از قلم ساجد محمود انصاری
اسلامی شریعت میں احکام کا تعین قرآن وسنت، اجماعِ امت ، فتاویٰ اہلِ بیت و اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اجمعین اور عقلِ صریح (قیاس صحیح) کی بنیاد پر کیا جاتاہے۔ نماز باجماعت راجح قول کے مطابق فرضِ کفایہ ہے۔ ظاہر ہے کے امام کے تعین کے بغیر باجماعت نماز کا تصور ہی ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ امام مقرر کرنا محض کوئی رسم نہیں ہے کہ کسی بھی شخص کو امامت کے لیے مصلے پر کھڑا کردیا جائے بلکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے جسے صاحبِ عقل و علم ہی نبھاسکتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ
(صحیح البخاری: رقم 722، صحیح مسلم: رقم 414)
ترجمہ: بے شک امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے۔
اب ظاہر ہے کہ کم سن و کم عقل کی پیروی کرنا کوئی پسندیدہ عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سیدنا ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
يؤم القوم اقرؤهم لكتاب الله، فإن كانوا في القراءة سواء فاعلمهم بالسنة، فإن كانوا في السنة سواء فاقدمهم هجرة، فإن كانوا في الهجرة سواء فاكبرهم سنا، ولا يؤم الرجل في سلطانه ولا يجلس على تكرمته في بيته إلا بإذنه
(جامع الترمذی: رقم 235، صحیح مسلم: رقم 1534)
ترجمہ:
لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو، اگر لوگ قرآن کے علم میں برابر ہوں تو جو سب سے زیادہ سنت کا جاننے والا ہو وہ امامت کرے، اور اگر وہ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہو وہ امامت کرے، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرے، آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ کسی آدمی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھا جائے“۔
عن مالك بن الحويرث، اتيت النبي صلى الله عليه وسلم في نفر من قومي، فاقمنا عنده عشرين ليلة وكان رحيما رفيقا، فلما راى شوقنا إلى اهالينا، قال:” ارجعوا فكونوا فيهم وعلموهم وصلوا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم احدكم وليؤمكم اكبركم”.
(صحیح البخاری: رقم 628)
ترجمہ:سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنی قوم کے ایک وفد کے ساتھ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے پاس ہم بیس دن ٹھہرے رہے، آپ ﷺ بہت مہربان اور نرم دل تھے۔ جب آپ نے ﷺ محسوس کیا کہ ہم اب اپنے گھر والوں کی طرف واپس جانا چاہتے ہیں تو آپ ﷺ نے ہمیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا: اچھا اب لوٹ جاؤ ،جاکر انہیں دین کا علم سکھاؤ اور نماز کا اہتمام کرو۔ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان دے اور تم میں سب سے بڑا امامت کے فرائض سرانجام دے۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی ایک متفق علیہ روایت میں یہ الفاظ بھی منقول ہیں:
إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَأَذِّنَا، ثُمَّ أَقِيمَا، وَلْيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا
(صحیح البخاری: رقم 2848 ، صحیح مسلم: رقم 1538)
ترجمہ: جب نماز کا وقت ہوجائے تو اذان اور اقامت کہو اور تم میں جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
إذا زار أحدُكم قومًا فلا يصلِّ بهم ، وليصلِّ بهم رجلٌ منهم
(سنن النسائی: رقم 787، مسند احمد: رقم 20557)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی کسی قوم کا مہمان بنے تو ان کی امامت نہ کرے، بلکہ اسی قوم کا کوئی مرد امامت کرے۔
رسول اکرم ﷺ کے یہ مبارک فرامین امر شرعی ہیں اور امرِ شرعی بالعموم وجوب پر دلالت کرتا ہے تا وقت یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ اس وجوب کو زائل کرنے والا ہو۔ چنانچہ جمہور آئمہ مجتہدین نے ان احادیث صحیحہ سے بالغ مردکی امامت کا وجوب اخذ کیا ہے۔امام شعبیؒ، امام مجاہدؒ،امام عطا بن ابی رباحؒ،امام ابوحنیفہؒ، امام اوزاعیؒ، امام مالکؒ ، امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ کے نزدیک امامت کے لیے بلوغت شرط ہے۔
کیا ان احادیث میں کوئی ایسی گنجائش چھوڑی گئی ہے کہ نابالغ بچے کو امام بنایا جائے؟ چنانچہ جمہور فقہائے امت کا مؤقف یہ ہے کہ فرض یا نفل نماز میں نابالغ بچےکی امامت جائز نہیں، ہاں نابالغ بچے کی امامت کی صرف ایک صورت ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے جیسے نابالغ بچوں کی امامت کرائے۔
امام ابن قدامہ الحنبلیؒ فرماتے ہیں:
الصبي تصح إمامته بمثله؛ لأنه بمنزلته
نابالغ بچے کی امامت اپنے جیسے نابالغ بچوں کے لیے درست ہے کیوں کہ ان کا حال بھی اسی جیسا ہے۔
(الکافی: جلد 1، صفحہ 295)
جبکہ امام ابن قدامہ الحنبلیؒ فرماتے ہیں کہ فرض میں بچے کی امامت کے جائز ہونے کا تو سوال ہی کیا، اگر کوئی مرد صرف بچے کے ساتھ فرض نماز ادا کرے تب بھی وہ جماعت کے ثواب سے محروم رہے گا۔ ملاحظہ فرمائیں:
وَلَوْ أَمَّ الرَّجُلُ عَبْدَهُ أَوْ زَوْجَتَهُ أَدْرَكَ فَضِيلَةَ الْجَمَاعَةِ، وَإِنْ أَمَّ صَبِيًّا جَازَ فِي التَّطَوُّعِ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَمَّ فِيهِ ابْنَ عَبَّاسٍ وَهُوَ صَبِيٌّ. وَإِنْ أَمَّهُ فِي الْفَرْضِ، فَقَالَ أَحْمَدُ: لَا تَنْعَقِدُ بِهِ الْجَمَاعَةُ؛ لِأَنَّهُ لَا يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ إمَامًا؛ لِنَقْصِ حَالِهِ، فَأَشْبَهَ مَنْ لَا تَصِحُّ صَلَاتُهُ
ترجمہ: اگر کوئی مرد اپنے غلام یا بیوی کے ساتھ نماز ادا کرے تو اسے جماعت کی فضیلت حاصل ہوجائے گی، نفل نماز میں بچے کےساتھ بھی جماعت ہوسکتی ہے کیوں کہ نبی ﷺ نے اکیلے سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما لسلام کی نوافل میں امامت کی ہے۔ تاہم اگر وہ فرض میں بچے کی امامت کرے تو اس بارے میں امام احمد ؒ نے فرمایا کہ اکیلے بچے کے ساتھ جماعت منعقد نہیں ہوگی، کیوں کہ وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے امام بننے کے لائق نہیں ہے، پس اس کی مشابہت اس شخص کے ساتھ ہے جس کی نماز ہی درست نہ ہو۔
امام احمد ؒ کا یہ مؤقف کوئی ہوائی تیر نہیں ہے بلکہ رسول اکرم ﷺ کی سنت متواترہ پر مبنی ہے۔ رسول اکرم ﷺنے فرض نماز میں بچوں کو پہلی صف میں کھڑا ہونے کی اجازت نہیں دی۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ليلينِّي منكم أولو الأحلامِ والنُّهى ثمَّ الَّذينَ يلونَهُم ثمَّ الَّذينَ يلونَهُم
(صحیح مسلم: رقم 432، سنن ابو داؤد: رقم 675، جامع الترمذی: رقم 228 واللفظ لہ)
ترجمہ: میرے قریب کی صف میں تم میں سے وہ لوگ کھڑے ہوں جو زیادہ عقلمند اور سوجھ بوجھ والے ہیں،پھر جو ان کے قریب تر ہوں اور پھر جو ان کے قریب تر ہوں۔
کسی بچے کو امام بنانے کے برعکس مسجد نبوی میں تومعمول تھا کہ سب سے پہلے مردوں کی صفیں بنتیں، مردوں کے پیچھے بچوں کی صف اور بچوں کے پیچھے خواتین کی صف۔
سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أَلَا أُصَلِّي لَكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَفَّ الرِّجَالُ، ثُمَّ صَفَّ الْوِلْدَانُ خَلْفَ الرِّجَالِ، ثُمَّ صَفَّ النِّسَاءُ خَلْفَ الْوِلْدَانِ
(مسند احمد: رقم 22896، سنن ابوداؤد: رقم 677)
ترجمہ: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کے نہ دکھاؤں؟ پس آپ نے پہلے مردوں کی صفیں بنوائیں، مردوں کے پیچھے بچوں کی صف بنوائی، پھر ان کے پیچھے خواتین کی صف بنوائی۔
کیا اس کے بعد بھی نابالغ بچے کی امامت کی کوئی گنجائش نکلتی ہے؟ رسول اکرم ﷺ کی قولی احادیث اور فعلی احادیث دلالت کرتی ہیں کہ نابالغ بچے کی امامت جائز نہیں، خواہ نماز فرض ہو یا نفل۔
امام محمد بن ادریس شافعی ؒ کا ایک قول یہ ہے کہ نابالغ بچے کی امامت صرف اس صورت میں جائز ہے جب کوئی بالغ امام قرآن جاننے والا دستیاب نہ ہو۔تاہم وہ نماز جمعہ میں نابالغ بچے کی امامت کو جائز نہیں سمجھتے۔اس کے باوجود شوافع کے ہاں بھی مختار مذہب یہی ہے کہ فرض نماز کی امامت بالغ کو ہی کرنا چاہیے، اگرچہ وہ اسے جمہور فقہا کی طرح شرط قرار نہیں دیتے۔ امام احمد بن حسین البیہقی الشافعیؒ نابالغ بچے کی امامت کے ذیل میں فرماتے ہیں:
احتج فی کتاب البویطی فی جواز امامتہ و ان کان الاختیار الا یؤم الا بالغ
ترجمہ:امام بویطیؒ کی کتاب (المختصر) میں انہوں نےنابالغ کی امامت کے جواز کا ذکر کیا ہے تاہم مختار مذہب یہی ہے کہ امامت بالغ کو ہی کرنی چاہیے۔
(معرفۃ السنن: جلد 4، صفحہ 166)
موجودہ زمانے میں بہت سے سلفی علما فرض اور نفل نماز میں نابالغ بچے کی امامت کو جائز سمجھتے ہیں ان علما میں شیخ زبیر علی زئی بھی شامل ہیں۔
یہ علما درج ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہیں:
عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ قَالَ قَالَ لِي أَبُو قِلَابَةَ أَلَا تَلْقَاهُ فَتَسْأَلَهُ قَالَ فَلَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ كُنَّا بِمَاءٍ مَمَرَّ النَّاسِ وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا الرُّكْبَانُ فَنَسْأَلُهُمْ مَا لِلنَّاسِ مَا لِلنَّاسِ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُونَ يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ أَوْحَى إِلَيْهِ أَوْ أَوْحَى اللَّهُ بِكَذَا فَكُنْتُ أَحْفَظُ ذَلِكَ الْكَلَامَ وَكَأَنَّمَا يُقَرُّ فِي صَدْرِي وَكَانَتْ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلَامِهِمْ الْفَتْحَ فَيَقُولُونَ اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمْ فَهُوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلَامِهِمْ وَبَدَرَ أَبِي قَوْمِي بِإِسْلَامِهِمْ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا فَقَالَ صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا وَصَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنْ الرُّكْبَانِ فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّي فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ الْحَيِّ أَلَا تُغَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ فَاشْتَزَوْا فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ فَرَحِي بِذَلِكَ الْقَمِيصِ
(صحیح البخاری: رقم حدیث 4302)
سیدنا عمرو بن سلمہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ ابو قلابة نے مجھ سے کہا: کیا تم اس سے نہیں ملتے اور اس سے سوال نہیں کرتے؟
پس میں اس سے ملا اور اس سے سوال کیا، تو اس نے کہا
ہم ایک ایسے کنویں کے پاس رہتے تھے جہاں سے لوگ گزرتے تھے، اور قافلے وہاں سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے: لوگوں کا کیا حال ہے؟ یہ شخص (نبی اکرم ﷺ) کون ہیں؟
تو وہ کہتے: ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے انہیں بھیجا ہے، ان پر وحی نازل ہوئی ہے، یا اللہ نے ان پر یہ وحی کی ہے۔
پس میں ان کی باتیں یاد رکھتا اور وہ میرے دل میں بیٹھ جاتیں۔ عرب لوگ اپنے اسلام لانے میں فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے اور کہا کرتے تھے:اسے اور اس کی قوم کو چھوڑ دو، اگر وہ ان پر غالب آگیا تو یقیناً وہ سچا نبی ہوگا۔
پس جب فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا تو ہر قبیلے نے جلدی سے اسلام قبول کر لیا، اور میرے والد نے بھی اپنی قوم کو لے کر اسلام قبول کرنے میں سبقت کی۔
جب وہ واپس آئے تو کہا: اللہ کی قسم! میں نبی اکرم ﷺ کے پاس سے حق لے کر آیا ہوں۔
پس انہوں نے فرمایا:
فلاں وقت میں فلاں نماز پڑھو، اور فلاں وقت میں فلاں نماز پڑھو، اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی اذان دے، اور تم میں سے جو سب سے زیادہ قرآن جانتا ہو وہ امامت کرے۔
پس لوگوں نے دیکھا تو مجھ سے زیادہ کوئی قرآن جاننے والا نہ تھا، کیونکہ میں قافلوں سے سیکھتا تھا۔
تو انہوں نے مجھے امامت کے لیے آگے کر دیا، حالانکہ میری عمر صرف چھ یا سات سال تھی۔
میرے جسم پر ایک ہی چادر ہوتی تھی، جب میں سجدہ کرتا تو وہ پیچھے ہٹ جاتی،
تو قبیلے کی ایک عورت نے کہا: کیا تم اپنے قاری کی شرمگاہ کو ہم سے نہیں چھپاؤ گے
پس لوگوں نے میرے لیے ایک قمیص کا انتظام کیا، اور مجھے کسی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اس قمیص سے ہوئی۔
اس حدیث میں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس نابالغ بچے کو امام بنانے کا حکم نبی ﷺ نے دیا تھا؟ اس کا جواب ہے نہیں بلکہ سیدنا عمرو بن سلمہ رحمۃ اللہ علیہ کے والد کا اجتہاد تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا احادیث قولیہ و فعلیہ صحیحہ کے مقابلے میں کسی نو مسلم بدوی صحابی کا اجتہاد حجت ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ نبی ﷺ کی سنتِ متواترہ کے مقابلے میں ایک نو مسلم صحابی کا اجتہاد حجت نہیں ہوسکتا جبکہ ابھی وہ دین کی ابتدائی باتیں سیکھ رہے تھے۔ قطع نظر اس کے کہ یہ اجتہاد درست تھا یا غلط اصولی طور پر سنت متواترہ کے مقابلے میں ایک متعارض خبر واحد کو ترجیح نہیں دی جاسکتی جبکہ یہ بھی مسلمہ ہو کہ نو مسلم صحابی ابھی تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل طے کررہے تھے اور بہت سے امور ان سے مخفی تھے۔
پھر یہ بھی واضح نہیں کہ نبی ﷺ نے انہیں اس عمل پر برقرار رکھا یا ان کی تصحیح فرمائی کیوں کہ عدمِ علم علمِ عدم کو مستلزم نہیں ہے۔بلکہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا احادیث میں نبیﷺ کا اہتمام کے ساتھ یہ فرمانا کہ جو تم میں سے بڑا ہو وہ امامت کرے ظاہر کرتا ہے کہ آپ ﷺ اس امکانِ خطا کو ختم کرنا چاہتے تھے تو عمرو بن سلمہ رحمہ اللہ کی قوم سے سرزد ہوئی۔واللہ اعلم
اگر بالفرض محال یہ تسلیم کرلیں کہ نبی ﷺ نے اس استثنائی صورت میں اس قوم کو نابالغ کی امامت پر برقرار رکھا تو ایسی استثنائی صورت سے کوئی عام قاعدہ و کلیہ اخذنہیں کیا جاسکتا جبکہ اس ایک خبر واحد کے مقابلے میں سنت ِمتواتر ہ اس کے بالکل متضاد تصویر پیش کرتی ہے۔ ایک امر واجب کی موجودگی میں اس استثنائی صورت کو منسوخ سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ اس خبر واحد کو بطور سنت پیش نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ یہ اُس قوم کے لیے ایک رخصت ہوسکتی ہے جو ان کے ابتدائے اسلام کی صورت میں انہیں ایک استثنا کے طور پردی گئی ہو۔(مسائل الإمام أحمد برواية أبي داؤد)