2025-07-06
SPIRAL-20PATTERN.jpg

 

ارتقائے کائنات

از قلم ساجد محمود انصاری

تخلیقِ کائنات کے بعد اگلا مرحلہ کائناتی ارتقا (کوسمولوجیکل ایوولوشن) ہے، تاہم کائناتی ارتقا کا تمام تر انحصار تخلیقِ کائنات کے درست تصور پر ہے، اگر تخلیقِ کائنات کا تصور ہی درست نہ ہو تو ارتقا کا تصور غلط ہونے کا امکان کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

 اس وقت سائنسدانوں کی اکثریت ابتدائے کائنات کے بارے میں جس تصور کو درست سمجھتی ہے وہ ہے بگ بینگ تھیوری۔ بگ بینگ تھیوری دستیاب مشاہدات کی بہترین تشریح تو ہوسکتی ہے، مگر یہ ضروری نہیں کہ اس کے تمام اجزا سو فیصد درست ہوں۔ ہم اپنے مضمون ’تخلیقِ کائنات‘ میں دستیاب نظریات میں سے بہتر نظریہ ہونے پر تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں،  خاص طور پر غیر تغیر پذیر حالت نظریہ (سٹیڈی سٹیٹ تھیوری) کے مقابلے میں یہ ہزار درجہ بہتر ہے جو کہ کائنات کو ایک دائمی اور ناقابلِ فنا وجود کے طور پر پیش کرتا ہے۔جبکہ بگ بینگ تھیوری کائنات کو دائمی اور لازوال تسلیم نہیں کرتی بلکہ یقین رکھتی ہے کہ کائنات (زمان و مکان) کا ایک نقطۂ آغاز ہے  یہ ہمیشہ سے یونہی موجود نہیں ہے جیسے اب دکھائی دیتی ہے۔اسی بنیاد پر ارتقائے کائنات کا تصور جنم لیتا ہے۔زیرِ نظر مضمون کو ہمارے مضمون ’تخلیقِ کائنات‘ کا تتمہ(اپنڈیکس) سمجھا جائے۔


ہم اپنےاس  مضمون  میں یہ بھی ذکر کر آئے ہیں کہ قرآن حکیم  کے تصورِ تخلیق اور بگ بینگ تھیوری میں بنیادی مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ کائنات کا آغاز نور کے زوردار جھماکےسے ہوا جوکہ انرجی کی ایک غیر معمولی قسم ہے،تاہم عملاً اس نور کا ظہور کیسے ہوا؟ یہ سوال حل طلب ہے اور کسی حد تک بگ بینگ کے کائناتی ماڈل  اورقرآنی تصورِ کائنات میں کچھ اختلافات موجود ہیں جو حدیثِ رسول ﷺ کی روشنی میں واضح ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔

قرآن حکیم نے اجرامِ فلکی کی دو بنیادی اقسام بیان کی ہیں، پہلی قسم نورانی اجسام (لومینس باڈیز) اور دوسری قسم  منور اجسام (انرٹ باڈیز)۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ [1]

ترجمہ: وہی (اللہ ) ہے جس نے سورج کو ضیا اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کا حساب کتاب رکھ سکو، اللہ نے یہ سب کچھ حق کے ساتھ پیدا فرمایا  اور وہ اہلِ علم کے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر سورج اور چاند کے درمیان فرق کیا ہے، سورج کو ضیا اور چاند کو نور کہا ہے۔مفسرین نے ضیا اور نور میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ اگرچہ ضیا اور نور بنیادی طور پر نور ہی کی دو قسمیں ہیں مگر ضیا اور  نور میں وہی فرق ہے جو نار (آگ)اور نور (روشنی)  میں ہے۔امام نسفی ؒ اپنی مشہورِ زمانہ تفسیر میں فرماتے ہیں:

  والضِّياءُ نورٌ معه حرٌّ، والنُّورُ لا حرَّ معه، والضِّياءُ أعمُّ وأتمُّ مِن النُّور[2]

ضیا وہ روشنی ہوتی ہے جس کے ساتھ حرارت ہو جبکہ نور میں حرارت نہیں ہوتی اور ضیا نور کے مقابلے میں زیادہ عام اور کامل ہوتا ہے۔

قرآن نے ہی اس طرف خود اشارہ کردیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا 

[3] وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا

ترجمہ:کیا تم لوگ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے سات آسمان اوپر تلے تہہ بہ تہہ بنادیے ہیں اور ان میں (سے ایک میں) چاند کو منور اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے۔

اب یہاں سے واضح ہوگیا کہ سورج  (روشن چراغ )میں جو کیفیت ایندھن سے آگ جلنے کی ہے وہ چاند میں موجود نہیں ورنہ اسے بھی چھوٹا چراغ قرار دے دیا جاتا۔عرب محاورہ میں عام طور پر نور سے مراد ٹھنڈی روشنی ہوتی ہے جس میں حرارت نہ ہو۔ آج ہم جانتے ہیں کہ چاند منور تو ہے مگر اسی میں خود سے روشن ہونے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ وہ سورج کی روشنی کو ہی منعکس کرتا ہے تو منور دکھائی دیتا ہے ، حقیقت میں اس کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہے۔اس کے برعکس سورج میں ایندھن استعمال ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انرجی حرارت اور روشنی کی شکل میں پیدا ہوتی ہے۔

قرآن میں واضح اشارات ہیں کہ ستارے بھی سورج کی طرح ہی آگ کے گولے ہیں۔

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ [4]

ترجمہ: اور یقیناً ہم نے سب سے نچلے آسمان کو چراغوں سے زینت بخشی ہے،اور انہیں شیطانوں کو مارنے کا ذریعہ بنایا ہے اور ان کے لیے  جلانے والا تیار کیا ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں چراغوں سے مراد ستارے ہیں، جیسا کہ امام بغوی ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

مصباح وهو السراج سمي الكوكب مصباحا لإضاءته

مصباح سے مراد سراج ہے، ستارے کو مصباح اس کے جلنے کی وجہ سے کہا گیا ہے۔

گویا قرآن کی رو سے سورج اور ستارے ایک ہی نوعیت کے اجرامِ فلکی ہیں،  جن میں ایندھن جلنے سے حرارت اور روشنی پیدا ہوتی ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ سورج رات کو دکھائی نہیں دیتا جبکہ ستارے دن میں سورج کی روشنی کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔

مفسرین نے مذکورہ بالا قرآنی بیانیے کو ایک قاعدے کے طور پر تسلیم کیا ہے، مثلاً

 کی تفسیر کرتے ہوئے امام نسفی ؒ فرماتے ہیں:(فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ)

[5] يقول: فإذا النجوم ذهب ضياؤها، فلم يكن لها نور ولا ضوء

اللہ کے فرمان (جب ستارے مٹا دئیے جائیں گے) کا مطلب ہے کہ جب ستاروں کی گرم  روشنی

 ختم ہوجائے گی اس کے لیے نہ نور بچے گا نہ ضو۔

اب ذرا سورۃ النازعات کی درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:

أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ بَنَاهَا رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا 

[6] وَالأرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا

ترجمہ: بھلا تمہارا پیدا کرنا(تمہاری نظر میں)  سخت تر کام ہے یا آسمان کا پیدا کرنا؟ اسی نے اسے چھت کی طرح بلند بنایا اور اسے سنوارا،اور اس کی رات کو تاریک بنایا جبکہ اس کی روشنی نکالی۔اس کے بعد اس نے زمین کو قابلِ استعمال بنایا۔

امام قتادہ بن دعامہ السدوسیؒ فرماتے ہیں کہ روشنی نکالنے سے مراد یہ ہے:

 يقول: نوّر ضياءها

یعنی اس میں ضیا پیدا فرمائی۔[7]

جبکہ ہم بتا آئے ہیں کہ ضیا ایسی روشنی ہوتی ہے جس میں حرارت ہو۔

زمین نورانی جسم نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طور پر بے نور ہے۔چنانچہ مذکورہ بالا آیات سے یہ نتیجہ بلا خوفِ تردید اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں نورانی اجسام  کو پہلے پیدا کیا، جیسے سورج اور ستارے  اورپھر منور اجسام (اِنرٹ باڈیز) کو بعد میں بعد میں پیدا کیا۔

امام زین العابدین علی بن حسین علیہما السلام کا ایک حیرت انگیز قول تفسیر الثعلبی میں سورۃ الحاقہ کی آیت 17 کی تفسیر میں منقول ہے:

ورُوي عن علي بن الحسين أنه قال

 لم یخلق قبلہ الا ثلاثۃ اشیا إن الله تعالى خلق العرش رابعًا، 

 الهواء، والقلم، والنور. ثم

 خلق العرش من ألوان الأنوار المختلفة،

 من ذلك

 نور أخضر، منه اخضرت الخضرة، ونور أصفر، منه اصفرت الصفرة، ونور أحمر، منه احمرت الحمرة، ونور أبيض، وهو نور الأنوار ومنه ضوء النهار، ثم جعل منه سبعين ألف ألف ألف طبق، ليس من ذلك طبق إلا يسبح الله، ويحمده، ويقدسه بأصوات مختلفة [8]

اللہ تعالیٰ نے چوتھے نمبر پر عرش پیدا فرمایا ، اس سے پہلے صرف تین چیزیں پیدا کی تھیں، یعنی

 ہوا (دُخان یا گیس)، قلم نامی فرشتہ، اور نور۔پھر مختلف رنگ کے انوار سے عرش پیدا فرمایا، 

جس میں سبز نور(روشنی) شامل ہے جس کی وجہ سے سبزی سبز نظر آتی ہے، اور زرد نور

 (روشنی)جس کی وجہ سے زردی زرد نظر آتی ہے اور سرخ نور(روشنی) جس کی وجہ سر

خی سرخ نظر آتی ہے اور سفید نور جو کہ تمام رنگوں کے انوار سے مل کر بنا ہے اسی سے دن کا ا    ہوتا

 ہے، 

پھر اس نور سے ستر ارب طبق پیدا فرمائے، جن میں سے ہر طبق میں  ایسی مخلوقات بستی ہیں جو

 مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس اور حمد بیان  کرتی ہیں۔[9]

اگرچہ انسان ہزاروں سالوں سے بارش کے بعد بننے والی سات رنگ کی قوس قزح (رین بو) کو حیرت سے تکتا رہا ہے اور قدیم زمانے سے لوگ اس کے بارے میں عجیب توہماتی قسم کے تصورات پالے ہوئے تھے۔قوس قزح کا بھید سائنسی بنیادوں پر بیان کرنے کی پہلی کاوش یونانی فلسفی ارسطو نے کی تھی تاہم اس کے تصورات  ناقص تھے، اگرچہ  وہ یہ جان گیا تھا کہ قوس قزح کا تعلق سورج کی روشنی  اور بادلوں کے ساتھ ہے تاہم وہ اس تعلق کو  درست طور پر بیان نہ کرسکا۔مسلم سائنسدان ابن الہیثم نے بھی سورج کی روشنی اور بادلوں کے مابین اس تعلق کو ایک دوسرے زاویے سےسمجھنے کی کوشش کی تاہم وہ بھی اصل حقیقت نہ پاسکا۔ اس کی رائے میں بادل روشنی منعکس  (ریفلیکٹ )کرتے ہیں تو قوس قزح بنتی ہے، تاہم پہلا مسلم سائنسدان جو

 قوس قزح بننے کی اصل حقیقت تک پہنچا وہ کمال الدین الفارسی (متوفیٰ 1320 عیسوی)  ہے جس نے ابن الہیثم کی تصنیف کتاب المناظر کی شرح تنقیح المناظر کے نام سے لکھی اور اس میں یہ حقیقت آشکار کی قوسِ قزح روشنی کے انعکاس(رفلیکشن) سے نہیں بلکہ انعطاف (رفریکشن) سے بنتی ہے۔[10]

قوس قزح بننے کا عمل سمجھنے کے باوجود لوگ یہ نہیں سمجھ پائے کہ سفیدروشنی سات رنگوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔سب سے پہلےبرطانوی سائنسدان  آئزک نیوٹن نے منشور (پرزم) پر کیے گئے سائنسی مشاہدات کی بنا پر یہ ثابت کیا کہ  سفید روشنی سات رنگوں کی روشنیوں کا مجموعہ ہے۔آئزک نیوٹن نے یہ بات اپنی کتاب آپٹکس میں تفصیل سے بیان کی ہے۔

[11]

سات رنگ کی روشنیوں کی پٹی کو طیف یا اسپیکٹرم کہتے ہیں۔ یہی اسپیکٹرم کائنات کے تمام تر جدید مشاہدات کی بنیاد ہے۔مختلف اجرامِ فلکی سے موصول ہونے والی ان رنگ برنگی روشنیوں سے  ہی سائنسدان ان کے فاصلے، جسامت، کمیت، نورانیت (لومینوسٹی) اور درجۂ حرارت کا تخمینہ لگاتے ہیں۔ہر رنگ کی روشنی کا ایک مخصوص طولِ موج (ویو لینتھ) ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر یہ سارے حسابات کیے جاتے ہیں۔اس سارے عمل کو اصطلاحاً اسپیکٹروسکوپی کہتے ہیں۔[12]

امام زین العابدین علیہ السلام نےجو کائناتی حقائق بیان کیے ہیں، وہ سراجِ نبوت ﷺ سے حاصل کی ہوئی کرنیں لگتی ہیں، غالباً انہوں نے یہ حقائق اپنے والد امام حسین علیہ السلام یا دادا امام علی بن ابی طالب علیہ السلام سے سنے ہوں گے۔امام زین العابدین  علیہ السلام سے نے صرف یہ نہیں بتایا کہ سفید روشنی سات رنگوں کا مجموعہ ہوتی ہے بلکہ یہ بھی بتلایا کہ روشنی کی کئی اقسام ہیں اور قابلِ مشاہدہ کائنات بنیادی طور پر سفید روشنی سے بنائی گئی ہے۔دوسرے لفظوں میں انہوں نے یہ انکشاف پہلی صدی ہجری میں فرمادیا تھا کہ مادہ نور سے بنا ہے۔جبکہ سائنسی اصطلاح میں نور انرجی کی ایک قسم ہے۔

آئن سٹائن نے 1915 میں عمومی نظریۂ اضافیت (جنرل تھیوری آف ریلے ٹیویٹی) پیش کیا جس کے مطابق مادہ انرجی کا ہی دوسرا نام ہے ، جب انرجی کسی صورت میں ڈھلتی ہے تو اسے مادہ کہہ دیتے ہیں۔نیوٹن نے اپنا یہ نظریہ درج ذیل طبیعیاتی مساوات کی شکل میں بیان کیا:

E=mc2

اسی تصور کو بنیاد بناکر سائنسدان بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مادہ (کائنات) کی ابتدا انرجی کی ایک نہایت مہین وحدت (سنگولیریٹی )سے ہوئی جسے بگ بینگ کہتے ہیں۔ بگ بینگ نظریے تک پہنچنے کی ضروری تفصیل ہم اپنے مضمون ’تخلیقِ کائنات‘ میں بیان کر آئے۔

سورۃ الفلق کی ابتدائی آیات میں قوی اشارہ ہے کہ کائنات کی ابتدا نور کے ایک زور دار جھماکے سے ہوئی جس سے تمام مخلوقات پیدا کی گئی ہیں۔ تفصیل ہمارے مضمون’تخلیقِ کائنات‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔

عصرِ حاضر کے ماہرینِ فلکیات و کونیات یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا نور کے زور دار جھماکے سے ہوئی جسے وہ وائٹ ہول کہہ کر پکارتے ہیں۔ وائٹ ہول سےان کی مراد نور کا ایسا منبع ہے جو اپنے محور پر گرداب کی طرح گھومتا ہے اور اس میں نور کا ایک سیلاب محور کے چاروں طرف پھیلتا چلا جاتا ہے، یہی نور بعد ازاں مادے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔



ماہرینِ فلکیات نے کائنات میں متعدد وائٹ ہولز کا سراغ لگایا ہے جن میں سے اب تک دریافت ہونے والا سب سے زیادہ انرجی کا حامل وائٹ ہول ہماری کہکشاں میں واقع کریب نیبولا میں وجود میں آنے والا وائٹ ہول ہے جس کا سراغ انہوں نے جون 2019 میں لگایا ہے۔ اس وائٹ ہول سے جو فوٹون خارج ہوئے ان کی انرجی 100 ٹریلین الیکٹران وولٹ ناپی گئی جو کہ کائنات میں اب تک ناپی گئی سب سے زیادہ انرجی ہے۔[13]

یہ انرجی اتنی زیادہ ہے کہ سورج کئی کھرب سال میں  بھی  اتنی انرجی پیدا نہیں کرسکتا۔

امریکی خلائی ادارے ناسا نے کائنات کی ابتدا یعنی بگ بینگ کے وقت بننے والے وائٹ ہول کے بارے میں لکھا ہے:

The only known white hole is the Big Bang which was instantaneous rather than continuous or long-lasting. We thus suggest that the emergence of a white hole, which we name a ‘Small Bang’, is spontaneous – all the matter is ejected at a single pulse. Thus, unlike black holes, white holes cannot be continuously observed rather their effect can only be detected around the event itself. γ-ray bursts are the most energetic explosions in the universe. Long γ-ray bursts were connected with supernova eruptions. There is a new group of γ-ray bursts, which are relatively close to Earth, but surprisingly lack any supernova emission. We propose identifying these bursts with white holes. White holes seem like the best explanation of γ-ray bursts that appear in voids. We also predict the detection of rare gigantic γ-ray bursts with energies much higher than typically observed.[14]

سائنسدانوں کے پاس ابھی تک ان وائٹ ہولز کے بننے کی کوئی تسلی بخش وجہ موجود نہیں ہے۔یعنی وہ نور کے ان عظیم سرچشموں کے بننے کا سبب تاحال نہیں جان سکے۔بعض لوگ اسے سپرنووا کے ساتھ جوڑتے ہیں،  تاہم اس پر سائنسدانوں کا اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ انسانوں کو اپنی قدرت کی ایسی نشانیاں دکھاتا ہے جن کی کوئی معقول توجیہہ انسانوں کے پاس نہیں ہوتی۔اندازہ کیجیے کہ  کائنات کی ابتدا کے وقت جو نور کا جھماکہ ہوا اس سے کتنی انرجی خارج ہوئی ہوگی کہ جس کے نتیجے میں یہ ساری مادی کائنات  نہ صرف وجود میں آئی ہے، بلکہ اس کی جسامت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔


ہمارا ماننا یہ ہے کہ کائنات کی اصل شکل ایک  بہت بڑی سپائرل گلیکسی جیسی ہے اورتمام کہکشائیں کائنات کی بیٹیاں ہیں، جن کی شکل بالکل اپنی ماں جیسی ہے۔ ہر کہکشاں اپنی ماں کی تخلیق کی کہانی دہراتی ہے۔گویا  ہر کہکشاں تخلیق کے انہی مراحل سے گزرتی ہے جن سے ان کی ماں گزری ہے۔ ہر کہکشاں کے مرکز میں موجود نور کا زبردست منبع درحقیقت وائٹ ہول یا اس جیسے کسی وجود کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ نور کا منبع ہی ہر کہکشاں کو انرجی مہیا کررہا ہے جس سے کہکشاں میں ستارے  اور سیارےوجود میں آتے ہیں۔


25 دسمبر 2021 کو امریکی خلائی ادارے ناسا نے  دس بلین ڈالر مالیت سے تیار کی گئی نہایت طاقتور خلائی دوربین جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ  لانچ کی[15]، جس نے کچھ حیرت انگیز مشاہدات ارسال کیے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ تمام قدیم ترین کہکشاؤں کے مرکز میں روشنی کا بہت بڑا منبع موجود ہے جسے فلکیات کی زبان میں قُرص  یا ڈِسک کہتے ہیں۔جبکہ پہلے سائنسدانوں کا گمان یہ تھا کہ قدیم کہکشائیں موجودہ کہکشاؤں کی نسبت بہت سادہ  اور بے ہنگم ہوں گی۔

One study of Webb’s first deep-field image found a surprisingly large number of distant galaxies that are shaped like disks. Using Hubble, astronomers had concluded that distant galaxies are more irregularly shaped than nearby ones, which, like the Milky Way, often display regular forms such as disks. The theory was that early galaxies were more often distorted by interactions with neighbouring galaxies. But the Webb observations suggest there are up to ten times as many distant disk-shaped galaxies as previously thought.[16]

اس سے ہماری اس رائے کی تائید ہوتی ہے کہ کائنات کا اولین مرکزِ نور محض ایک جھماکا ہی نہ تھا بلک وائٹ ہول کی طرح گردابی صورت میں اس سے نور کے بہت بڑے گولے جدا ہوئے جو اولین وائٹ ہول کی طرح ہی اپنے محور پر تیزی سے محوِ گردش تھے۔ان میں سے ہر گولہ گرداب کی طرح گردش کرتے کرتے ایک کہکشاں بن گیا۔ہر کہکشاںمیں دوسری کہکشاؤں سے جداگانہ طور پر پلازما پیدا ہوا ، اسی پلازما نے دُخانیے (نیبولا) کی شکل اختیار کی  اور پھر ہر دُخانیے میں دُخان (ہائیڈروجن ) سے   ستارے وجود میں آئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کہکشاؤں کی جسامت بڑھتی گئی، بالکل ویسے ہی جیسے کائنات کی جسامت بڑھ رہی ہے۔ ہمارا وجدان یہ کہتا  ہے کہ  کائنات کے مرکز میں اولین مرکزِ نور آج بھی موجود ہے اور پھیلتی ہوئی کائنات کو وہ انرجی اسی مرکز نور سے حاصل ہورہی ہے، جسے ماہرینِ فلکیات و طبیعیات ڈارک انرجی کہتے ہیں۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس انرجی میں کمی ہوتی جائے گی اور  کائنات کی گردش ایک بار رک جائے گی۔عظیم کائناتی کہکشاں کی گردش جب رکے گی تو وقت ایک لمحے کے لیے تھم جائے گا۔کائنات کے مرکز کا وائٹ ہول بلیک ہول بن جائے گا اور کائنات سمٹنا شروع ہوجائے گی۔یہاں تک کہ ساری کائنات لپٹ کر بلیک ہول میں گم ہوجائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب

سورۃ الانبیا کی درج ذیل آیت میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ كَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِؕ-كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗؕ-وَعْدًا عَلَیْنَاؕ-اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ [17]

ترجمہ:اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح لکھے ہوئے صحیفے کا طومار لپیٹا جاتا ہے،  ہم نے پہلی بار مخلوق کو جس حال پر پیدا کیا تھا، اسے پھر اسی حال پر لوٹا دیں گے۔یہ ہم نے عہد باندھ رکھا ہے جسے ہم ضرور پورا کریں گے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام کی طرف اس آیت کی تفسیر کے بارے میں متعدد اقوال منسوب ہیں تاہم ان میں سے درست قول محققین کے نزدیک درج ذیل ہے:

امام بغویؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

وقال ابن عباس ومجاهد والأكثرون : السجل الصحيفة للكتب [18]

  سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام ، امام مجاھدؒ اور اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں سجل سے مراد  لکھا ہوا صحیفہ ہے۔

امام ابن کثیر ؒ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

والصحيح عن ابن عباس أن السجل هي الصحيفة ، قاله علي بن أبي طلحة والعوفي ، عنه . ونص على ذلك مجاهد ، وقتادة ، وغير واحد . واختاره ابن جرير; لأنه المعروف في اللغة [19]

 اور سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ سجل سے مراد صحیفہ ہے،جناب علی بن ابی طلحہؒ اور العوفی ؒ نےان سے  ایسا ہی روایت کیا ہے۔جب کہ امام مجاھدؒ،  امام قتادہؒ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔امام ابن جریرؒ نے بھی لغت میں معروف ہونے کی وجہ سے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔

ہم نے اس آیت کا ترجمہ سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام کی تفسیر کے مطابق اختیار کیا ہے۔امام ابن جریر ؒ نے ان کا قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

فرمان باری تعالیٰ -كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ ،  ہم نے پہلی بار مخلوق کو جس حال پر پیدا کیا تھا، اسے پھر اسی حال پر لوٹا دیں گے)

نهلك كل شيء كما كان أوّل مرّة [20]

یعنی ہم ہر شئے کو فنا کردیں گے جیسے اپنی پیدائش سے پہلے معدوم تھی۔

کیا اس آیت میں یہ قوی اشارہ موجود نہیں کہ قیامت کے دن  کائنات کا یوں طومار کی طرح لپیٹا جانا اس کی پیدائش سے شروع ہونے والے عمل کا عکس ہوگا۔ اس آیت میں نہ صرف کائنات کی شکل  گردابی کہکشاں (سپائرل گلیکسی) سے مشابہہ ہونے کی طرف اشارہ ہے بلکہ یہ بھی واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ جیسا کہ سورہ الذاریات میں فرمایا گیا ہے:

وَالسَّمَأ بَنَیْنٰھَا بِاَیْدٍ وَّ اِنَّا لَمُسِعُوْنَ [21]

دوسری صدی ہجری کے صاحبِ تفسیر مفسرامام عبدلرحمٰن بن زید بن اسلمؒ  (متوفیٰ 182 ھ) نے  اس آیت میں موسعون کو  کائنات میں وسعت پیدا کرنے پر محمول کیا ہے۔[22]

تقریباً تمام ماہرینِ فلکیات اس حقیقت کو تسلیم کرنے  پر متفق ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے، یعنی اس کی جسامت میں اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم کائنات کے پھیلنے کا انداز کیا ہے، اس  بارے میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔روسی سائنسدان فرائیڈ مین(1888-1925 عیسوی) نے 1922 میں  پھیلتی کائنات کا ایک ماڈل تجویز کیا جس کے مطابق کائنات  تمام اطراف میں ایک جیسی دکھائی دیتی ہے یعنی یہ ہوموجینیس ہے اور آئسو ٹراپک ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرائیڈ مین کے مطابق  کائنات کا پھیلاؤ یکساں رفتار سے ہونا چاہیے، جسے بعد میں ہبل مستقلہ (ہبل کونسٹینٹ) کا نام دیا گیا۔[23]

تاہم جدید ترین  کائناتی مشاہدات فرائیڈ مین کے ماڈل سے کلی مطابقت نہیں رکھتے۔کہکشاؤں کے سفر کرنے  کی رفتار (ولاسٹی)  جدید ترین آلات کے ذریعے ناپی گئی ہے،  جس سے خود ہبل کونسٹینٹ پر سوالات اٹھ چکے ہیں۔ایڈون ہبل نے 1929 میں کائنات کے پھیلنے کی رفتار 500 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگاپارسک تجویز کی تھی۔[24]

 جب کہ جدید  تر تحقیقات کے مطابق کائنات کے پھیلنے کی رفتار 70 تا 72 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسک ہے۔[25]

 جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ  کے انکشافات میں سے ایک یہ دریافت بھی ہے کہ مشاہداتی کائنات کے دوردراز علاقوں میں پائی جانے والی قدیم ترین کہکشائیں  اس رفتار سے سفر نہیں کر رہیں جس رفتار سے پہلے خیال کیا جاتا تھا۔

The irony is that JWST’s observations are actually supporting the Big Bang model, showing that the first galaxies were smaller and grew larger over time, just as Big Bang cosmology predicts. [26]

اس دریافت سے ہمارے اس بیانیے کی تائید ہوتی ہے کہ کہکشائیں ابتدا میں چھوٹی تھی تھیں، مگر رفتہ رفتہ ان میں مادے کی مقدار بھی بڑھتی گئی اور ان کی جسامت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

یونیورسٹی آف سڈنی (آسٹریلیا) کے ماہرین نے قدیم و جدید  کہکشاؤں کے تجزیے سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ نئی کہکشائیں پرانی کہکشاؤں کی نسبت پتلی اور چھوٹی ہیں۔

Sydney scientists have discovered just one number captures the essence of a galaxy’s shape and moves in lockstep with its age – young ones are thin and old ones are fat – which could provide insights into galaxy formation.

An international study including the University of Sydney and The Australian National University has found galaxies grow bigger and puffier as they age.

Lead author Dr Jesse van de Sande, from the University of Sydney said it was not obvious that galaxy shape and age had to be linked, so the connection was surprising and could point to a deep underlying relationship. [27]

 

  جس طرح کائنات وقت کے ساتھ ساتھ پھیل رہی ہے کہکشائیں بھی عمر بڑھنے کے ساتھ جسامت میں بڑی ہوتی جاتی ہیں۔ لہٰذا اس سے ہماری اس رائے کو بھی تقویت ملتی ہے کہ کہکشائیں اپنی ماں (کائنات) کی ارتقائی تاریخ دہراتی ہیں۔

ماہرینِ فلکیات کی اکثریت کی تاحال رائے یہ کہ کہکشائیں کسی خاص سمت میں سفر نہیں کررہیں بلکہ ان کا پھیلاؤ چاروں جانب یکساں نوعیت کا ہے، جبکہ یہ مفروضہ فرائیڈ مین کے کائناتی ماڈل پر مبنی ہے، کہ کائنات ہومو جینیس اور آئسوٹراپک ہے۔جدید تحقیقات نے اس مفروضے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں، مگر سائنسدان ابھی تک فرائیڈ مین کے ماڈل کو ترک کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔

جوں  جوں جدید سے جدید تر آلات  اور ٹیلی سکوپس منظرِ عام پر آرہی ہیں، ویسے ہی سائنسدانوں کو اپنے سابقہ تصورات پر نظرِ ثانی کرنا پڑتی ہے۔ یہ سائنس کی ان مٹ نفسیات ہے اور شاید یہی اس علم کی خوبصورتی ہے کہ حقیقت سامنے آنے پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے پرانے تصور کو ترک کرکے نئے تصور کو اپنا لیا جائے۔

کہکشاؤں کے سفر کرنے کی رفتار کے بارے میں ساری دنیا میں تحقیق جاری ہے۔2008 میں ناسا کے زیرِ اہتمام  گوڈرڈ سپیس فلائٹ سینٹر میں ہونے والی ایک ایسی ہی تحقیق میں محققین کی ایک ٹیم نے  الیگزینڈر کاشلنسکی کی سربراہی میں ایک ایسی عجیب دریافت کی کہ جو تاحال سائندانوں کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی۔ کاشلنسکی اور اس کی ٹیم نے دریافت کیا کہ تمام کائنات میں کہکشاؤں کے بڑے بڑے جھرمٹ  (کلسٹرز)   کسی ان دیکھے مرکز کے گرد  ایک خاص سمت میں سفر کرتے محسوس ہورہے ہیں۔جبکہ جس محور پر یہ گردش کررہے ہیں وہ ہمارے نظامِ شمسی (سولر سسٹم)  کے قریب سے گزرتا ہوا سینتاورس جھرمٹ کی طرف جارہا ہے۔

Distant galaxy clusters mysteriously stream at a million miles per hour along a path roughly centered on the southern constellations Centaurus and Hydra. A new study led by Alexander Kashlinsky at NASA’s Goddard Space Flight Center in Greenbelt, Md., tracks this collective motion — dubbed the “dark flow” — to twice the distance originally reported.

“This is not something we set out to find, but we cannot make it go away,” Kashlinsky said. “Now we see that it persists to much greater distances — as far as 2.5 billion light-years away.” The new study appears in the March 20 issue of The Astrophysical Journal Letters.

The clusters appear to be moving along a line extending from our solar system toward Centaurus/Hydra, but the direction of this motion is less certain.
Evidence indicates that the clusters are headed outward along this path, away from Earth, but the team cannot yet rule out the opposite flow. “We detect motion along this axis, but right now our data cannot state as strongly as we’d like whether the clusters are coming or going,” Kashlinsky said.[28]

حقیقت یہ ہے کہ ابھی ہم کائنات کے ایک نہات ہی چھوٹے سے گوشے کو دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ہمارے مشاہدات نہایت محدود نوعیت کے ہیں، بلکہ  بہت سے انصاف پسند سائنسدان تسلیم کرتے ہیں کہ مکمل کائنات کی تصویر دیکھنا ہمارے لیے  نہ آج ممکن  اور نہ مستقبل اس کا کوئی امکان نظر آتا  ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مشاہدات ترک کردیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بہتر سے بہتر کی  جستجو میں لگے رہیں۔

الیگزینڈر  کاشلنسکی اور اس کی ٹیم اصل میں کہکشاؤں کی رفتار (ولاسٹی) کے بارے میں تحقیق کررہی تھی۔ان کا مکمل مقالہ ناسا کی ویبسائٹ پر دستیاب ہے، شائقین وہاں دیکھ سکتے ہیں۔[29]  کائنات میں بہت سی ایسی کہکشائیں موجود ہیں جن کی رفتار دوسری کہکشاؤں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ان کی اس غیر معمولی رفتار کو پیکولیئر ولاسٹی کہتے ہیں۔ کاشلنسکی کی ٹیم نے یہ دریافت کیا کہ کہکشاؤں کے بہت بڑے بڑے جھرمٹ ایک خاص سمت میں بہے چلے جارہے ہیں، اس عمل کو  انہوں نے ڈارک فلو کا نام دیا ہے، کیونکہ موجودہ طبیعیاتی قوانین اس کی کوئی توجہہ کرنے سے عاری ہیں۔اس رو میں بہنے والی کہکشاؤں کی رفتار 1000 کلومیٹر فی سیکنڈ تک  ناپی گئی ہے۔ جب کہ ہماری ملکی وے کہکشاں کی رفتار صرف 600 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔اگر کہکشاؤں کے تمام سمت میں یکساں طور پر پھیلنے کا اصول درست ہے تو کہکشاؤں کا کسی خاص سمت میں بہاؤ  ہونے کا کیا معنی نکلتا ہے؟  اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایڈون ہبل کا مذکورہ اصول  کائنات کے حقیقی پھیلاؤ سے مطابقت نہیں رکھتا۔اسٹیفن ہاکنگ  نے کائنات کے پھیلنے کو ایک غبارے کی طرح پھیلنے سے تشبیہہ دی تھی۔تاہم  اب اس غبارے کی ہوا نکلتی محسوس ہوتی ہے۔جیمز ویب کے مشاہدات ثابت کررہے ہیں کہ کائنات پھیل تو رہی ہے مگر اس انداز میں نہیں پھیل رہی جیسا کہ اسٹیفن ہاکنگ اور دوسرے ماہرینِ فلکیات سوچتے تھے۔ اب انہیں اپنا سوچنے کا انداز بدلنا پڑے گا۔

ڈارک فلو ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ کائنات  آئسوٹراپک نہیں  بلکہ انیسوٹراپک ہے، یہی وہ کڑوا گھونٹ ہے جو ماہرینِ فلکیات کے گلے سے نہیں اتر رہا۔جبکہ جدید مشاہدات کے ساتھ کائنات کا انیسو ٹراپک ہونا عیاں سے عیاں تر ہوتا جارہا ہے۔کہکشائیں صرف کائنات میں سفر ہی نہیں کرتیں بلکہ اپنے مرکز کے گرد بھی گردش کرتی ہیں، جدید تحقیقات سے ثابت ہوا  ہے کہ کائنات میں بعض کہکشائیں ہماری ملکی وے کہکشاں سے دگنی رفتار سے اپنے محور کے گرد لٹو کی طرح گھوم رہی ہیں۔ اس غیر معمولی گردش کی بھی سائنسدانوں کے پاس کوئی واقعی توجیہہ موجود نہیں ، چنانچہ وہ اسے بھی ڈارک میٹر کے قالین کے نیچے

چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔[30]

حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا سپائرل گلیکسی ماڈل ہی کائنات کو درست طریقے سے بیان کرسکتا ہے۔اگر اس ماڈل کو مان لیا جائے تو نہ ڈارک میٹر کا مفروضہ گھڑنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی ڈارک انرجی کی کا مفروضہ۔

کائنات کے سپائرل گلیکسی ماڈل  کے مطابق کائنات  اور اس میں کہکشاؤں  کی حرکات  کو درست طریقے سے سمجھنے کے لیے ہمیں اپنی کہکشاں یعنی ملکی وے کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا۔ ملکی وے جیسی ایک گردش کرتی ہوئی کہکشاں میں تمام ستاروں کی اپنے مدار پر گردش یکساں رفتار سے نہیں ہوتی اور نہ ہی ان ستاروں کے مدار ہمیشہ گول ہوتے ہیں۔

سٹراس برگ یونیورسٹی(فرانس) سے منسلک سٹراس برگ ایسٹرونومیکل  آبزرویٹری سے وابستہ عمود سیبرت اور اس کی ٹیم نے ملکی وے کہکشاں کے ہزاروں ستاروں کی اپنے مداروں پر حرکت کے  بارے میں 2003 سے اب تک ہونے والے مشاہدات کا تجزیہ کیا ہے،  جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملکی وے کہکشاں کےبیرونی حصے میں پائے جانے والے ستاروں کی رفتار سورج سے فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔یعنی جو ستارے کہکشاں کے مرکز سے سورج سے بھی زیادہ فاصلے پر ہیں ان کی رفتار زیادہ ہے بہ نسبت کہکشاں کے مرکز کے قریب پائے جانے والے ستاروں کے۔ ہماری رائے میں کہکشاؤں کی غیر معمولی حرکات کا سبب بھی کائنات کی گردابی گردش (سپائرل سپِن) ہے۔

To reach this conclusion, the team systematically analyzed the velocities of over two hundred thousand stars located within a radius of a little over six thousand light years around the Sun. Using data from the major star survey RAVE (RAdial Velocity Experiment) collected since 2003 by the Australian Astronomical Observatory’s Schmidt telescope, they were able to measure for the first time the radial velocities of hundreds of thousands of stars and determine whether they were moving towards or awa from us.

The researchers were thus able to ascertain that the average speed of stars towards the exterior of the Galaxy increases with their distance from the Sun in the direction of the Galactic center, reaching 10 kilometers per second at a distance of 6,000 light years from us (in other words, 19,000 light years from the Galactic center). This result was completely unexpected and all the more surprising as it appeared to mainly affect old stars, several billion years old. Until now, it was thought that the spiral arms mostly affected the dynamics of young stars (only a few tens-of-million-years old). However, theoretical study of the combined effect of the spiral arms and the central bar, both within and outside the plane of the Galaxy, could explain the strange distortions of stellar motion observed by the astronomers in the RAVE team.[31]

یہ مشاہدہ  کثافتی امواج  (ڈینسٹی ویو تھیوری) کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا گردابی کہکشاں (سپائرل گلیکسی) میں ستاروں کی حرکات اور کہکشاں کی بناوٹ کے بارے میں کثافتی امواج کا نظریہ نہایت معقول معلوم ہوتاہے۔کتنا عجیب اتفاق ہے کہ نبی ﷺ نے بھی کائنات کو موج مکفوف قرار دیا ہے اور سائنسدانوں کے نزدیک بھی گردابی کہکشاں کی وضاحت کثافتی  موج کی صورت میں ہی کی جاسکتی ہے.

 ہمارا ماننا یہ ہے کہ کہکشاؤں کی غیر معمولی حرکات کی وضاحت کثافتی امواج نظریہ کے ذریعہ  ممکن ہے، اس کے لیے ڈارک میٹر فرض کرنے کی ضرورت نہیں۔

کثافتی امواج نظریہ اصل میں موج مکفوف کی حرکات کی  ہی ایک وضاحت ہے، کثافتی امواج نظریہ کا جامع مگر مختصر تعارف انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے ان الفاظ میں کرایا ہے:

Theoretical understanding of the Galaxy’s spiral arms has progressed greatly since the 1950s, but there is still no complete understanding of the relative importance of the various effects thought to determine their structure. The overall pattern is almost certainly the result of a general dynamical effect known as a density-wave pattern. The American astronomers Chia-Chiao Lin and Frank H. Shu showed that a spiral shape is a natural result of any large-scale disturbance of the density distribution of stars in a galactic disk. When the interaction of the stars with one another is calculated, it is found that the resulting density distribution takes on a spiral pattern that does not rotate with the stars but rather moves around the nucleus more slowly as a fixed pattern. Individual stars in their orbits pass in and out of the spiral arms, slowing down in the arms temporarily and thereby causing the density enhancement. For the Galaxy, comparison of neutral hydrogen data with the calculations of Lin and Shu have shown that the pattern speed is 4 km/sec per 1,000 light-years.  [32]

یاد رہے کہ جب ہم کسی کائناتی مشاہدے یا نظریے کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب مت سمجھا جائے کہ ہم اس مشاہدے یا نظرئیے کی بعینہ  مکمل تائید کررہے ہیں۔ ان مشاہدات ونظریات میں نقائص ہوسکتے ہیں، مگر ہم انہیں اپنی دلیل میں اس لیے پیش کرتے ہیں کہ سائنسدانوں نے بھی قرآنی تصور کے امرِ واقعہ ہونے کے امکان کو تسلیم کرلیا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ اس کے امکان کے بھی قائل نہ تھے۔لہٰذا کائنات کی ابتدا نور کے ایک زوردار جھماکے سے ہونے کو سائنسدانوں نے امکانی طور پر تسلیم کرلیا ہے۔اب وہ اپنے نظریے کی جو بھی توجیہات بیان کریں، ان کاقرآن سے سو فیصد مطابقت رکھنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ ابھی انسان کا مشاہداتی علم   ابتدائی نوعیت کا ہے جو ہے بھی خام ۔ جوں جوں ہمارا مشاہداتی علم ترقی کررہا ہے، ویسے ویسے ہمارا یہ احساس گہرا ہوتا جارہا ہے کہ ابھی ہم کائنات کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔

لہذا کسی بھی انسانی مشاہدے کو حرفِ آخر مت سمجھیں، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں ترامیم ہونا فطری بات ہے، جبکہ قرآن حکیم کے بیان کیے گئے حقائق ابدی و ناقابلِ تغیر ہیں۔لہٰذا کسی کے دماغ میں یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیے ہم کہ سائنسی نظریات سے قرآن کی تصدیق چاہتے ہیں، بلکہ ہم سائنس کے مسلمہ حقائق کی تائید قرآن سے کرتے ہیں۔کیوں کہ قرآن ان خالقِ کائنات کا کلام ہے جس نے خود کائنات تخلیق کی اور وہ کائنات کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ [33]

کیا پیدا کرنے والا ہی نہیں جانتا؟ وہ تو بہت باریک بین اور باخبر ہے۔

 



 یونس: 5[1]

 تفسیر النسفی، جلد 8، صفحہ 17،https://shamela.ws/book/2063/3759 [2]

 نوح: 15-16[3]

الملک:5[4]

 https://shamela.ws/book/43/14046 [5]

 النازعات: 28-30[6]

https://shamela.ws/book/43/14123 [7]

 [8]

 https://shamela.ws/book/18686/14693، تفسیر الثعلبی، جلد 27، صفحہ 302،   [9]

https://muslimheritage.com/kamal-al-din-al-farisis-explanation-of-the-rainbow/#ftn15 [10]

https://library.si.edu/exhibition/color-in-a-new-light/science [11]

https://www.britannica.com/science/spectroscopy [12]

 https://phys.org/news/2019-06-highest-energy-photons-crab-nebula.html [13]

https://www.nasa.gov/content/goddard/2021/nasa-james-webb-space-telescope-unfold-the-universe-art-challenge [15]

 https://www.nature.com/articles/d41586-022-02056-5 [16]

 الانبیا:104[17]

https://quran.ksu.edu.sa/tafseer/baghawy/sura21-aya104.html#baghawy [18]

https://quran.ksu.edu.sa/tafseer/katheer/sura21-aya104.html#katheer [19]

http://quran.ksu.edu.sa/tafseer/tabary/sura21-aya104.html [20]

 الذاریات:47 [21]

https://quran.ksu.edu.sa/tafseer/tabary/sura51-aya47.html [22]

https://www.britannica.com/science/Hubble-constant [23]

 ایضاً[24]

https://news.uchicago.edu/explainer/hubble-constant-explained [25]

https://www.space.com/james-webb-space-telescope-science-denial [26]

https://www.sydney.edu.au/news-opinion/news/2018/04/24/Galaxies-grow-bigger-and-puffier-as-they-age-study-finds.html [27]

https://www.nasa.gov/centers/goddard/news/releases/2010/10-023.html [28]

https://www.nasa.gov/centers/goddard/pdf/276176main_ApJLetters_20Oct2008.pdf [29]

https://www.universetoday.com/143784/the-most-massive-galaxies-spin-more-than-twice-as-fast-as-the-milky-way/ [30]

https://phys.org/news/2010-11-milky-stars-mysterious-ways.html [31]

https://www.britannica.com/place/Milky-Way-Galaxy/The-structure-and-dynamics-of-the-Milky-Way-Galaxy [32]

 الملک:14[33]

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading