجھے جانے کی غلطی کا صدور ممکن تھا۔اس لیے اسے صراحتاً نام لے کر حرام قرار دے دیا گیا۔ پس خنزیر بھی سورۃ المائدہ کی پہلی آیت میں مذکور اِلَّا مَا یُتلی کے ذیل میں آتا ہے۔
واضح رہے کہ راجح قول یہی ہے کہ خنزیر کے تمام اجزا نجس ہونے کی وجہ سے انہیں اشیائے خوردونوش اور ادویات میں استعمال کرنا ممنوع ہے۔بعض علما نے خنزیر کے بالوں سے لباس سینے کی اجازت دی ہے مگر یہ قول محلِ نظر ہے۔خنزیر نجاستِ غلیظہ ہے لہٰذا اس کے بال بھی نجس ہیں کیونکہ ان کی جڑیں بہر کیف گوشت ہی میں پیوست ہوتی ہیں اور اسی نجاست سے انہیں غذا ملتی ہے جس سے یہ بڑھتے ہیں۔
درندے
سورۃ المائدہ کی ابتدائی آیت کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ جانوروں میں سے صرف دو قسم کے چوپائے حلال ہیں۔ایک وہ جن کو اہلِ عرب دودھ کے لیے پالتے تھے اور دوسرے وہ جنگلی جانور جن کااہلِ عرب شکار کیا کرتے تھے۔ بہیمۃ الانعام کی لغوی تشریح میں ذکر ہوچکا ہے کہ اس کا اطلاق صرف چارہ کھانے والے جانوروں پر ہوتا ہے۔ لہٰذا درندے اس آیت کی رو سے حلال نہیں ہیں ، جس کا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ درندے حرام ہیں۔چونکہ رسول اکرم ﷺ قرآن کے شارح و مفسر ہیں، اس لیے آپ ﷺ نے صراحت کے ساتھ تمام درندوں کو حرام قرار دیا ہے۔اوپر ذکر ہوچکا کہ قرآن کی چار آیات کی رُو سے خنزیر حرام ہے ۔ یہ بھی مذکور ہوا کہ خنزیر کے دو نوکیلے دانت دوسرے دانتوں کی نسبت زیادہ ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے درندوں کی شناخت بھی یہی بتائی ہے کہ وہ جانور جن کے دو نوکیلے ابھرے ہوئے دانت ہوتے ہیں جس سے وہ شکار کو چیرتے پھاڑتے ہیں وہ درندے ہیں۔ چنانچہ شرعی اعتبار سے خنزیر کا شمار بھی درندوں میں ہوتا ہے۔ لہٰذا کم از کم پانچ قرآنی آیات درندوں کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
سنتِ متواترہ میں بھی درندوں کو صراحت کے ساتھ حرام کیا گیا ہے
عَنِ علی قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ[11]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نےدو نوکیلے دانتوں والے تمام درندے کھانے سے منع فرمایااور چنگلی والے پرندے کھانے سے بھی منع فرمایا۔
حدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نےدو نوکیلے دانتوں والے تمام درندے کھانے سے منع فرمایااور چنگلی والے پرندے کھانے سے بھی منع فرمایا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم نَهَى عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ.[12]
سیدنا ابو ثعلبہ الخُشنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نےدو نوکیلے دانتوں والے تمام درندے کھانے سے منع فرمایا۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم – يَعْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ الْحُمُرَ الإِنْسِيَّةَ وَلُحُومَ الْبِغَالِ وَكُلَّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ[13]
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھے، خچر کا گوشت، دو نوکیلے دانتوں والے تمام درندے اور چنگلی والے پرندے حرام قرار دیے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ رُؤْبَةَ التَّغْلِبِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ
أَلاَ لاَ يَحِلُّ ذُو نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ دو نوکیلے دانتوں والے درندے حلال نہیں ہیں۔
پس ثابت ہوا کہ سنتِ متواترہ میں بھی قرآن کی اتباع میں دو نوکیلے دانتوں والے درندوں کو صریحا ً حرام قرار دیا گیا ہے۔
درندوں کی حرمت کی علت ان کی گوشت کھانے کی عادت معلوم ہوتی ہے ۔ درندے اپنی اسی عادت کی وجہ سے خونخوار، بے رحم اور وحشی بن جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی غذا انسانی عادات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر کوئی انسان فطرت کے خلاف کچا گوشت کھانا شروع کردے تو اس میں بھی وحشی پن اور خونخواریت غالب آجاتی ہے، جسے ایک مرض سمجھا جاتا ہے۔
قرآنی آیات اور سنتِ متواترہ کے مطابق شیر، چیتا،تیندوا، بھیڑیا، کتا، بلی، بندر، ریچھ، ہاتھی، لگڑ بھگڑ، بجو، گیڈر کی تمام اقسام حرام ہیں۔واللہ اعلم باصواب
[1]المائدہ: ۱
[2]مفردات القرآن، صفحہ ۷۵
[3]النحل: ۶۶
[4]الانعام: ۱۴۲۔۱۴۴
[5]النحل:۸۰
[7] الانعام:۱۴۵
[10]https://www.reddit.com/r/AskHistorians/comments/4lk0zb/how_common_were_domestic_pigs_in_arabia_and_the/
[11]مسند امام احمد: رقم ۱۲۵۴
[12]صحیح البخاری: رقم ۵۵۳۰
[13]مسند امام احمد: رقم ۱۴۵۱۷، جامع الترمذی: رقم ۱۴۷۸