الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الحمد میں جملہ صفاتِ کمال کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ کی اکمل و ابلغ صفت کا ذکر کیا جارہا ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ جن اسمائے حسنیٰ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ دونوں رب ذوالجلال کی صفتِ رحمت پر دلالت کرتی ہیں۔الرحمٰن میں صیغہ فعلان کی شدّت اور مبالغہ پایا جاتا ہے جب کہ الرحیم میں صیغہ فعیل کا دوام واستمرار موجزن ہے۔ مقصد دونوں اسمائے حسنیٰ کا یہی بیان کرنا ہے کہ رب العالمین سراپا رحمت ہے۔اس کے ہر فعل میں رحمت کا ظہور ہوتا ہے۔ سورۃ الرحمٰن اللہ تعالی کی صفتِ رحمت کا مفصل بیان ہے۔ اس کی صفتِ رحمت کو سمجھنے کے لیے سورۃ الرحمٰن پر ضرور تدبر کریں۔ یہاں اس سورہ کے صرف ابتدائی حصے سے اس کی رحمت کے چند نمونے ذکر کیے جاتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
اَلرَّحْمٰنُۙ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَۗ خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ[1]
الرحمٰن (وہ ہے) جس نے قرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا، اسے بولنا سکھایا۔
سورۃ الرحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی سب سے بڑی رحمت کا تذکرہ فرمایا اور وہ ہے تعلیم القرآن۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے نبوت و رسالت کا جو سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع کیا وہ نبی آخرالزمان محمدرسول اللہﷺ پر آکر تکمیل پذیر ہوا۔ قرآن حکیم تمام انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کا جامع و مہیمن ہے۔ اگر آج کوئی انسان انبیا کی تعلیمات سے روشناس ہونا چاہتا ہے تو اس کے پاس واحد ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ پس قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سب سے بڑا شاہکار ہے۔ یہ بھی ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا۔ پھر ہمیں جانوروں کی طرح گونگا نہیں بنایا بلکہ قادرالکلام اشرف المخلوقات بنایا۔
رحمان ورحیم رب العالمین کی نواز شیں اور نعمتیں ہماری قوتِ شمار کے لحاظ سے لا محدود اور لا متناہی ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وَاٰتٰکُمْ مِنْ کُلِّ مَاسَأَ لْتُمُوْہُ وَ اِنْ تُعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا[2]
اور جو کچھ تمہیں مطلوب تھا اس نے وہ سب کچھ تمہیں عطا کیا ،اگر تم اللہ کی نعمتیں گنتی کرنے لگو تو ہرگز ان کو شمار نہ کرسکو گے۔
اللہ کی نعمتیں اس قدر لامتناہی ولامحدود ہیں کہ اگر سب انسان مل کران نعمتوں کا شمار کرنے لگیں تو قیامت تک آنے والے انسانوں کی زندگیاں تو ختم ہو جائیں گی لیکن اللہ کی نعمتیں ختم نہ ہونگی۔ابھی حضرت انسان کا خمیر مٹی میں تھاکہ جب اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کی تمام حاجات وضروریات کا سامان پیدا فرما دیا تھا ،قوت وحرارت اور روشنی کیلئے سورج پیدا کیا ، کرہ ارض پر وہ تمام لوازمات پیدا کر دیئے جو اس پر زندگی کے قیام وبقا کیلئے لازمی ولابدی تھے،خلیات کی تخلیق وتشکیل اور افزائش کیلئے پانی پیدا کر دیا ،خوراک کی مستقل فراہمی کیلئے نباتات،حیوانات اور معدنیات پیدا کردیں۔کرہ ارض پر زندگی کے تحفظ کیلئے کرہ ہوائی بنا دیا ،جو خلا سے آنے والے لاکھوں شہابیوں کی تباہ کن بارش سے زمین کو محفوظ رکھتا ہے ۔ انسانی نظام حیات کی بقاکیلئے دن اور رات کا معتدل نظام بنا دیا کہ دن معاش کے حصول کیلئے اور رات آرام وسکون کیلئے کافی ہو۔
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا
وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا
وَّخَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجاً
وَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتاً
وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاساً
وَّجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشاً
وَّبَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعاً شِدَاداً
وَّجَعَلْنَا سِرَاجَاً وَّ ھَّاجا
وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَآءً ثَجَّاجاً
لِّنُخْرِجَ بِہ حَبّاً وَّنَبَاتاً
وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافاً [3]
(النبا:٦-١٦)
کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا اور پہاڑوں کے میخ نہیں گاڑے، اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا ،اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام کا سبب بنا دیا اور رات کو ہم نے لباس (پردہ ) بنایا اور دن کو ہم نے وقت ِروز گار بنایا اور تمہارے اوپر ہم نے سات مضبوط آسمان بنائے، او ر ایک چمکتا ہوا روشن چراغ (سورج ) بنایا ،اور ہم نے بادلوں سے کثرت کے ساتھ بہنے والا پانی برسایا تاکہ اس سے اناج اور سبزیاں اگائیں اور گھنے باغ بھی ۔
قرآن حکیم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت الٰہی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک رحمتِ عامہ جو کفار و مؤمنین اورحیوانات تک کے لیے عام ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں جن سے کفار و مؤمنین اور بے شعور جانور سبھی استفادہ کرتے ہیں۔ جبکہ رحمتِ الٰہی کی دوسری قسم صرف مؤمنین کے لیے خاص ہے۔سورۃ الاسرا میں اس خاص رحمت کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْـقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۤءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّـلْمُؤْمِنِيْنَۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا [4]
اور ہم قرآن کی صورت میں مؤمنین کے لیے شفا اور رحمت نازل کرتے ہیں،جبکہ اس سے ظالموں (مشرکین) کے خسارے میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
اس لیے بعض علما نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ الرّحمٰن میں رحمتِ عامہ کا ذکر ہے اور الرّحیم میں رحمتِ خاصہ مراد ہے۔ واللہ اعلم بالصواب