2025-07-06

 

حقیقی آزادی کا سفر

حقیقی آزادی کا سفر

از قلم ساجد محمود انصاری

مشہور فرانسیسی فلسفی ہنری برگسان نے1932 میں اوپن سوسائٹی کی اصطلاح ایجاد کی۔ برگسان کی رائے میں اوپن سوسائٹی ایسا معاشرہ ہوتا ہے جہاں فرد کے حقوق جماعت کے حقوق پر فوقیت رکھتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں اوپن سوسائٹی میں فرد کی آزادی و خودمختاری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہر فرد جو چاہے کر سکتا ہے، سوسائٹی یعنی معاشرہ اس کی کسی بھی خواہش کی تکمیل میں رکاوٹ بننے کا حق نہیں رکھتا۔ گویا کسی شخص کو بھی کسی دوسرے شخص کے آزادانہ فعل پر کوئی اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں۔

بظاہر یہ نظریہ بڑا دلفریب اور پر کشش لگتا ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ نظریہ مسلمہ اسلامی تصورات کے خلاف ہے۔بلاشبہ اسلام فرد کو تمام بنیادی حقوق فراہم کرتا ہے مگر اس کا مطلب لا محدود آزادی نہیں ہے۔مسلمان کی آزادی اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ مشروط ہے۔اہلِ مغرب نے برگسان کے اوپن سوسائٹی کے نظریے کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کو خوب فروغ دیا۔مغربی دانشور جب حقیقی آزادی کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد لا محدود آزادی ہوتی ہے۔اس حقیقی آزادی کا مظاہرہ آج مغربی معاشرے میں سر کی آنکھوں سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ یہ مے کدوں میں شراب و شباب کی محفلیں اور ان میں دوشیزاؤں کابرہنہ رقص، پبلک مقامات پر نیم بے لباسی، ساحل سمندر پر غسلِ آفتابی (سَن باتھنگ) کے لیے بے لباس ہونے کی شرط، بغیر نکاح کے نوجوانوں کے اعلانیہ جنسی تعلقات،  ہم جنس پرستی اور بچے کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے قتل کی عام اجازت (ابورشن یعنی اسقاطِ حمل کا قانونی جواز)، قانونی جوا، پُر کیف  منشیات کا رواج اور مادر پدر آزادی  اسی اوپن سوسائٹی کا خاصہ ہیں جس کا تصور برگسان نے پیش کیا تھا۔

باور کرلیجیے کہ بیسویں صدی کی ابتدا میں یورپ  اخلاقی پستی کے اعتبار سےویسا نہیں تھا جیسا آج ہے۔دولت کی ریل پیل  پہلے بھی تھی، عشرت کدے  پہلے بھی سجتے تھے،  قحبہ خانوں میں جسم فروشی کا دھندا پہلے بھی چلتا تھا مگر معاشرہ ان سب برائیوں کو نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا۔پھر جیسے ہی معاشرہ برگسان کے اوپن سوسائٹی کے خوشنما و دلفریب جال میں پھنساتو یہ برائیاں فرد کی شخصی آزادی کا استعارہ قرار پائیں اور معاشرہ اس انجام کو پہنچ گیا جس کی ہلکی سی جھلک سابقہ سطور میں دکھائی گئی ہے۔

کیا ہم  اوپن سوسائٹی کی طرف دوڑے نہیں چلے جارہے؟ کیاآج ہمارے معاشرے میں زنا تیزی سے نہیں پھیل رہا؟ کیا میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگانے والی بچیاں ہماری قوم سے تعلق نہیں رکھتیں؟کیا  بے لباس ہونے کی خواہش بڑھتی نہیں چلی جارہی؟کیا ہمارے ہی معاشرے میں ویلنٹائن ڈے نہ منانے والوں کو جاہل اور دقیانوس نہیں کہا جاتا؟ اگرآپ نے اپنا کل اپنی آنکھوں سے آج ہی دیکھنا ہو تو ذرا اپنی یونیورسٹیوں میں جھانک کر دیکھ لیں۔

اللہ کے بندو! اگر ہم اپنے معاشرے کو یورپ نہیں بنانا چاہتے، اگر ہم اپنی بچیوں کے منہ سے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرۃٔ مستانہ نہیں سننا چاہتے   تو ہمیں اللہ کے سچے بندے بن کر دکھانا ہوگا۔ جس اللہ کا دیا ہوا رزق ہم کھاتے ہیں اسی اللہ کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہوگا۔روٹھے ہوئے  رب  کو منانا ہوگا۔اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرکے اللہ رب العزت کے سامنے سربسجود ہونا ہوگا۔اپنے اہلِ خانہ کو پیار محبت اور حکمت و موعظت کے ساتھ سمجھانا ہوگا کہ ہم مادر پدر آزاد نہیں الحمدللہ ہم مسلمان ہیں، جو اس دھرتی پر روشنی کے آخری پیامبر ہیں۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے تو ہمیں یہ درس دیا ہے:

’’ تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے اور اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت ہو تو وہ اس کو روکے، اگر ہاتھ سے ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھے تو زبان سے روکے، اگر زبان سے بھی قدرت نہ ہو تو دل سے (برا جانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘

(مسند احمد: رقم 11089)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading