کیا جہیز لعنت ہے؟
از قلم ساجد محمود انصاری
ہمارے ہاں اکثر معاملات میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے، جس کے سبب لوگ بلا تحقیق خود سے ایک رائے قائم کرلیتے ہیں اور پھر اس رائے کوشرعی حکم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ جہیز کا بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں جہیز کو بنیاد بنا کر بہت سے منفی رویے پروان چڑھ گئے ہیں، مگر اس کا اصل سبب جہیز کو قرار دے کر سرے سے جہیز کو ہی موجبِ لعنت سمجھنا درست نہیں۔ جس طرح تجارت روزی کمانے کا ایک مباح طریقہ ہے، مگر کم تولنا، ذخیرہ انداوزی، ملاوٹ یا دھوکہ دہی عام ہوچکی ہے، کیا ان خرابیوں کی بنیاد پر سرے سے تجارت کو ہی ممنوع قرار دے دیا جائے؟
باور کرلیجیے کہ والدین اپنی بیٹی کو جہیز دینا چاہیں تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ہاں اسے ریاکاری ،نمودونمائش اور تفاخر کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے ۔اسی طرح جہیز کی مالیت اور مقدار کا تمام تر انحصار والدین کی مالی استعداد پر ہے۔لہٰذا لڑکے والے لڑکی والوں سے کسی خاص مالیت کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔
امام علی علیہ السلام بچپن میں رسول اکرم ﷺ کی زیر کفالت تھے، تاہم جوان ہونے کے بعد بھی وہ نبی ﷺ کے ساتھ ہی رہے۔ جب امام علی علیہ السلام نے نبی ﷺ سے ان کی بیٹی سیدہ فاطمہ علیہا السلام کا رشتہ مانگا تو نبی ﷺ نے بخوشی آپ کی درخواست کو قبول کیا۔ نکاح کے وقت نبیﷺ نے امام علی علیہ السلام کو مہر دینے کے لیے وہ ذرہ بیچنے کا حکم فرمایا جو خود نبی ﷺ نے انہیں کبھی تحفے میں عطا فرمائی تھی، پھر نبی ﷺ کے حکم پر امام علی علیہ السلام کے لیے مسجد نبوی کے ساتھ قبلہ کی جانب ایک حجرہ بنایا گیا۔چنانچہ نکاح کے بعد امام علی علیہ السلام نے سہدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اسی حجرہ مبارک میں ٹھہرایا۔نبی ﷺ نے رخصتی کے وقت اپنی لختِ جگر کو کچھ سامان جہیز میں دیا۔ یاد رہے کہ جہیز ہندی زبان کا نہیں بلکہ عربی زبان کا لفظ ہے اور جس حدیث میں جہیز کا ذکر ہے وہاں یہی لفظ مذکور ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: جَہَّزَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَاطِمَۃَ فِیْ خَمِیْلٍ وَقِرْبَۃٍ وَوِسَادَۃِ أدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفُ الْإِذْخَرِ۔
(مسند احمد: رقم ۶۴۳)
امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا فاطمہ سلام اللہ علیہاکو جہیز میں یہ اشیاء دی تھیں: ایک چادر، ایک مشک اور چمڑے کا ایک تکیہ، جس کی بھرائی اذخر گھاس کے پتوں سے کی گئی تھی۔
امام علی علیہ السلام کی اسی مضمون کی روایت میں ایک دوسری سند سے یہ الفاظ منقول ہیں:
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَمَّا زَوَّجَہُ فَاطِمَۃَ بَعَثَ مَعَہَا بِخَمِیْلَۃٍ وَوِسَادَۃٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ، وَرَحَیَیْنِ وَسِقَائٍ وَجَرَّتَیْنِ۔
(مسند احمد: ۸۱۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب سیدہ فاطمہ سلاماللہ علیہا کی شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو یہ سامان دیا: ایک چادر، چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں پتے بھرے گئے تھے،دو چکیاں، ایک مشک اور دو گھڑے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے یہ سامان وہی ذرہ بیچ کرخریدا تھا جس کی طرف سطورِ بالا میں اشارہ کیا گیا ہے، جبکہ درج ذیل حدیث اس گمان کی نفی کرتی ہے:
عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أَخْطُبَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابْنَتَہُ، فَقُلْتُ: مَا لِیْ مِنْ شَیْئٍ فَکَیْفَ؟ ثُمَّ ذَکَرْتُ صِلَتَہُ، وَعَائِدَتَہُ، فَخَطَبْتُہَا اِلَیْہِ، فَقَالَ: ((ھَلْ لَکَ مِنْ شَیْئٍ؟)) قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((فَأَیْنَ دِرْعُکَ الْحَطْمِیَّۃُ الَّتِیْ أَعْطَیْتُکَیَوْمَ کَذَا وَکَذَا؟)) قَالَ: ھِیَ عِنْدِیْ، قَالَ: ((فَأَعْطِہَا اِیَّاہُ۔))
(مسند احمد: رقم ۶۰۳)
امام علی علیہ السلام سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ارادہ کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی سے نکاح کے بارے میں پیغام بھیجوں، لیکن پھر میں نے سوچا کہ میرے پاس تو کوئی مال نہیں ہے، سو میں کیا کروں، پھر مجھے یاد آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور بار بار ہمارے گھر آتے جاتے رہتے ہیں، پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ پیغام بھیج دیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرے پاس کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ حطمی زرہ کہاں ہے، جو میں نے تجھے فلاں دن دی تھی؟ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہی فاطمہ کو (مہر کے طور پر) دے دو۔
دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے وہ ذرہ بیچ کر سونے کے سکوں کو صورت میں سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مہر ادا کیا۔بہر کیف جہیز کا سامان رسول اکرم ﷺ کی جانب سے اپنی بیٹی کے لیے تحفہ تھا۔ ہم میں یہ جرأت نہیں کہ ہم سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ملنے والے اس تحفے (جہیز) کو لعنت کہیں (معاذاللہ)
آپ جہیز کو لے کر بننے والے ناپسندیدہ رویوں کی خوب مذت کیجیے، ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے،مگر خدارا مطلقاً جہیز کو لعنت مت قرار دیجیے۔ جہیز ایک اعتبار سے عقلی ضرورت بھی ہے۔ اسلام میں جوائنٹ فیملی سسٹم کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ قرآن نے بیوی کا نان نفقہ (کھانا پینا، رہائش، لباس) خاوند کے ذمہ لگایا ہے۔ نبی ﷺ کی مذکورہ بالاسنتِ مبارکہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خاوند بیوی کو ایک ایسے حجرے (کمرے) میں رکھے جہاں اس کی نجی زندگی متأثر نہ ہو اور دوسرے لوگ اس کی اجازت کے بغیر وہاں داخل نہ ہوسکیں۔ اب ایسے میں جب کہ لڑکے نے بیوی کو مہر بھی دینا ہے، ولیمہ بھی کرنا ہے، بیوی کے نان نفقے کا انتظام بھی کرنا ہے،اگر دلہن کا والد یا رشتہ دار اپنی بیٹی کی سہولت کے لیے کوئی سامان وغیرہ بطور صلۂ رحمی دے دیتا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے اور اسے لعنت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ لڑکوں کے لیے نکاح کو آسان بنانے کے لیے جہیز لڑکی والوں کی جانب سے ایک معاونت ہے۔
ہمارے کمزور معاشی نظام میں جہاں عوام کی اکثریت کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتی ہے، وہاں جوائنٹ فیملی سسٹم ایک مجبوری ہے۔ ہر خاندان اپنے ہر بیٹے کو الگ مکان بنا کر دینے کی استعداد نہیں رکھتا۔ اب ایسی جوائنٹ فیملی میں اگر لڑکی جہیز نہیں لاتی تو اسے سب سے زیادہ شرمندگی اس وقت ہوتی ہے جب اس کے اپنے میکے سے مہمان آتے ہیں کہ ان کے قیام کے لیے نہ اضافی چارپائی ہوگی نہ بستر۔اسی طرح ان کے کھانے پینے کے لیے اضافی برتن بھی نہ ہوں گے۔ اس لیے یوں سمجھیے کہ والدین اپنی بیٹی کو جہیز اپنی سہولت کے لیے دیتے ہیں۔
اگر بالفرض لڑکی امیر گھرانے میں بھی بیاہی جائے تب بھی لڑکی کی عزتِ نفس کو مجروح ہونے سے بچانے کے لیے جہیز کی افادیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ مت بھولیں کہ ہمارا معاشرہ کوئی آئیڈیل معاشرہ نہیں ہے کہ جس میں آپ دوسروں سے حسنِ سلوک کی توقع رکھ کر اپنی بیٹی کو بے آسرا چھوڑ دیں اور اس کی سہولت کی ہر چیز لازماً خاوند یا اس کے خاندان کے ذمہ لگا کر خود چین کی بانسری بجانے لگیں۔آج کے زمانے میں واشنگ مشین کی مثال لے لیجیے۔ آپ اگر اپنی بیٹی کو جوائنٹ فیملی میں بیاہتے ہیں اور واشنگ مشین جہیز میں نہیں دیتے توجان لیجیے کہ آپ کی بیٹی کو کپڑے اپنے ہاتھوں سے ہی دھونے پڑیں گے۔نان نفقہ میں واشنگ مشین لازمی طور پر شامل نہیں ہے۔لہٰذا شوہر واشنگ مشین لے کر دینے کا پابند نہیں ہے، اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اسے اپنی شریکِ حیات سے تعاون کا اجر ملے گا۔لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو آپ اسے پابند نہیں کرسکتے۔ چنانچہ والدین جہیز اپنی بیٹی کی سہولت کے لیے دیتے ہیں اور تمام والدین خوشدلی سے اپنی بیٹی کو سہولیات دینا چاہتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جن کی سوئی یہاں آکر اٹک گئی ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین