ارتقائے کائنات
از قلم ساجد محمود انصاری
تخلیقِ کائنات کے بعد اگلا مرحلہ کائناتی ارتقا (کوسمولوجیکل ایوولوشن) ہے، تاہم کائناتی ارتقا کا تمام تر انحصار تخلیقِ کائنات کے درست تصور پر ہے، اگر تخلیقِ کائنات کا تصور ہی درست نہ ہو تو ارتقا کا تصور غلط ہونے کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
اس وقت سائنسدانوں کی اکثریت ابتدائے کائنات کے بارے میں جس تصور کو درست سمجھتی ہے وہ ہے بگ بینگ تھیوری۔ بگ بینگ تھیوری دستیاب مشاہدات کی بہترین تشریح تو ہوسکتی ہے، مگر یہ ضروری نہیں کہ اس کے تمام اجزا سو فیصد درست ہوں۔ ہم اپنے مضمون ’تخلیقِ کائنات‘ میں دستیاب نظریات میں سے بہتر نظریہ ہونے پر تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں، خاص طور پر غیر تغیر پذیر حالت نظریہ (سٹیڈی سٹیٹ تھیوری) کے مقابلے میں یہ ہزار درجہ بہتر ہے جو کہ کائنات کو ایک دائمی اور ناقابلِ فنا وجود کے طور پر پیش کرتا ہے۔جبکہ بگ بینگ تھیوری کائنات کو دائمی اور لازوال تسلیم نہیں کرتی بلکہ یقین رکھتی ہے کہ کائنات (زمان و مکان) کا ایک نقطۂ آغاز ہے یہ ہمیشہ سے یونہی موجود نہیں ہے جیسے اب دکھائی دیتی ہے۔اسی بنیاد پر ارتقائے کائنات کا تصور جنم لیتا ہے۔زیرِ نظر مضمون کو ہمارے مضمون ’تخلیقِ کائنات‘ کا تتمہ(اپنڈیکس) سمجھا جائے۔
ہم اپنےاس مضمون میں یہ بھی ذکر کر آئے ہیں کہ قرآن حکیم کے تصورِ تخلیق اور بگ بینگ تھیوری میں بنیادی مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ کائنات کا آغاز نور کے زوردار جھماکےسے ہوا جوکہ انرجی کی ایک غیر معمولی قسم ہے،تاہم عملاً اس نور کا ظہور کیسے ہوا؟ یہ سوال حل طلب ہے اور کسی حد تک بگ بینگ کے کائناتی ماڈل اورقرآنی تصورِ کائنات میں کچھ اختلافات موجود ہیں جو حدیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں واضح ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔
قرآن حکیم نے اجرامِ فلکی کی دو بنیادی اقسام بیان کی ہیں، پہلی قسم نورانی اجسام (لومینس باڈیز) اور دوسری قسم منور اجسام (انرٹ باڈیز)۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ [1]
ترجمہ: وہی (اللہ ) ہے جس نے سورج کو ضیا اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کا حساب کتاب رکھ سکو، اللہ نے یہ سب کچھ حق کے ساتھ پیدا فرمایا اور وہ اہلِ علم کے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر سورج اور چاند کے درمیان فرق کیا ہے، سورج کو ضیا اور چاند کو نور کہا ہے۔مفسرین نے ضیا اور نور میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ اگرچہ ضیا اور نور بنیادی طور پر نور ہی کی دو قسمیں ہیں مگر ضیا اور نور میں وہی فرق ہے جو نار (آگ)اور نور (روشنی) میں ہے۔امام نسفی ؒ اپنی مشہورِ زمانہ تفسیر میں فرماتے ہیں:
والضِّياءُ نورٌ معه حرٌّ، والنُّورُ لا حرَّ معه، والضِّياءُ أعمُّ وأتمُّ مِن النُّور[2]
ضیا وہ روشنی ہوتی ہے جس کے ساتھ حرارت ہو جبکہ نور میں حرارت نہیں ہوتی اور ضیا نور کے مقابلے میں زیادہ عام اور کامل ہوتا ہے۔
قرآن نے ہی اس طرف خود اشارہ کردیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا
[3] وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا
ترجمہ:کیا تم لوگ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے سات آسمان اوپر تلے تہہ بہ تہہ بنادیے ہیں اور ان میں (سے ایک میں) چاند کو منور اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے۔
اب یہاں سے واضح ہوگیا کہ سورج (روشن چراغ )میں جو کیفیت ایندھن سے آگ جلنے کی ہے وہ چاند میں موجود نہیں ورنہ اسے بھی چھوٹا چراغ قرار دے دیا جاتا۔عرب محاورہ میں عام طور پر نور سے مراد ٹھنڈی روشنی ہوتی ہے جس میں حرارت نہ ہو۔ آج ہم جانتے ہیں کہ چاند منور تو ہے مگر اسی میں خود سے روشن ہونے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ وہ سورج کی روشنی کو ہی منعکس کرتا ہے تو منور دکھائی دیتا ہے ، حقیقت میں اس کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہے۔اس کے برعکس سورج میں ایندھن استعمال ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انرجی حرارت اور روشنی کی شکل میں پیدا ہوتی ہے۔
قرآن میں واضح اشارات ہیں کہ ستارے بھی سورج کی طرح ہی آگ کے گولے ہیں۔
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ [4]
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے سب سے نچلے آسمان کو چراغوں سے زینت بخشی ہے،اور انہیں شیطانوں کو مارنے کا ذریعہ بنایا ہے اور ان کے لیے جلانے والا تیار کیا ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں چراغوں سے مراد ستارے ہیں، جیسا کہ امام بغوی ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مصباح وهو السراج سمي الكوكب مصباحا لإضاءته
مصباح سے مراد سراج ہے، ستارے کو مصباح اس کے جلنے کی وجہ سے کہا گیا ہے۔
گویا قرآن کی رو سے سورج اور ستارے ایک ہی نوعیت کے اجرامِ فلکی ہیں، جن میں ایندھن جلنے سے حرارت اور روشنی پیدا ہوتی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ سورج رات کو دکھائی نہیں دیتا جبکہ ستارے دن میں سورج کی روشنی کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔
مفسرین نے مذکورہ بالا قرآنی بیانیے کو ایک قاعدے کے طور پر تسلیم کیا ہے، مثلاً
کی تفسیر کرتے ہوئے امام نسفی ؒ فرماتے ہیں:(فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ)
[5] يقول: فإذا النجوم ذهب ضياؤها، فلم يكن لها نور ولا ضوء
اللہ کے فرمان (جب ستارے مٹا دئیے جائیں گے) کا مطلب ہے کہ جب ستاروں کی گرم روشنی
ختم ہوجائے گی اس کے لیے نہ نور بچے گا نہ ضو۔
اب ذرا سورۃ النازعات کی درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:
أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ بَنَاهَا رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا
[6] وَالأرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا
ترجمہ: بھلا تمہارا پیدا کرنا(تمہاری نظر میں) سخت تر کام ہے یا آسمان کا پیدا کرنا؟ اسی نے اسے چھت کی طرح بلند بنایا اور اسے سنوارا،اور اس کی رات کو تاریک بنایا جبکہ اس کی روشنی نکالی۔اس کے بعد اس نے زمین کو قابلِ استعمال بنایا۔
امام قتادہ بن دعامہ السدوسیؒ فرماتے ہیں کہ روشنی نکالنے سے مراد یہ ہے:
يقول: نوّر ضياءها
یعنی اس میں ضیا پیدا فرمائی۔[7]
جبکہ ہم بتا آئے ہیں کہ ضیا ایسی روشنی ہوتی ہے جس میں حرارت ہو۔
زمین نورانی جسم نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طور پر بے نور ہے۔چنانچہ مذکورہ بالا آیات سے یہ نتیجہ بلا خوفِ تردید اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں نورانی اجسام کو پہلے پیدا کیا، جیسے سورج اور ستارے اورپھر منور اجسام (اِنرٹ باڈیز) کو بعد میں بعد میں پیدا کیا۔
امام زین العابدین علی بن حسین علیہما السلام کا ایک حیرت انگیز قول تفسیر الثعلبی میں سورۃ الحاقہ کی آیت 17 کی تفسیر میں منقول ہے:
ورُوي عن علي بن الحسين أنه قال
لم یخلق قبلہ الا ثلاثۃ اشیا إن الله تعالى خلق العرش رابعًا،
الهواء، والقلم، والنور. ثم
خلق العرش من ألوان الأنوار المختلفة،
من ذلك
نور أخضر، منه اخضرت الخضرة، ونور أصفر، منه اصفرت الصفرة، ونور أحمر، منه احمرت الحمرة، ونور أبيض، وهو نور الأنوار ومنه ضوء النهار، ثم جعل منه سبعين ألف ألف ألف طبق، ليس من ذلك طبق إلا يسبح الله، ويحمده، ويقدسه بأصوات مختلفة [8]
اللہ تعالیٰ نے چوتھے نمبر پر عرش پیدا فرمایا ، اس سے پہلے صرف تین چیزیں پیدا کی تھیں، یعنی
ہوا (دُخان یا گیس)، قلم نامی فرشتہ، اور نور۔پھر مختلف رنگ کے انوار سے عرش پیدا فرمایا،
جس میں سبز نور(روشنی) شامل ہے جس کی وجہ سے سبزی سبز نظر آتی ہے، اور زرد نور
(روشنی)جس کی وجہ سے زردی زرد نظر آتی ہے اور سرخ نور(روشنی) جس کی وجہ سر
خی سرخ نظر آتی ہے اور سفید نور جو کہ تمام رنگوں کے انوار سے مل کر بنا ہے اسی سے دن کا ا ہوتا
ہے،
پھر اس نور سے ستر ارب طبق پیدا فرمائے، جن میں سے ہر طبق میں ایسی مخلوقات بستی ہیں جو
مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس اور حمد بیان کرتی ہیں۔[9]
اگرچہ انسان ہزاروں سالوں سے بارش کے بعد بننے والی سات رنگ کی قوس قزح (رین بو) کو حیرت سے تکتا رہا ہے اور قدیم زمانے سے لوگ اس کے بارے میں عجیب توہماتی قسم کے تصورات پالے ہوئے تھے۔قوس قزح کا بھید سائنسی بنیادوں پر بیان کرنے کی پہلی کاوش یونانی فلسفی ارسطو نے کی تھی تاہم اس کے تصورات ناقص تھے، اگرچہ وہ یہ جان گیا تھا کہ قوس قزح کا تعلق سورج کی روشنی اور بادلوں کے ساتھ ہے تاہم وہ اس تعلق کو درست طور پر بیان نہ کرسکا۔مسلم سائنسدان ابن الہیثم نے بھی سورج کی روشنی اور بادلوں کے مابین اس تعلق کو ایک دوسرے زاویے سےسمجھنے کی کوشش کی تاہم وہ بھی اصل حقیقت نہ پاسکا۔ اس کی رائے میں بادل روشنی منعکس (ریفلیکٹ )کرتے ہیں تو قوس قزح بنتی ہے، تاہم پہلا مسلم سائنسدان جو
قوس قزح بننے کی اصل حقیقت تک پہنچا وہ کمال الدین الفارسی (متوفیٰ 1320 عیسوی) ہے جس نے ابن الہیثم کی تصنیف کتاب المناظر کی شرح تنقیح المناظر کے نام سے لکھی اور اس میں یہ حقیقت آشکار کی قوسِ قزح روشنی کے انعکاس(رفلیکشن) سے نہیں بلکہ انعطاف (رفریکشن) سے بنتی ہے۔[10]
قوس قزح بننے کا عمل سمجھنے کے باوجود لوگ یہ نہیں سمجھ پائے کہ سفیدروشنی سات رنگوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔سب سے پہلےبرطانوی سائنسدان آئزک نیوٹن نے منشور (پرزم) پر کیے گئے سائنسی مشاہدات کی بنا پر یہ ثابت کیا کہ سفید روشنی سات رنگوں کی روشنیوں کا مجموعہ ہے۔آئزک نیوٹن نے یہ بات اپنی کتاب آپٹکس میں تفصیل سے بیان کی ہے۔